وجود

... loading ...

وجود
وجود

پیٹ کے تقاضے اور دل کی بات

پیر 11 جون 2018 پیٹ کے تقاضے اور دل کی بات

ایک بے گناہ کی پھانسی کے ہنگام کسی نے جلاد سے پوچھا کہ اُسے کیامحسوس ہو رہا ہے؟اُس نے فوراً کہا کہ صاحب پیٹ کی بات اور ہے اور دل کی بات اور!!!قومی صحافت کا ماجرا بھی مختلف نہیں۔ ہمارے تجزیہ کار روسی دانشور لیمو نوف کی طرف منقسم ہیں۔ مگر ان میں لیمونوف کی مانند دانش بھی نہیں چھلکتی کہ اُن کی حمایت و مخالفت کو ایک دانشورانہ آہنگ میں بُھگت لیا جائے۔جُگت بازیاں، پھبتیاں اور الفاظ کی میناکاریاں ان کا طرہ امتیاز ہے۔کسی کے ہاں اچانک املتاس کے پھولوں سے دانشوری کا پیلارنگ چڑھا ہے۔کوئی پنجاب کے وزیراعلیٰ سے گزارشات کی دُکان بڑھا رہا ہے۔ کسی نودولتیے کو فکر لاحق ہے کہ اُس سے حساب نہ مانگا جائے سو اُسے سادگی سے چڑ ہے۔وہ کرتے کا حساب مانگنے کو ماضی کا قصہ سمجھتا ہے اور ایسی باتوں کو نفاق کی تعبیر دیتا ہے۔ قلابازیوں اور نکتہ آفرینیوں کے یکساں شوقین ایک بوڑھے نے اچانک حسن عسکری کی حمایت میں ایسا نکتہ نکالا ہے کہ خود اُن کے اپنے کیمپ کے لوگ حیران ہیں۔ وہ سوشل میڈیا پر اُن سے نئے دور کے نئے اہداف کی بابت دریافت کررہے ہیں۔جس کا بندہ ہو وہ زیادہ جانتا ہے کہ اُس کے ساتھ آخر سودا کیسے پَٹتا ہے۔ ہمارے کچھ لیمونوفوں کو احتساب کا دھڑکا ایسا لگا ہے کہ وہ دوماہ کی نگراں حکومت میں بھی کلمۂ حق کہنے کا خطرہ مول نہیں لے سکتے۔ سو وہ’’ باغباں بھی خوش رہے اور خوش رہے صیاد بھی ‘‘کی مانند طرح طرح کی پھلجڑیاں چھوڑرہے ہیں اور حیرت وعبرت کی تصویر بن گئے ہیں۔ افسوس اُن کے کان میں کوئی یہ سرگوشی بھی نہیں کرتا کہ جلوت میں مسخرے کی زندگی گزارنے سے بہتر ہے کہ خلوت میں عبرت کی زندگی گزاری جائے۔

پاکستان بھر میں پنجاب کے وزیراعلیٰ کی تقرری پر تبصرے ہیں۔سب جانتے ہیں کہ اگلی حکومت کا ڈول یہیں سے ڈلے گا۔چنانچہ سندھ میں حکومت اور حزب اختلاف کی طرف سے متفقہ امیدوار بننے والے نگراں وزیراعلیٰ فضل الرحمان خوش قسمتی سے نظروں میں آنے سے بچے رہے۔ اُن کے لیے بھی کہنے سننے کو کچھ کم نہیں مگرصحافتی اُفق پر بلوچستان اور پنجاب کے وزرائے اعلیٰ کا چرچا ہے۔بلوچستان کے وزیراعلیٰ کی ڈگری تک کو نشان تمسخر بنانے کی کوشش جاری ہے جبکہ حسن عسکری سے متعلق وہ سب کچھ کہا جارہا ہے جوسوچا جاسکتا ہے۔ اُن کی تقرری کو سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی ، خواجہ آصف ، خواجہ سعد رفیق اور احسن اقبال نے ایک مشترکہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے مسترد کیا تھا۔ ایک سادہ اطوار پروفیسر کو مسلم لیگ کے تمام اکابرین کی طرف سے اجتماعی طور پر ’’عزت‘‘ دینے کا مطلب سب کو ہی سمجھ میں آتا ہے کہ اتنا کچھ داؤ پر لگا ہوا ہے کہ معمولی خطرہ بھی مول نہیں لیا جاسکتا۔ ایسے میں ہمارے لیمونوف کو نکتہ سوجھا کہ عملی ذمہ داری کوئی اور چیز ہے اور فکری جانب داری کوئی اور چیز۔ لہذا اس میں ایسی کوئی خطرے کی بات نہیں۔ ان کے بھاری بھرکم جثے کو بیش قیمت انداز سے سنبھالنے والے مسلم لیگی اکابرین اس نکتے پر کچھ مشتعل دکھائی دیے۔ جس کا اظہار سوشل میڈیا پر ہوا۔ اُن سے مسلم لیگ کی شناخت رکھنے والے کھاتوں سے پوچھا گیا کہ نیا کھاتا کتنے میں کُھلا۔ ان کے ساتھ زندگی میں وہی کچھ ہورہا ہے جو احمد فراز کے ساتھ اُن کی موت کے بعد ہوا۔ احمد فراز نے محبت کے ارفع جذبے کو ہوس کے پست احساس سے مملو کیا تو اُن کی شاعری کو اُسی تعبیر کی ارزل سطح پر لے جاکر بگاڑا گیا اور یہ کام شاعروں نے نہیں بلکہ ادھر اُدھر بیٹھے ہوئے بگڑئے جوڑوں اور بچوں نے کیا۔ اب ہمارے لیمونوف کی رائے کو اسٹاک ایکسچینج کی زبان میں سودے پَٹانے والے انداز میں دیکھا جارہا ہے مگر ظاہر ہے کہ ذلت کو سمجھنے کے لیے بھی سینے میں دل چاہئے بینک کا کھاتہ نہیں۔

یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ مسلم لیگ نون کو تمام’’ لیمونوف‘‘ اس قماش کے میسر نہیں آئے۔ کچھ الگ بھی ہیں۔ جو مسلم لیگ نون کے انجام کی آخری تحریر پڑھنے تک ’’پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ‘‘ کی مانند بروئے کارہیں۔ ان کے متعلق ایک الگ تعبیر بھی ہے کہ انہیں یا تو پہلے والوں کی طرح چولا بدلنے کا سلیقہ نہیں یا پھر اُن کے پاس یہ موقع بھی نہیں رہا۔ وہ شریفوں کی حمایت میں اس طرح گردن گردن حرص و ہوس کی تباہ کاریوں کے شکار رہے کہ کسی بھی دوسرے کے لیے وہ اثاثہ نہیں بوجھ ہیں۔ خود شریف بھی اُن سے جان چھڑانا چاہیں تو وہ اُن کی جان نہیں چھوڑتے۔ درحقیقت یہ دانشوروں کی وہ قسم ہے جو شریفوں کے سیاسی پیمپرز کی صفائی پر مامور تھے۔ مگر خود ایسی صحافتی بدکاریوں کے شکار ہوئے کہ اُن کے پیمپرز شریفوں کو صاف کرنے پڑ رہے ہیں اور یہ معمولی بھی نہیں قے آور پیمپرز ہیں۔ابھی تک جمہوری نظام کی آڑ میں وہ شریفوں کی بدعنوانیوں کی بھی وکالت کرتے رہے۔ یعنی جمہوری نظام ایک ایسی قدر ہے کہ جس کے لیے ہر نوعی بدعنوانیوں کو گوارا کرنے میں بھی کوئی ہرج نہیں۔ مگر جب اسی جمہوری نظام کے متعین طریقے سے نگراں وزیراعلیٰ کے طور پر ڈاکٹر حسن عسکری کا تقرر ہوا تو انہوں نے اپنی ناکیں سکیڑنا شروع کردیں۔ پہلے تو وہ اُن سے گزارش کر رہے تھے کہ وہ خود ہی مستعفی ہوجائیں۔ مگر ڈاکٹر کچھ زیادہ سخت جان ثابت ہوئے۔تو اب اُنہیں اپنی اُس ’’ غیر جانبداری ‘‘کو برقرار رکھنے کے مشورے دیے جارہے جو وہ پہلے سے اُن میں دیکھ ہی نہیں رہے۔یہی نہیں اُن کے خلاف جگت بازی کی جارہی ہے، اُن کے نام کا مخفف ڈھال کر تضحیک کی جارہی ہے۔ اُنہیں ابھی سے ڈرایا جارہا ہے کہ وہ انتخابات جو ابھی ہوئے بھی نہیں اُس کے نتائج اُن کی ذاتِ شریف کے خلافِ شریف ہونے پر مشکوک ہو چکے ہیں۔ حیرت انگیز امر یہ ہے کہ جمہوریت کی پَری وَش اور انتخابی دوشیزہ کی حیا مسلم لیگ نون کی تسلی نہ ہونے سے تو باقی نہیں رہتی مگر اِس پر دوسری سیاسی جماعتوں کے عدم اطمینان سے کوئی حرف نہیں آتا۔ یہ دانشوروں کی ایک ایسی قسم ہے جو آئین کی دستاویز پر عمل درآمد کی تمام ذمہ داری جرنیلوں پر لادتے ہیں اور خود اس کے کسی حرف کا پاس نہیں کرتے۔ ان کی جمہوریت کی تمام تقاضے بھی ان پر نہیں ان کے مخالفین پر واجب رہتے ہیں۔ یہ اپنے جمہوری تصورات کے مطابق خود اپنی فردِ عمل پیش کرنے کو کبھی تیار نہیں ہوتے۔ شریفوں کا انجام نوشتۂ دیوار ہے۔ مگر اُن کے کچھ لیمونوف ماننے کو تیار نہیں۔ ہر لفظ کی قیمت دینے والے شریف خاندان سے اُن کی وفاداری ایسی ہے کہ وہ جلاد کے حال کو پہنچ گئے ہیں۔ پیٹ کی بات اور ہے اور دل کی بات اور!!


متعلقہ خبریں


مضامین
مسلمان کب بیدارہوں گے ؟ وجود جمعه 19 اپریل 2024
مسلمان کب بیدارہوں گے ؟

عام آدمی پارٹی کا سیاسی بحران وجود جمعه 19 اپریل 2024
عام آدمی پارٹی کا سیاسی بحران

مودی سرکار کے ہاتھوں اقلیتوں کا قتل عام وجود جمعه 19 اپریل 2024
مودی سرکار کے ہاتھوں اقلیتوں کا قتل عام

وائرل زدہ معاشرہ وجود جمعرات 18 اپریل 2024
وائرل زدہ معاشرہ

ملکہ ہانس اور وارث شاہ وجود جمعرات 18 اپریل 2024
ملکہ ہانس اور وارث شاہ

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر