وجود

... loading ...

وجود
وجود

نشانا پاکستان ہے!

پیر 07 جنوری 2019 نشانا پاکستان ہے!

مشرقی پاکستان میں علیحدگی کی بھارتی تخریب میں ہر گزرتے دن کے ساتھ اضافہ ہو رہا تھا ۔ایک بھارتی مبصر’’ سبرا مینیم سوامی ‘‘ جن کا شاید آج کل بھارتیہ جنتا پارٹی سے تعلق ہے نے پندرہ جون 1971ء کی ڈیلی مدر لینڈ میں لکھا تھا کہ’’ پاکستان کے مٹ جانے سے ہندوستان کی خارجی و داخلی سلامتی مستحکم ہو گی ۔ ہندوستان کو ایک بڑی طاقت بننا ہے جس کیلئے پاکستان کا ختم ہونا ضروری شرط ہے ۔‘‘16دسمبر 1971ء کو پاکستان دولخت ہوا ،بنگلہ دیش سے بڑھ کر بھارت میں جشن کا سما ں تھا ۔ بھارت کی سرحدیں بنگلہ دیش کے ساتھ جڑی ہوئی ہیں۔ جس کا فائدہ اُٹھا کر اُس نے جاسوسی کا جال بہت پہلے ہی پورے بنگلہ دیش میں پھیلا رکھا تھا۔ اس غرض کے لیے صحافی ،تاجر ،طلباء ،دوسرے ممالک کے شہریوں ، ملٹی نیشنل اداروں اور غیر سرکاری و بین الاقوامی اداروں سے تعلق رکھنے والے افراد کو بھرتی کر رکھا تھا۔ بنگلہ دیش کے ہندوؤں کی مدد و تعاون بھی بھارت کو حاصل تھی ۔ اگرچہ 1967ء میں اگرتلہ سازش کا راز افشاء ہوا، تاہم معلوم طور پر یہ منصوبہ بندی 1964ء میں کی گئی تھی ۔مگر حقیقت یہ ہے کہ علیحدگی کے منصوبے پر اس سے بھی پہلے کام شروع کیا جا چکا تھا۔ اگرتلہ منصوبے کے تحت چھاپہ مار باغی تنظیم کا قیام وجود میں لانا تھا جس نے پاکستان کے فوجی و دوسری تنصیبات کو نشانابنانا تھا۔ 70ء کے عام انتخابات کے بعد کچھ بھی راز نہیں رہا۔ مکتی باہنی کے کرنل عثمانی کی قیادت میں ایک لاکھ بنگالی نوجوانوں کو عسکری تربیت دے کر مطلوب علاقوں میں پھیلا دیا گیا۔بنگلہ دیش کی پولیس بھی اس فورس کا حصہ بن گئی تھی ۔
انتخابات میں کامیابی کے فوری بعد شیخ مجیب الرحمن’’ بنگلہ جمہوریہ ‘‘کے الفاظ ادا کرنے لگے۔ دس جنوری 1971ء کو اپنی رہائش گاہ کے باہر ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ تمہیں بنگلہ دیش مبارک ہو۔ یقیناًملک بھارتی سازشوں اور فوجی حملے کے نتیجے میں ٹوٹا لیکن یہ بھی پیش نظر رہے کہ اس میں ہماری حماقتیں ، بد عنوانیاں ہوس اقتداراور بالادستی کے رویوں کا بھی عمل دخل تھا۔ چناں چہ اس کے بعد بھی بھارت نے پاکستان کے اندر سیاسی قوتوں کو ریاست کے خلاف اُبھارنے کا سلسلہ جاری رکھا ۔ گویا ستر کی دہائی میں سندھ ،،بلوچستان اور خیبر پختونخوا کے اندر بنگلہ دیش جیسی مماثلتیں پیدا کرنے کی کوششیں کی گئیں۔ ان صوبوں میں شرارتیں ہوئیں۔ البتہ بلوچستان میں اس شورش کی شدت زیادہ تھی۔ افغانستان میں تربیت کے کیمپ قائم کیے گئے اور پناہیں دی گئیں۔ وہاں ان علیحدگی پسندوں کی پاسنگ آؤٹ پریڈ ہوتی، جس میں یہاں کے سیاسی لوگ شریک ہوتے۔ بلوچستان کے ایک پشتون رہنما ایوب اچکزئی 1950ء میں افغانستان گئے اور پورے دس سال کابل میں مقیم رہے ۔مگر اپنی صلاحیتیوں اور وقت کے ضیاع کے علاوہ کچھ ہاتھ نہ آیا۔گویا بھارت اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہوسکا۔ نوے کی دہائی میں پھر بلوچستان کے اندر بڑی خاموشی سے بلوچ نوجوانوں پر کام ہوا۔ اکا دکا واقعات شروع ہوئے ۔ اکتوبر2001ء میں افغانستان پر امریکی قبضے کے بعد بھارت بھی افغانستان میں آکر بیٹھ گیا۔ تب علیحدگی کا نعرہ بر سر عام بلند ہوا۔ماردھاڑ اور بم دھماکوں کا سلسلہ شروع ہوا ۔ نواب مری کے بیٹے بالاچ مری ، حیربیار مری اور زمران مری ان کے لیڈر بن گئے۔ نومبر2007ء میں بالاچ مری کا انتقال افغانستان میں ہوا۔
پچھلے دنوں (25دسمبر2018ء) اہم شدت پسند کمانڈر اسلم اچھو قندھار کے خواص کے علاقے ’’عینو مینہ‘‘ میں ایک خودکش حملے میں نشانا بن گئے۔ ان کے ہمراہ دوسرے اہم کمانڈرز بھی زندہ نہ رہے۔ بی ایل اے نے اسلم اچھو کی موت کی تصدیق کردی ۔ ساتھ یہ بھی کہا کہ وہ عرصہ 25سال سے اس راہ پر تھے۔ اندازہ کیجئے کہ بلوچستان کے اندر پچیس سال قبل اس نوعیت کی فعالیت کا آغاز ہوا تھا ۔ اسلم اچھو ان کے ہاں ایک ماہر عسکری کمانڈر اور استاد کی حیثیت رکھتے تھے۔ فروری2016ء میں سبی کے قریب سانگان کے پہاڑوں میں فورسز کی کارروائی میں زخمی ہوکر افغانستان پہنچ گئے۔ ازیں بعد نئی دہلی میں مزید علاج کرایا۔ ان کی اور ڈاکٹر اللہ نذر کے گھر کی خواتین کو افغانستان جاتے ہوئے چمن سرحد پر روک لیا گیا تھا۔ گویا اسلم اچھو کا قندھار میں مارا جانا اس امر پر دلالت کرتا ہے کہ افغانستان کی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال ہورہی ہے ۔ امریکی قبضے کے بعد ٹی ٹی پی وغیرہ کی عفریت بھی پیدا ہوئی۔ یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ بنگلہ دیش کا قیام امریکی سی آئی اے کے منصوبے میں بھی شامل ہوگیا تھا۔ جونئی نسل کو الگ ملک کے قیام کو ان کے مسائل کا واحد حل بتاتی۔چناں چہ اب’’ را ‘‘اور’’ سی آئی اے‘‘ افغانستان میں بھی اکٹھی ہیں ۔افغان’’ این ڈی ایس‘‘ ان کی طفیلی ہے۔ عوامی نیشنل پارٹی نے خیبر پشتونخوا میں البتہ اس نوع کی غلطی کا اعادہ نہ کیا۔انتقاماً اس جماعت پر ٹی ٹی پی چھوڑی گئی۔ ان کے درجنوں کارکن بہی خواہ اور رہنماؤں کو پیوند خاک کیا گیا۔ یہاں تک کہ اسفند یار ولی پر بھی خودکش حملہ کرایا گیا۔ ممکن ہے کہ اے این پی کی قیادت کو اس بات کا ادراک ہو۔ طالبان کے سابق ترجمان احسان اللہ احسان کے انکشافات کے بعد تو شمہ برابر شبہ باقی نہیں ر ہنا چاہیے کہ’’ را ‘‘اور’’ این ڈی ایس ‘‘ ہی ان گروہوں کی مشینری چلارہے ہیں۔ پشتون تحفظ موومنٹ بنائی گئی۔ دی گئی مخصوص سرخ ٹوپیوں کی شناخت و علامت والے یہ لوگ آزادی کے فساد پر مبنی و گمراہ کن نعرے لگاتے رہتے ہیں۔ یہ پشتون سے زیادہ ’’را ‘‘اور’’ این ڈی ایس‘‘ تحفظ موومنٹ دکھائی دیتی ہے۔ اللہ کرے کہ افغانستان کے حوالے سے امارت اسلامیہ اور امریکا کے مذاکرات اچھے انجام پر اختتام پزیر ہوں۔۔امارت اسلامیہ کو چاہیے کہ وہ افغانستان کی اُن شخصیات و جماعتوں کی حمایت کو اہمیت دے جو ملک پر غیر ملکی قبضے کے خلاف ہیں۔تاکہ ملک افغانستان اور خطہ ہر نوع کے فتنوں سے آزاد ہو۔ کہنے کی بات یہ ہے کہ بھارت نے اپنی بساط بچھا رکھی ہے۔نشانا پاکستان ہے ۔جیسے’’ ڈیوڈ لو شاک‘‘ نے ڈیلی ٹیلی گراف لندن کے6مئی 1971ء کے شمارے میں لکھا تھا کہ ہندوستان اس میں بھلائی دیکھتا ہے کہ اس کا حریف اول ٹکڑے ٹکڑے یا مفلوج ہوکر رہ جائے، اسے بے گناہ لوگوں کے حال سے کوئی دلچسپی نہیں ہے ۔ وہ تو اپنے عزائم کی تکمیل سے بنگلہ دیش کے نام پر پروپیگنڈا ہی چلائے ہوئے ہے۔


متعلقہ خبریں


مضامین
شادی۔یات وجود بدھ 24 اپریل 2024
شادی۔یات

جذباتی بوڑھی عورت وجود بدھ 24 اپریل 2024
جذباتی بوڑھی عورت

تمل ناڈو کے تناظر میں انتخابات کا پہلامرحلہ وجود منگل 23 اپریل 2024
تمل ناڈو کے تناظر میں انتخابات کا پہلامرحلہ

بھارت اورایڈز وجود منگل 23 اپریل 2024
بھارت اورایڈز

وزیر اعظم کا یوتھ پروگرام امید کی کرن وجود منگل 23 اپریل 2024
وزیر اعظم کا یوتھ پروگرام امید کی کرن

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر