وجود

... loading ...

وجود
وجود

صحافت کے’’ سیونگلی ‘‘

منگل 23 اکتوبر 2018 صحافت کے’’ سیونگلی ‘‘

وزیراعظم عمران خان سے ملاقات کے بعد صحافت کے’’ سیونگلیوں‘‘ نے اپنا کھیل شروع کردیا ہے۔ سیونگلی بھی کیا زبردست کردار ہے۔ ذرا جان لیجیے!انیسویں صدی کے کارٹونسٹ اور ناول نگار جارج ڈو موریئر اپنے زبردست ناول ٹرلبائی (Trilby) کے حوالے سے بہت مقبول ہوا۔ سیونگلی اُسی ناول کا ایک افسانوی کردا رہے جو ہپناٹزم کا ماہر تھا اور’’ بدنیتی ‘‘سے دوسروں کو اپنی مرضی کا تابع بناتا تھا۔ پاکستانی صحافت میں بھی کچھ ’’خوامخواہ‘‘ کے سیونگلی پیدا ہوگئے ہیں جو دوسروں کی مرضی کو اپنا تابع مہمل دیکھنا چاہتے ہیں۔ حالانکہ اُن میں ہپناٹزم ایسا کوئی ہنر بھی نہیں۔ اُن کا واحد ہنر ہے تو بس یہ کہ
کوئی مشتری ہو تو آواز دے
میں کم بخت جنسِ ہنر بیچتا ہوں
عامل معمول کو چھوڑیے! آدمی کی اپنی ذات تضادات کے گرداب میں ہو تو وہ کسی کو قائل بھی کیسے کرسکتا ہے؟ نیب میڈاس کے انعام اکبر کے حسابات کی جانچ پڑتال کررہی تھی تو ’’یہ عناصر‘‘مختلف اخباری اداروں کو قائل کررہے تھے کہ وہ اُن حسابات کو درست قرار دے دیں جو انعام اکبر نے نیب کو دیے ہیں اور جو لین دین کے حوالے سے درست نہیں۔ ان میں سے ایک تنخواہ دار سیونگلی ’’ صاحب ‘‘ تو وہ بھی ہے جن کی بات خود اُن کے ادارے نے بھی نہیں مانی۔ موصوف مختلف اشتہاراتی ایجنسیوں کے مالکان کے ساتھ کاروبار کرتے ہیں اور اپنے ادارے کا’’ نفس ناطقہ‘‘ بنے ہوئے ہیں۔ ناشران کے نظم پر یہ نِفاختے ناچتے پھرتے ہیں۔ ہر روز نئی پھلجڑیاں چھوڑتے ہیں۔ اور اپنا اُلّو سیدھا کرتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ایک اشتہاری ایجنسی کے مالک انعام اکبر کے لیے یہ اتنا درد کیوں محسوس کررہے ہیں؟ اگر اے پی این ایس کے ذریعے انعام اکبر کو تحفظ فراہم کرنے کی اس مذموم روش کے پیچھے حقائق ٹٹولے جائیں تو نیب کے ریفرنس ان میں سے کچھ اخباری مالکان کے حاشیہ برداروں اور کچھ کے بیٹوں پر بھی بنیں گے۔محکمہ اطلاعات سندھ کے ساتھ انعام اکبر کی ساز باز کوئی معمولی درجے کی نہیں۔ انعام اکبر کی میڈاس کا تقرر پیپرا قواعد کے مطابق نہیں ہوا تھا۔ یہ ایجنسی سندھ حکومت کو زیادہ رقوم کے دعوے بھیجتی رہی اور اخباری اداروں کو کم ادائی پر راضی کرتی رہی اور وہ کم رقم بھی ادا نہیں ہوئی۔ دوسری طرف سندھ حکومت کی اطلاعات کا ہما’’ شہد‘‘ کے شوقین شرجیل انعام میمن کے سر پر تھا۔ جو اپنے ’’انعام‘‘ کو دیکھتے تھے ۔ اُنہیں جس طرح اسپتال کے کمرے میں پڑی ’’بوتلیں‘‘ نظر نہیں آئیں ٹھیک اسی طرح میڈاس کی طرف سے دائر کردہ مختلف رقوم کے دعووں کی اصلیت بھی نظر نہیں آئی۔یہاں ایک سوال دوسرا بھی پیدا ہوتا ہے کہ میڈاس اتنی بڑی رقم کیسے ہڑپنے میں کامیاب ہوا؟ناشران کے ادارے اے پی این ایس نے اس حوالے سے ایک نظم قائم کررکھا ہے کہ اگر کوئی اشتہاری ادارہ متعین وقت پر رقم ادا نہیں کرتا تو اُسے معطل کردیا جاتا ہے۔میڈاس اتنی بڑی رقم اے پی این ایس کے مخصوص عناصر کی ملی بھگت کے بغیر ہڑپ ہی نہ کرسکتا تھا۔ یہ ایک انتہائی چالبازی سے کھیلا گیا کھیل ہے۔ جس کی تفصیلات الگ سے سپرد قلم ہونی چاہئے۔
جلسہ عام کے راقم نے یہ نکتہ خوب اٹھایا کہ ’’عوام تک زیادہ پہنچ رکھنے والوں اور محدود اشاعت رکھنے والوں کے ساتھ یکساں سلوک بجائے خود ناانصافی ہے۔ بقول رمیزہ نظامی، ان کے اخبار اور ’’ڈیلی من من‘‘ کو ایک ترازو میں کیسے تولا جاسکتا ہے‘‘؟ یہ واحد درست بات ہے جو اس تحریر میں شاید ہو۔ موصوف کے اپنے اخبار کو صرف محکمہ پنجاب کی طرف سے جولائی 2015 سے جون 2018 تک 36 ؍ کروڑ 74؍لاکھ 982 روپے کے اشتہارات ملے ہیں۔ رمیزہ نظامی جس ڈیلی من من کی بات کررہی تھی کہیں وہ خود اُن کا اپنا اخبار تو نہیں۔ موصوف کو یہ ضرور بتانا چاہئے کہ اُن کے ’’ڈیلی من من‘‘ کو کن ’’خدمات ‘‘ کے عوض یہ نوازشیں ہوئیں۔ جبکہ وہ زیادہ پہنچ اور محدود اشاعت رکھنے والے اخبارات کے ساتھ یکساں سلوک کو ناانصافی بھی سمجھتے ہیں۔ کیا موصوف نے ڈیلی من من کا ذکر’’ ایّاں ایّاں پو پو‘‘ پڑھ کر تو نہیں کردیا۔جہاں تک نوازشریف کے اولین دورِ اقتدار میں اُن کی ایک بڑے اخباری گروپ یعنی جنگ گروپ سے جنگ چھڑنے کی بات پر موصوف کا فقرہ ہے وہ بھی کسی احساس گناہ کی پیداوار لگتا ہے کہ اخبار اور اقتدار کی لڑائی میںآج تک اقتدار کو فتح حاصل نہیں ہوئی، وقتی پیش قدمی پر نہیں تاریخ کے صفحات پر لکھی ہوئی ہار پر نظر رہنی چاہئے۔ یہ نکتہ اس وقت کا اقتدار بآسانی سمجھ نہیں رہا تھا، لیکن آج یہ معاملہ اس کے ضمیر کا بوجھ ہے‘‘۔ کیا اس کا کچھ بوجھ موصوف بھی محسوس کرتے ہیں۔ خاکسار کو اس زمانے میں میر شکیل الرحمان کے انٹرویو کا اتفاق ہوا تھا جو ایک ہفت روزہ میں شائع ہوا۔ اس انٹرویو کے لیے میر شکیل الرحمان کے ساتھ کوئی چار گھنٹے سے زیادہ کی نشست ہوئی تھی، جس میں موصوف نے بہت سے آف دی ریکارڈ حقائق بھی بیان کیے تھے۔ نواز شریف کے پاس جنگ پر قبضے کے لیے جو ایجنڈا تھا، اُس کی پیچیدگیوں اور بھول بھلیوں میں بہت سے آرزومند اخبارنویس بھی گھاٹ لگائے بیٹھے تھے۔تاریخ کے بہاؤ میں یہ حقائق ابھی اپنے مناسب وقت اور موقع کو تلاش نہیں کرپائے۔ اداکاروں کے پاس کردار ادا کرنے کے لیے بس ایک متعین وقت ہوتا ہے مگر تاریخ کے کردار اداکاروں کی طرح وقت کے قیدی نہیں ہوتے۔ اس نوع کے نکات اُٹھانے سے ماضی نہیں مٹتا۔ دوست دشمن کا اندازا رکھنے والے نشانی اور نشانا دونوں ہی یاد رکھتے ہیں۔ بس نفاختے کے کچھ تقاضے ہوتے ہیں۔ لوگ باگ نبھا رہے ہیں۔ دیکھیے کب تک نبھاتے ہیں؟وزیراعظم کو انگلیاں نہ جلانے کا مشورہ دینے والے اپنے ان ہاتھوں کو تو اس آگ سے نکالیں جو نہ جانے تاریخ کے کس کس الاؤ میں جل رہے ہیں!!!
بلاشبہ مطبوعہ صحافت ایک بحران سے گزررہی ہے ،مگر اس کے بیشتر مسائل ان ایسے لوگوں کی قیادت کے باعث ہی پیدا ہوئے جنہوں نے اخبارات کی آبرو کو بیچا اور اِسے اقتدار کی ہوس ناک نگاہوں کے سامنے برہنہ ہونے دیا۔ لفظ لفظ کی قیمت وصول کی، فقرے فقرے کو لین دین میں تولا۔جانے والے کی مذمت اور آنے والے کی مدحت کو منثورِصحافت بنایا۔مشرف کو قائداعظم ثانی کہا، زرداری کی مدح سرائی کے لیے دلیلیں تراشیں۔ نوازشریف ڈوبے تو اُن سے کنی کترائے، پھر اُبھرے تو پھر قربت کے بہانے بنائے،انسانوں کی پوری پوری منڈلیاں سجاسجا کر برائے فروخت پیش کیں۔ مطبوعہ صحافت اس دوران کسی حیا باختہ دوشیزہ کی طرح بستر پر دراز آنسو بہاتی رہی۔ اب اس کا غازہ اُترا ہے تو اس کی تجارت بھی کی جارہی ہے۔ مگر اب یہ کام دوسرے ہاتھوں پر چھوڑئیے، بیمار کرنے والے چارہ گر اچھے نہیں لگتے!!


متعلقہ خبریں


مضامین
اندھا دھند معاہدوں کانقصان وجود هفته 27 اپریل 2024
اندھا دھند معاہدوں کانقصان

ملک شدید بحرانوں کی زد میں ہے! وجود هفته 27 اپریل 2024
ملک شدید بحرانوں کی زد میں ہے!

صدر رئیسی کا رسمی دورۂ پاکستان اور مضمرات وجود جمعه 26 اپریل 2024
صدر رئیسی کا رسمی دورۂ پاکستان اور مضمرات

سیل ۔فون وجود جمعه 26 اپریل 2024
سیل ۔فون

کڑے فیصلوں کاموسم وجود جمعه 26 اپریل 2024
کڑے فیصلوں کاموسم

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر