وجود

... loading ...

وجود
وجود

نیب کا انٹروگیشن سینٹر

پیر 17 دسمبر 2018 نیب کا انٹروگیشن سینٹر

ارہ اکتوبر1999 کی درمیانی شب جنرل پرویز مشرف کے جرنیلی بندوبست آغاز ہوا تو میاں نواز شریف نظر بند کر دیے گئے تھے ۔ دو تین دن کسی کو کوئی خبر نہ ہوئی کہ سابق وزیر اعظم کو کہاں رکھا گیا ہے۔ کُچھ دنوں کے بعد وہ منظر عام پر آئے ۔ طیارہ سازش کیس کی ایف آئی آر درج کرنے کے بعد انہیں جوڈیشل میجسٹریٹ کے روبرو پیش کیا گیا تو دُنیا ان کے پہلے بیانیہ کی منتظر تھی ۔جب صحافیوں کا اُن سے آمنا سامنا ہوا تو وقت گویا رُک سا گیا تھا ۔ لیکن جب ایک جرنیل کے ہاتھوں سبکدوش کیے گئے عوامی وزیر اعظم گویا ہوئے تو سب نے ایک دوسرے کا منہ دیکھنا شروع کر دیا ،وہ گفتگو کے بعد تو بکتر بند گاڑی میں جانے والے کو دیکھتے ہی رہ گئے ۔۔ میاں نواز شریف نے صحافیوں کو بتایا کہ انہیں جس کمرے میں رکھا گیا ہے اُس میں صفائی کا ناقص بندوبست ہے ۔ بلب کی روشنی بہت تیز ہے ۔ مچھروں کی بہتات ہے ۔ اسی قسم کی اور بہت سی باتیں تھیں جو انہوں نے اس موقع پر کیں ۔جو لوگ یہ سُننا چاہتے تھے کہ جمہوریت پر مارے گئے اس شب خون کے عوامل کیا تھے ۔ آئین کی عملداری کی راہ میں دیوار کیوں حائل ہوئی ۔وہ سب مایوس ہی نہیں پریشان بھی ہوئے ۔ دوسرے روز تمام اخبارات خاص کر بین الاقوامی میڈیا میں بے کسی کے اس کلام اور دل کے روگ کی چیخوں کو مایوسی کا ماخذقرار دیا گیا۔
نیب کے ہاتھوں میاں شہباز شریف کی گرفتاری کے بعد ایسی ہی باتیں سابق خادم اعلیٰ سے سُننے کو ملیں ۔ بزدلی کے اسی اسکرپٹ کے مکالمے خواجہ برادران کی گرفتاری کے بعد بھی سماعتوں سے ٹکرائے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ہماری سیاسی اشرافیہ میں سے جب کبھی بھی کوئی جیل کو جاتا ہے تو وہاں کے حالات کا رونا اس مُدعا کے ساتھ روتا ہے کہ سلاخوں کے پیچھے کی دُنیا میں انہیں اُ س شان و شوکت اور عیش و عشرت سے کیوں محروم کر دیا گیا ہے جو انہیں اپنی دنیا میں حاصل تھا۔سیاسی قیدیوں کے معاملات کو اس صورتحال میں استثناء حاصل ہے ۔لیکن جب یہ لوگ اقتدار میں ہوتے ہیں تو قیدیوں کے معاملات بہتر بنانے پر توجہ نہیں دیتے ۔ جیلوں کے موجودہ حالات کا جائزہ لیا جائے تو وہاں اصلاح خانوں کا عکس کہیں نظر نہیں آتا ۔
سعد رفیق کی جانب سے اس شور شرابے کے بعد کہ انہیں نیب نے ریمانڈ کے دوران جس ماحول میں رکھا ہواہے وہ ان کی خواجگی کے شایانِ شایان نہیں ہے ۔ نیب لاہور کے موجودہ ڈائریکٹر جنرل سلیم شہزاد نے اس غُبارے سے بھی ہوا نکال دی ہے ۔لاہور کے سینئر صحافیوں اور کالم نگاروں کو اپنے دفتر آنے کی دعوت دی ۔اس ملاقات نے وہاں موجود نیب کے مہمانوں کے اُس شور شرابے اور چیخ و پُکار کو بے ثمر کر دیا جو ہر تاریخ پیشی پر دُہرایا جاتا تھا۔نیب لاہور کے معاملات پر بریفنگ اور سوال وجواب کے بعد صحافیوں کو انٹروگیشن سیل کا دورہ کروایا گیا۔ایسا پہلی بار ہوا ہے ۔ ذرائع ابلاغ کے سینئرز کی ٹیم جدید سہولیات سے آراستہ اس تحقیقاتی مرکزمیں پہنچی ۔تو شہباز شریف اور بڑے خواجہ صاحب کے ناروا سلوک کے تمام بیانات کی اصلیت سامنے آگئی۔ایک وسیع کوریڈور سے گزر نے کے بعد سیل واقع ہیں ۔ ایک گیلری کے دونوں طرف سات سات یعنی چودہ کمرے تھے ۔گیلری میں ایک جانب تین باتھ روم بنائے گئے تھے ۔کمرے اس حد تک کشادہ تھے کہ تین سے چار افراد تک کے بستر آسانی سے لگائے جا سکتے تھے ۔ یہیں ایک طرف باجماعت نظام پڑھنے کا مستقل اہتمام بھی موجود تھا۔ان کمروں میں بیڈ موجود نہیں تھے لیکن مناسب حد سے بڑھ کر فرشی بستر موجود تھے ۔ خواجہ سلمان اور خواجہ سعد رفیق کے درمیان والے کمرے میں پولیس آفیسر رائے اعجاز کا سیل تھا۔ انہی سات کمروں میں سے ایک میں میاں شہباز شریف اور قیصر امین بٹ کو بھی رکھا گیا تھا۔یہاں ا سٹا ف نے بتایا کہ میاں شہباز شریف اکثر دھوپ تاپنے کے لیے ٹھوکر نیاز بیک کے قریب واقع نیب کے ا س دفتر اور انٹروگیشن سینٹر کی چھت پر جا بیٹھتے تھے ۔خادم اعلیٰ کے اسیِ Sun Bath کی وجہ سے چھت کے اُوپر ارد گرد پردے بنانا پڑے تھے ۔ عارضی مہمان کے لیے اتنا اہتمام ؟ سمجھنے کی کوشش کی گئی تو ذہن میں آیا کہ شاید مستقبل میں یہاں ایسے بہت سے بڑے مہمانوں کی آمد متوقع ہے ۔ بعد میں ہمارے اس خیالِ دل فریب کو بریفنگ کے درمیان یہ سُن کر بھی تقویت حاصل ہوئی کہ سیاسی وابستگیوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے بہت سے کیسز پر کام ہو رہا ہے ۔ کسی سے بھی اُس کے سیاسی و سماجی مرتبے کی وجہ سے رعایت نہیں برتی جائے گی ۔ یہاں نیب کی بیس سالہ کارکردگی کے بارے میں بھی سوالات ہوئے ۔جواب میں معلوم ہوا کہ بیس سال کے دوران نیب نے مختلف کیسسز پر کام کیا اور عدالتوں میں بھیجے گئے کیسوں کے نیتجے کے طور پر 25 کروڑروپئے وصول ہوئے ہیں ۔ نیب کی پانچ سال کے دوران کاروائیوں کا ایک جائزہ بھی سامنے آیا جس کے نتیجے میں 250؍ ارب روپے کی ریکوری کا سُراغ ملتا ہے ۔موجودہ چیئرمین ریٹائرڈ جسٹس جاوید اقبال کی عرق ریزی ، ریاضت اور غیرجانبدارانہ احتسابی عمل بھی زیر بحث آیا ۔ تفصیلات منظر عام پر لانے سے زیادہ اُن کی استقامت اور کامیابی کے لیے دعاؤں کو نیم شبی اور نالہ ہائے سحری کا حصہ بنانے کو دل کرتا ہے ۔
نیب کے دفتر کے تفتیشی کمرے بھی دیکھنے کو ملے جہاں جدید ترین طریقہ تفتیش کے مطابق پوچھ گُچھ کا عمل مکمل کیا جاتا ہے ۔ بتایا گیا کہ یہاں تمام مراحل ریکارڈ کیے جاتے ہیں ۔جسمانی اور ذہنی ٹارچرکے تمام الزامات کی نفی کی گئی ۔۔ پتا چلا کہ قیصر امین بٹ جن کی شہرت پہلے خواجہ سعد رفیق کے دیرینہ دوست کی تھی اور اب وعدہ معاف گواہ کے طور پر جانے جاتے ہیں انہوں نے یہاں قرآن پاک کی تفسیر برائے مطالعہ خرید کر دینے کی پیشکش کی تھی ۔ نیب نے خود سے اس کا اہتمام کر دیا ہے ۔ 
صحافی جب عمارت کے اس حصے کا دورہ کر رہے تھے تو ان کی ملاقات خواجہ سعد رفیق ، خواجہ سلمان رفیق اور پولیس آفیسر رائے اعجاز سے بھی ہوئی ۔ صحافیوں کا ان سب سے مصافحہ ہوا ۔ خواجہ سعد رفیق نے کالم نگار مظہر برلاس سے مخاطب ہو کر کہا آپ سب میری باتیں بھی سُن کر جائیں گے ۔ اس موقع پر منصور آفاق نے کہا کہ ہم حُکام سے وعدہ کرکے آئے ہیں کہ کسی سے کوئی بات نہیں کریں گے ۔ خواجہ سعد رفیق نے اپنے روایتی تلخ لہجے میں اپنے وجود کا پورا زور صرف کرتے ہوئے کہا کہ آپ لوگ پھر آئے کس لیے ہیں ۔
کالم نگار لقمان شریف کے استفسار پر سب کو اس کا علم ہوا کہ یہاں کسی قسم کا کوئی خفیہ کیمرہ نہیں ہے ۔ دستاویزی ثبوتوں کی مدد سے تفتیش کی جاتی ہے ۔ پنجاب کے نیب کولاہور ، ملتان اور راولپنڈی کے ڈائریکٹوریٹس میں تقسیم کیا گیا ہے ۔ کالم نگار کو ملنے والی اب تک کی معلومات کے مطابق لاہور کی کارکردگی تحسین کی مستحق ہے ۔اس کا کریڈٹ ڈی جی نیب لاہور سلیم شہزاداورڈپٹی ڈائریکٹر چوہدری اصغر کو جاتا ہے ۔ نیب کی کارکردگی کو عوام اور ذرائع ابلاغ تک پہنچانے میں ترجمان نیب لاہور ذیشان کی کارکردگی بھی لائق تحسین ہے ۔
ہمارے قومی جسد پر بددیانت معاشرت کے جو زخم ہیں انہوں نے قومی وجود اور مملکت کواُس مقام پر لا کھڑا کیا ہے جہاں تمام معاشرتی بُرائیاں اُبھر کر سامنے آ گئی ہیں ۔ قومی خزانے کے خائنوں اور عوامی اعتماد کے سوداگروں کی ایک پوری کھیپ ہے جس کی بدولت ہم کڑی آزمائشوں اور حالات سے دوچار ہوئے ہیں ۔ سیاستدانوں اور بیوروکریسی کی مالی کرپشن کی کہانیاں۔۔ ؟ الحفیظ و الاماں !! نیب نے ریاست کے وجود کو مزید زخموں سے بچانے کے لیے جو مشن شروع کیا ہے ۔اُس سے نہ صرف بدعنوانوں اور مافیاز میں کھلبلی مچی ہوئی ہے بلکہ عوام میں اپنے اداروں پر اعتماد بھی بحال ہو رہا ہے ۔ اخبارات کے صفحات پرنیب کے حوالے سے سیاست دانوں کے کیسے ہی بیانات چھپے ہوئے ہوں اور الیکٹرونک میڈیا پر جس قسم کی بھی بریکنگ نیوز چل رہی ہوں ۔ عوام اس احتسابی عمل سے انسپائریشن حاصل کررہے ہیں ۔


متعلقہ خبریں


مضامین
ٹیپو سلطان شیرِ میسور آزادی ِ وطن کا نشان اور استعارہ وجود جمعرات 25 اپریل 2024
ٹیپو سلطان شیرِ میسور آزادی ِ وطن کا نشان اور استعارہ

بھارت بدترین عالمی دہشت گرد وجود جمعرات 25 اپریل 2024
بھارت بدترین عالمی دہشت گرد

شادی۔یات وجود بدھ 24 اپریل 2024
شادی۔یات

جذباتی بوڑھی عورت وجود بدھ 24 اپریل 2024
جذباتی بوڑھی عورت

تمل ناڈو کے تناظر میں انتخابات کا پہلامرحلہ وجود منگل 23 اپریل 2024
تمل ناڈو کے تناظر میں انتخابات کا پہلامرحلہ

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر