وجود

... loading ...

وجود
وجود

بلوچستان اسمبلی کا بد مزہ اختتام

هفته 09 جون 2018 بلوچستان اسمبلی کا بد مزہ اختتام

اکتیس مئی2018ء کو بلوچستان اسمبلی نے بدمزگی،بداخلاقی اور بدتمیزی کے ماحول میں مدت پوری کرلی۔ سچی بات یہ ہے کہ تحریک عدم اعتماد کے بعد اسمبلی فی الواقع بے وزن ،بے توقیر بلکہ پتلی تماشا بن کر رہ گئی۔ یہی حال وزیراعلیٰ ہاؤس کا رہا ۔ چند لوگ صوبے کے بادشاہ گر بن گئے تھے۔ 30مئی کے اجلاس میں غل غپاڑے کا ماحول بن گیا تھا۔ پشتونخوامیپ کے رکن نصراللہ اور سرفراز بگٹی اُلجھ پڑے ۔ سرفراز بگٹی نے تو حد ہی کردی کہ مارنے پیٹنے پر اُتر آنے کی کوشش کی۔ جھگڑا سبی یونیورسٹی کے نام پر ہوا جسے میر چاکر خان رند یونیورسٹی کا نام دینے کے لیے ایوان میں مسودہ قانون پیش کیا گیا تھا۔ پشتونخوامیپ چاہ رہی تھی کہ نام’’ سبی یونیورسٹی‘‘ ہی رہنے دیا جائے۔ بل پاس ہونے پر میر خالد لانگو، سرفراز چاکر ڈومکی اور دوسرے ارکان نے فاتحانہ انداز میں ہاتھ اٹھالیے۔یو نیورسٹی چاکر رند یا سبی کے نام سے منسوب ہو بات ایک ہی ہے ۔میر چاکر رند بلوچ تھے اور سبی بھی بلوچستان کا حصہ ہے ۔ پھر سبی نام سے اتنی پر خاش کیوں ؟۔عبد القدوس بزنجو کی حکومت نے لہڑی ضلع کو پھر سے سبی میں ضم کر دیا ۔جبکہ سبی کے عوام اس انضمام کو اپنے مفاد کے خلاف سمجھتے ہیں۔ پشتونخوامیپ کے ارکان نے حکومت کو متعصب اور نسل پرست کے القابات سے مخاطب کیا۔ تعصب اور نسل پرستی کے طعنے کسی قوم پرست جماعت کی طرف سے اچھے نہیں لگتے۔

بلوچستان کی سب ہی قوم پرست جماعتیں قومی علاقی اور نسلی تعصبات میں گُندھی ہوئی ہیں۔حزب اختلاف کی جانب سے ایک تماشاسترہ مئی کے بجٹ اجلاس میں ہوا ۔ جے یو آئی کی شاہدہ رؤف پینل آف چیئرمین کی رکن کی حیثیت سے اجلاس کی صدارت کر رہی تھیں ۔ کورم پورا نہ ہونے کے باعث اجلاس ملتوی کیا گیا ۔جب حکومتی ارکان آئے تو شاہدہ رؤف نے اجلاس دوبارہ شروع کردیا۔اس پر پشتونخوا میپ اور نیشنل پارٹی نے شدید احتجاج کیا،کہ ملتوی ہونے کے بعد اجلاس دوبارہ شروع کرنا خلاف قانون ہے۔ پشتونخوامیپ کے تمام ارکان اسپیکر کی چیئر کے سامنے آکر شاہدہ رؤف پر چیخے چلائے ۔ کسی نے اس خاتون کو منافق کہا کسی نے ہا تھ اُٹھا اُٹھا کر لعنت بھیجی تو کسی نے پنجابی کہہ کر پکارا۔ اس سلوک پرپشتونخوامیپ کے چار ارکان نصراللہ،عبیداللہ بابت، سردار مصطفی ترین اور لیاقت آغا کے اسمبلی اجلاس میں شرکت پر پابندی عائد کی گئی ۔ عبیداللہ بابت اگلے روز احتجاجاً اسمبلی عمارت کی راہداریوں میں بیٹھ کر اسپیکر راحیلہ درانی پر توہین کے نشتر برسا تا رہا۔ راحیلہ درانی ایک کمزوراور وہمی قسم کی خاتون ہیں۔ جان جمالی کو ہٹانے کے بعد انہیں حکم کی بجاآوری کے لیے ہی اسپیکر بنایا گیا۔ ایک بار تو نواب زہری جب وزیراعلیٰ تھے اجلاس کے دوران ہی ان پر برس پڑے۔سردار عبدالرحمان کھیتران نے بھی بد اخلاقی کی انتہا کر دی ۔ رقیہ ہاشمی کے ساتھ اسمبلی عمارت کے احاطے میں ہتک آمیز رویہ اپنایا۔ جن الفاظ کا استعمال کیا وہ ناقابل بیان ہے۔ رقیہ ہاشمی نے اس رویے کے خلاف وزیراعلیٰ کے مشیر خزانہ کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔ مگر ان کے احتجاج کی کوئی شنوائی نہ ہوئی،کسی کے کان میں جوں تک نہ رینگی۔

سردار عبدالرحمان کھیتران اس وقت تک جے یو آئی کے رکن تھے ،بالواسطہ بلوچستان عوامی پارٹی (باپ)میں بھی ہیں۔ اپنے بیٹے اورنگزیب کھیتران کو ’’باپ‘‘ میں داخل کرایا ہے۔ اورنگزیب عبدالقدوس بزنجو کے زکوۃ و مذہبی امور کے اسپیشل اسسٹنٹ بھی مقرر تھے۔ سرفراز بگٹی 31مئی کے اجلاس میں انتخابات اگست کے آخر تک ملتوی کرانے کی قرارداد لے آئے۔پشتونخوامیپ کے ارکان نے بالخصوص اور نیشنل پارٹی کے ارکان نے بالعموم مخالفت کی۔ سرفراز بگٹی نے عجیب توجیہہ پیش کی کہ جولائی میں لوگ حج پر گئے ہوں گے اور پھر قراردادکا متن تبدیل کرکے گرمی اور مون سون کی منطق اُنڈیل دی ۔ بہر حال قرارداد بڑی آسانی سے پاس ہوگئی۔ ارکان اپنی رائے ر کھتے تو شاید قرارداد منظور نہ ہوتی۔ جمعیت علمائے اسلام (ف) تو ہر بار کمال کرتی ہے ۔ انتخابات اگست میں کرانے کی قرارداد کی حمایت بھی کردی۔یعنی پارٹی کے فیصلے اور مؤقف کے برعکس قدم اُٹھایا۔اس ناپسندیدہ عمل میں اے این پی کے زمرک اچکزئی نے بھی اپنا حصہ ڈال دیا ۔ سوچا کہ شاید انتخابات کا اگست تک التواء جے یو آئی ف کا فیصلہ ہی ہو گا۔ چنا ں چہ ملک سکندر ایڈووکیٹ کو فون کیا جو جے یو آئی کے صوبائی سیکریٹری جنرل ہیں اور انتہائی شریف ، با کردار وبے داغ آدمی ہیں۔ جنہوں نے بتایا کہ ان کی جماعت الیکشن جولائی میں کرانے کی حامی ہے اور اس قرارداد کی جے یو آئی حمایت نہیں کرتی۔ لازمی بات ہے کے جے یو آئی کے اندر دھڑے بازی ہورہی ہے۔خاص کرمو لانا شیرانی کا دھڑا خود کو پارٹی فیصلوں اور نظم کا پابند ہی نہیں سمجھتا۔ایسا نہ ہو تا تو شایدمولاناعبدالواسع اور دوسرے ارکان جنہوں نے جماعتی فیصلے اور عزت کو روند ڈالا کی بنیادی رکنیت نہ رہتی۔ 2مئی کو اسلام آباد میں ایم ایم اے کے قومی کنونشن میں مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ پس پردہ قوتیں مصروف ہیں کہ مذہبی جماعتوں کو منتشر کرکے نیا اتحاد لایا جائے۔

مولانا نے ان مذہبی جماعتوں کو مخاطب کیا کہ وہ ایجنسیوں کی بات نہ مانیں۔ مولانا محمد خان شیرانی بھی کہہ چکے ہیں کہ بلوچستان میں اآئندہ کی مخلوط حکومت اسٹیبلشمنٹ کی خواہش پر بنے گی۔ مولانا عبدالواسع مولانا شیرانی کے پیروکار ہیں۔ مولانا شیرانی کی سیاست کا بنیادی نکتہ ہی یہ ہے کہ جیسے بھی ہو عہدے اور مَناصب حاصل کرو اور حکومتوں کا حصہ بنے رہو۔ انتخابات کے التواء کا مطالبہ ملک کی چھوٹی بڑی جماعتوں کا نہیں ہے۔ یقینی طور پر مولانا عبدالواسع نے قرارداد لانے والوں کی اطاعت کی تاکہ آئندہ حکومت میں ان پر انعامات و عنایات ہوں۔ گویا مولانا عبدالواسع اپناہی ایجنڈا لے کر جارہے ہیں۔ مولانا فضل الرحمان نے بلوچستان میں عدم اعتماد کی تحریک کی حمایت کی اور چند دن پہلے کہہ دیا کہ بلوچستان میں جمہوری حکومت کا تختہ اُلٹا گیا۔ اب اس سیاست کو کیا نام دیا جائے؟۔ زقند سردار اختر مینگل کی جماعت نے بھی ماری ہے انتخابات میں تاخیر کی قرارداد کو جمہوریت کے منافی اقدام قرار دیا کہ بی این پی ایسے فیصلوں کی حوصلہ شکنی کرتی ہے کہ جس سے جمہوریت کو خطرہ ہو۔انتخابات کا بروقت اور شفاف انعقاد ہونا چاہیے اورتاخیری حربے جمہوریت کے لیے نیک شگون نہیں۔(31 مئی 2018) بی این پی کو یاد رہنا چاہیے کہ یہ قرارداد اُن مہروں نے پاس کرائی ہے جسے آپ ، جے یو آئی، بی این پی عوامی اور اے این پی نے پشتونخوامیپ اور نیشنل پارٹی کی عداوت اور نادیدہ لوگوں کی مروت میں مسلط کیا۔ عدم اعتماد کی تحریک میں تو سردار اختر مینگل کوئٹہ آکر بیٹھ گئے۔ حکومت گرانے کی پوشیدہ اور نمایاں نشستوں میں شریک رہے۔ بلوچستان عوامی پارٹی کی حکومت صوبے کا مقدر ٹھہری ہے۔ اس مقدر کو بنانے والوں میں جے یو آئی ف، بلوچستان نیشنل پارٹی ، عوامی نیشنل پارٹی اور بی این پی عوامی شامل ہیں۔


متعلقہ خبریں


مضامین
تمل ناڈو کے تناظر میں انتخابات کا پہلامرحلہ وجود منگل 23 اپریل 2024
تمل ناڈو کے تناظر میں انتخابات کا پہلامرحلہ

بھارت اورایڈز وجود منگل 23 اپریل 2024
بھارت اورایڈز

وزیر اعظم کا یوتھ پروگرام امید کی کرن وجود منگل 23 اپریل 2024
وزیر اعظم کا یوتھ پروگرام امید کی کرن

انتخابی منظرنامہ سے غائب مسلمان وجود پیر 22 اپریل 2024
انتخابی منظرنامہ سے غائب مسلمان

جناح کا مقدمہ ( قسط نمبر 3) وجود اتوار 21 اپریل 2024
جناح کا مقدمہ ( قسط نمبر 3)

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر