وجود

... loading ...

وجود
وجود

افغان مسئلہ اور کور چشمی

پیر 03 دسمبر 2018 افغان مسئلہ اور کور چشمی

امریکا کی زیر دست کابل انتظامیہ داخلی و خارجی امور و معاملات میں قطعی بے اختیار ہے ۔ افغانستان کے نظام کار کی طنابیں مکمل طور پر امریکا کے ہاتھ میں ہیں۔ یہاں تک کہ کابل انتظامیہ کو اپنی خفیہ ایجنسی جو بھارت کے جاسوسی کے ادارے ’’را‘‘ کی رکھیل بنی ہوئی ہے ، پربھی مکمل دسترس نہیں۔ خصوصاً پاکستان کے خلاف یہ ادارہ ’’را ‘‘کے ہر سیاہ عمل میں بلارادہ شریک ہے۔ امریکا افغانستان میں اپنی ناکامی کی تلخ حقیقت بھانپ چکا ہے۔ پاکستان کو اربوں ڈالر دینے اور بدلے میں کچھ نہ کرنے ، اسامہ بن لادن کا پاکستان میں قیام اور آئندہ پاکستان کو امداد نہ دینے کی گیدڑ بھبکیوں کی وجہ در اصل یہی تکلیف ہے۔ بازی امریکا کے ہاتھ سے بتدریج نکلتی جا رہی ہے ۔ چنانچہ یہ اظہاریہ امریکا کے اشتعال کی غماضی کرتا ہے۔
امریکا اس بدیہی شکست کا ذمہ دار خود ہے کہ جس نے معروضی حقائق کو دیکھے و سمجھے بغیر افغانستان میں اپنے قیام کو دوام دیا ۔اور تکیہ کابل انتظامیہ ، دوسری بھگوڑا شخصیات و حلقوں اسی طرح بھارت پر کیا ۔ بھارت کے اندر اہل الرائے یہ سمجھتے ہیں کہ ان کا ملک غیر ضروری طور پر افغانستان میں فریق بن بیٹھا ہے۔ اور اپنی سرکار کو تجاویز دے چکے ہیں کہ’’ ماسکو اگر افغان مجاہدین کے ہاتھوں بے پناہ جانی ومالی اور ٹوٹ پھوٹ کا نقصان اٹھانے کے باوجود افغان طالبان سے روابط قائم کرچکا ہے۔ اور ماسکو میں امن کانفرنس منعقد کرکے افغان طالبان کو شر کت کی دعوت دی ۔طالبان بھارت کے خلاف نہیں ہیں، تو بھر بھارت سرکار افغان طالبان سے بات کیوں نہیں کرتی یا کیوں نہیں کرنا چاہتی ۔‘‘سچی بات یہ ہے کہ بھارت کی آنکھوں پر بھی سیاہ پٹی بندھی ہوئی ہے۔ اس بڑی دفاعی طاقت و معیشت کو سرے سے افغانستان کی بدلتی جنگی و سیاسی صورتحال کا ادراک ہی نہیں۔ امریکی وفد نے خود افغان طالبان کی سیاسی قیادت سے دوحہ میں نومبر2018ء میں ملاقات کی ہے ۔ گویا رابطے براہ راست قائم کیے ہیں۔ امارت اسلامیہ کا ترجمان اس ملاقات کی تصدیق کر چکا ہے ۔ ان کے مطابق نومبر کی14،15اور16تاریخوں کو ملاقاتیں ہوئی ہیں۔ امریکی خصوصی نمائندہ برائے افغانستان زلمے خلیل زاد اس مقصد کی خاطر فعال کردیے گئے ہیں۔ امریکی جنرل جنرل ’’آسٹن اسکاٹ ملر ‘‘کا طالبان کو شکست نہ دے سکنے اور افغان قبضہ کے سیاسی حل کا اعتراف چشم کشا ہے۔ اس اعتراف میں کابل انتظامیہ، اس کی خفیہ ایجنسی ، بھارت اور وہ شدت پسند تنظیمیں اور سیاسی جماعتیں جو پاکستان میں شر اور ابتری چاہتی ہیں کو سبق حاصل کرنا چاہیے۔جنرل اسکاٹ ملر صاف صاف کہہ چکے ہیں کہ طالبان کو ہرا نہیں سکتے اور امن کیلئے سیاسی گفت و شنید حل بتایا ہے۔ مزید بر اں امریکاکے چیئرمین جوائنٹ چیف آف آرمی اسٹاف جنرل جوزف ڈ نفوررڈ بھی اعتراف کر چکے ہیں کہ ’’افغانستان میں طالبان ہارے نہیں اور 17سالہ جنگ کے بعد بھی ان کی پوزیشن کافی مضبوط ہے ۔ اگر طالبان بات چیت کیلئے تیار ہوجائیں تویہ بڑی کامیابی ہوگی۔ افغانستان کے معاملے پر ہمیں لگی لپٹی بات کرنے کی بجائے ان کی مضبوط پوزیشن کو تسلیم کرنا چاہیے‘‘۔ تاہم ٹرمپ انتظامیہ ہنوز ادھراُدھر کی مار رہی ہے ۔
پچھلے دنوں خبر آئی کہ امریکا اپنے بد ترین دشمن ایران کی بندرگاہ چا بہار جو بھارت کے تعاون سے تعمیر ہوئی کو امریکا کی اقتصادی پابندیوں سے استثنیٰ دے رہی ہے ۔ بھارت کو بعض پابندیوں سے مستثنیٰ کردیا ہے۔ اور بندرگاہ کو افغانستان سے ملانے کیلئے ریلوے لائن کی تعمیر پر بھی امریکی پابندیوں کا اطلاق نہ ہوگا۔ ظاہر ہے امریکا افغانستان اور خطے میں بھارتی تعاون کا صلہ دے رہا۔نیز یہ سب کچھ پاکستان کے بغض میں کرنے جارہا ہے۔ کیوں نہ پاکستان بھی اپنے مفاد کے تحت ایران گیس پائپ لائن کی تکمیل پر تندہی سے پیشرفت کرے۔ افغان جنگ میں پاکستان کا مجموعی نقصان نیٹو ممالک سے کئی گناہ زیادہ ہوا ہے۔ یہ جنگ جنرل پرویز مشرف نے پاکستان کے سر منڈھ دی ۔ جس کا خمیازہ قوم و ملک دہشت گردی کی صورت میں آج تک بھگت رہے ہیں ۔ بدلے میں امریکا پاکستان کی بدحالی کے درپے ہے۔ باو جود اس کے افغان طالبان ایک سیاسی و مزاحمتی حقیقت ہے جس کا اعتراف امریکی کر چکے ہیں ۔ ابھی9نومبرکو ماسکو میں تین روزہ امن کانفرنس ( ماسکو فارمیٹ)میں امارت اسلامیہ کا وفد محمد عباس ا ستانکزئی، کی قیادت میں بڑے طمطراق، اعتماد، قومی ،ملی اور دینی مؤقف کے ساتھ شریک ہوا ۔مولوی عبدالسلام حنفی، مولوی شہاب الدین دلاور، مولوی ضیاء الرحمن مدنی اور محمد سہیل شاہین وفد کا حصہ تھے ۔ دنیا کے17ممالک کے نمائندوں جس میں امریکہ اور بھارت کے نمائندے بھی شریک تھے کے سامنے اپنے اصولی و مبنی بر حق مؤقف کا اعادہ کیا۔ طالبان وفد کے سربراہ نے قرار دیا کہ سترہ سالہ جنگ کا خاتمہ امریکی فوجیوں کے انخلاء سے مشروط ہے اور یہ کہ دنیا امریکاکے افغانستان سے انخلاء کی ضمانت دے ۔ افغان سیاسی جماعتیں ، مسند اقتدار پر بیٹھی شخصیات ، پاکستان کے اندر سیاسی جماعتیں، امریکا کے افغانستان سے نکل جانے کا مطالبہ کریں تو اس صورت میں ان کا امارت اسلامیہ سے سیاسی عمل میں شرکت کی درخواست و مطالبہ بھی بجاہوگا ۔ اگر یہ حلقے و جماعتیں سرے سے افغانستان کو امریکی مقبوضہ سمجھتی ہی نہیں تو امارت اسلامیہ ان سے بات چیت اور مذاکرات کس حیثیت سے کرے ۔ان کی کوئی قانونی حیثیت ہے ہی نہیں۔بالخصوص اس تناظر میں پاکستان کی پشتون سیاسی جماعتوں کو بھی افغانستان کے معاملات میں چھٹی اُنگلی بننے کا حق حاصل نہیں ۔ عوامی نیشنل پارٹی بعض حوالوں سے معاملات کو سمجھ رہی ہے۔ افرا سیاب خٹک اور بشریٰ گوہر کی بنیادی رکنیت کی معطلی کا تناظر بھی یہی ہے ۔
عمران خان وزیراعظم بنے تو افراسیاب خٹک نے کہاکہ ان کو حکومت دلوانے کا مقصد افغانستان میں طالبان کو بر سر اقتدار لانا ہے۔ سوال یہ ہے کہ افغانستان میں طالبان بر سر اقتدار کیوں نہ آئے۔ کیا وہ پشتون و افغان نہیں ہیں؟ کیا ان لٹے پٹے محب وطن لوگوں نے ملک کے استقلال و خود مختاری کا علم بلند نہیں کیا ہے؟ یعنی افغانستان میں بھارت کا اثر و نفوذ درست ، کبھی روس کا غلبہ جائز تھا اور آج امریکی قبضہ عین جمہوریت و آزادی کے مصداق ہے۔ مگرا مارت اسلامیہ کا اقتدار میں آنا اورافغان وطن کی خارجی افواج سے خلا صی قبول نہیں ۔ افرا سیاب خٹک کی رکنیت کی معطلی کی وجوہات میں ایک وجہ پشتون تحفظ موومنٹ سے تعلق اور حمایت بھی ہے ۔اس تنظیم کی پشتونخوا ملی عوامی پارٹی بھی پوری طرح سے معاون و مددگار ہے۔ یہ تنظیم باطن میں شر لیے ہوئی ہے ۔ گویا یہ وہ فریب ہے جس میں یہ حلقے ماضی میں بھی مبتلا رہے ہیں اور اب بھی معروضی حقائق و حالات کے حوالے سے کور چشمی و کوتاہ اندیشی میں مبتلا ہیں ۔
نظر آتے نہیں ہے بے پردہ حقائق اُن کو
آنکھ جن کی ہوئی محکومی و تقلید سے کور
بلوچ شدت پسند الگ دھوکے میں مبتلا ہیں ۔ کراچی میں چینی قونصل خانے پر حملے کے دروبست میں کامیاب تو ہو گئے ۔مگر انہیں یہ شعور نہیں کہ ا ن واقعات سے مقاصد امریکا اور بھارت کے پورے ہو رہے ہیں۔ بلوچ عوام اور ان کے مستقبل کیلئے یہ سراسر گھاٹے کا راستہ ہے۔بادی النظر میں پشتون زعماء دراصل قوم کو تقسیم کرنے کی سعی میں لگے ہوئے ہیں ۔ا مارت اسلامیہ کا وجود پورے عالم کے ہاں مسلمہ ہے ۔مگر یہ اس حقیقت کو تسلیم نہیں کر رہے ۔ کابل انتظامیہ ، امریکی و بھارتی مفادات کے محافظ کمانڈر وں کی پاکستان میں غائبانہ نماز جنازہ کی ادا ئیگی کا اہتما م کرتے ہیں ۔گویا یہ گروہی و علاقائی عصبیتیں ملت کا شیرازہ بکھیر دینے کی کوشش ہے۔تعجب ہے کہ اس نوع کے گمراہ کن فعل و عمل سے ذرا بھی نہیں چونکتے۔کاش ،یہ حلقے اپنی دھج بدلنے کی کو شش کریں!!


متعلقہ خبریں


مضامین
صدر رئیسی کا رسمی دورۂ پاکستان اور مضمرات وجود جمعه 26 اپریل 2024
صدر رئیسی کا رسمی دورۂ پاکستان اور مضمرات

سیل ۔فون وجود جمعه 26 اپریل 2024
سیل ۔فون

کڑے فیصلوں کاموسم وجود جمعه 26 اپریل 2024
کڑے فیصلوں کاموسم

اسکی بنیادوں میں ہے تیرا لہو میرا لہو وجود جمعه 26 اپریل 2024
اسکی بنیادوں میں ہے تیرا لہو میرا لہو

کشمیری قیادت کا آرٹیکل370 کی بحالی کا مطالبہ وجود جمعه 26 اپریل 2024
کشمیری قیادت کا آرٹیکل370 کی بحالی کا مطالبہ

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر