وجود

... loading ...

وجود
وجود

خشک سالی اور پانی کا مسئلہ

بدھ 19 دسمبر 2018 خشک سالی اور پانی کا مسئلہ

یقیناًآفات ارضی و سماوی پر انسان کا بس و قدرت نہیں ہوتا، تاہم حکومتیں پیش بندی کرتی ہیں، تاکہ نقصانات کم سے کم ہوں ۔اور لوگوں کے تحفظ کے لیے جامع منصوبہ بندی کرتی ہیں۔ بلوچستان کے کئی اضلاع اس وقت خشک سالی کی لپیٹ میں ہیں۔ ایک لمبے عرصے سے بارشیں نہیں ہوئی ہیں۔ جس کی وجہ سے فصلیں، باغات ، مال مویشی تباہی کے دہانے پر ہیں۔
پیش ازیں نوے کی دہائی میں طویل خشک سالی کے نتیجے میں بلوچستان کے اندر زمینداری و زراعت کو شدید نقصان پہنچا۔ گلہ بانی کا شعبہ شدید متاثر ہوا۔چنا ں چہ اس وقت صوبے کے گیارہ اضلاع نوشکی،چاغی، خاران، واشک، پنجگور، جھل مگسی، کچھی ، موسیٰ خیل ،ہرنائی، سبی اور ژوب خشک سالی کی لپیٹ میں ہیں یعنی ایک اندازے کے مطابق چار لاکھ کے قریب انسان متاثر ہوئے ہیں۔ صوبائی حکومت کی رپورٹ کے مطابق ان گیارہ اضلاع کی24تحصیلیں ، 68 یونین کونسلز اور ایک ہزار ننانوے گاؤں متاثر ہوئے ہیں۔ جبکہ متاثرہ اضلاع اور علاقوں کی تعداد زیادہ ہے۔ صوبائی حکومت اپنے طور پر اپنے وسائل کے اندر گوکہ متحرک ہوئی ہے مگر یہ نا کافی ہے۔ اس کے لیے بڑی سطح پر امدادی آپریشن کا آغازکرنا چاہیے تاکہ لوگ نقل مکانی پر مجبور نہ ہوں ،اور ان کے مال مویشی ہلاک نہ ہوں۔ چند ایک غیر سرکاری تنظیمیں جیسا کہ اسلامک ریلیف وغیرہ نے بھی اپنی ٹیمیں روانہ کردی ہیں۔ پی ڈی ایم اے آفات سے نمٹنے کے ادارہ کے طور پر کسی بھی ایسی صورتحال میں مؤثر کردار ادا کرنے میں ناکام رہا ہے۔ اس کا کام صرف راشن کی تقسیم کی حد تک رہ گیا ہے۔ جس میں اوپر سے نیچے تک سب کے وارے نیارے ہوتے ہیں ۔سیلاب اور زلزلے جیسی آفات کی صورت میں پی ڈی ایم اے کے پاس ریسکیو کے ضمن میں سرے سے کچھ بھی نہیں ہیں۔ یعنی لوگوں کو بچانے اور محفوظ مقامات تک لے جانے کے لیے ان کے پاس افرادی قوت، اسی طرح دوسری ضروری مشینری و لوازمات موجود نہیں۔ریسکیو1122کا ادارہ چند سال قبل قائم کیا گیا، جہاں کنٹریکٹ کی بنیادپر ملازمین بھرتی کیے گئے ۔جنہیں مزید تربیت کے لیے لاہور بھیجا گیا۔ چناں چہ اب نوبت یہ ہے کہ تمام تر اخراجات کے باوجود 1122عضو معطل ہے۔یہاں تک کہ یہ ملازمین تنخواہوں کے لیے مختلف اوقات احتجاج کرتے رہے ہیں۔ اس حالت میں ہم خدا نخواستہ کسی آفت کی صورت میں کسی ایک جان کو محفوظ کرنے کی استعداد نہیں رکھتے۔ اور سوال یہ بھی ہے کہ کیا پی ڈی ایم اے کا کام محض راشن اور خیموں کی تقسیم کرنے تک رہ گیا ہے ؟ بات خشک سالی کی ہو رہی ہے دراصل صوبے بھر میں پانی ذخیرہ کرنے اور زراعت کی بہتری کے ذریعے ڈیم نہ ہونے کے برابر ہیں۔ ہر سال کئی لاکھ ایکڑ فٹ بارشوں کا پانی ضائع ہوجاتا ہے۔ زراعت اور گھریلو استعمال کے لیے ٹیوب ویلوں پر انحصار ہے۔ جس کے نتیجے میں زیر زمین پانی کی سطح میں ہر گزرتے دن کے ساتھ کمی آتی جارہی ہے۔ٹیوب ویل اکثر خشک ہوجاتے ہیں۔ کوئٹہ اس صوبے کا دار الخلافہ ہے لیکن اس کے باوجود یہاں پانی کا متبادل نظام موجود نہیں ہے۔
ماضی قریب میں شہر کو پینے کے پانی کی فراہمی کی خاطر بڑے منصوبے سامنے لائے گئے،پر کام آگے نہ بڑھ سکا۔البتہ اُلٹا کئی ارب روپے ضائع یا غتر بُود ہو گئے (نکاسی آب کے منصوبے کے تحت بھی اس شہر پر ظلم عظیم ہوا ہے ،گویا شہر کی سڑکیں سرنگوں میں تبدیل کردی گئی ہیں) ۔پچھلی حکومت نے قلت آب پرقابو پانے کی خاطر مانگی ڈیم پر کام کا افتتاح کردیا۔تاکہ کوئٹہ شہر کو پینے کے پانی کی فراہمی ہو سکے۔ ڈیم کب مکمل ہوگایہ اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ لیکن کوئٹہ کے اندر پینے کا پانی سنگین مسئلہ بنتا جارہا ہے۔ شہری پانی خریدنے پر مجبور ہیں ،اس میں واسا کی نا اہلی اور بدعنوانی بھی ایک بڑی وجہ ہے۔ نجی ٹیوب ویلزشہر کے اندر جگہ جگہ بن چکے ہیں۔کم فاصلے پر یہ ٹیوب ویل بنائے گئے ہیں حالانکہ ایک ٹیوب ویل اور دوسرے ٹیوب ویل کے درمیان قانوناً ایک طے شدہ فاصلہ مقرر ہے۔میرے خیال سے یہ فاصلہ نو سو میٹر ہے۔ یعنی اس حد میں دوسرا ٹیوب ویل بنانا ممنوع ہے۔ کیونکہ اس سے قریب کے ٹیوب ویل کے پانی پر اثر پڑتا ہے۔ لیکن یہاں گنگامدتوں سے اُلٹی بہہ رہی ہے۔ ہر شخص مرضی میں آزادہے کہ کب اور کہاں ٹیوب ویل نصب کرے۔ بارشوں کا پانی بعینہ کوئٹہ میں بھی ضائع ہوجاتا ہے۔ پہاڑوں کے دروں میں آبادیاں بن چکی ہیں جہاں پہلے چند ایک ڈیم بنے ہوئے تھے ان پہاڑی دروں کے آبی راستے بھی قبضہ ہوکر رہائشی آبادیوں میں تبدیل کردیے گئے ہیں۔ جہاں سے پہاڑوں سے آنے والا بارشوں کا پانی اب پکی نالیوں میں بہہ کر ضائع ہوجاتا ہے۔ اسی پانی سے زیر زمین پانی کی سطح بلند و برقرار رہتی تھی۔ گویا حکومتوں اور محکموں کی کوئی رٹ باقی نہیں رہی ہے۔ زیر زمین پانی خشک ہونے سے زمین دھنس اور پھٹ رہی ہے۔ یعنی یہ ایک الگ مسئلہ ہے جس کا سامنا مختلف علاقوں میں کرنا پڑرہا ہے۔ کوئٹہ پر فوری توجہ نہ دی گئی تو آئندہ چند سالوں میں یہاں پینے کا پانی دستیاب نہ ہوگا۔ اس صورت میں لاکھوں کی آبادی یقینی طور پر دوسرے شہروں اور صوبوں کو نقل مکانی پر مجبور ہوگی ۔ سیاسی جماعتیں گلی و محلہ کی سطح پر موجود ہیں مگر وہ اس جیسے بہت سارے بنیادی و سنگین مسائل پر مطلق خاموش ہیں، حالانکہ ان کے پاس طاقت ہے۔ نچلی سطح پر قانون کی پاما لی ، مسائل کو پنپنے سے روکنے اور مفاد عامہ کی خاطر سیاسی کارکن اور ذمہ داران ہر لحاظ سے کردار ادا کرسکتے ہیں ،مگر ایسا نہیں کیا جاتا۔ ان کی تبلیغات محض ووٹ کے حصول اور انقلابات کی پُرفریب نعروں تک محدود ہے۔ ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ ہرآنے والی حکومت سار امسئلہ پچھلی حکومت پر ڈال کر گویا خود کو ذمہ داریوں سے بری الذمہ کردیتی ہیں۔ دیکھاجائے تو یہی چہرے مہرے ہر حکومت میں دکھائی آرہے ہیں۔ عوام کا حق مارتے ہیں اور سرکاری فنڈ ووسائل کو شیر مادر کی طرح نوش کرتے ہیں۔ جبکہ مسائل و خرابیاں جوں کی توں رہتی ہیں۔
وزیر اعظم عمران خان بھی بلوچستان کے حوالے سے فرماچکے ہیں کہ اس صوبے کو ملنے والے فنڈز میں انتہاء درجے کی کرپشن ہوئی ہے۔ بات درست ہے، اب ہو نا یہ چاہیے کہ تحریک انصاف اس بد عنوانی کو روک لے یا اس کا ازالہ کرے۔ غرض جام کمال کو بھی چاہیے کہ وہ صوبے کے جملہ مسائل کے حل پر عقابی نگاہ رکھیں اور مثالی گورننس قائم کرکے نظر آنے والی تبدیلی اور اصلاح کا مظاہرہ کرے۔ کوئٹہ شہر میں پانی کا مسئلہ تو ہے ہی بلکہ یہاں مسائل کے کئی حوالوں سے انبار لگے ہوئے ہیں جس سے نمٹنے کے لیے آپریشن کلین اپ کی ضرورت ہے۔ میرے خیال سے جام کمال ا یسا کریں گے تو عوام کی حمایت اس اصلاح و تعمیری آپریشن میں شامل کار رہے گی۔ سردست خشک سالی سے متاثرہ علاقوں پر توجہ کی ضرورت ہے۔


متعلقہ خبریں


مضامین
لیکن کردار؟ وجود جمعرات 28 مارچ 2024
لیکن کردار؟

خوابوں کی تعبیر وجود جمعرات 28 مارچ 2024
خوابوں کی تعبیر

ماحولیاتی تباہ کاری کی ذمہ دار جنگیں ہیں ! وجود جمعرات 28 مارچ 2024
ماحولیاتی تباہ کاری کی ذمہ دار جنگیں ہیں !

ریاست مسائل کی زدمیں کیوں ؟ وجود جمعرات 28 مارچ 2024
ریاست مسائل کی زدمیں کیوں ؟

مردہ قومی حمیت زندہ باد! وجود بدھ 27 مارچ 2024
مردہ قومی حمیت زندہ باد!

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر