وجود

... loading ...

وجود
وجود

کراچی کی نمائندگی کا کیا ہوگا؟؟

پیر 12 نومبر 2018 کراچی کی نمائندگی کا کیا ہوگا؟؟

متحدہ قومی موومنٹ پر ہرگزرتاد ن تنگ سے تنگ ہوتا جارہا ہے۔ بانی متحدہ کے خود کش حملے نے اسے ٹکڑوں میں تقسیم کردیا ۔ ایم کیوایم کے ساتھ اب وہی کچھ ہورہا ہے جو کبھی ایم کیوایم نے کراچی اور اہلِ کراچی کے ساتھ کیا تھا۔ ہر ایک کا سانس بند کرنے اور ہر ایک پر زمین تنگ کردینے والی متحدہ اب اسی انجام سے دوچار ہے۔ایم کیوایم کے لیے ان دنوں سب سے بڑا چیلنج کراچی کی بکھرتی اور پھسلتی نمائندگی ہے۔ مگر وہ اس چیلنج سے آنکھیں چار نہیں کرپارہی۔ کیونکہ وہ فوری بحرانوں سے خود کو نکالنے کی بصیرت اور قوت سے محروم ہوتی جا رہی ہے۔ ایم کیوایم کی متحدہ قوت دراصل ایک خوف کا نتیجہ تھی۔ اس کے علاوہ اسے باندھ کر رکھنے والی کوئی دوسری قوت نہ تھی۔ اختلاف رائے کا مطلب بغاوت اور بغاوت کا مطلب خوامخواہ موت کی دعوت تھا۔ یہ خوف غائب ہوا تو اس جماعت کو باندھ کر رکھنے والی رسی بھی کہیں کھوگئی۔
ایم کیوایم اب جسد واحد نہیں ۔بانی متحدہ کے معدوم ہونے کے بعد باقی ماندہ قیادت یہ فیصلہ نہیں کرپائی کہ نئے حالات میں جماعت کو کیسے چلایا جائے۔ ایم کیوایم کو جسدِ واحد کے طور پر رکھنے کا فارمولا یعنی خوف کا ہتھیار صرف اور صرف بانی متحدہ کے پاس تھا۔ ایسا کوئی دوسرا ہاتھ نہ تھا جس کی انگلی سے یہ ہتھیار چلتا۔ چنانچہ نئے حالات میں ایک سیاسی جماعت کے تیور اختیار کرنے میں متحدہ بالکل ناکام رہی۔ وہ اپنے ہی ماضی کی اسیر رہی اور مستقبل کو عظمتِ رفتہ کی بحالی کے کسی موقع میں ڈھونڈتی رہی۔ ایسا کوئی موقع اب ایم کیوایم کو ملنے والا نہیں تھا۔ یہ بات متحدہ کی’’ تتر بتر‘‘ قیادت کے بروقت احاطۂ ادراک میں نہیں آسکی۔ خوف کی قیادت ختم ہوگئی تھی اور اردوبولنے والوں سمیت کسی بھی طبقے میں ایم کیوایم کے پاس پزیرائی کے لیے اخلاقی ساکھ نہیں تھی۔وہ سمٹ رہی ہے اور بتدریج سمٹتی چلی جائے گی۔ تاریخ میں ناکام ہونے والی قوتوں کا پتہ ایسے چلتا ہے کہ وہ اپنے اصل چیلنجوں سے آگاہ نہیں رہتی۔ ایم کیوایم کا ماجرا بھی یہی ہے۔ ڈاکٹر فاروق ستار کا معاملہ بھی اسی نوع کا بحران ہے۔
متحدہ قومی موومنٹ کی رابطہ کمیٹی نے گزشتہ دنوں ایک اجلاس میں فاروق ستار کو جماعت سے نکال باہر کیا۔ اس سے قبل ڈاکٹر فاروق ستار اپنی جماعت کے لیے مسلسل بحرانوں کی تخلیق کا باعث بنتے رہے۔ اُن پر رابطہ کمیٹی کے ارکان یہ اعتراض عائد کرتے ہیں کہ وہ بانی متحدہ کی طاقت حاصل کرناچا ہتے تھے۔ ایم کیوایم کی رابطہ کمیٹی میں اب بھی ایسے افراد موجود ہیں جن پر بانی متحدہ سے رابطوں کے شواہد موجود ہیں۔ پھر بانی متحدہ کو حاصل اختیارات اُنہیں کسی نے دیے نہیں تھے، وہ اُنہوں نے خود حاصل کیے تھے۔ یوں بھی اختیارات مانگنے والا شخص دراصل اُن اختیارات کا اہل نہیں ہوتا۔ اختیارات کوئی دیتا نہیں یہ مقناطیس کی طرح مرتکز ہوتے اور کھنچتے چلے جاتے ہیں۔ فاروق ستار اس اعتبار سے اپنی کشش ثابت نہیں کرسکے۔ دوسری طرف رابطہ کمیٹی جن ’’اشاروں‘‘ پر حرکت کرتی تھی وہ فاروق ستار کے موافق نہ تھے۔ فاروق ستار کامران ٹیسوری کے نرغے میں رہے اور رابطہ کمیٹی کے حلقے سے نکلتے چلے گئے۔
ڈاکٹر فاروق ستار اس کا بخوبی ادراک کرچکے ہیں۔ چنانچہ اُنہوں نے اپنی سرگرمیوں میں رابطہ کمیٹی کے کسی ردِ عمل یا ناراضی کی پرکاہ پروا نہیں کی۔فاروق ستار کی طرف سے اس رویہ کی وجہ کیا ہے، کیا یہ کسی سیاسی متبادل کی موجودگی کا نتیجہ ہے؟مختلف حلقوں میں یہ بات زیر گردش ہے کہ ڈاکٹر فاروق ستار نے خاموشی سے ایک نئی جماعت کی نیو اُٹھانا شروع کردی تھی۔وہ ایم کیوایم کا’’ ورثہ‘‘ اُس کے نظریاتی تشخص ( جو بجائے خود کوئی زیادہ خوشگوار نہیں) سے وابستہ منتشر عناصر کے اکٹھ میں دیکھنا چاہتے ہیں۔ اس تلاش میں وہ ایم کیوایم کے عشروں پرانے ساتھیوں تک پہنچتے جارہے ہیں۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اس طرح وہ کوئی ہلچل پیدا کرنے میں کسی حدتک کامیاب ہو جائیں گے۔ مگر تابکے؟سیاست میں ایک لمبی اننگ کا وقت اب ان کے پاس نہیں رہا۔ پھر ایم کیوایم اپنے اعمال کے ساتھ کراچی اور خود اُردو بولنے والوں کے لیے ایک بوجھ بن چکی ہے۔ ماضی اس کے تعاقب میں ہے۔ اور مستقبل اُن سے دوستی پر آمادہ نہیں۔ ایسے میں یہ کیا کرپائیں گے؟یہ ایک سوال ہے ، جس کا جواب کسی کے پاس نہیں۔
اُدھر ایم کیوایم کے لیے زمین بھی مسلسل تنگ ہوتی جارہی ہے۔ ہر نیا انتخاب اسے پسپا کرتا جائے گا۔ پھر احتساب کی تلوار بھی اس پر لٹکی رہے گی۔ایف آئی اے کے پاس منی لانڈرنگ اسکینڈل کے ثبوت اس جماعت کی قیادت کے بڑے حصے کا صفایا کرنے کے لیے کافی سے بہت زیادہ ہیں۔ باخبر اور موثر حلقوں سے بات کرنے پر پتہ چلتا ہے کہ ان میں سے اکثر کی سیاست اب اپنے دفاع کے لیے باقی رہ گئی ہے۔ ایف آئی اے کی پیش قدمی جاری ہے۔ اگلے چند ہفتوں میں ایم کیوایم کے حوالے سے مزید کچھ اقدامات کی توقع کی جارہی ہے جو ایک بھیانک مستقبل کی دستک ہے۔اس دوران میں ایم کیوایم کے پاس یہ سوچنے کے لیے بہت وقت کم رہ جائے گا کہ کراچی کی نمائندگی کا مستقبل کیا ہوگا؟
اس تناظر میں ایک اطلاع کو بھی دھیان میں رکھیں۔سعودی عرب سے شائع ہونے والے ایک اخبار نے رپورٹ دی ہے کہ پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری سندھ کے شہری و دیہی علاقوں کی منتشر سیاسی قوتوں کو ایک تیسری سیاسی قوت میں ڈھالنے کے لیے صلاح مشوروں میں مصروف ہیں۔ اس طرح وہ سندھ کے شہری ودیہی مینڈیٹ کو تحریک انصاف کی دستبرد سے محفوظ رکھنا چاہتے ہیں۔ آصف زرداری کا یہ خیال دراصل ایک خاص طرح کی ذہنیت کی پیداوار ہے جس میں حامی ومخالف کھیلنے والے تمام ہی کھلاڑی دراصل ایک ہی قوت کے لیے کھیل رہے ہوتے ہیں۔ یوں ایک طرف پیپلزپارٹی اور متحدہ ہو ، تو دوسری طرف اپنی ہی تشکیل کردہ تیسری متبادل سیاسی قوت ۔اس طرح ایک دوسرے کے خلاف جیتنے والے سب آئندہ کے اتحادی ہو اور تحریک انصاف کی راہ میں مزاحم۔ یہ ایک بعید از قیاس راستا ہے۔ کیونکہ خود آصف علی زرداری کے لیے اپنے اس نادر منصوبے پر کام کرنے کے لیے زیادہ وقت نہیں۔ وہ خود بھی ہتھکڑیوں کی آواز سن رہے ہیں۔ اگلے چند ہفتوں میں اُن کی گرفتاری متوقع ہے۔ باخبر حلقوں میں یہ بات زیرِگردش ہے کہ آصف زرداری کی گرفتاری کے لیے متعلقہ حلقوں میں مطلوبہ غوروفکر کر لیا گیا ہے۔ بس تاریخ کا تعین کیا جارہا ہے۔ اگر یہ درست ہے تو سیاسی خلاء کراچی سے سندھ تک محیط تر ہوگا۔ اور سندھ اسمبلی کا مستقبل بھی داؤ پر ہوگا۔ کچھ حلقوں کا خیال ہے کہ ایک’’ اِن ہاؤس ‘‘ تبدیلی کا ہوم ورک بھی مکمل کیا جاچکا ہے۔
پاکستان کس راستے پر جارہا ہے، ابھی اس حوالے سے کوئی حتمی بات کرنا ممکن نہیں۔ مگر ایک بات طے ہے کہ پرانی سیاست کے سارے سانچے ایک ایک کرکے توڑے جارہے ہیں۔ ایک نئے عہد کا گجر بج رہا ہے۔ مگر سب سوالوں کا ایک سوال اپنی جگہ باقی ہے کہ کراچی کی نمائندگی کا کیا ہوگا؟؟؟


متعلقہ خبریں


مضامین
پڑوسی اور گھر گھسیے وجود جمعه 29 مارچ 2024
پڑوسی اور گھر گھسیے

دھوکہ ہی دھوکہ وجود جمعه 29 مارچ 2024
دھوکہ ہی دھوکہ

امریکہ میں مسلمانوں کا ووٹ کس کے لیے؟ وجود جمعه 29 مارچ 2024
امریکہ میں مسلمانوں کا ووٹ کس کے لیے؟

بھارتی ادویات غیر معیاری وجود جمعه 29 مارچ 2024
بھارتی ادویات غیر معیاری

لیکن کردار؟ وجود جمعرات 28 مارچ 2024
لیکن کردار؟

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر