وجود

... loading ...

وجود
وجود

دہشت گردی اور مستقبل کی آہٹیں

پیر 26 نومبر 2018 دہشت گردی اور مستقبل کی آہٹیں

چینی قونصلیٹ پر حملے نے پاکستان کے اندر بھارت کو سمجھنے کے لیے کچھ نئی راہیں کشادہ کردی ہیں۔ بھارت کی برہمن ذہنیت نسلی برتری کے ساتھ کس پست طریقے سے بروئے کار آتی ہے، اس کی تفہیم پاکستان میں ریاستی سطح پر ہی نہیں دانشوروں کی سطح پر بھی دشوار رہی ہے۔ افسوس ناک طور پر پاکستان میں بھارت کو محض ایک روایتی حریف سمجھ کر روایتی طریقوں سے اُسے برتنے کی باتیں کی جاتی ہیں۔ مگر بھارت ایسا ملک نہیں۔ اس کی دشمنی روایتی نہیں۔
بھارت نے ایک خطرناک اور تہہ دار پالیسی کے تحت پاکستان کو مستقل اپنا ہدف رکھا ہے۔ یہ محض اتنا نہیں کہ بھارت پاکستان کے اندر دہشت گردی کی سرپرستی کرتا ہے اور اِسے ایک بے امن ملک بنا کر دکھانے کی کوشش کرتا ہے۔ بلکہ بھارت نے اپنے اندر جاری بدترین نسلی، قومی اور فرقہ وارانہ پالیسیوں کے تحت کشاکش کے پرتشدد نتائج کو بھی پاکستان کے خلاف استعمال کرنے کی ایک مکروہ پالیسی بنا رکھی ہے۔ چھ روز قبل یہ انکشاف ہوا کہ اجمل قصاب کے پاس بھارتی ریاست اترپردیش کے ضلع اورایا کی تحصیل بدھونا سے جاری ڈومیسائل تھا۔پاکستان میں اب بھی کوئی یہ تحقیق کرنے کوتیار نہیں کہ بھارت میں 26؍ نومبر 2008ء کے ممبئی حملوں کے فوراً بعد پاکستانی ذرائع ابلاغ میں اجمل قصاب کی حملے سے پہلے پاکستان آمداور خاندان کے وجود کی خبریں کیوں چھپی تھیں جب بھارتی پروپیگنڈے کوا س سے تقویت مل رہی تھی۔ یہ تو بھارت کی تہہ دار حکمت عملی کا محض ایک پہلو ہے جس میں وہ اپنے پروپیگنڈے کو تقویت پہنچانے والے عوامل کو خود پاکستان کے اندر پیدا کرنے کی قدرت حاصل کرچکا ہے۔ اس سے آگے بڑھ کر اُس نے ’’کرایے‘‘ پر دستیاب ایسے لوگ بھی پیدا کرلیے ہیں جو کہنے کو پاکستانی ہیں مگر جو بھارتی منصوبے کے تحت پاکستان کے اندر بروئے کار آتے ہیں۔ ایسے ہی کرایے پر دستیاب لوگوں کی میزبانی وہ اپنے ملک اور افغانستان میں کررہا ہے۔ انتہائی سنگین طور پر ان کرداروں کو وہ کسی بھی وقت بھارت کے اندر’’ دہشت گردی ‘‘کے کسی خانہ ساز واقعے میں استعمال کرکے پاکستان کے خلاف استعمال کرنے کی بھی مہلک صلاحیت حاصل کرچکا ہے۔ اسلم اچھو تو محض ایک نام ہے جسے وہ پاکستان کے اندر دہشت گردی کے منصوبہ ساز کے طور پر سنبھالے ہوئے ہیں۔ ایسے کئی کردار ابھی بھی بھارتی سرزمین پر موجود ہیں۔ اس اعتبار سے چینی قونصلیٹ پر حملے میں اُس کی ناکامی کوئی واقعہ نہیں ۔ چینی قونصلیٹ پر حملہ آور ہونا ہی زیادہ بڑا واقعہ ہے۔ کیونکہ یہ واقعہ بھارت کی طرف سے آئندہ کے لیے پاکستانی زمین گرم کرنے کا ایک اشارہ دیتا ہے۔
یہ بھارتی سازشوں کا ایک بہتر شعور پیدا کرنے کا ایک بہتر موقع ہے۔اس طرح ہم مستقبل کے اندر بھی جھانک سکیں گے۔ بھارت نے ایک گہری اور خطرناک حکمت عملی کے تحت اپنے ملک میں ہونے والی دہشت گردی کو مقامی وجوہات سے کاٹ کر پاکستان کے ساتھ منسلک کردیا ہے۔ اس ضمن میں وہ مجہول کرداروں کو پاکستانی باور کرانے پر تُلا رہتا ہے۔ وہ ایسے عوامل کو دفن کردیتا ہے جو بھارتی سازش کو کسی بھی موقع پر بے نقاب کرسکتے ہیں۔ افضل گورو کی پھانسی کا پاکستان میں درست تجزیہ نہیں کیا گیا۔ یہ واقعہ بھارت کی مکروہ ذہنیت کی درست عکاسی کرتا ہے۔ بھارت نے اپنی پارلیمنٹ پر 13؍ دسمبر2001کو ہونے والے حملے کا پاکستانیوں کو بھی یقین دلادیا تھا کہ اس میں کہیں نہ کہیں پاکستانی ملوث ہیں۔ اُس نے نوگیارہ کے بعد پاکستان اور مسلمانوں کے خلاف عالمی فضا کا پورا پورا لابھ اُٹھایا۔ ہرگزرتے دن اپنا پورا زور اس دعوے کو ثابت کرنے پر لگایا۔ اس ضمن میں جعلی تحقیقات کا پورا پہاڑ کھڑا کردیا گیا۔ یہ تمام’’ تحقیقات‘‘ صرف افضل گورو کے ایک ایسے اقبالی بیان سے جڑی تھی جو خود بھارت میں بھی مشکوک رہا۔ افضل گورو کے ساتھ پاکستان کی دو جماعتوں لشکر طیبہ اور جیش محمد کو اس حملے کے ذمہ داران کے طور پر پیش کیا گیا۔ پھر اس سازش میں بارہ افراد کے ملوث ہونے کی ایک کہانی گھڑی گئی۔بھارت نے پاکستان کے خلاف سب سے بڑی فوجی نقل وحمل شروع کردی اور برصغیر کو ایٹمی جنگ کی دہلیز پر کھڑا کردیا۔ بھارت نے پاکستان دشمنی میں اپنی فوجوں کو سرحدوں پر پہنچا کر جو سرگرمیاں دکھائیں اُس میں کم وبیش ایک سو ارب روپے خرچ ہوئے۔ آخر میں یہ کہانی جن ناموں پر آکر ٹکی وہ محمد رانا، راجہ ، حمزہ اور حیدر تھے۔ یہ لوگ کون تھے؟ کہاں سے آئے؟ ان ناموں کو کس نے شناخت کیا؟ یہ کوئی حقیقی لوگ تھے یا خلائی مخلوق ؟ بھارت کے پاس ان میں سے کسی کا بھی جواب نہیں تھا۔ لے دے کے بس افضل گوروکا وہی اقبالی بیان تھا جس میں ان ناموں کا ذکر تھا۔اس حملے میں گھٹتے گھٹتے پاکستان کے ملوث ہونے کا جو واحد حوالہ رہ گیا وہ بھارتی وزارتِ داخلہ کا ایک بیان تھا جس کے الفاظ کمال کے تھے:حلیے سے لگتا تھا کہ وہ پاکستانی ہیں‘‘۔ چند برسوں بعد ہمیں پاکستان کے وزیراعظم نوازشریف سے یہ سننا تھا کہ پاکستانیوں اور ہندوستانیوں میں کوئی فرق نہیں۔ بھارت حلیوں سے اس فرق کو سمجھنے پر قادر تھا۔ مگر ’’بیچارے‘‘ نوازشریف کو کھانے پینے میں بھی کوئی فرق محسوس نہ ہوا۔ حیرت انگیز طور پر افضل گورو کا ایک بیان بعد میں سامنے آیا جس میں اُس نے کہا کہ ’’میں نے کسی مرنے والے کو شناخت نہیں کیا، پولیس نے مجھے دہشت گردوں کے نام بتائے اور مجبور کیا کہ میں اِن ناموں سے اُن کی شناخت کروں‘‘۔چونکہ یہ پوری کہانی افضل گورو پر کھڑی تھی اس لیے اُسے پھانسی دے دی گئی۔ مگر سچائی لاشوں کے ساتھ دفن نہیں ہوتی۔مظلوم افضل گورو کی پھانسی بھارتی تاریخ میں خنجر کی طرح پیوست ہوگئی۔ یہ اُس بھارت میں ہوتا ہے جس کے اپنے زندہ کردار کلبھوشن کی صورت میں پاکستان میں پکڑے گئے۔ بھارت کے پاس اپنے وضعی محمد رانا، راجہ ، حمزہ اور حیدرکے صرف نام تھے جس کے بل پر اُس نے دنیا کو یقین دلا دیا کہ اس حملے کے پیچھے پاکستان ہیں۔ بغیر کسی اگوارے پچھواڑے کے ان ناموں کے متعلق بعد ازاں باضمیر بھارتی دانشور ارون دھتی رائے نے اپنی کتاب ’’Listening to grasshoppers ‘‘ میں لکھا:اگر ہمیں بتایا جاتا کہ ان کے نام ہیپی، باؤ نسی، لکی، جولی اور کڈان گامنی تھے اور ان کا تعلق اسکینڈے نیویا سے تھاتو ہم نے یہ بھی قبول کرلینا تھا‘‘۔یہ وہ دنیا ہے جس میں ہم رہ رہے ہیں۔
پاکستان کے اندر دہشت گردی کے اس مسئلے سے جڑے حقائق زیادہ خطرناک طور پر بھارت کی طرف متوجہ کرتے ہیں۔مثلاً بلوچستان کے وزیر داخلہ نے گزشتہ روز ایک پریس کانفرنس میں یہ انکشاف کیا کہ کراچی میں چینی قونصلیٹ پر بی ایل اے کے حملہ آوروں میں سے ایک نام وہ بھی ہے جو لاپتہ افراد کی فہرست میں شامل ہے۔ اگر چہ سارے لاپتہ لوگ ایسے نہیں مگر یہ ایک واقعہ ہے کہ کچھ افراد ایسے بھی ہیں جن کے ناموں پر بعض سیاسی جماعتیں مختلف اداروں کو دباؤ میں لینے کی کوشش کرتی ہیں جبکہ وہ ایک بڑے کھیل کے کل پرزے کی طرح کسی سازشی مشینری کے ذریعے حرکت میں آنے کے لیے خود ہی ’’غائب‘‘ بھی ہیں۔ یہ فقرہ کسی بھی طرح اُس سنگینی کو کم نہیں کرتا جو بے گناہ لوگوں کے لاپتہ ہونے کی صورت میں ریاستی اداروں پر ذمہ داری کا بوجھ ڈالتا ہے۔ وہ ہر بے گناہ کے غائب ہونے کے لیے جوابدہ ہیں اور قیامت تک رہیں گے۔ یہاں محض اس زیر بحث نکتے کو اجاگر کرنا تھا کہ لاپتہ افراد کے معاملے میں سب کچھ یک رخا نہیں۔ یہ ایک سنگین مسئلہ ہے کہ سیاسی جماعتیں جس مسئلے کی بنیاد پر حکومت یا ریاستی اداروں کے خلاف ایک دباؤ پیدا کرتی ہو، اُن میں شامل کچھ افراد دشمن کے ہاتھوں پاکستان کی سرزمین لہولہان کرنے کے لیے کہیں تربیت یا منصوبہ سازی کا حصہ بنے بیٹھے ہو۔ ایسی صورت میں سیاسی جماعتوں کے کردار کو زیادہ گہرائی سے پرکھنے کی ضرورت پیدا ہوجاتی ہے ۔ کہیں وہ اس مسئلے کے ساتھ خود کسی کھیل کا حصہ تو نہیں۔ آخر دہشت گردی اور دہشت گردوں کوبھی ایک سیاسی حمایت کی ضرورت ہوتی ہے۔ درحقیقت یہ صورتِ حال بھارت کے کردار کو زیادہ گہرائی سے تولنے ٹٹولنے کی ضرورت اجاگر کررہی ہے۔ اس سے جڑے کچھ پہلو اور بھارتی سازشوں کی تہہ داریوں پر بحث آئندہ کے لیے اُٹھا رکھتے ہیں۔ یہاں اس کا ماتم کرلیتے ہیں کہ پاکستان کے اندر سیاسی تعصبات اتنے قوی ہو گئے ہیں کہ یہ دشمن بھارت کو بھی نظرانداز کرنے پر مائل کردیتے ہیں۔خوش قسمتی سے چینی قونصلیٹ پر حملے نے دشمن کی بدترین ذہنیت کو سمجھنے کی ایک بار پھر تحریک پیدا کردی ہے۔


متعلقہ خبریں


مضامین
صدر رئیسی کا رسمی دورۂ پاکستان اور مضمرات وجود جمعه 26 اپریل 2024
صدر رئیسی کا رسمی دورۂ پاکستان اور مضمرات

سیل ۔فون وجود جمعه 26 اپریل 2024
سیل ۔فون

کڑے فیصلوں کاموسم وجود جمعه 26 اپریل 2024
کڑے فیصلوں کاموسم

اسکی بنیادوں میں ہے تیرا لہو میرا لہو وجود جمعه 26 اپریل 2024
اسکی بنیادوں میں ہے تیرا لہو میرا لہو

کشمیری قیادت کا آرٹیکل370 کی بحالی کا مطالبہ وجود جمعه 26 اپریل 2024
کشمیری قیادت کا آرٹیکل370 کی بحالی کا مطالبہ

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر