وجود

... loading ...

وجود
وجود

ناموس یوں ہی جائے گی آبِ حیات کی

بدھ 06 فروری 2019 ناموس یوں ہی جائے گی آبِ حیات کی

پاکستان میں طاقت کے سب سے عالی مرکز پر جلوہ افروز شخصیت کے خیالاتِ عالیہ کا یہ نکتہ تمام بڑے حلقوں میں زیرِ گردش ہے کہ ’’وہ ایک نارمل پاکستان چاہتے ہیں‘‘۔ متوازی طور پر ایک اور تصورِ پاکستان سے بھی ہمیں سابقہ ہے۔ یہ ریاست مدینہ کا تصور ہے جو ہمارے پیارے وزیراعظم عمران خا ن کا ہے۔ جن سے مذکورہ طاقت ور شخصیت کو سب سے زیادہ میلان ہے۔ اور وہ گاہے اُن کی تعریف سے نہیں چوکتے۔ یہاں پہلا سوال تو یہ اُٹھتا ہے کہ کیا ایک نارمل پاکستان اور ریاست مدینہ میں کوئی مطابقت ہے؟واضح رہنا چاہئے کہ طاقت ورشخصیت کے نزدیک ایک نارمل پاکستان سے مراد ایوب خان کا پاکستان ہے۔اب ایوب خان کے عہد میں جھانک کر ریاستِ مدینہ کے آثار تلاش کرنے سے بہتر ہے آدمی ملاقاتِ حضرت خضرؑ یا آبِ حیات کی جستجو میں لگ جائے۔ اس نسبت سے مراد میر تقی میر کا خیال نہیں کہ غالب کی زبان میں ہم فرشتوں کے لکھے پر ناحق پکڑے جائیں!غضب خدا کا ،میر نے کیا خیال باندھا ہے !
نسبت تو دیتے ہیں تیرے لب سے پر ایک دن
ناموس یوں ہی جائے گی آبِ حیات کی
کیا ایک نارمل پاکستان میں حاجیوں کے لیے زرتلافی کی گنجائش نہیں؟ اسے سوال ہی رہنے دیں۔ مگر ایک دوسرا سوال نہایت معنی خیز ہے۔ کیا ریاست مدینہ میں بھی حاجیوں کے لیے زرِ تلافی کی گنجائش نہیں؟ وزیراعظم عمران خان کی حکومت کے اقدامات کا بہاؤ اُن کے ریاست مدینہ کے دعوے کے بالکل برعکس دوسری سمت میں دکھائی دیتا ہے۔ وہ مملکت کو ایک اشراف کی حکومت میں تبدیل کررہے ہیں اور اس کے باوجود مسلسل عوام کے مفاد میں اقدامات کا برعکس دعویٰ بھی کررہے ہیں۔ درحقیقت ہمیں ریاست مدینہ میں داخل کرتے ہوئے عمران خان کو کرنا تو یہ چاہئے تھا کہ وہ حج کی عبادت کو ہر عام آدمی کے لیے ’’آسان‘‘ اور ’’قابلِ رسا‘‘بناتے۔ مگر اُن کا طرزِ عمل عبادت کو دشوار کرتا دکھائی دیتا ہے۔ حکومت کو معاشی مشکلات کا سامنا ہے تو اس کی ذمہ دار خود حکومتیں ہیں عوام نہیں۔ عمران خان کی حکومت اگرمعاشی مشکلات کے باعث حج پر زرِ تلافی کا خاتمہ چاہتی تھی تو وہ عمومی طور پر تمام شعبوں سے ’’زرِتلافی‘‘ کا خاتمہ کردیتی جس میں حج بھی شامل ہوتا۔مگر حکومت کے عمومی طرزِ عمل سے پتہ چلتا ہے کہ اُس کی التفات کی گنگا کہاں بہتی ہے اور اُس کی جبیں پر شکنیں کہاں نمودار ہونے لگتی ہیں۔ پاکستان میں غیر ملکی مشروب ساز اور صحت دشمن اداروں کوک اور پیپسی کمپنیوں کی جانب سے عمران خان سے ملاقاتوں میں بہت معمولی سرمایہ کاری کی پیشکش کی گئی تو حکومت مکمل بچھ گئی اور اُنہیں تمام ممکنہ سہولتیں دینے کا عندیہ د ے دیا۔یہاں تک کہ غیر ملکی وفود سے شرماتے مسکراتے ملتے ہوئے ہمارے وزیراعظم نے ارشاد فرمایا کہ وہ اُن کے لیے آسانیاں پیدا کرنے والے ایک نئے نظام کی نگرانی خود کریں گے۔ مگرریاست مدینہ کے قیام کے دعوے دار کو حج آپریشن کی نگرانی کی نہیں سوجھی۔کسی کے دل میں حج کی زرتلافی کے خاتمے سے قبل پارلیمنٹ کے’’ فقراء مساکین اور بھوکے ننگے‘‘ اراکین کے کھانے پینے پر دیا جانے والا زرتلافی ختم کرنے کا خیال بھی نہیں آیا۔ حج پر دی جانے والی زرِ تلافی تو صرف نو ارب روپے بنتی ہے مگر فرٹیلائزر اور ٹیکسٹائل وغیر ہ پر معاف کیے جانے والے 125؍ارب روپے معاف کرتے ہوئے اس حکومت کو کہیں پر بھی کسی مجرمانہ احساس نے نہیں گھیرا۔ برق بیچارے حجاج کرام پر ہی گرنی تھی۔
صرف حج سے زرتلافی کا خاتمہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ عمران خان کے کُنجِ لب سے پھوٹنے والے ریاست مدینہ کے الفاظ بے روح ہیں اور وہ بھی نواز شریف کی طرح اُس لابی کے چُنگل میں پھنستے جارہے ہیں جو ملک میں مذہبی اقدار کی ہر شکل کو ٹیڑھے منہ سے دیکھتی ہے۔ یہاں یہ نکتہ ہر گز زیرِ بحث نہیں کہ ’’نارمل‘‘ پاکستان کے خواہشمندوں کا بھی یہ ہدف ہے یا نہیں۔ بہر کیف یہ اندیشہ اس لیے بھی بے جواز نہیں کہ عمران خان کی حکومت میں بھی جنرل (ریٹائرڈ)پرویز مشرف کے عہدِ سیاہ کے اکثر وزراء دکھائی پڑتے ہیں جو اُس دور کی بدترین روایات کے ساتھ مذہب بیزار بھی ہیں۔ یہاں تک کہ اُنہیں مسلم لیگ نون اور پیپلزپارٹی کا بھی جو باسی بواسی اور باسل ونطّاط ’’انگڑ کھنگر‘‘ ملا ہے وہ بھی اُسی قبیل کا ہے۔ حیرت ہے کہ عمران خان ان کے درمیان رہ کر ریاست مدینہ کا بوجھ کیسے اُٹھا لیتے ہیں؟اِسے سادگی کہیں یا دھوکا دہی؟ مگر یہ سامنے کا ایک ایسا واقعہ ہے کہ جسے کوئی شخص کوئی بھی معنی دے وہ حق بجانب ہوگا۔
عمران خان کی حکومت جن دعووں کے ساتھ برسراقتدار آئی ، اُس میں یہ گنجائش نہ تھی کہ وہ عوام کے صبرکا مزید امتحان لیتی۔ یہ اُن کے حزبِ اختلاف کے ایاّم میں دھرنوں کی صورت میں آزمایا جاچکا تھا۔ اب یہ کچھ دینے کا وقت تھا۔ جو زیادہ بہترطریقے سے کرپشن کے خاتمے کے ساتھ دیا جاسکتا۔ حج جیسی عظیم عبادت بھی عمران خان کے لیے ایک موقع تھا۔ مگر وہ ناکام رہے۔ عمران خان کو زرِ تلافی کے خاتمے پر کوئی کچھ بھی نہ کہتا ، اگر وہ حج کی عظیم عبادت کو صاف ستھری اور کرپشن سے پاک کردیتے۔ عمران خان حاجیوں پر پی آئی اے کی پرواز کی پابندی ختم کردیتے تو حجاج کرام کو پی آئی اے کی جانب سے ہتھیائے گئے زائداخراجات سے نجات مل جاتی۔ یہ ایک عجیب موقف ہے کہ پی آئی اے جبری طور پر حاجیوں سے دیگر ائیرلائنز کے مقابلے میں زیادہ رقم بھی بٹورے اور حکومت اُنہیں دوسری پروازیں لینے کا موقع بھی نہ دے۔یہ کتنا بدبودار طرز عمل ہے کہ حکومتوں کی نااہلی سے پی آئی اے نقصان میں جائے اور اسے سہارا دینے کے لیے حج آپریشن میں حجاج کرام سے بھتے لیے جائیں ۔ آخر حکومت ، بانی متحدہ اور لیاری کے انڈرورلڈ گروہوں میں کوئی فرق تو ہونا چاہئے۔ یہ سب عوام کو اپنے اپنے طریقوں ، ہتھکنڈوں اور حیلوں سے لوٹتے ہیں۔
حج کے معاملے میں ایک عمومی زیادتی تمام حجاج کرام سے یہ کی جاتی ہے کہ صرف چند روزہ حج کے لیے حجاج کرام کو چالیس دن تک سعودی عرب میں قیام پر مجبور رکھا جاتا ہے؟اس میں ایک مسئلہ تو وہی پی آئی اے کا ہے کہ حجاج کرام کو پی آئی اے کی پروازوں سے واپسی کے جبر کا سامنا ہوتا ہے اور پی آئی اے کے آپریشن کے شیڈول کے لیے حجاج کرام کو چالیس روز ہ قیام کرنا پڑتا ہے۔ چنانچہ حجاج کرام کو حج کے لیے اضافی بوجھ اُٹھانا پڑتا ہے جواب ایک طرح سے معمول کے اخراجات بن گئے ہیں۔ عمران خان کی حکومت چند روزہ حج کو چالیس دنوں پر محیط کرنے کے بجائے اِسے حج کی عظیم الشان عبادت تک محدود کردیتی تو حجاج کرام کی جیبوں پر سے اضافی بوجھ ختم ہوجاتا اور یوں زرِ تلافی کا خاتمہ زیادہ تکلیف نہ دیتا۔ مگر عمران خان کی حکومت بھی مکھی پر مکھی مارنے والی ثابت ہوئی ۔ تحریک انصاف کی حکومت حاجیوں کے مکہ ومدینہ قیام وطعام اور سفری اخراجات کا ایک جائزہ لیتی تو اُنہیں صاف نظر آتا کہ کہاں کہاں زیادہ پیسے بٹورے جارہے ہیں اور وہ کن کن کی جیبوں میں جارہے ہیں ؟ اس خُرد بُرد کا راستا روک کر بھی حاجیوں کو کچھ معاشی راحت دی جاسکتی تھی۔ اسی طرح حج انتظامات کے نام پر وصولی جانے والی رقم میں کٹوتی بھی کچھ نہ کچھ اخراجات میں کمی لاتی۔ حکومت نے اس قسم کی جمع تفریق پر سرے سے سوچا ہی نہیں۔ کیونکہ حکومت کا ہدف کرپشن کا خاتمہ اور عوام کو راحت پہنچانا نہیں بلکہ زرتلافی کا خاتمہ کرکے دراصل حج کی عبادت کی حوصلہ شکنی تھا۔
حج پر زرتلافی ختم کرنے سے زیادہ تکلیف دہ عمران خان کی حکومت کے وزراء کا ردِعمل تھا۔ وفاقی وزیر مذہبی اموروبین المذاہب ہم آہنگی ڈاکٹر نورالحق قادری نے فرمایا:ریاست مدینہ کا یہ مطلب نہیں کہ لوگوں کومفت حج کروائیں‘‘۔ارے بھائی یہ بھی کیا ضروری ہے کہ ستیاناس کرنے کے بعد آپ سواستیاناس کرنے والے بیان دیں۔ وزیرمذہبی امور دراصل بین المذاہب ہم آہنگی کے بھی وزیر ہیں مگر اُنہیں یہ معلوم نہیں کہ ہم مذہب لوگوں میں بھی ہم آہنگی رکھنا اُن کی ذمہ داری ہے۔ یہ وہی وزیر ہیں جنہوں نے آسیہ مسئلے پر ٹوئٹ کیا تھا کہ ناموس رسالت پر وزارت قربان۔ پھر اچانک وہ مفقود الخبر ہوگئے۔ اس دوران میں آسیہ خاموشی سے بیرونِ ملک پرواز کرگئیں۔ پھر وزیر برآمد ہوئے تو اُن کے ہاتھ میں استعفیٰ کے بجائے منہ پر یہ اشتعال انگیز الفاظ تھے۔ وفاقی وزیراطلاعات فواد چودھری کا اس معاملے پر اظہارِ خیال بھی قیامت ڈھانے والا تھا۔ایک عمومی اُصول کے تحت وہ کچھ بھی بولیں ، یہ اُن کا نہیں دوسروں کا قصور ہوتا ہے۔ مگر اس مرتبہ تو اُن کی گفتگو سے یہ بھی ظاہر ہوا کہ وہ عبادت کے فلسفے سے بھی بہت آگاہ ہیں۔ اُنہوں نے کہا کہ ’’حج پر سبسڈی عبادت کی بنیادی فلاسفی کے منافی ہے‘‘۔اب عبادتوں کی فلاسفی پر بھی قدرت رکھنے والے اس وفاقی وزیر کو تب بھی کوئی مسئلہ نہیں ہوگا جب عمران خان کی یوٹرن حکومت اپنا فیصلہ واپس لے گی۔ تب ہمہ صف موصوف وزیراطلاعات میدان میں آئیں گے۔ اور اپنی ہمہ دانی سے اس میں بھی کوئی فلسفہ نکال لیں گے۔ اے عالم کے پروردگار ہمارے حج کی عبادتوں میں شامل کوئی نہیں تو یہ دعا ضرور قبول فرما کہ ہمارے حکمرانوں کو تھوڑی سے بُدھی دے دے۔


متعلقہ خبریں


مضامین
صدر رئیسی کا رسمی دورۂ پاکستان اور مضمرات وجود جمعه 26 اپریل 2024
صدر رئیسی کا رسمی دورۂ پاکستان اور مضمرات

سیل ۔فون وجود جمعه 26 اپریل 2024
سیل ۔فون

کڑے فیصلوں کاموسم وجود جمعه 26 اپریل 2024
کڑے فیصلوں کاموسم

اسکی بنیادوں میں ہے تیرا لہو میرا لہو وجود جمعه 26 اپریل 2024
اسکی بنیادوں میں ہے تیرا لہو میرا لہو

کشمیری قیادت کا آرٹیکل370 کی بحالی کا مطالبہ وجود جمعه 26 اپریل 2024
کشمیری قیادت کا آرٹیکل370 کی بحالی کا مطالبہ

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر