وجود

... loading ...

وجود
وجود

مجھ کو کہانیاں نہ سُنا شہر کو بچا۔۔۔!

پیر 05 اگست 2019 مجھ کو کہانیاں نہ سُنا شہر کو بچا۔۔۔!

ذرا شہر کراچی کی بدقسمتی ملاحظہ ہو کہ کل تک جہاں گلی گلی سیاسی جماعتیں قیمتی زمینوں پر قبضہ کے لیے باہم دست و گریبان تھیں،آج وہیں قریہ قریہ سیاسی جماعتوں کے رہنما کچرا اُٹھانے اور نہ اُٹھانے پر ایک دوسرے سے لڑ جھگڑ رہے ہیں۔خدا خدا کر کے کراچی میں قانون نافذ کرنے اداروں کی بروقت مداخلت اور کامیاب کارروائیوں نے برسوں سے جاری بھتہ خوری،اغوا،چوری چکاری،ٹارگٹ کلنگ اور ہڑتالوں سے تو شہریوں کی جان خلاصی تو کروادی لیکن اَب سیاسی جماعتوں نے شہرِ کراچی کے باسیوں کوکچرااُٹھانے اور نہ اُٹھانے کے ایک نئے عذاب میں مبتلا کردیا ہے۔ کچرے کا یہ عذاب،قتل و غارت گری اور لوٹ مار کے عذاب سے کسی صورت کم نہیں کہا جاسکتا۔ ماضی میں دہشت گردی کا عفریت کراچی کے جس شہری کو بھی اپنا شکار بناتا تھا اُس کا فوراً معلوم بھی ہوجاتاتھا مگر کچرا تو ایک ایسا خاموش قاتل ہے جو ہر روز سینکڑوں شہریوں کو راہی ملک عدم بھی بناتا ہے اور کسی کو کانوں کان خبر بھی نہیں ہونے دیتا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ آج کراچی میں جس جگہ پر سب سے زیادہ لوگوں کا اژدھام نظر آتا ہے،وہ ہسپتال ہیں۔ پرانے ہسپتالوں کی رونق اورنئے ہسپتالوں کی تعمیر در تعمیر کے پیچھے بھی کراچی کے طول و عرض میں پھیلے ہوئے لاکھوں ٹن کچرے کا اہم ترین کردار ہے۔ اَب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کراچی میں روز بہ روز پھیلتا ہوا یہ کچرا آخر تلف کس کو کرنا ہے؟کیا اِس کی ذمہ داری بلدیہ عظمی کراچی پر عائد ہوتی ہے یا اِس کی ذمہ دار سندھ حکومت ہے یا کچرے کا یہ ملبہ بھی وفاقی حکومت کے سر ڈال کر ہم سب اپنے اپنے ہاتھ جھاڑ کر ایک طرف اطمینان سے بیٹھ سکتے ہیں۔
شہرِ کراچی کو اگر کچرے سے نجات دلانی ہے تو ہمیں اِس بنیادی سوال کا جواب بہر صورت تلاش کرنا ہوگاکہ کراچی کا کچرا اُٹھانے کی بنیادی ذمہ داری کس پر عائد ہوتی ہے؟ یہ وہ لاینحل تنازع ہے، جو آج کل کراچی کی سیاست کا مرکز و محور بنا ہوا ہے اور یاد رہے کہ پچھلے دنوں اِس تنازع نے ایک شدید ترین عوامی و انتظامی تصادم کی شکل بھی اختیار کرلی تھی۔ وہ تو اچھی بات یہ ہوئی کہ کچرا کے نام پر بپا کیے جانے والے اِس تصادم میں کسی بھی قسم کا جانی و مالی نقصان نہیں ہوا۔ مگر آئندہ بھی ایسا ہی ہوگا شاید اِس بات کا یقین کوئی بھی نہیں دلا سکتا۔ نہ تو سندھ حکومت اور اور نہ ہی فکس اِٹ کے بانی وتحریک انصاف کے منتخب رُکنِ سندھ اسمبلی عالمگیر خان۔ یاد رہے کہ عالمگیر خان نے فکس اِٹ نامی غیر سرکاری تنظیم بنائی ہی اِس لیے تھی کہ کراچی کو کچرے سے صاف کر کے اُسے اُس کی خوب صورتی واپس لوٹائی جاسکے اور اِس حوالے سے فکس اِٹ نے اپنے قیام کے ابتدائی دنوں میں اپنی مدد آپ کے تحت شہر کراچی سے کچرا اُٹھانے کے لیے کئی مستحسن منصوبے شروع بھی کیے تھے لیکن پھر وہ تمام منصوبے ادھورے چھوڑ دیے گئے کیونکہ اُن صاف ستھرے منصوبوں سے شہر کا کچرا توکسی نہ کسی حد تک صاف ہورہا تھا مگر فکس اِٹ بطور ایک این جی او کے اُس طرح سے مشہور و معروف نہیں ہو پارہی تھی جس طرح کہ اِسے ہونا چاہیے تھا۔ پس کافی سوچ بچار کے بعد فکس اِٹ نے کراچی کے کچرے کو اُٹھانے پر مجبور کرنے کے لیے سندھ حکومت کے خلاف سوشل میڈیا،الیکٹرانک میڈیا،پرنٹ میڈیا اور کراچی کے گلی کوچوں میں بھرپور تشہری مہم چلانے کا آغاز کردیا۔ یہ مہم سندھ حکومت کو تو کراچی کا کچرا اُٹھانے پر مجبور نہیں کرسکی لیکن اِس منفرد تشہیری مہم نے فکس اِٹ کو ضرور زمین سے اُٹھا کر شہرت کے ساتویں آسمان پر پہنچا دیا۔جس کا پہلا بڑا فائدہ یہ سامنے آیا کہ فکس اِٹ کے بانی عالمگیر خان کراچی کے عوامی حلقہ سے نکل کر اسمبلی کے خاص حلقہ تک جا پہنچے،لیکن کراچی کا کچرا بدستور اپنی جگہ پر موجود رہا۔
سندھ حکومت جو ماضی میں کبھی کبھار فکس اِٹ کی ایک آدھ بات پر اپنے کان دھر لیا کرتی تھی۔اَب عالمگیر خان اور اِن کی فکس اِٹ کو اپنے ایک سیاسی حریف کے طور پر ہی لے رہی ہے۔ پاکستان پیپلزپارٹی کا موقف ہے کہ عالمگیر خان کے تحریک انصاف کے انتخابی نشان پر رُکنِ اسمبلی منتخب ہونے کے بعد فکس اِٹ اپنی غیر جانبدارانہ ساکھ برباد کرچکی ہے۔ اِس لیے اَب اُن کے نزدیک فکس اِٹ کی آگہی مہمات اور تحریک انصاف کی سیاسی سرگرمیوں میں ذرہ برابرفرق نہیں ہے۔ یعنی اگر فکس اِٹ کراچی کا کچرا اُٹھانے کے لیے کوئی بھی مہم چلائے گی تو سندھ حکومت اُسے اپنی سرکار کے خلاف ایک سیاسی احتجاج تصور کرے گی اور سیاسی احتجاج کے ساتھ جو رویہ کسی حکومت کی طرف سے اختیار کیا جاتا ہے،وہ سیاسی رویہ فکس اِٹ کے ساتھ بھی اختیار کیاجائے گا۔ جبکہ فکس اِٹ کے بانی عالمگیر خان کا موقف ہے کہ فکس اِٹ اور تحریک انصاف یکسر الگ الگ ہیں۔مگر کیسے؟ صاف اور واضح لفظوں میں یہ بات فی الحال وہ بھی کسی کو نہیں سمجھا پارہے ہیں۔ دوسری طرف وزیربلدیات سعید غنی دہائی دے رہے ہیں کہ ایم کیوایم،تحریک انصاف اور فکس اِٹ تینوں مل کر اُنہیں اور اُن کی حکومت کو سیاسی طور پر کراچی کے کچرے پر بلیک میل کر رہے ہیں۔
گزشتہ ہفتہ کراچی میں برسوں بعد آسمان سے چند گھنٹے ابرِ رحمت کیا برسا کہ شہر کا کچرا زدہ چہرہ کچھ اور اُبھر کر سامنے آگیا ہے۔جس کے بعد کراچی میں کچرے کی سیاست مزید شدت اختیارکر چکی ہے اور سیاسی جماعتیں کچرے کو بنیاد بنا کر ایک دوسرے پر الزامات کی بارش کررہی ہیں۔ آنے والے دنوں میں کچرے کی یہ سیاست کیا رنگ روپ دکھائے گی،فی الحال ہم کچھ نہیں کہہ سکتے لیکن ایک بات ضرور پورے یقین کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ کراچی کا کچرا شاید اَب بہت زیادہ عرصے تک شہر کے گلی کوچوں میں یونہی بکھرا نہیں رہ سکتا۔ اِس لیے کراچی شہر پر راج کرنے والی سیاسی جماعتوں اور مستقبل میں راج کرنے کا خواب دیکھنے والے سیاسی رہنماؤں کو سوچنا ہوگا کہ اگر اُنہیں اپنی سیاسی بقاء عزیز ہے تو پھر فوری طور شہرِ کراچی کو کچرے سے پاک کرناہوگا کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ شہر اور اِس کے باسی کچرے پر سیاست کرنے والے سیاست دانوں کو ہی کسی کچرے کی طرح اُٹھا کر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اپنے شہر سے باہر پھینک دیں۔ بقول تیمور حسن
مجھ کو کہانیاں نہ سُنا شہر کو بچا
باتوں سے میرا، دل نہ لبُھا شہر کو بچا
تُو اِس لیے شہر کا حاکم ہے کہ شہر ہے
اِس کی بقا میں ہے تیری بقا شہر کو بچا


متعلقہ خبریں


مضامین
سی اے اے :ایک تیر سے کئی شکار وجود منگل 19 مارچ 2024
سی اے اے :ایک تیر سے کئی شکار

نیم مردہ جمہوریت کے خاتمے کے آثا ر وجود منگل 19 مارچ 2024
نیم مردہ جمہوریت کے خاتمے کے آثا ر

اسرائیل سے فلسطینیوں پر حملے روکنے کی اپیل وجود منگل 19 مارچ 2024
اسرائیل سے فلسطینیوں پر حملے روکنے کی اپیل

اندرا گاندھی ، گولڈا میئر اور بے نظیر وجود پیر 18 مارچ 2024
اندرا گاندھی ، گولڈا میئر اور بے نظیر

نازک موڑ پر خط وجود پیر 18 مارچ 2024
نازک موڑ پر خط

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر