وجود

... loading ...

وجود
وجود

اہلِ صحافت

پیر 21 جنوری 2019 اہلِ صحافت

صحافی کو ہمیشہ باسی روٹی اور تازہ سفر درپیش رہتا ہے۔ اسلام آباد کا سہ روزہ قیام غیر معمولی حالات کی تفہیم میں نہایت معاون رہا۔ سی پی این ای کے پاکستان میڈیا کنونشن نے مالکان ومدیران کے کان کھڑے کیے۔ اخبارات وجرائد جن مصائب کے شکار ہیں، مدیران اس کا سامنا کرنے کے لیے کمربستہ ہوچکے۔ مگر اُنہیں ادراک ہے کہ نیا سفر بجائے خود صبر آزما ہے۔ میڈیا کی صنعت بحران در بحران سے دوچار ہے۔ اخباری مالکان کی نمائندہ تنظیم اے پی این ایس کچھ ہاتھوں میں یرغمال بن گئی۔اپنے آئین کے محور سے نکل کر کچھ اشتہاراتی ایجنسیوں کے ہاتھ کی چھڑی، تالاب کی مچھلی اور جیب کی گھڑی بن گئی تو سی پی این ای نے جھرجھری لی اور ققنس کی مانند اپنی راکھ سے زندگی پیدا کی۔ ان اُس کی حرکت ، حرارت اور جرأت کچھ عناصر کے منہ کا ذائقہ خراب کرتی ہے۔ اُنہیں گراں گزرتا ہے کہ یہ تنظیم اُن کے رہینِ منت کیوں نہیں ، اپنی زندگی آپ کرنے میں کیوں جُتی رہتی ہے۔ یہ بدبو دار عناصر فطرت کی بنیادی روح سے واقف نہیں کہ جب آزادی کا سرشار کرنے والا لمحہ کسی پر اُترتا ہے تو خوف نام کی کوئی شے موثر نہیں رہتی۔آخری کتابِ ہدایت نے زندگی کا اُصول واضح کیا :
وَاَمَّا مَا یَننفعُ النَّاسَ فَیَمکُثُ فیِ الارض
(لوگوں کو نفع دینے والی چیز زمین میں ٹہری رہتی ہے)
وہ ادارے اور لوگ جو عمومی نفع کے بجائے چند لوگوں کے لیے مفادات کا بہاؤ پیدا کرتے ہیں، اُنہیں بآلاخر تباہ ہونا ہوتا ہے۔ کائنات کی پوری بُنت میں یہ اُصول چمکتا، دمکتا اپنے جلوے بکھیرتا ہے۔ اگر زندگی اس اُصول پر بسر نہ ہو تو کشاکش جنم لیتی ہے اور پھر ایک سے دوسرے اور دوسرے سے تیسرے کو دفع کرنے کا اُصول متحرک ہو جاتا ہے۔ اے پی این ایس سمٹتے سمٹتے مارکیٹنگ کے چند حریص ہاتھوں میں آگئی ۔ افسوس ! کبھی یہ ادارہ آبرو مند بھی تھا۔ کبھی اشتہاراتی ایجنسیاں قطار لگا کر یہاں باریابی چاہتی تھیں ، کچھ بڑے اداروں نے اپنے ملازمین کے ذریعے اِسے چلانا چاہا تو عالم یہ ہے کہ اس کے عہدیدار جیلوں میں جاکر ایک اشتہاراتی ایجنسی کے سربراہ سے ڈانٹ کھایا کرتے ہیں۔ مگروہ بونا کیا شرمندہ ہوگا؟ جسے اپنے ادارے کے علاوہ اشتہاراتی ایجنسیوں کے تعمیراتی پراجیکٹس میں حصہ دار بھی رہنا ہو، وہ بیٹاکیا عزت پائے گا جس کے باپ نے بھی عزت کے بدلے دولت کا انتخاب کر لیا ہو۔ اخبارات وجرائد ، نیوز ایجنسیوں اور ڈائجسٹوں کے اس کسمپرسی کے ماحول میں ان کی بھوک ختم ہی نہیں ہوتی اور یہ تیار بیٹھے ہیں کہ مطبوعہ صنعت جہاں مرتی ہے مرے، آزاد�ئ اظہار کا نغمہ جس گلے میں گھٹتا ہے گھٹے، سربلند قلم جہاں جھکتے ہیں جھکیں، بس اُن کی دیہاڑیاں لگی رہیں۔ اُنہیں جیل سے فون آتے رہیں اور اُن کی دوسری تنخواہ اُنہیں بروقت ملتی رہے۔ ایسے لوگوں کو بآلاخر رسوا ہونا ہے۔ یہ ظاہری آنکھوں سے بڑھتے مگر دراصل گَھٹتے اور گُھٹتے رہتے ہیں، مرزا یاس یگانہ چنگیزی بھی کہاں یاد آئے:
بڑھتے بڑھتے اپنی حد سے بڑھ چلا دستِ ہوس
گھٹتے گھٹتے ایک دن دستِ دعا ہوجائے گا
صحافت کے اس پیشِ منظر، پسِ منظراور تہہِ منظر میں سی پی این ای نے اُمید کا ایک دیا روشن کردیا۔ اسلام آباد کے چند صحافیوں نے خوشگوار حیرت سے اس سرگرمی کو ایک نئی زندگی کی تلاش سے تعبیر کیا۔ پاکستان میڈیا کنونشن کے مختلف ادوارِ گفتگو میں صحافت کو درپیش تقریباً تمام سوالات زیرِ بحث آتے رہے۔ دانشور اپنی اپنی بصیرت سے اس کے جواب دیتے اور مدیرانِ اخبارات کے لیے سامانِ فکر پیدا کرتے رہے۔ صحافت منقلب ہورہی ہے۔ اور اس کے ذرائع تیزرفتار ٹیکنالوجی سے روز بروز تبدیل ہورہے ہیں۔ ایسے میں مطبوعہ صحافت کی بقا ان ذرائع سے ایک مناسبت پیدا کرنے میں ہے۔ یہ نکتہ خوب خوب ذہن نشین کرایا گیا۔ مگر اس پر ایک جوابی موقف بھی تھا۔ جس کی بازگشت بھی سنی جاتی رہی۔ تاریخ اپنے محفوظات میں مطبوعہ حالت سے ہی آبرو مندرہتی ہے۔ پاکستان میں ذرائع ابلاغ اپنی جتنی بھی شکلیں تبدیل کر لیں ، اس کی تاریخ بھی اسی مطبوعہ صحافت میں مرتب ہوگی۔ امریکا نے آزادی کے بعد جب اپنے ہاں یونیورسٹی قائم کرنے کا فیصلہ کیا تو1096ء میں قائم ہونے والی آکسفورڈ یونیورسٹی کا جائزہ لینے کے لیے ایک وفد برطانیا بھیجا۔ وفد نے آکسفورڈ کی عمارت کا مشاہدہ کرنے کے بعد کہا کہ اس سے اچھی یونیورسٹی ہم چند ماہ میں قائم کرلیں گے۔ آکسفورڈ کے ذمہ داران نے کہا کہ بالکل درست، آپ شاید اس سے بھی شاندار عمارت قائم کرلیں، مگر آکسفورڈ کی تاریخ کہاں سے لائیں گے؟ پاکستانی صحافت کو جب بھی اپنے نسب کے سوال کا سامنا ہوگا، آزادئ اظہار کی جدوجہد سے جب کبھی کوئی رومان پرور تعلق قائم کرنے کا مسئلہ درپیش ہوگا ،تو یہی مطبوعہ صحافت ان سوالات کی دھوپ میں سائبان فراہم کرے گی۔
ابھی مگر ایک اور مسئلہ درپیش ہے۔ پاکستانی صحافت پر چھوٹے ، بونے اور بوزنے قابض ہوچکے۔ اس کے نمائندہ اداروں کو حقیقی ماہرینِ ابلاغیات کی شناخت درکار ہے۔ایسے لوگوں نے اخبارات کو وزن سے تولا ہے۔ اور اسے مارکیٹ کی ایک جنس بناد یا ہے۔ ماضی میں ایسا کبھی نہیں ہوا کہ اخبار کا مالک مدیرکسی کمپنی کے سی ای او کی طرح لیا جائے۔ چند اخباری اداروں نے اپنے مارکیٹنگ منیجرز کے ذریعے اس نوع کی صحافت نما کثافت پیدا کردی ہے جس کے بعد اشتہاراتی اداروں سے لے کر حکومت کے کارپردازوں تک سب اخبارات اور ابلاغیات کے دفاتر کو بازار میں کھلنے والی دُکانوں پر قیاس کرنے لگے ہیں۔ یہ محض ایک کاروبار تو نہیں۔ پھر اس کے کاروبار کو عام کاروبار سے کسی طور منسلک کرکے نفع ونقصان کی میزان پر تولنا مناسب نہ ہوگا۔ اس روش نے ہی حکمرانوں کو یہ ہمت دی کہ وہ صحافت کو دیگر کاروباری صنعتوں سے منسلک کرکے اپنے اپنے کاروباری فارمولوں کو وضع کرنے پر زور دے رہے ہیں۔ جبکہ اس کے ساتھ یہ رویہ بھی برتنے کو تیار نہیں جو خود اُن کے بیان کردہ الفاظ میں دیگر صنعتوں کے ساتھ وہ روا رکھتے ہیں۔ سیمنٹ سے لے کر سریے تک اور چینی سے لے کر روئی تک جب کبھی کسی صنعت پر بحران آتا ہے تو حکومتیں اُن کی چارہ گری کرنے کے لیے دستِ تعاون دراز کرتی ہیں، مگر یہاں ایک تجاہل، تساہل اور تغافل کا رویہ ہے۔ سی پی این ای نے نہایت ہوشمندی سے اس مسئلے کو اس طرح اجاگر کیا کہ توازن برقرار رہے۔ آزادئ صحافت کی آبرو کھوٹی نہ ہو، آخر الفاظ اینٹ کے کنکر نہیں ہوتے۔ فقرے روئی کے گالے تو نہیں ہوتے۔ خبریں منڈی کی جنس تو نہیں ہوتیں۔ اظہار کا جذبہ دودھ کا ڈبہ تو نہیں ہوتا۔ صحافت اگر کوئی صنعت ہے تو اس کی پیداوارمارکیٹ کی دیگر اجناس کی طرح کوئی عام سی تو نہیں۔ وہ وقت دور نہیں جب اس صنعت کو سمجھنے کی ضرورت پہلے سے زیادہ محسوس کی جائے گی۔ اوپرے اوپرے ذہنی مظاہرے اسکرین کی بدولت ضروردِکھتے ہیں ،مگر سائنسی مطالعے میں اب یہ نکتہ روشن ہو چکا کہ سوچنے والا دماغ پڑھنے والے کے پاس ہوتا ہے۔ گہرائی وگیرائی کی صلاحیت کاغذ کے لمس سے پیدا ہوتی ہے۔جدید اور ترقی یافتہ دنیا میں ایک بار پھر بچوں کی تربیت کے پرانے طریقوں پر لوٹنے کی فکر کی جارہی ہے۔اُنہیں کتاب اور کاغذ کے ساتھ جوڑا جارہا ہے۔مگر پاکستان میں حکمرانوں کی دانش ابھی موبائل فون پر اسکرین کی جلتی بجھتی روشنی سے روشن ہوتی ہے۔ مدیران کو اندازا ہورہا ہے کہ اُنہیں الفاظ کی حرمت کے لیے ابھی ایک طویل سفردرپیش ہے۔ چنانچہ سی پی این ای کے مدیران بھی زندگی کی گاتی گنگناتی شاہراؤں پر بے نیاز سرگرم سفر ہیں، عازم منزل ہیں۔اہلِ صحافت نے حکومتوں کے آتے جاتے خانہ بدوش قافلوں میں اپنی زندگی کا سامان کیا اور الفاظ سے حرمت کا راستا بھی نہ ٹوٹنے دیا۔ ایسے میں کچھ اخبارنویسوں کو اُن کے اندر کے تاجروں نے مارڈالا، کچھ مالکان کی حرص کے آگے پورا ملک بھی کم پڑ گیا۔ مارکیٹنگ میں پرسنٹیج کی دلالی سے اخبارات کے نمائندہ اداروں کے آبرومندانہ مناصب پر قبضہ بھی کر لیا تو کیا ہوا؟جرأت مند صحافت اپنا راستا خود بنائے گی۔ سی پی این ای کے پاکستان میڈیا کنونشن سے پیدا ہونے والا یہ اعتماد صحافت کے لیے کوئی کم اثاثہ تو نہیں۔


متعلقہ خبریں


مضامین
سعودی سرمایہ کاری سے روزگار کے دروازے کھلیں گے! وجود هفته 20 اپریل 2024
سعودی سرمایہ کاری سے روزگار کے دروازے کھلیں گے!

آستینوں کے بت وجود هفته 20 اپریل 2024
آستینوں کے بت

جماعت اسلامی فارم 47والی جعلی حکومت کو نہیں مانتی وجود هفته 20 اپریل 2024
جماعت اسلامی فارم 47والی جعلی حکومت کو نہیں مانتی

پاکستانی سیاست میں ہلچل کے اگلے دو ماہ وجود هفته 20 اپریل 2024
پاکستانی سیاست میں ہلچل کے اگلے دو ماہ

'ایک مکار اور بدمعاش قوم' وجود هفته 20 اپریل 2024
'ایک مکار اور بدمعاش قوم'

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر