وجود

... loading ...

وجود
وجود

حلقہ’’ چھبیس‘‘ کا ضمنی انتخاب

پیر 24 دسمبر 2018 حلقہ’’ چھبیس‘‘ کا ضمنی انتخاب

ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی کے سیکریٹری جنرل علی احمد کوہزاد 25جولائی2018ء کے عام انتخابات میں حلقہ پی بی26کوئٹہ پر کامیاب ہوئے تھے۔ ازیں بعد ان کی پاکستانی شہریت کا مسئلہ کھڑا ہوا ۔چنا ں چہ الیکشن کمیشن نے یہ نشست خالی قرار دیدی اور ضمنی انتخاب کیلئے 31دسمبر کا دن مقرر کردیا۔ جس کے لیے تیاریاں زور و شور سے جاری ہیں۔ بلوچستان اسمبلی کے اندر حزب اختلاف کی جماعتیں پشتونخوامیپ، بلوچستان نیشنل پارٹی، جے یو آئی (ایم ایم اے) کے امیدوار مولانا ولی محمد ترابی کے نام پر متفق ہوئی ہیں ۔ گویا یہ تینوں جماعتیں ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی کے امیدوار قادر علی نائل کے مد مقابل ہیں۔ ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی کو عوامی نیشنل پارٹی اور بلوچستان عوامی پارٹی کی حمایت حاصل ہے۔ البتہ عوامی نیشنل پارٹی اگر محض اعلان سے بڑھ کر تعاون کرتی ہے تو قادر نائل کی پوزیشن مزید بہتر ہوسکتی ہے ،کیونکہ مقابل میں تین بڑی جماعتیں کھڑی ہیں۔ علی الخصوص پشتونخوامیپ نے جے یو آئی کے ساتھ مشترکہ الیکشن سیل بنایا ہے۔ دونوں جماعتوں کے رہنماء اور کارکن باہم ملکر انتخابی مہم چلارہے ہیں۔ یعنی پشتونخوامیپ نمائشی و خالی خولی اعلانات سے ہٹ کر عملاً مو لانا ولی محمد ترابی کی جیت کے لیے متحرک ہے۔ ان دو جماعتوں نے آئندہ ہونیوالے بلدیاتی انتخابات میں بھی اتحاد کا عندیہ دے رکھا ہے۔ اس ضمن میں پشتونخوامیپ نے اپنی عمومی مزاج کے برعکس لچک دکھائی ہے ۔ گویا آگ اور پانی کا ملن ہوا ہے ۔ ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی کا دائرہ سیاست محدود ہے ،پر مثالی تنظیم کی حامل ہے ۔ پچیس جولائی کے عام انتخابات میں پارٹی کے چیئرمین عبدالخالق ہزارہ بھی کامیاب ہوئے ہیں۔ پارٹی نے حلقہ 26پر قادر علی نائل کو میدان میں اتار کر عین ہزارہ عوام کے مزاج کے مطابق فیصلہ کیا ہے۔ قادر علی خوش خلق و خوش گفتاراور اچھی صفت کی شہرت رکھتے ہیں۔ اورقبیلہ صحافت سے تعلق رکھتے ہیں ۔کوئٹہ کے قومی مؤقر روزنامے سے بحیثیت سب ایڈیٹر لمبے عرصے سے وابستہ ہیں ۔جامعہ بلوچستان سے صحافت کی ڈگری پہلی پوزیشن کے ساتھ حاصل کر رکھی ہے۔ ادیب ہیں ۔ اردو اور ہزارگی زبان میں شعرلکھتے ،کہتے ہیں ۔ان دو زبانوں میں شعر و ادب کی ترویج کیلئے سالوں سے کام کررہے ہیں۔ ان کی غزلوں کا مجموعہ’’ الگم‘‘ کے نام سے چھپا ہے اور یہ پاکستان میں ہزارگی غزلوں کا پہلا مجموعہ ہے۔ یعنی صحافت و ادب کے ساتھ سیاست میں بھی ہمہ وقت سرگرم ہیں۔ 2013ء میں بھاری ووٹوں سے کونسلر منتخب ہوئے۔ ذکر پھر جے یو آئی اور پشتونخوامیپ کے اتحاد کا کرتے ہیں۔ یہ اتحاد ایسے وقت میں ہوا ہے کہ جب ابھی مولانا عبدالواسع ،جے یو آئی کے ان جیسے دوسروں کا پشتونخوا میپ کو دیا گیا زخم مندمل نہ ہوا ہے ۔قابل تعریف ہے درویش صفت سکندر ایڈووکیٹ کے جنہوں نے سیاسی مشترکات پر ہم آہنگی کی طرف قدم اٹھایا ہے۔ صد آفریں پشتونخوامیپ پر جس نے تحریک عدم اعتمادجیسی زیادتی کے باوجود اس حکومت میں حزب اختلاف کا اول روز سے ہر موقع پر ساتھ دیا ہے۔ مجھے حیرانگی ہوتی ہے کہ جب جے یو آئی کے بعض لوگ25جولائی کے انتخابات پر سوالات اٹھاتے ہیں،جملے کستے ہیں۔ بڑی ڈھٹائی سے اظہار کرتے ہیں کہ انتخابات آئی ایس آئی کے بریگیڈیئر خالد فرید یا کسی جنرل نے کروائے ہیں۔سوال یہ ہے کہ کیا جے یو آئی ف نے اپنے لوگوں کی خبر لی ہے، جو بلوچستان میں منتخب حکومت کے خلاف کھلم کھلااُس سے بے پردہ کھلواڑ کا حصہ بن گئے ۔ مولانا فضل الرحمان کو بھی دھوکے میں مبتلا کیا ۔اُن سے ن لیگ، پشتونخوامیپ اور نیشنل پارٹی کی حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد کو درست قدم کہلوایا۔جے یو آئی کے صوبائی سیکرٹری جنرل ملک سکندر ایڈووکیٹ جو موجودہ وقت بلوچستان اسمبلی میں قائد حزب اختلاف ہے کیا اُس وقت بھی رائے عدم اعتماد کے حق میں نہ تھی۔ اس تماشے میں مولانا شیرانی کے حلقہ یاراں بے مہار تھے ۔ چنا ں چہ مولانا عبدالواسع اور اس کے معاونین کا احتساب و محاسبہ کی بجائے عبدالواسع کو ٹکٹ دے کر قومی اسمبلی بھیج دیا، اور برا بھلا کسی بریگیڈیئر اور کسی جنرل کو کہا جارہا ہے۔ یعنی جب ان کا مفاد تھا تو تحریک عدم اعتماد لانے والوں کا ساتھ دیا۔ ان سے اتحاد جائز سمجھا۔اورآج جب سیاسی و انتخابی نقشہ موافق نہ ہے تو تبریٰ بھیجاجارہا ہے۔ مولانا عبدالواسع نے عدم اعتماد کے بعد بننے والی حکومت میں ہر طرح سے مراعات و فوائد حاصل کیں۔ پورے پی اینڈ ڈی ڈیپارٹمنٹ کا اختیار ان کے پاس تھا۔ ادھر حکومت کا دھڑن تختہ ہوااُدھر اس محکمے میں منظور نظر افسران کے تبادلے کروائے۔ اپنے لوگوں کو اہم عہدوں پر بٹھایا۔ حافظ خلیل کو نگراں کابینہ میں شامل کرایا۔ ان کی اہلیہ کو مخصوص نشست پر ٹکٹ دیا گیا تھا اس بنا وہ نگران کابینہ سے الگ ہو گئے۔ اس اُتھل پُتھل کی پہلی اینٹ ہی بلوچستان میں رکھی گئی، جس کے لیے آصف زرداری نے خریدوفروخت کا بازار گرم کیا۔ جے یو آئی (ف) ، بی این پی اور عوامی نیشنل پارٹی اس سیاہ واردات میں شعوری طور پر برابر شریک ہوئیں۔ انہی کے کندھوں اور سہارے سے بلوچستان کے اندر سینٹ کے عجیب و غریب انتخابات ہوئے۔ اور بادشاہ گروں کی جماعت (باپ ) بنی۔میرے خیال سے انتخابات پر اثر اندازی کے طعنے کم از کم اُن لوگوں اور حلقوں کو زیب نہیں دیتے جن کی وجہ سے سیاست و جمہوریت کا تقدس کھلے آسمان تلے پامال ہوا ہے۔
اتنی نہ بڑھا پاکی داماں کی حکایت
دامن کو ذرا دیکھ ذرا بند قبا دیکھ
الغرض میرے لیے روا نہیں کہ میں ان سطور میں اپنے دوست قادر نائل کو ووٹ دینے کی تبلیغ کروں، البتہ میری نیک تمنائیں اُن کے ساتھ ضرور ہیں۔


متعلقہ خبریں


مضامین
صدر رئیسی کا رسمی دورۂ پاکستان اور مضمرات وجود جمعه 26 اپریل 2024
صدر رئیسی کا رسمی دورۂ پاکستان اور مضمرات

سیل ۔فون وجود جمعه 26 اپریل 2024
سیل ۔فون

کڑے فیصلوں کاموسم وجود جمعه 26 اپریل 2024
کڑے فیصلوں کاموسم

اسکی بنیادوں میں ہے تیرا لہو میرا لہو وجود جمعه 26 اپریل 2024
اسکی بنیادوں میں ہے تیرا لہو میرا لہو

کشمیری قیادت کا آرٹیکل370 کی بحالی کا مطالبہ وجود جمعه 26 اپریل 2024
کشمیری قیادت کا آرٹیکل370 کی بحالی کا مطالبہ

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر