وجود

... loading ...

وجود
وجود

نجومی کیا کرے !!!

بدھ 19 دسمبر 2018 نجومی کیا کرے !!!

جب سے ملک میں بھوک بڑھی ہے نجوم پڑھنے والوں کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہونے لگا ہے ۔ گورنمنٹ نے اناج کے واسطے جگہ جگہ یوٹیلیٹی اسٹورز کھول رکھے ہیں مگر یہاں خوراک نہیں ملتی،تھوڑی تھوڑی بھوک ملتی ہے ۔آہستہ آہستہ بڑھتی ہوئی موت ملتی ہے ۔گورنمنٹ جو امن کی بات کرتی ہے اگر پیٹ میں لگی بھوک کی جنگ کو ختم کر دے تو دنیا میں خودبخود امن قائم ہو جائے ۔مہنگائی،بھوک اور افلاس کے مارے لوگ‘‘ اچھے دنوں’’ کو ‘‘ستاروں کی چال’’میں تلاشنے لگے ہیں۔ان زائچوں میں یہ پیٹ بھرنے کو روٹی،تن کے ڈھکنے کو کپڑا اور رہنے کے لیے گھر ڈھونڈتے ہیں، گویا حمل، ثور، جوزا سرطان، اسد، سنبلہ، میزان، عقرب، قوس، جدی ،دلو اور حوت سب نجومی کی دسترس میں ہیں، وہ ان کے دن پھیر دے گا، جس ملک میں لوگوں کی دو اقسام ہوں حاکم اور محکوم ایسی، وہاں بارہ ستارے کس کام کے !!!۔ نجومی بھی خدا ایساہے جو اِن کی قسمت کے ستاروں کی گردش کوبدل دے گا!!
’’نجومی‘‘ اب ہر بڑے روزنامے کی ضرورت بن گیا ہے ۔ان بھوکے ،ننگوں کا حال جیسا بھی رہے ،ان کے ستارے جیسی بھی چال چلیں،کچھ نہیں ہوتا، پیٹ بھرتا ہے نہ تن ڈھکتا ہے نہ ہی گھر بنتا ہے ،ہاں، ’’نجومی‘‘سے اخبار کی قسمت سنور جاتی ہے ۔یہی وجہ ہے کہ اب دیکھا دیکھی سبھی اخبارات نجومی بھرتی کرنے لگے ہیں۔
اس دنیا میں کتنے ہی لوگ ہیں جو اپنی قسمت کا حال معلوم کرنے کے خواہشمند ہیں ۔حالانکہ اس دنیا میں کروڑوں آدمی ایسے ہیں جن کی قسمت بالکل ایک جیسی ہے ۔کیونکہ ان کے ذرائع آمدن ایک سے ہیں۔روزی، روٹی ، کپڑے اور چھت کے مسائل ایک سے ہیں۔ہر ایک کے ہاتھ کی لکیریں الگ الگ ہیں مگر قسمت کی لکیر ایک جیسی ہے ۔کیونکہ سب ایک طرح کے سماج میں رہتے ہیں ۔جب تک سماج نہ بدل جائے قسمت کیسے بدل سکتی ہے ؟لیکن کوئی بھی یہ بات سننے کو تیار نہیں ۔ خود فریبی کایہ عالم ہے کہ ہرشخص یہ سوچتا ہے کہ نجومی کے پاس جانے سے اس کی قسمت پلٹا کھائے گی۔اس کا ستارہ چمک اٹھے گا، ستارہ۔ جس کی گردش اس کے دنوں کو پھیر دی گی،آسمان کے یہ ستارے زمین پر آکر اس کا بھوکاپیٹ بھر دیں گے ، عریاں تن کو کپڑے سے ڈھک دیں گے اور رہنے کو چھت دے دیں گے ۔
میں نجوم کا علم زیادہ تونہیں جانتالیکن جب ایک بڑے روزنامے میں ’’ضرورت نجومی‘‘کے اشتہار پر نظر پڑی تو میں نے بھی عرضی داغ دی جو اتفاق سے منظور کر لی گئی۔‘‘ہر ہفتے سات دن کا زائچہ تیار کر کے دینا ہوگا’’چیف ایڈیٹر نے مجھے میرے کام کی نوعیت سے آگاہ کیا۔یہ کسی بھی اخبار کے لئے میرا پہلا تجربہ تھا۔میں نے علمِ نجوم سے متعلق دو چار کتابیں پڑھیں،اخبارات میں ستاروں کی چال کے کالم پڑھے اور جلد ہی ایک زائچہ تیار کر لیا ۔‘‘آپ کا آج کادن کیسا گزرے گا؟’’کسی بھی اخبار کا سب سے زیاد پڑھا جانے والا صفحہ ہے ۔آپ شوہر ہیں یا بیوی ،اسٹوڈنٹ ہیں یا ٹیچر، بے روزگار ہیں یا باروزگار،ہر وہ آدمی جو کھلی آنکھوں سے خواب دیکھتا ہے ،وہ یہ صفحہ ضرور پڑھتا ہے بلکہ بعضے لوگ یہ کالم پڑھ کر ہی گھر سے نکلتے ہیں۔اور جس دن ان کا ستارہ گردش میں ہو وہ گھر رہنے کو ہی ترجیح دیتے ہیں۔
ملک میں بھوک بکھری ہو تو زائچے میں اچھے دن کیونکر آسکتے ہیں۔ بھوک کا مسئلہ تشویش ناک ہے ۔پیٹ خالی ہو تو انسان وحشی ہوجاتا ہے ،کون نہیں جانتا کہ ہماری آدھی سے زیادہ آبادی خوراک کی کمی کا شکار ہے ۔ہماری حکومت نے ‘‘دی نیوز’’ ،‘‘دی نیشن ’’ اور قومی انگریزی اخبارات میں اس مسئلے سے ‘‘آگاہی ’’ کے لئے کالمز چھاپے ۔اداریئے لکھے ۔خبریں لگائیں لیکن سرکار کو علم نہیں کہ جو پیٹ کی آگ نہ بجھا سکیں وہ انگریزی کے کالمز کیسے پڑھ سکتے ہیں۔
لیکن سرکار عام آدمی سے بے خبر نہیں۔سرکار نے یوٹیلیٹی اسٹورز میں مضرِ صحت ناقص گھی اور کئی ڈبہ بند اشیاء پر پابندی لگا رکھی ہے ۔ آپ نے بھی یہ اشتہار ٹی وی پر دیکھے ہوں گے ۔بیرونِ ملک کے کتنے ہی مشروبات، گوشت اور عام کھانے پینے کی چیزیں ہیں جو سرخ کراس سے نشان زد ہیں۔جن کی فروخت منع ہے ۔لیکن عام آدمی کی طرح سرکار بھی مجبور ہے وہ ان اشیاء کی درآمد پر پابندی نہیں لگا سکتی۔ پابندی لگا دے تو بے چاری سرکار بھی عام آدمی کے جیسے بھوکی ننگی ہو جائے ۔
گززشتہ دنوں کا ایک اخبار میرے سامنے ہے ۔زائچہ کار عامل بی اے کی موت کی خبر اسی اخبار میں چھپی ہے ۔ عامل بی اے اپنے حال سے بے خبر کروڑوں لوگوں کو ان کے مستقبل کی خبر دیتا تھا،یہ جو انار کلی میں ایک بڑے اخبار کا دفتر ہے ،اس پانچ منزلہ عمارت میں اس کا آفس زمیں پر تھا اور خیالات ستاروں کو چھوتے تھے ،جس دن اس کا زائچہ چھپا اس کے آفس کے باہر لوگوں کا ہجوم لگ گیا۔لوگ کسی بپھرے ہوئے سمندر کی طرح موجود تھے ۔ان کے چہرے غم و غصہ سے بھرے تھے اور لبوں پر اشتعال انگیز نعرے ۔ انھوں نے دفتر کو آگ لگانے کی کوشش کی۔عمارت کے شیشے توڑ دیئے گئے ۔کئی افراد نے اندر داخل ہو کر توڑ پھوڑ کی۔حالات پر قابو پانے کے لیے پولیس کو بلالیا گیا۔فائر بریگیڈ عملہ بلا لیا گیا،آپ سمجھ رہے ہیں کہ عامل بی اے کا’’علم نجوم‘‘ غلط نکلا!! نہیں۔۔۔اس کا علم سو فی صد سچ نکلا،لیکن یہ اس کی غلطی تھی ۔ لاعلمی تھی۔لوگ اخبار میں ’’ستاروں کی چال‘‘ سچ جاننے کے لیے نہیں بلکہ اپنی خواہشیں اور جھوٹے خواب دیکھنے کے لیے پڑھتے ہیں!!!
سوچتا ہوں بھوکے ننگے ملک میں عام آدمی کا زائچہ کس طرح تیارکروں؟وحشت چھائی ہو تو زائچہ کیا کرے ؟
بھوک کا مسئلہ پیشِ نظر ہے اورگورنمنٹ اسے حل کیے بغیر آرام سے نہیں بیٹھ سکتی۔گورنمنٹ یہ مسئلہ حل کرنے کے لیے کئی طرح کے طریقے آزما رہی ہے ۔دو روز قبل ہی وزیر خوراک نے اس نازک اور سنگین صورتحال میں’’درخت اُگاؤ‘‘ کا پلان تیار کیا۔یہ ایک معقول اسکیم ہے ۔سیدھی ساد ہ عمدہ اسکیم جو موجود حالات میں کسی قسم کی تبدیلی کا تقاضا نہیں کرتی۔اسے گورنمنٹ نے سراہاہے ۔ اسے یوں بھی بیان کیا جا سکتا ہے کہ ’’درخت اُگاؤ‘‘یعنی زیادہ درخت۔ زیادہ درختوں کا مطلب ہے زیادہ بارش، زیادہ بارش کا مطلب ہے زیادہ فصل اور زیادہ فصل کا مطلب ہے زیادہ اناج۔دیکھا آپ نے !!یہ وزیراپنی ڈیسکوں پر بیٹھے خوراک ایسے گھمبیر مسائل کیسے چٹکیوں میں حل کر لیتے ہیں!!یہ مہم سرکار شروع کر رہی ہے اور جلد ہی یہ ملک کے تمام صوبوں میں پھیل جائے گی۔لیکن !! ماضی کی طرح ہم اب بھی ناکام رہیں گے کیونکہ اس کی بنیادی منصوبہ بندی میں بہت سی خامیاں نکل آئیں گی۔
میں نے زائچہ کو غور سے دیکھا!!
اب تو بس ایک ہی طریقہ ر ہ گیا ہے کہ ہم اگر اناج کی مقدار اپنی آبادی کے مطابق پیدا نہیں کر سکتے تو ہمیں اپنی آبادی کو اناج کی مقدار کے مطابق کم کر دینا چاہئے ۔ویسے بھی لوگ جب غلہ پیدا نہیں کر سکتے تو بچے کیوں پیدا کرتے ہیں؟
وزیر خوراک نے ایک بیان دیتے ہوئے فرمایا ہے کہ پاکستان میں آبادی کا تناسب غذائی اعتبار سے حوصلہ شکن ہے ۔آبادی میں ڈیڑھ سو گنا اضافہ ہوا ہے اور زمینی پیداوار بہت کم بڑھی ہے ۔ اس پر طرّ ہ یہ کہ پاکستانی بہت کھانا کھاتے ہیں۔اس قدر کہ مغربی لوگ دن میں پانچ بار بھی اتنا نہیں کھا سکتے جتنا یہ دو ٹائم کھاجاتے ہیں۔ اس غذائی بحران کا یہی حل ہے کہ اس سے نمٹنے کے لیے تمام آبادی ایک سال کے لیے روزے رکھے !!
میں نے زائچہ پھاڑ دیا ہے اوراخبار کے آفس سے باہرنکل آیا ہوں۔


متعلقہ خبریں


مضامین
وائرل زدہ معاشرہ وجود جمعرات 18 اپریل 2024
وائرل زدہ معاشرہ

ملکہ ہانس اور وارث شاہ وجود جمعرات 18 اپریل 2024
ملکہ ہانس اور وارث شاہ

بھارت، سنگھ پریوار کی آئیڈیالوجی کالونی وجود جمعرات 18 اپریل 2024
بھارت، سنگھ پریوار کی آئیڈیالوجی کالونی

ایرانی حملے کے اثرات وجود بدھ 17 اپریل 2024
ایرانی حملے کے اثرات

دعائے آخرِ شب وجود بدھ 17 اپریل 2024
دعائے آخرِ شب

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر