... loading ...
وہ پاکستان کے کامیاب بزنس مین ہیں، انہوں نے زندگی میں بے تحاشا دولت کمائی اوریہ مٹی کو سونابنانے کے ہنر سے بخوبی واقف ہیں۔ اس وقت ان کا شمار پاکستان کے امیر ترین افراد میں ہوتا ہے اور یہ دنیا کے مختلف ممالک میں بڑی کامیابی کے ساتھ اپنا بزنس چلا رہے ہیں۔ پچھلے دنوں ایک نجی محفل میں ان سے ملاقات ہو گئی میں نے گفتگو کے لیے وقت چاہااور وہ راضی ہو گئے۔ ہماری گفتگو بہت جلد بے تکلفی کی حد تک چلی گئی، میں نے عرض کیا ـ’’ سر آپ پاکستان کے کامیاب ترین بزنس مین ہیں، آپ نے بے تحاشا دولت کمائی اور اس وقت بھی آپ کا شمار پاکستان کے امیر ترین افراد میں ہوتا ہے، آپ کے پاس دنیا کی ہر سہولت موجود ہے، آپ جب چاہیں جہاں چاہیں جا سکتے ہیں، ساری دنیا آپ کی پہنچ میں ہے، آپ کا بزنس دنیا کے مختلف ممالک میں بڑی کامیابی کے ساتھ چل رہا ہے، آپ کے بچے دنیا کی مہنگی ترین یونیورسٹیوں میں پڑھتے ہیں، دنیا کے کامیاب انسانوں کے ساتھ آپ کا اٹھنا بیٹھنا ہے اور آپ پاکستانی سیاست میں بھی کافی اثر رسوخ رکھتے ہیں، آپ کی دولت میں سیکنڈوں اور منٹوں کے حساب سے اضافہ ہو رہا ہے، آپ کے ملازمین کی تعداد ہزا روں میں ہے اور آپ کا کاروبار ہاؤسنگ سوسائیٹیز سے لے کر میڈیا انڈسٹری اور ایکسپورٹ اور امپورٹ تک پھیلا ہوا ہے، صحت اور خوشحالی آپ کے گھر کی لونڈی ہے اور خوشیاں آپ کے سامنے ہاتھ باندھ کر کھڑی ہوتی ہیں۔
دنیا میں اتنی کامیابیاں سمیٹنے کے بعد آپ کیا محسوس کرتے ہیں، کیا آپ کو نہیں لگتا کہ آپ دنیا کے کامیاب ترین انسان ہیں اور اللہ نے آپ پر خصوصی فضل و کرم کیا ہے ‘‘انہوں نے میری طویل تقریر سن کر زور دار قہقہہ لگایا، گرما گرم کافی کی چسکی لی اور گہری سانس لے کر بولے ’’ مجھے جاننے والا ہر دوسرا شخص مجھے اسی نظر سے دیکھتا ہے لیکن اگر آپ لوگ مجھے میری نظر سے دیکھیں تو آپ کو لگے گا شا ید میں نے اپنی ساری عمر ضائع کر دی اور میں آج تک دھوکے میں رہا، اور یہ صرف میرا المیہ نہیں بلکہ دنیا کے ہر امیر ترین فرد کا یہی معاملہ ہے ‘‘مجھے ان کی بات سے حیرت کا شدید جھٹکا لگا اور میں نے تفصیل طلب نظروں سے ان کی طرف دیکھا، وہ گویا ہوئے ’’میرے ساتھ پہلا حادثہ ستر کی دہائی میں پیش آیاتھا، والد صاحب کی کپڑے کی مل تھی، گھر میں ہر طرف خوشحالی تھی، ہم تین بھائی تھے اور تینوں سونے کا چمچ منہ میں لے کر پیدا ہوئے تھے، ہم تانگے پر بیٹھ کر اسکول جاتے تھے اور اس دور میں تانگے کی سواری کو اعزاز سمجھا جاتا تھا۔ مل میں دو سو ملازمین تھے، وا لد صاحب نے اپنی لیے گاڑی رکھی تھی اور ہمیں ہر ہفتے گاڑی پر بٹھا کر پورے شہر کی سیر کرائی جاتی تھی۔ اس دور میں بھٹو کا جادو سر چڑھ کر بول رہا تھا اور میں خود بھٹو کا بہت بڑا فین تھا۔ پھر اچانک ایک دن بھٹو صاحب کی قومیانے کی پالیسی آ گئی اور ہم گاڑیوں اور تانگوں سے اتر کر زمین پر آگئے، ہمارا سارا سرمایہ ہاتھوں سے نکل چکا تھا اور ہم صنعتکار اور سرمایہ دار کی اصطلاح سے نکل کر مڈل مین کی وادی میں داخل ہوچکے تھے۔
یہ حادثہ اتنا اچانک اور شدید تھا کہ میں آج تک اس حادثے کے درد اور کر ب سے نہیں نکل سکا۔ حادثے کی وجہ سے والد صاحب کافی ڈسٹرب ہوئے اور کچھ ہی عرصے بعد ان کا انتقال ہو گیا۔ بعد میں ہم تینوں بہنوں کی شادیا ں ہوگئیں اور ہم نے علیحدہ علیحدہ بز نس اسٹارٹ کر دیا، اسی کی دہائی میں میں لاہور آیا تو میرے پاس یہاں رہنے کے لیے کوئی جگہ نہیں تھی، میں مارننگ میں یونیورسٹی جاتا اور ایوننگ میں ہو م ٹیوشن پڑھا کر اپنے اخراجات پورے کرتاتھا، میں شروع سے ہی بز نس مائنڈ تھا، میں نے لاہور میں کئی چھوٹے چھوٹے بزنس کیئے، مجھے ان سے فائدہ ہوا اور میں نے لاہور کے مضافاتی علا قے میں کچھ زمین خرید لی، چھ ماہ بعد میں نے باقی سب کام چھو ڑے اور پراپرٹی کا بزنس شروع کر دیا، اس بزنس سے اللہ نے مجھے اتنا نوازا ہے کہ میں اس کا شکر ادانہیں کر سکتا ‘‘ وہ بات کر کے خاموش ہوئے تو میں ان کی زندگی کی کامیابیوں پر دا دیئے بغیر نہ رہ سکا۔
انہوں نے کافی کا گھونٹ بھرا، پہلو بدلا اور دوبارہ گویا ہوئے: ’’ یہ تصویر کا صرف ایک رخ تھا اب میں تمہیں تصویر کا دوسرا رخ دکھانا چاہتا ہوں، ستر کی دہائی میں ہمارے پاس جتنی دولت تھی اس کا نصف نئی ملوں کے قیام پر لگ جاتا تھا، چالیس فیصد ملازمین کی تنخواہوں اور دیگر اخراجات پر لگ جاتا تھااور صرف دس فیصد دولت ہماری فیملی کے حصے میں آتی تھی، جب میں نے ذاتی بزنس شروع کیاتب بھی پچاس فیصد دولت نئے پراجیکٹس پر لگ جاتی تھی، تیس چالیس فیصد ورکرز کھاجاتے تھے اور میرے اور فیملی کے حصے میں صرف دس فیصد دولت آتی تھی ‘‘ وہ یہاں رکے اور میری طرف سوالیہ نظروں سے دیکھ کر بولے ’’ میرے اس سارے کیریئر میں تم نے کچھ نوٹ کیا ‘‘ میں نے کچھ دیر سوچنے کے بعد ناں میں گردن ہلا دی، انہوں نے دونوں ہاتھوں سے ٹائی سیدھی کی اور ٹانگ پر ٹانگ چڑھا کر بولے ’’ میرے کیریئر کی سب سے اہم بات یہ ہے کہ میں اپنی کل دولت کا صرف بیس سے تیس فیصد حصہ اپنی ذات اور اپنی فیملی پر خرچ کر پایا باقی دولت، میرے پرجیکٹس، میرے ورکرزاور متعلقین کے کھاتے میں چلی گئی اور یہ صرف میرا المیہ نہیں دنیا کے ہر امیر ترین فرد اور سرمایہ دار کے ساتھ یہی ہوتا ہے کہ وہ اپنی کل دولت کا صرف بیس سے تیس فیصد حصہ خرچ کر سکتا ہے باقی دو لت اس کا کاروبار، اس کے ورکرز، اس کے ذاتی ملازمین، اس کے ڈرائیور اور اس کے متعلقین کھا جاتے ہیں۔
اب تم دیکھو میں نے پاکستان کے ہر بڑے شہر میں اچھا اور خوبصورت گھر بنا رکھا ہے لیکن میں صرف ایک گھر میں رہتا ہوں باقی گھروں میں ملازمین ’’انجوائے ‘‘ کرتے ہیں، میرے پاس ہر طرح کی مہنگی گاڑی موجود ہے لیکن میں صرف ایک گاڑی میں سفر کرتا ہوں باقی گاڑیوں پر ڈارئیور راج کرتے ہیں، میرے گھر میں روزانہ بیسیوں ڈشیں بنتی ہیں لیکن میں صرف سوپ اور سبز ی پسند کرتا ہوں باقی ڈشیں خانساماں اور ملازمین کھا جاتے ہیں، میں دنیا کی مہنگی ترین پرفیومز اور برانڈڈ جوتے خریدتا ہوں لیکن میں انہیں صرف دو چار بار پہنتا ہوں بعد میں انہیںمیرے ذاتی ملازم استعمال کرتے ہیں، میں نے ساری زندگی پیسا کمانے پر لگا دی، میں اپنی چوبیس میں سے بیس گھنٹے اپنے بزنس کو دیتا رہا، میں نے اپنے والدین، بہن بھائیوں اور رشتہ داروں تک کو ٹائم نہیں دیا، میرے دوست مجھ سے ناراض ہوگئے اور صرف دولت کمانے کے چکر میں میں نے خوشیوں کے ہزاروں مواقع، دوستوں اور رشتہ داروں کی شادیا ں، دنیا کی نامور یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کرنے کا موقعہ، عیدپر اپنے گاؤں جا کر والدین اورپرانے دوست احباب کے ساتھ لطف اٹھانے کے لمحات اور فرصت کے اوقات میں نیچر کو قریب سے دیکھنے اور اس سے لطف اندوز ہو نے کے سارے مواقع ضائع کر دیئے۔
اب بڑھاپے میں پہنچ کر مجھے احساس ہو رہا ہے کہ بہت ذیادہ دولت بھی کسی کام کی نہیں کیونکہ آپ اپنی دولت کا صرف بیس سے تیس فیصد حصہ خود استعمال کر سکتے ہیں باقی ستر فیصد دولت آپ کے کسی کام نہیں آتی۔ اب میں اپنی ساری دولت دے کر بھی خوشی کے وہ لمحات واپس نہیں لا سکتا اور یہی میری بد قسمتی ہے ‘‘ بات کافی حد تک واضح ہو چکی تھی، انہوں نے کافی کا آخری گھونٹ بھرا، کپ میز پر رکھا اور بولے ’’ دولت اتنی کماؤ جتنی تمہیں ضرورت ہے کیونکہ تمہارے حصے میں تو صرف تیس فیصد آئے گی، با قی کھانے والے کھاجائیں گے اور آپ اپنی گزشتہ زندگی پرپچھتاتے رہ جائیں گے ‘‘۔
اس بار ڈی چوک سے کفن میں آئیں گے یا کامیاب ہوں گے،محمود اچکزئی کے پاس مذاکرات یا احتجاج کا اختیار ہے، وہ جب اور جیسے بھی کال دیں تو ہم ساتھ دیں گے ،سہیل آفریدی کا جلسہ سے خطاب میڈیٹ چور جو 'کا کے اور کی' کو نہیں سمجھ سکتی مجھے مشورے دے رہی ہے، پنجاب پولیس کو کرپٹ ترین ادارہ بن...
مرنے والے بیشتر آسٹریلوی شہری تھے، البانیز نے پولیس کی بروقت کارروائی کو سراہا وزیراعظم کا یہودی کمیونٹی سے اظہار یکجہتی، تحفظ کیلئے سخت اقدامات کی یقین دہانی آسٹریلیا کے وزیراعظم انتھونی البانیز نے سڈنی کے ساحل بونڈی پر ہونے والے حملے کو دہشت گرد قرار دیتے ہوئے اسے یہودیوں...
زخمی حالت میں گرفتار ملزم 4 سال تک بھتا کیس میں جیل میں رہا، آزاد امیدوار کی حیثیت میں عام انتخابات میں حصہ لیا 17 افراد زیر حراست،سیاسی جماعت کے لوگ مجرمان کو پناہ دینے میں دانستہ ملوث پائے گئے تو ان کیخلاف کارروائی ہوگی ایس آئی یو پولیس نے ناظم آباد میں سیاسی جماعت کے سر...
ہائبرڈ جنگ، انتہاء پسند نظریات اور انتشار پھیلانے والے عناصر سے نمٹنے کیلئے تیار ہیں، سید عاصم منیرکا گوجرانوالہ اور سیالکوٹ گیریژنز کا دورہ ،فارمیشن کی آپریشنل تیاری پر بریفنگ جدید جنگ میں ٹیکنالوجی سے ہم آہنگی، چابک دستی اور فوری فیصلہ سازی ناگزیر ہے، پاک فوج اندرونی اور بیر...
دنیا پاکستان کی طرف دیکھ رہی ہے، نوجوان مایوس نہ ہوں ،حکمران طبقہ نے قرضے معاف کرائے تعلیم ، صحت، تھانہ کچہری کا نظام تباہ کردیا ، الخدمت فاؤنڈیشن کی چیک تقسیم تقریب سے خطاب امیر جماعت اسلامی پاکستان حافظ نعیم الرحمن نے کہا ہے کہ دنیا پاکستان کی طرف دیکھ رہی ہے، نوجوان مایوس...
حملہ آوروں کا تعلق کالعدم دہشت گرد تنظیم سے ہے پشاور میں چند دن تک قیام کیا تھا خودکش جیکٹس اور رہائش کی فراہمی میں بمباروں کیسہولت کاری کی گئی،تفتیشی حکام ایف سی ہیڈکوارٹرز پر حملہ کرنے والے دہشتگرد نیٹ ورک کی نشاندہی ہو گئی۔ تفتیشی حکام نے کہا کہ خودکش حملہ آوروں کا تعلق ...
غذائی اجناس کی خود کفالت کیلئے جامع پلان تیار ،محکمہ خوراک کو کارروائیاں تیز کرنے کی ہدایت اشیائے خوردونوش کی سرکاری نرخوں پر ہر صورت دستیابی یقینی بنائی جائے،وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا محمد سہیل آفریدی نے محکمہ خوراک کو ناجائز منافع خوری اور ذخیرہ اندوزی ...
ادارہ جاتی اصلاحات سے اچھی حکمرانی میں اضافہ ہو گا،نوجوان قیمتی اثاثہ ہیں،شہبا زشریف فنی ٹریننگ دے کر برسر روزگار کریں گے،نیشنل ریگولیٹری ریفارمز کی افتتاحی تقریب سے خطاب وزیر اعظم محمد شہباز شریف نے کہا ہے کہ ملک معاشی بحران سے نکل چکاہے،ترقی کی جانب رواں دواں ہیں، ادارہ جات...
عالمی برادری افغان حکومت پر ذمہ داریوں کی ادائیگی کیلئے زور ڈالے،سماجی و اقتصادی ترقی اور عوام کی فلاح و بہبود پاکستان کی اولین ترجیح،موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے مشکلات کا سامنا ہے تنازعات کا پرامن حل پاکستان کی خارجہ پالیسی کا بنیادی ستون ،فلسطینی عوام اور کشمیریوں کے بنیادی حق...
حکومت نے 23شرائط مان لیں، توانائی، مالیاتی، سماجی شعبے، اسٹرکچرل، مانیٹری اور کرنسی وغیرہ شامل ہیں، سرکاری ملکیتی اداروں کے قانون میں تبدیلی کیلئے اگست 2026 کی ڈیڈ لائن مقرر کر دی ریونیو شارٹ فال پورا کرنے کیلئے کھاد اور زرعی ادویات پر 5 فیصد فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی لگائی جائیگی، ہا...
پارٹی کے اندر لڑائی برداشت نہیں کی جائے گی، اگر کوئی ملوث ہے تو اس کو باہر رکھا جائے آزادکشمیر و گلگت بلتستان میں میرٹ پر ٹکت دیں گے میرٹ پر کبھی سمجھوتا نہیں کیا،صدر ن لیگ مسلم لیگ(ن)کے صدر نواز شریف نے کہا ہے کہ این ایف سی ایوارڈ بھیک نہیں ہے یہ تو حق ہے، وزیراعظم سے کہوں گا...
تمام سیاسی جماعتیں اپنے دائرہ کار میں رہ کر سیاست کریں، خود پنجاب کی گلی گلی محلے محلے جائوں گا، چیئرمین پیپلز پارٹی کارکن اپنے آپ کو تنہا نہ سمجھیں، گورنر سلیم حیدر کی ملاقات ،سیاسی صورتحال پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا ،دیگر کی بھی ملاقاتیں پاکستان پیپلز پارٹی کے چیٔرمین بلاول...