وجود

... loading ...

وجود
وجود

بلوچستان، سیاسی نیرنگیاں

منگل 13 نومبر 2018 بلوچستان، سیاسی نیرنگیاں

وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان عالیانی بہت ساری خوبیوں اور صلاحیتوں کے مالک ہیں۔ نواز شریف کی حکومت میں ان کے پاس وزیر مملکت برائے پیٹرولیم و قدرتی وسائل کا قلمدان تھا۔ اس وزارت کے دوران اپنے دامن کو بُرائیوں سے بچائے رکھا۔ گو کہ مقتدرہ کے زیر اثر ہیں۔ جس سے شاید ہی کوئی بچا ہو، ہر ایک کسی نہ کسی لحاظ کے تحت زیر اثر ہی رہا ہے۔ سیاست و قیادت میں رائے، سوچ اور فیصلوں میں خود اختیاری لازم ہے۔ اگر ایسا نہ ہو تو قیادت آپ سے آپ ڈھیر ہوجائے گی۔ ہمیں معلوم ہے کہ جام کمال پھونک پھونک کر قدم اْٹھا رہے ہیں۔ احتیاط بہرحال لازم ہے، مگر ضروری ہے کہ ترجیحات و اہداف کی سمت قدم تیز گام اٹھائے جائیں۔ وقت کا ضیاع نہ ہونے دیا جائے۔ وگرنہ پھر قلیل وقت میں اس کی تلافی ممکن نہ ہوگی۔ ڈاکٹر عبدالمالک اور نواب ثناء اللہ زہری کی حکومتوں کی نظیر موجود ہے۔ جن پر عدم اعتماد کا وار ہوا تو ان سے جائز احتجاج تک نہ ہوسکا۔ عوام مطمئن نہ تھے، ان کے ذہنوں میں یہ بات بیٹھ چکی تھی کہ مخلوط حکومت کارکردگی نہ دکھا سکی۔ یہ حقیقت اپنی جگہ کہ عدم اعتماد کی تحریک کے ذریعے منتخب حکومت گرائی گئی۔ عوام کے مینڈیٹ کی توہین کی گئی، جس کے بعد بلوچستان حکومت بچوں کا کھیل بن گئی۔ جسے تین چار بندے چلانے لگے۔ گویا جو حکومت نعم البدل بنی، اس سے بڑھ کر بلوچستان کی بد قسمتی اور کیا ہو سکتی ہے!۔
سینیٹ انتخابات اور نگران وزیراعلیٰ کا تماشا الگ داستان ہے۔ ترتیب و معیار کا خیال پچھلی حکومت نے بھی نہ رکھا۔ عبدالقدوس بزنجو اور ان کے شریک اقتدار دوست دو ہاتھ آگے بڑھ گئے۔ حکومتی مشینری میں کئی معاونین داخل کردیے۔ کوئی مشیر، کوئی وزیراعلیٰ کا پولیٹیکل سیکرٹری، کوئی اسپیشل اسسٹنٹ توکوئی کوآرڈینیٹر مقرر کیا گیا۔ غالباً یہ تعداد سترہ اٹھارہ نفوس پر مشتمل تھی، جن پر حکومتی مراعات کے دروازے وا کردیے گئے۔ سو اب پھر معاونین خصوصی لینے کی باتیں ہو رہی ہیں، بلکہ اس ضمن میں بلوچستان اسمبلی کے 29اکتوبر کے اجلاس میں ایوان میں مسودہ قانون تک پیش کیا گیا۔ حزب اختلاف نے اس پر احتجاج کیا۔ جام کمال کو معاونین خصوصی کی تعیناتی کی اسمبلی سے منظوری اور قانون کا حصہ بنانے کی ضرورت اس لیے پڑی ہے کہ اْنہیں دراصل اپنی جماعت اور اتحادیوں کے دباؤ کا سامنا ہے۔ خود ان کی جماعت کے ایسے کئی لوگ ہیں جو حکومت میں حصہ چاہ رہے ہیں۔ جام کمال کو چار و ناچا ر ان کے لیے کچھ کرنا پڑ رہا ہے۔ وگرنہ ان کی جماعت کے اندر بعض لوگ ان کو وزارت اعلیٰ کے منصب پر ایک لمحہ بھی دیکھنا نہیں چاہتے۔ انہی لوگوں نے ہی عدم اعتماد اور فارورڈ بلاک کی باتوں کی تشہیر کرادی۔جو چند لوگوں نے بی اے پی (باپ) تنظیم سازی کا نام نہاد سلسلہ شروع کر رکھا ہے، اس میں بھی جام مخالف عناد جھلکتی ہے۔ مقصد جام سے اپنی باتوں کو منوانا ہے۔ جام کمال ان کے سامنے بچھ گئے، توکوئی ڈھنگ کا کام نہیں کر سکے گا۔ جام کو چاہیے کہ ان چہروں اور ارادوں کو بے نقاب کرنے میں مصلحت کا شکار نہ ہوں۔ کوئی ایسا قدم نہ اٹھائیں کہ جس سے حزب اختلاف کے اندر ان کے خلاف رائے میں شدت آئے۔ حزب اختلاف نے ایک بار عدم اعتماد کی تحریک کا عندیہ دیا ہے مابعد کہا کہ ایسا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ تاہم میرا اب بھی یقین ہے کہ جام کمال کو حزب اختلاف کے بجائے اپنے لوگوں کی تخریب کا سامنا ہے۔ ویسے حزب اختلاف کو ایسی نیت ظاہر کرنے سے پہلے تھوڑی سی حیا کرنی چاہیے، کہ یہی بی این پی و جے یوآئی ف تھی کہ جس نے ن لیگ، نیشنل پارٹی اور پشتونخوا میپ کی حکومت گرانے میں باپ کے ’’کل پرزوں‘‘ کا ہر طرح سے ساتھ دیا۔ پھر وفاداریوں کی تبدیلی کا سلسلہ چل پڑا، اور بلوچستان عوامی پارٹی بنائی گئی۔
نواب اسلم رئیسانی نے 29اکتوبر کو اسمبلی میں اپنے پہلے انتخاب ہی میں عام انتخابات میں دھاندلی پر بات کی۔ ان کے الفاظ یہ تھے کہ ’’ کس طرح برگیڈیئر صاحب نے انتخاب لڑوایا اور کتنی دھاندلی کئی گئی‘‘۔ یہ بھی کہا کہ ’’اغواء برائے ووٹ کے واقعات بھی ہوئے‘‘۔ نواب رئیسانی کو چاہیے تھا کہ وہ بلوچستان نیشنل پارٹی، جمعیت علماء اسلام ف، عوامی نیشنل پارٹی اور بی این پی عوامی کو بھی مخاطب کرتے۔ عام انتخابات سے قبل ہی یہ ساری جماعتیں ایک صف اور اْس مکروہ کھیل کا حصہ بن گئی تھیں۔ نیرنگی یہ کہ پھر ان سب جماعتوں نے نئی بننے والی جماعت باپ پر اسٹیبلشمنٹ کے طعنے کسنا شروع کردیے!۔ کہنا یہ چا ہ رہا ہوں کہ دراصل یہ جماعتیں، نیشنل پارٹی اور پشتونخوا میپ کو بڑی برائی سمجھ کر باپ والوں کی قیادت میں اکٹھی ہوگئی تھیں۔ لہٰذا بدیہی طور پر یہ جماعتیں بھی مخفی در و بست میں شریک تھیں، اور اپنا اپنا مقصد پالیا۔ اگر ایسا نہیں تو پھر بتایا جائے کہ یہ سب کچھ کس کی نیابت میں کیا گیا؟نواب رئیسانی یقینی طور پر بھائی کی موت کے صدمے سے دوچار ہیں۔ ان کے لیے مسائل بنائے گئے ہیں۔ خاندان کے اندر دراڑ پیدا کرنے کی کوششیں ہوئی ہیں۔ لشکری رئیسانی کہہ چکے ہیں کہ بھائی کے تعزیت کے دوسرے ہی دن اُن کی ’’نیب‘‘ میں طلبی ہوئی۔ بہر کیف دھونس دھمکی کا الزام حالیہ ضمنی انتخاب میں سردار اختر پر بھی لگا۔ سردار اختر مینگل کے گھر پر حملے کی کوشش کا دعویٰ بی این پی کی جانب سے نہیں ہونا چاہیے تھا، سیاسی مخالفت کو بلاوجہ دہشت گردی کا رنگ د یا گیا۔ کیوں کہ آنے والے حقائق بی این پی کے الزامات کے برعکس واقع ہوئے ہیں۔ 30اکتوبر کے اخبارات میں ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ اور سینیٹر حاصل بزنجو کے خلاف نیب کی جانب سے انکوائری کے آغاز کی خبر چھپی۔ جس کی نیشنل پارٹی نے مدافعت کی ہے۔ ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا۔ صوبے کے حالات مثبت سیاسی رجحان کے متقاضی ہیں۔ سیاسی جماعتیں مخالفت کی راہ پر ہوں گی تو اس کا فائدہ لا محالہ فیڈریشن مخالف عناصر اٹھائیں گے۔


متعلقہ خبریں


مضامین
صدر رئیسی کا رسمی دورۂ پاکستان اور مضمرات وجود جمعه 26 اپریل 2024
صدر رئیسی کا رسمی دورۂ پاکستان اور مضمرات

سیل ۔فون وجود جمعه 26 اپریل 2024
سیل ۔فون

کڑے فیصلوں کاموسم وجود جمعه 26 اپریل 2024
کڑے فیصلوں کاموسم

اسکی بنیادوں میں ہے تیرا لہو میرا لہو وجود جمعه 26 اپریل 2024
اسکی بنیادوں میں ہے تیرا لہو میرا لہو

کشمیری قیادت کا آرٹیکل370 کی بحالی کا مطالبہ وجود جمعه 26 اپریل 2024
کشمیری قیادت کا آرٹیکل370 کی بحالی کا مطالبہ

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر