وجود

... loading ...

وجود
وجود

اوراقِ تاریخ سے ایک سبق

بدھ 31 اکتوبر 2018 اوراقِ تاریخ سے ایک سبق

خوارزم شاہی سلطنت ایشیاء کی سب سے بڑی مملکت تھی ۔جس کی فرمانروائی سلطان محمد خوارزم شاہ کے پاس تھی ۔ سلطان محمد خوارزم شاہ جلال الدین خوارزم کے والد تھے ۔ اُدھر انسانی تاریخ کے سفاک کردار، تہذیب انسانی سے نا بلدچنگیز خان منگول ،چین ، تمخاج، ترکستان کی بالائی منطقوں تک رسائی کے بعد آگے کی جانب بڑھنے کی تدبیر و سوچ بچار میں لگا تھا۔ سلطان محمد خوارزم کی سلطنت و فرماں روائی قرب و جوار کی حکومتیں متاثر و مرعوب تھیں۔ اس کشش کا اسیر چنگیز خان بھی تھا۔ شان و عروج کے ان ایام میں سلطان محمد خوارزم شاہ نے ایک حکومتی وفد جس میں ایک بزرگ ،عامل ، سید بہاء الدین رازی بھی شامل تھے ، چنگیز خان کے پاس بھیجا۔ چنگیز خان سلطان محمد خوارزم شاہ کی جانب سے اس خیرسگالی پر نہایت ہی مسرور ہوا۔اپنے درباریوں کو حاضر ہونے کا کہا ، وہ اکٹھے ہوئے تو انہیں مخاطب کیا کہ دیکھو میری بادشاہی و بزرگی اس اونچے پیمانے پر پہنچ گئی ہے کہ اُس ملک کے بادشاہ نے میرے پاس سفیر بھیجے ہیں کہ جہاں سورج ڈوبتا ہے ۔ چنگیز خان نے بھی دونوں مملکتوں کے درمیان دوستی اور تجارتی تعلقات کے استحکام کا پیغام بھیجا۔ مورخین لکھتے ہیں کہ چنگیز خان نے پہل کرتے ہوئے پانچ سو اُونٹوں پر مشتمل تجارتی قافلہ خوارزم روانہ کر دیا ۔ سونا ،چاندی،ریشم اور دیگر قسم قسم کی نفیس و قیمتی چیزیں اُونٹوں پر لدی ہوئی تھیں۔تجارتی قافلے میں سفیر و تاجر بھی شامل تھے ۔ قافلہ سلطان اور خوارزم کی سلطنت میں داخل ہوا۔ ’’اترا‘‘کہ ایک حاکم قدر خان جس کا نام مورخین غاکر خان بھی بتاتے ہیں ۔ مال و دولت دیکھ کر اس کے دل میں حرص پیدا ہوئی اور قافلہ آگے بڑھنے نہ دیا۔ سلطان خوارزم کو اطلاع بھیجی کہ دراصل تجارتی قافلے کے ذریعے چنگیز خان اپنے جاسوس بھیج چکا ہے اور یہ لوگ مستوجب ہلاکت ہیں ۔سلطان محمد خوارز م اس حریص کی باتوں میں آکر یوں گمراہ ہوگئے کہ بلا مزیدتحقیق کے قدر خان کوکارروائی کرنے کی اجازت دے دی۔جس نے بلا تامل ان سفیروں اور تاجروں کو قتل کر دیا۔ صرف ایک ’’ساربان‘‘ زندہ بچ نکلنے میں کامیاب ہوا۔ جس نے پہنچ کر چنگیز خان کو اس خونریزی کی داستان سنا دی۔ چنگیز خان نے انتقامی اقدام سے قبل قدر خان کی حوالگی کا مطالبہ بھیجا۔چوں کہ قدر خان کا خاندان حکومت اور فوج میں اعلیٰ عہدوں پر موجود تھے ۔ چنانچہ شاہ نے ان کی خفگی کے پیش نظر قدر خان کے حوالگی سے انکار کر دیا۔ اب چنگیز خان اپنی وحشی تاتاری افواج کے ساتھ سلطان خوارزم شاہ اور اس کی سلطنت کی اینٹ سے اینٹ بجانے کے لیے نکل کھڑا ہوا۔ جہاں پہنچتا وہاں زمین کو ذات آدم سے پاک کرتا۔ سمر قند، بخارا اور دوسرے منطقوں میں کشت و خون، لوٹ مار اور اسے تاراج کرتا ہو ا مسلسل آگے بڑھتا گیا۔ خوارزم شاہی پر قیامت ٹوٹ پڑی۔ سلطان محمد خوارزم کی افواج تاتاری لشکر کے سامنے بے بس ہو گئی ۔ سلطان پر تاتاریوں کو ایسا خوف طاری ہوا کہ قر یہ قریہ چھپتا پھرتا رہا۔ اور اسی عالم میں وفات پا گیا۔ سلطان کے فرزند جلا ل الدین خوارزم شاہ نے بہر حال تاتاریوں کا مقابلہ کیا۔ چنگیز خان نے اس کی جرأت اور بہادری کی تعریف بھی کی۔مگر شہزادہ جلال الدین بھی چنگیزی آفت کے سامنے زہادہ ٹہر نہ سکا۔ شاہی خاندان کی خواتین تک چنگیز خان کی قیدی بن گئی تھیں۔ تاتاریوں نے بخارا میں بے شمار لوگوں کو قتل کیا ۔ علماء ،فضلاء و فقہا مارے گئے ۔ علمی ذخیرے تباہ کر دیے ۔ ایک روایت ہے کہ فتنہ تاتار کی وجہ سے امام رکن الدین امام زادہ کا وقت آخر آیا تو انہوں نے یہ رباعی کہی ،
گفتم کہ دلم ؟گفت کہ خوں کردہ ماست
گفتم جانم؟گفت کہ در پردہ ماست
(میں نے کہا کہ میرا دل؟ محبوب نے کہا وہ ہمارا خون کیا ہوا ۔میں نے کہا ،میری جانِ ؟محبوب نے فر مایا ،وہ ہمارے پردے میں ہے )
گفتم کہ سگ کومے تو درماافتاد
گفتا مزن این دم کہ فرا کردہ ماست
( میں نے کہا کہ آپ کے کوچے کا کتا ہم پر حملہ آور ہوا ہے ۔محبوب نے کہا کہ دم نہ مار یعنی کوئی بات نہ کہہ کیونکہ سب کچھ ہمارا کیا ہوا ہے )
گویا ایک شخص کی ہوس زر و دولت کی وجہ سے مدتوں تاتاری عذاب و فتنہ بلاد مسلم پر مسلط رہا۔ یہاں تک کہ چنگیز خان کے پوتے ہلاکو خان نے بغداد کی سلطنت کو بھی کھنڈرات میں تبدیل کر دیا۔ امیر المومنین مستعصم باللہ اذیت وبے عزتی کی موت مارے گئے ۔ غدار وزیر اعظم احمد العلقمی جوباوجود ہلاکو خان کا مخبر و معاون ہونے کے قتل کر دیے گئے۔ بغداد میں علم و ہنر کا ہر گہوارہ تہس نہس کر دیا گیا۔ تاتاری ترکستان و خراسان، ایران ، عراق عجم ، عراق عرب ، شام بلکہ مصر کی سرحدوں تک پہنچ گئے ۔ نہ صرف خوارزم شاہی سلطنت برباد ہوئی بلکہ مسلمانوں کے چھ سو سالوں سے علم ،دولت اور ہنر مندی کے جمع کیے گئے تمام ذخیرے برباد ہو گئے۔تاریخ دانوں نے لکھا ہے کہ اس مدت میں محض انسانی جانوں کا اتلاف 80لاکھ ہوا۔ ایک حکومتی عہدیدار کی ذات کی نفع و طمع اس تباہی اور برباد ی کا موجب بنا۔تاریخ کی یہ حقیقی و المناک داستان حکومتوں اور حکمرانوں کے لیے سبق آموز ہے کہ کس طرح وزیر مشیر اور مصا حبین بعض اوقات بڑی تباہی کو دعوت دیتے ہیں ۔تاریخ کے یہ کربناک وروح فرسااوراق پڑھتے ہوئے سوچا کہ ہر دور کے حکمرانوں کو تاریخ کے اس سبق کو سامنے رکھنا چاہیے ۔کیوں نہ وہ آج کی عمران کی حکومت و اقتدار ہوکہ کہیں ان کی بیس سال کی جدوجہد کا ثمر ان کے بعض وزیر ، مشیر اور دوسرے مصاحبین کے گفتار ، کرتوت و اعمال کی وجہ سے ضائع نہ ہوں۔ لہذاوزیر اعظم حکمرانی میں ایسا مُستغرق نہ ہوکہ اپنے ارد گرد کی خیر خبر تک نہ ہو ۔ہوش و خرد کا دامن تھام لیں اور افہام و تفہیم کے ساتھ حکومت کریں۔اپنے مصاحبین کو شُتربے مہارکی طرح نہ چھوڑیں۔یعنی خوشہ چینوں کو مسائل اور بگاڑ پیدا کرنے کی اجازت نہیں ہونی چاہئے ۔ان کی تو یہی فطرت ہے کہ آج یہاں ہیں تو کل کہیں اور خوشے چُننے لگیں گے!!!۔


متعلقہ خبریں


مضامین
مسلمان کب بیدارہوں گے ؟ وجود جمعه 19 اپریل 2024
مسلمان کب بیدارہوں گے ؟

عام آدمی پارٹی کا سیاسی بحران وجود جمعه 19 اپریل 2024
عام آدمی پارٹی کا سیاسی بحران

مودی سرکار کے ہاتھوں اقلیتوں کا قتل عام وجود جمعه 19 اپریل 2024
مودی سرکار کے ہاتھوں اقلیتوں کا قتل عام

وائرل زدہ معاشرہ وجود جمعرات 18 اپریل 2024
وائرل زدہ معاشرہ

ملکہ ہانس اور وارث شاہ وجود جمعرات 18 اپریل 2024
ملکہ ہانس اور وارث شاہ

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر