وجود

... loading ...

وجود
وجود

گوادر میں ایشیائی پارلیمانی اسمبلی کا اجلاس

منگل 06 نومبر 2018 گوادر میں ایشیائی پارلیمانی اسمبلی کا اجلاس

گوادر کے گہرے پانی کی بندرگاہ کی شہرت و چرچا دنیا بھر میں ہے ۔ یہ بندرگاہ تاحال پوری طرح فعال نہیں۔ آمرپرویز مشرف کے دوراقتدار میں کوسٹل ہائی وے کی تعمیر مکمل ہوئی۔ یہ منصوبہ ان سے قبل میاں نواز شریف کی حکومت کے پیش نظر تھا۔ چنانچہ پرویز مشرف کے دور میں چند دیگر شاہراہوں پر( جو گوادر کو ملک کے دوسرے علاقوں سے منسلک کرتی ہے) پیشرفت ہوئی۔ کوسٹل ہائی وے کی تکمیل بلاشبہ ایک بڑا اقدام تھا۔ گوادر پورٹ کی تعمیر، انتظام و انصرام پورٹ آف سنگا پور کو ایک معاہدے کے تحت چالیس سال کے لیے دیا گیا۔ سست روی اور صوبے کے مفاد کی خاطر نواب اسلم رئیسانی کی حکومت نے پورٹ آف سنگاپور سے معاہدہ کی تنسیخ کردی ۔الغرض چین سیندک کے سونے اور کاپر منصوبے پر پہلے ہی کام کررہا تھا۔ ہوا یہ کہ حکومت پاکستان نے گوادر کے حوالے سے چین سے مر بوط معاہدہ کرلیا۔ چنانچہ چینی شراکت سے کافی حد تک کام آگے بڑھایا گیا۔
چین پاکستان اکنامک کاریڈور کے تحت طویل مدتی منصوبوں اور شراکت داریوں پر باہمی معاہدے ہوئے ۔ گویا یہ چھوٹا وپسماندہ شہر یا یوں کہیے کہ مچھیروں کی یہ بستی، سی پیک اور اپنے گہرے پانیوں کی بندرگاہ کے باعث دنیا بھر کیلئے اجنبی نہ ر ہی ۔ پچھلے دنوں یعنی29 سے 31اکتوبر کو گوادر میں زبردست ہلچل رہی ۔ جہاں ایشیائی پارلیمنٹرین اسمبلی کی کمیٹی برائے سیاسی امور اور ایشیائی پارلیمان کے قیام کے حوالے سے خصوصی کمیٹی کا تین روزہ اجلاس ہوا۔ اس اہم اجلاس کی خاطر بڑے پیمانے پر انتظامات کیے گئے تھے۔ 28اکتوبر کو بین الاقوامی مندوبین گوادر پہنچنے لگے۔ شہر گوادر کو استقبالی جھنڈیوں اور خوش آمدیدی کلمات سے آراستہ و مزین کیاگیا تھا۔ ان مہمانوں کے لیے جگہ جگہ اور خوبصورت روایتی و ثقافتی پروگرام کا بندوبست کیا گیا تھا۔ بین الپارلیمانی یونین کے سیکریٹری جنرل’’ مارٹن چو گانگ‘‘ اور ایشیائی پارلیمانی اسمبلی کے سیکریٹری جنرل محمد رضا ماجدی ،بین الا قوامی پارلیمانی یونین اور ایشیائی پارلیمانی سیکریٹریٹ کے نمائندوں سمیت26ممالک کے 100سے زائد مندوبین گوادر کی اس کانفرنس میں شریک ہوئے۔ یہ امر یقیناًاطمینان بخش ہے کہ مختلف ممالک جیسے ترکی، شام، قطر، بحرین، انڈونیشیا،چین، اردن اور دوسرے ملکوں کے نمائندوں کی شرکت یقینی بنائی گئی۔ چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی ، اراکین سینیٹ ، گورنر بلوچستان امان اللہ خان یاسین زئی اور وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان عالیانی مہمانوں کے استقبال کے لیے موجود تھے۔ گویا یہ اہم نشست تھی جو گوادر کی نئی اور بدلتی صورتحال میں رکھی گئی۔ حکومت پاکستان کی طرف سے ایشیائی ممالک کے مابین ویزے کی پابندیوں کے ختم ہونے کی صائب تجویز پرتوجہ دلائی گئی۔ اب یہ پاکستان اور بلوچستان کی حکومتوں پر منحصر ہے کہ وہ اپنی اس بندرگاہ کو ملک اور صوبے کی معیشت اور اقتصاد کی ترقی کیلئے استعمال کرتی ہے اور یہاں حالات ایسے سازگار بنائے جاتے ہیں کہ دنیا بھر کے سرمایہ کار کسی ہچکچاہٹ و تحفظات کے بغیر بلوچستان کا رخ کریں۔
گوادر میں غیر ملکی سرمایہ کاری کے وسیع مواقع پائے جاتے ہیں۔ چناں چہ ایشیائی پارلیمانی اسمبلی اور بین الپارلیمانی یونین کے مابین تعاون کو مزید فروغ دینے میں دلچسپی لینے کی ضرورت ہے، تاکہ ایشیائی پارلیمانی اسمبلی کے مقاصد کو یکسوئی سے آگے بڑھایا جا سکے۔ کثیر القومی پارلیمان کی میزبانی پاکستان کیلئے اعزاز کی بات ہے۔ ضروری ہے کہ سیاسی استحکام پر ہمہ پہلو توجہ دی جائے تاکہ گوادر یا بلوچستان کے حوالے سے کسی طرح کا تذبذب نہ رہے۔ اس امر میں دو رائے نہیں کہ گوادر ملک کی معیشت کے شاندار و پائیدار مستقبل کا مرکز ہے۔ یہ بندرگاہ مشرق وسطیٰ اور یورپ تک تجارتی سرگرمیوں کو فروغ دینے میں مددگار ثابت ہوگی۔ گوادر کو جنگی بنیادوں پر کشادہ سڑکوں کے ساتھ منسلک کرنے کی ضرورت ہے ۔ صوبے کے جن علاقوں میں اقتصادی زونز بنانے کی منصوبہ بندی کی گئی تھی، پر جلد سے جلد کام اور اس کی تکمیل یقینی بنائی جائے۔ گوادر کو سڑکوں کے ساتھ ریل کے ذریعے بھی ملک کے دوسرے حصوں سے جوڑا جائے۔ افغانستان اور ایران کی سرحد تک ریلوے لائنیں بچھائی جائیں ۔اور بلا تاخیر صوبے میں فنی ادارے قائم کیے جائیں۔گویا صوبے کے اندر سی پیک کے ثمرات بر سر زمین دکھائی دینے چاہئیں۔ یہاں روزگار ، صحت، تعلیم، پینے کے صاف پانی اور دوسری بنیادی معاشرتی ضروریات بہم پہنچائی جائیں گی، تو ہمہ پہلو مثبت اثرات مرتب ہوں گے ۔ یہ بات یاد رہنی چاہیے کہ صوبے اور یہاں کے عوام کا مفاد نظر انداز ہو گا، اس سے لا محالہ مشکلات پیدا ہوں گی ۔صوبے اور مرکز کے درمیان اعتماد کی فضاء اس بڑے تجارتی ، اقتصادی اور معاشی منصوبوں پر اثرانداز ہوگی۔ یقیناًبین الاقوامی حالات کے تناظر میں ایشیائی مملکتی ہم آہنگی اور اقتصادی یکجہتی وقت کی اہم ضرورت ہے۔ اچھا ہو تا کہ اگر اجلاس میں بلوچستان اسمبلی کے اراکین کی شرکت بھی ہوتی،جس کا اسمبلی کے فلو رپر حزب اختلاف کی جانب سے شکوہ بھی ہوا۔


متعلقہ خبریں


مضامین
ٹیپو سلطان شیرِ میسور آزادی ِ وطن کا نشان اور استعارہ وجود جمعرات 25 اپریل 2024
ٹیپو سلطان شیرِ میسور آزادی ِ وطن کا نشان اور استعارہ

بھارت بدترین عالمی دہشت گرد وجود جمعرات 25 اپریل 2024
بھارت بدترین عالمی دہشت گرد

شادی۔یات وجود بدھ 24 اپریل 2024
شادی۔یات

جذباتی بوڑھی عورت وجود بدھ 24 اپریل 2024
جذباتی بوڑھی عورت

تمل ناڈو کے تناظر میں انتخابات کا پہلامرحلہ وجود منگل 23 اپریل 2024
تمل ناڈو کے تناظر میں انتخابات کا پہلامرحلہ

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر