... loading ...
پہلا باب
آئی ایس آئی اور را کے چیف کیسے ایک میز پربیٹھے جنرل اسد درانی اور امرجیت سنگھ دولت نے بھارتی صحافی ادیتیا سنہا کومشترکہ انٹرویو میں وضاحت کی ہے کہ دونوں شخصیات کیسے قریب آئیںاور ان کے درمیان تعاون کیسے شروع ہوا۔ آئی ایس آئی اور را کے سابق سربراہان پہلی بار بنکاک میں ملے تھے اور دونوں کو ایک دوسرے کی گفتگو اور خیالات پسند آئے۔ جنرل درانی کہتے ہیں دونوں ممالک میں پیشہ وارانہ تعاون ضروری ہے، حکومتیں آتی جاتی ہیں مگر پیشہ ور لوگ زیادہ دیر ٹھہرتے ہیں۔ امرجیت سنگھ دولت کہتے ہیں وہ جنرل صاحب سے متاثرہوئے۔ دونوں ٹی وی نہیں دیکھتے اور وہسکی کے شوقین ہیں۔ جنرل صاحب کا غیررسمی اور کھلا انداز انہیں پسند ہے۔ راء کے سابق سربراہ، جنرل اسددرانی کو جنرل صاحب کہہ کر مخاطب کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ عام طورپر ایجنسیوں سے تعلق رکھنے والے کھل کربات نہیں کرتے۔ لیکن جنرل صاحب ملاقاتوں میں انٹیلیجنس معاملات پرکھل کر بات کرتے تھے اس لیے دونوں قریب آتے چلے گئے۔ہر انٹیلی جنس ایجنسی پراکسیز کا استعمال کرتی ہے: اسد درانی
انٹیلی جنس ایجنسیوں کی پراکسی وارز مشہور ہیں۔ جنرل اسد درانی کا اس بارے میں موقف یہ ہے کہ پراکسیز، انٹیلی جنس ایجنسیوں کی ضرورت ہیں۔بلکہ اسد درانی نے دولت کو مخاطب کرکے یہ بھی کہا تھا کہ بنگلہ دیش میںمکتی باہنی کو بھی بھارتی انٹیلیجنس نے بنایا تھا۔ جب را کے سابق سربراہ نے یہ کہا کہ ممبئی حملوں سے جیسے واقعات کے جواب میں سرجیکل سٹرائیکس بھارت کی مجبوری ہیں تو جنرل اسد درانی نے انہیں بتایا کہ سرجیکل سٹرائیکس کا دکھاوا )کوریوگراف( کیسے کیا جا سکتا ہے۔دونوں سابق سربراہان کے تحقیقی مقالے پرطوفان کھڑا ہو گیادونوں شخصیات کے درمیان مختلف عالمی فورمز پر ملاقاتوں کا سلسلہ جاری رہا ۔ وہ بنکاک، اسلام آباد، استنبول اور لندن میں بھی ملے۔ انہوں نے دونوں ممالک میں انٹیلیجنس تعاون پر ایک مقالہ بھی لکھا جو بھارتی اخبار داہندو اور پاکستانی اخبار ڈان میں شائع ہوا۔ اس مقالے پر امریکہ میں پاکستانی اور بھارتی امور کے ماہر سٹیفن کوہن نے جنرل اسد درانی سے رابطہ کیا اور کہا کہ ایسی کوششیں جاری رہنی چاہئیں۔اسد درانی کا کہنا تھا کہ دونوں طرف ایسے لوگ ہیں جنہیں اس مقالے پرغصہ بھی آیا۔ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ لوگ اپنے دور میں من مانی کرتے رہے اور اب مل کر مقالے لکھ رہے ہیں۔ امریکہ میں بھی کئی تھنک ٹینکس ہیںجوتحقیقاتی مقالے شائع کرکے سینیٹ کو بھیجتے رہتے ہیں۔ لیکن امریکی حکومت وہی کرتی ہے جو اس کے خیال میں درست پالیسی ہے۔ اور امریکہ میں صرف ان تھنک ٹینکس کے مقالوں کو اہمیت ملتی ہے جو امریکی حکومت کی پالیسی کے عین مطابق چلتے ہیں۔را چیف کو ناکام بنانے کی کوششیں
جنرل اسد درانی نے امرجیت سنگھ دولت کے متعلق یہ رائے بھی دی کہ وہ ایک مختلف انسان ہیں۔ کیونکہ وہ انٹیلیجنس بیورو سے تعلق رکھتے تھے اورانہیں بہت بعد میں بھارتی خفیہ ایجنسی راء میں تعینات کیا گیا۔ کئی لوگوں نے انہیں ناکام بنانے کی بھی کوشش کی کیونکہ وہ نہیں چاہتے تھے کہ ایجنسی سے باہر کا کوئی شخص رامیں آ کرکامیاب ہو جائے۔ اسد درانی اورامرجیت دونوں نے ایک دوسرے کو سراہتے ہوئے کہا کہ انہیں ایک دوسرے کے تجربات سے استفادہ کرکے خوشی ہوئی اور ایسا تعاون جاری رہناچاہیے۔مسئلہ کشمیر کیسے حل ہو گا؟ را کے چیف کی رائے جنرل اسد درانی کہتے ہیں امرجیت سنگھ دولت تنازع کشمیر کو سمجھتے ہیںاور انہیں وہاں کے لوگوں کا بھی خیال ہے۔ امرجیت سنگھ نے کہا کہ مقبوضہ کشمیر کو سمجھ کر ا?پ افغانستان اور فلسطین کے تنازعات کو بھی حل کرسکتے ہیں۔ امرجیت سنگھ کو اس بات پر بھی حیرت تھی کہ کئی کشمیری رہنماء بھی اس بات کے حامی تھے کہ دونوں ممالک کی ایجنسیوں کو مل بیٹھنا چاہیے۔ ان کشمیریوں نے تجویز دی کہ آپ بھارت میں مسئلہ کشمیر کو سمجھنے والوں چند لوگوں اور اور آئی ایس آئی کے سابق سربراہان کو ایک ساتھ بٹھائیں تو مسئلے کا کوئی نہ کوئی حل ضرور نکل آئے گا۔ انہوں نے کہا کہ مقبوضہ کشمیر کی موجودہ وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی پاکستان کا نام کبھی کبھار ہی لیتی ہیں۔ لیکن ڈاکٹر فاروق مسلسل یہ کہتے رہے ہیں کہ جب تک پاکستان اور بھارت مل بیٹھ کر بات نہیں کرتے تب تک یہ مسئلہ حل نہیںہو سکتا۔بھارتی ایجنسیاں کشمیر میں پیسہ استعمال کرتی ہیں: امرجیت سنگھ دولت ادیتیہ سنہا نے امرجیت سنگھ دولت سے پوچھا کہ انہوں نے اپنی کتاب میں یہ بات کہی ہے کہ کشمیر میں پیسے کا استعمال ہو رہا ہے۔ امرجیت سنگھ دولت کا کہنا تھا کہ اس انکشاف پر بھارت کے طاقتور حلقے ان سے ناراض تھے۔انہیں تہاڑ جیل بھیجنے کی دھمکیاں بھی دی گئیں۔ کچھ لوگوں نے الزام لگایاکہ میں کشمیر میں رشوت استعمال کر کے اپنی جگہ بناتا رہا ہوں۔ لیکن میںایسے لوگوں سے کہتا ہوں کہ آپ مسئلہ کشمیر سے خود نمٹ کردکھائیں۔
ایک چوکیدار کی گواہی نے تاریخ بدل دی
دوسرا باب
سپائی کرونیکلز میں ایک جگہ آدیتیہ سنہا نے سابق ڈی جی آئی ایس آئی اسددرانی سے پوچھا کہ وہ آئی ایس آئی کا حصہ کیسے بنے۔ اسد درانی کا جواب تھا کہ حادثہ تھا جو مجھے آئی ایس آئی میں لے گیا۔ مجھے تو اس کام کی تربیت ہی نہیں ملی تھی بلکہ میں ایک نارمل سا لائن آفیسر تھا۔ آئی ایس آئی کے لیے کام کرنے کا پہلا تجربہ 1980کے دوران اس وقت ہوا۔جب میں جرمن ایمبیسی میں دفاعی مشیر تھا۔ اور یہ تجربہ بھی بس برائے نام ہی تھا۔ اور میری پوسٹنگ کا جو قصہ ہے وہ بڑے ہی مزے کا ہے۔ ہوا یوں کہ میرا نام اس پوسٹ کے لیے گیا تو معمول کے مطابق مختلف ایجنسیوں نے میرے بارے میں معلومات اکٹھی کیں۔ ایک ایجنسی کے لوگ ماڈل ٹائون لاہور میں میرے سسرال بھی گئے۔ میرے سسرال والے گھر پر نہیں تھے۔توانہوں نے پڑوسی گھر کے چوکیدار سے سوال پوچھا کہ یہ کیسے لوگ ہیں۔ چوکیدار نے جواب میں کہا یہ اچھے لوگ ہیں۔ اس چوکیدار کی گواہی نے مجھے یہ پوسٹ دلادی بلکہ میں اکثر اس بات کا ذکر کرتا ہوں کہ میری جرمنی پوسٹنگ کا سرٹیفکیٹ اس چوکیدار نے دیا تھا۔اسد درانی جرمنی سے راز کیسے معلوم کرتے تھے خیرجرمن سفارت خانے میں بطور مشیر دفاع میں آئی ایس آئی کے لیے کام کررہا تھا مگر مجھے کوئی خفیہ مشن نہیں سونپا ہوا تھا۔ سادہ لفظوں میں کہوں تو میں جرمنی میں جاسوسی نہیں کررہا تھا۔ میرے میزبان مجھے اچھی طرح جانتے تھے اور کچھ بھی مجھے پوچھنا ہوتا وہ مجھے بتا دیتے تھے،اس کی وجہ میری یہ خوش قسمتی تھی کہ اس دور میں افغانستان میںسوویت فوجیں داخل ہو چکی تھیں اور پاکستان مغرب کا اتحادی تھا، سومجھے جو جاننا ہوتا وہ میں آسانی سے معلوم کر لیتا۔ میں نے نیٹو مشیر کے بعد سب سے زیادہ معلومات وہاں سے نکالیں۔ بلکہ اکثر تو خصوصی اور اہم معلومات مجھے آسانی سے مل جاتیں۔بھارت مجھے سخت گیر موقف فوجی سمجھتاتھا، درانی91 میں میں پاکستان واپس آگیا اور حسب سابق لائن افسر کے طور پر کام میںلگ گیا۔ ضیا طیارہ حادثے میں ہلاک ہو گئے تو جنرل اسلم بیگ نے مجھے ملٹری انٹیلی جینس کا سربراہ بنا دیا۔ سچ کہوں تو میرے لیے یہ ناگہانی آفت تھی۔ اس کے بعد آئی ایس آئے میں واپسی ہوئی تو وہ بھی حادثاتی تھی۔ ہوایوں کہ اگست 0881 میں بے نظیر حکومت ختم کی گئی تو مجھے اس وقت تک کے لیے عارضی طور پر آئی ایس آئی کا سربراہ بنادیا گیا اور کہا گیا کہ جیسے ہی کوئی مناسب بندہ ہمیں ملے گا آپ کو واپس بلا لیا جائے گا۔ مگردوسال کی ایم آئی کی سربراہی اور افغانستان، کشمیر اور عراق کویت پرمیری گہری نظر تھی اس لیے میری نوکری پکی ہوگئی۔میں اٹھارہ ماہ تک آئی ایس آئی کا حصہ رہا اس کے بعد واپس ایم آئی آگیا وہاں مجھے بھارت کی ایک خفیہ رپورٹ دیکھنے کو ملی جس میں مجھے سخت گیر موقف رکھنے والا فوجی لکھا گیا تھا۔ مجھے حیرت ہوئی کہ آج تک جرمنی میںبھارتی اتاشی کے علاوہ میری کسی ہندوستانی سے بات چیت نہیں ہوئی تھی مگر یہ موقف بنا لیا گیا۔
جب ہم دوسرے ملکوں میں کام کرتے ہیں تو نہ ہم سخت گیر ہوتے ہیں نہ نرم خو)نہ باز نہ فاختہ( بلکہ کولیگ ہوتے ہیں جو تیسرے ملک میں کام کر رہے ہوتے ہیں۔ اور اس دوران عام سے موضوعات پر معمول کی بات چیت بھی ہوتی رہتی ہے۔میں نے فوج میں انٹیلی جینس کور بنائے۔
آدیتیہ سنہا کی طرف سے جب یہ پوچھا گیا کہ جرمنی جانے سے پہلے خفیہ ایجنسی کا آپ کا تصور کیا تھا، تو اس کے جواب میں جنرل اسد درانی نے کہا کہ وہی تصور تھا جو ایک عام پاکستانی، ہندوستانی یا کسی بھی ملک کے باشندے کا ہو سکتا ہے۔ سائے جیسے، خفیہ، خاموش ایسے لوگ جن سے محتاط رہنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ لیکن جب میں نے کام کیا تو مجھے حیرت ہوئی کہ پتہ نہیں ایسا تصور کیوں قائم ہوا ہے۔ ہم صرف ملک کو درپیش خطرات کا تخمینہ لگاتے ہیں۔ ایسے خطرات جن کی سرپرستی بیرونی عناصر کررہے ہوتے ہیں۔ ہم آئی ایس آئی میں بس یہی کرتے تھے کہ متعلقہ حکام کو خطرات سے آگاہ کردیں۔ مجموعی طور پر مجھے یہ کام ویسا نہیںلگا جیسا عام تاثر ہے بلکہ مجھے تو یہ معزز پیشہ لگا۔ اور یہی ذہن میں رکھ کر میں نے پاکستان آرمی میں انٹیلی جینس کارپس تشکیل دیے۔ میراماننا ہے۔کہ انٹیلی جینس کے کچھ پہلو ایسے ہیں جنہیں ا سپیشلسٹس کو ہی ڈیل کرنا چاہیے۔ انٹیلی جینس کارپس کا خیال پہلے بھی آرمی میں موجود تھا مگرخدشات یہ تھے کہ اس سے مافیا بن جاتا ہے اور ملکی مفاد سے زیادہ برادری کے مفادات سامنے رہتے ہیں۔ اور دوسرے اس سے ڈرے سہمے رہتے ہیں۔ لیکن میں نے اس کے باوجود یہ قدم اٹھایا۔بعض جاسوسوں کی معلومات ضرورت سے زیادہ کیوں ہوتی ہیںہمارے اس کام میں ایک چیز البتہ ہے جسے کولیٹرل ڈیمیج کہا جا سکتا ہے۔
بعض اوقات ایسا ہوتا کہ میں ایسے لوگوں کے پیچھے ہوتا تھا جو دشمن ملک کے پیرول پر ہوتے تھے یا ایسے لوگوں کے لیے کام کررہے ہوتے جن کے مفادات میرے مفادات سے متصادم تھے تو اس دوران ان کی کوئی ایسی سرگرمی ہمارے ہاتھ لگ جاتی جس کا ملکی مفاد سے کوئی لینا دینا نہیں ہوتاتھا۔ جیسے کسی لڑکی کے ساتھ پکڑلیا اور بلیک میل کرنا شروع کردیا ، اب اس معاملے کا ملکی مفاد سے کوئی لینا دینا نہیں ہوتا تھا لیکن چونکہ خفیہ معلومات جمع کرنے والے ہر وقت پیچھے ہوتے تھے تو ان کے پاس ایسی معلومات بھی ا?جاتیں۔ میری کوشش یہ رہی کہ ایسے معاملات پر کڑی نگرانی رکھوں اور ملکی مفاد کے خلاف معلومات کے علاوہ اور معلومات کو بلیک میلنگ کا ذریعہ نہ بننے دوں۔ اس طرح کی چیزیں ہوتی ہیں لیکن یہ ہمارااصل کام نہیں ہے۔ مگر ایسی حرکتوں کی وجہ سے لوگ خفیہ ایجنسیوں کے کردار کے مخالف ہو جاتے ہیں۔ جاسوس بعض اوقات ایسی بھی باتیں جان جاتے ہیں جو ہم نہیں چاہتے کہ وہ جانیں۔ مگر اس کام کی اب نوعیت ہی ایسی ہے۔ کیونکہ لوگوں کو اگر معلوم ہو جائے کہ انہیں ڈرایا جا سکتا ہے معلومات کا استحصال کیا جا سکتا ہے تو وہ ڈر جاتے ہیں۔نوازشریف کو ایک لاعلاج مرض ہے آدیتیہ سنہا نے جنرل درانی سے ایک دلچسپ سوال کیا کہ نوازشریف کے ساتھ کام کرنے کا تجربہ کیسا رہا۔ اس پر جنرل درانی کا کہنا تھا کہ ان کیساتھ میری کبھی نہیں بن سکی۔ان کے پہلے دور حکومت میں میں آئی آیس آئی کا سربراہ تھا۔ میرے خیال میں نوازشریف اعلی ذہنی صلاحیتوں کے مالک نہیں تھے بلکہ میرا تو خیال ہے کہ بعض چیزوں کے بارے میں انہیں مالیخولیا تھا۔ وہ ہروقت اسی تاک میں رہتے کہ پتہ نہیں فوج اب کیا کرے گی،پتہ نہیں آئی ایس کیا کرے گی، آئی ایس آئی چیف میری پسند کا ہوناچاہیے۔ جب میرے باس مرزا اسلم بیگ ریٹائر ہو گئے اور چونکہ ا?ئی ایس آئی کے سربراہ کا تعین وزیراعظم کو کرنا ہوتا ہے اور آرمی کبھی نہیں کہتی کہ ’’اسی آدمی کو لگائو‘‘۔ تو میں اس وقت جانے کو تیار تھا۔ ویسے بھی میںٹوسٹار جنرل تھا اور عارضی طور پر ا?ئی ایس ا?ئی کا انتظام دیکھ رہا تھا۔ اور پھر میں تھری سٹار جنرل بن گیا اور میاں صاحب نے کہا کہ آپ ہی کام کو جاری رکھیں کیونکہ آرمی چیف مرزا اسلم بیگ گئے اور اب آصف نواز جنجوعہ آرمی چیف ہیں۔ یہ دماغی خلل ہے، نوازشریف نے سوچا کہ اگر آصف نواز نے نیا ڈی جی آئی ایس آئی لگایا توان دونوں کا گٹھ جوڑ ہوجائے گا۔ نوازشریف میرے بارے میں شکوک و شبہات کا شکار تھے مگرجب آصف نواز آرمی چیف بن گئے تو انہوں نے کہا یہی بندہ آئی ایس آئی چیف لگا رہے۔سیاستدانوں میں ہمارا غلط تاثر پایا جاتا ہے۔یہ وہ غلط تاثر ہے جو سویلین سیاستدانوں میں پایا جاتا ہے۔ انہیں معلوم ہی نہیں کہ فوج میں وفاداریاں کیسے کام کرتی ہیں۔ ہم کسی کے آدمی نہیں ہوتے۔ اس موقع پر را کے سابق سربراہ اے ایس دلت نے مداخلت کرتے ہوئے کہا کہ میں اس بات سے مکمل اتفاق کرتا ہوں کیونکہ مجھے بھی فاروق عبداللہ کابندہ کہا جاتا تھا، اس کے بعد مجھے برجیش مشرا کا بندہ کہا جانے لگا۔ جنرل اسد درانی نے اپنی بات پھر شروع کی اور کہا ہم کسی کو پسند نا پسند توکرسکتے ہیں مگر جب ہمارا کام آتا ہے تو ہم صرف اپنے ادارے کے وفادارہوتے ہیں۔ یہ آج بھی ہمارا ایک پلس پوائنٹ ہے۔ مثال کے طور پر 0880 میںخلیج کی جنگ پر میں اسلم بیگ سے متفق نہیں تھا جبکہ نوازشریف کی افغان پالیسی پر میرا اختلاف ہوا۔ نوازشریف کا کہنا تھا کہ افغان لویہ جرگہ کے لیے ہم وسیع تراتفاق رائے کی کوشش کر رہے ہیں جس میں اقوام متحدہ کو بھی شامل کیا جائے کیونکہ پاکستان اکیلا، یا پاکستان ایران یا سعودی عرب اکیلے یہ کام نہیں کر سکتے۔ اسی طرح یہ سب کو معلوم ہے کہ خلیجی بحران کو اسلم بیگ کس نظر سے دیکھتے تھے مگر ڈی جی ملٹری آپریشنزنے ان سے اختلاف کیا۔ بطور ڈی جی آئی ایس آئی میں بھی ان سے متفق نہیں تھا۔ مگر اس مخالف پر اسلم بیگ ہمارے دشمن نہیں ہو گئے۔ جب ان کااندازہ غلط ثابت ہوگیا تو انہوں نے سرعام تسلیم کیا کہ وہ غلط تھے۔ یہ تھی اس آدمی کی عظمت۔ جہاں تک نوازشریف کا تعلق ہے وہ مجھ پر اعتماد نہیںکرتے تھے۔ اس لیے چھ ماہ بعد جب انہیں موقع ملا تو وہ اپنی پسند کا بندہ لے آیا۔ میں چلا گیا۔ بلکہ میرے لیے تو یہ بہتر ہوا۔ میں واپس فوج کے مین سٹریم میں چلا گیا۔ اس کے بعد میں ملٹری ٹریننگ کے شعبے میں چلا گیا۔ اس دورمیں میں بہت خوش تھا۔ اس کے بعد میں نیشنل ڈیفنس کالج چلا گیا۔ میں خوش قسمت رہا کہ میں نے فوج کے تمام ہی شعبوں میں کام کیا۔ جب را نے کہا ’’یہ تو ہمار افرض تھا ‘
جنرل درانی کے بیٹے کاروباری
سلسلے میںبھارت گئے
تیسرا باب
جنرل اسد درانی نے بتایا کہ ان کے بیٹے عثمان مئی 5102 میں بھارت میںپھنس گئے تھے۔ لیکن را نے انہیں وہاں سے نکلنے میں مدد دی۔ عثمان جرمنی کی ایک کمپنی کے بانیوں میں شامل تھے۔ اس کمپنی کا ایک دفتربھارت میں بھی کھولا گیا۔ عثمان بیس برس سے جرمنی میں آباد تھے اورانہیں کمپنی کے لیے کام کرتے ہوئے پندرہ برس ہو گئے تھے۔ وہ کمپنی کے سافٹ ویئر ڈویڑن کے سربراہ تھے۔ لیکن انہوں نے کبھی جرمن شہریت نہیںلی تھی اور وہ خود کو محب وطن پاکستانی کہتے تھے اور اس وجہ سے جرمن شہریت لینے سے انکاری تھے۔ عثمان پاکستانی پاسپورٹ پر بھارتی شہر کوچی کا ویزہ لے کر وہاں پہنچے۔ ان کی آمد کا مقصد کمپنی کے لیے نئے لوگ بھرتی کرنا اور عملے کی حوصلہ افزائی کرنا تھا۔ جنرل درانی کہتے ہیں کہ کوچی شہر کے لوگ اردو نہیں بول سکتے تھے۔ لیکن انہیںایک پاکستانی کو اپنے درمیان دیکھ کر بہت خوشی ہوئی۔ وہ عثمان سے یہ بھی کہتے رہے کہ وہ اگلی بار اپنے بیوی بچوں کو بھی ساتھ لائیں۔جنرل درانی کے بیٹے کو طیارے سے اتار دیا گیاجنرل درانی کے بیٹے عثمان جب جرمنی واپس جانے لگے تو کوچی کے عملے نے ان کی فلائٹ ممبئی سے بْک کروا دی۔ عثمان نہیں جانتے تھے کہ بھارت میں آنے والے پاکستانی صرف اسی شہر میں رہ سکتے ہیں جس کاویزہ موجود ہو۔ کسی نئے شہر جانے کے لیے انہیں پولیس سٹیشن اورغیرملکیوں کے رجسٹریشن آفس سے کلیئرنس لینا پڑتی ہے۔ جب وہ ممبئی ایئرپورٹ پر پہنچے تو ائرپورٹ کے عملے نے دیکھا کہ ان کے پاسپورٹ پرممبئی کا ویزہ نہیں ہے پھر وہ اس شہر میں کیسے داخل ہوئے؟ اس لیے انہیںطیارے میں سوار ہونے کی اجازت نہیں دی گئی اور ائرپورٹ سے جانے کے لیے کہہ دیا گیا۔ عثمان نے اپنے والد کو صورتحال سے آگاہ کیا جو اتنے پریشان ہوئے کہ انہوں نے امرجیت سنگھ دولت کو فون کردیا۔ امرجیت سنگھ دولت کہتے ہیں کہ ان کے لیے دہلی کے مقابلے میں ممبئی میں اپنے تعلقات استعمال کرنا زیادہ آسان تھا۔
را کی اطلاع پر جنرل مشرف
کی جان بچی تھی،را چیف کا انکشاف
امرجیت سنگھ دولت نے را میں اپنے سابق کولیگ سے رابطہ کیا۔ یہ عہدیدار 5112 میں را کا حصہ تھے جب را کی طرف سے آئی ایس آئی کودی گئی ایک خفیہ اطلاع پرجنرل مشرف کی جان بچا لی گئی تھی۔ امرجیت کو یقین ہے کو اس اطلاع میں ان کے کولیگ نے بھی کردار ادا کیا تھا۔
جنرل درانی کے بیٹے کو
بھارت سے کیسے نکالاگیا
عثمان بھارت کے کسی سرکاری دفتر میں پہنچ گئے۔ جہاں وہ جس افسر کے پاس بھی جاتے تھے انہیں کہا جاتا کہ وہ صاحب اپنی سیٹ پر موجود نہیںہیں۔ تاہم کسی نے بھی عثمان کو یہ نہیں بتایا کہ ان کے پاس ممبئی کا ویزہ ہی موجود نہیں ہے۔ جنرل درانی اور ان کی اہلیہ پریشان تھے کہ اگر کسی کو معلوم ہو گیا کہ آئی ایس آئی کے سابق سربراہ کا بیٹا ممبئی میں گھوم رہا ہے۔ کیونکہ ممبئی شہر کے لوگ تھے۔ حتیٰ کہ جس ٹیکسی میں عثمان نے سفرکیا تھا اس کا ڈرائیور بھی حالات سے آگاہ تھا۔ ایک قْلی نے بھی عثمان کو مشورہ دیا کہ وہ کوچی واپس چلے جائیں۔ جنرل درانی نے امرجیت سنگھ دولت کو کئی بار فون کیا اورپوچھا کہ کیا عثمان کو واپس کوچی بھیج دیا جائے۔ تاہم امرجیت سنگھ دولت نے ان سے کہا کہ ہمارے لوگ اس حوالے سے کام کررہے ہیں اور انشا اللہ عثمان ممبئی سے ہی طیارے میں بیٹھ کر جائیں گے۔ آپ کو اللہ پر یقین ہے تومجھے بھی واہے گرو پر بھروسہ ہے۔اس ساری صورتحال میں چوبیس گھنٹے گزر گئے۔ اس دوران دولت نے بھارتی انٹیلی جنس بیورو کے ایک افسر جیون ورکار سے رابطہ کیا۔ جیون کی مداخلت پر عثمان کو ممبئی ائرپورٹ سے جانے کی اجازت مل گئی۔ عثمان نے جرمنی کے شہر میونخ کے لیے فوری طور پرجرمن ایئرلائنز لفت ھانزا کی ویب سائٹ سے اگلی فلائٹ بْک کر لی۔ یوں را کے سابق سربراہ کی کوششوں سے سابق آئی ایس آئی چیف کے بیٹے کو بھارت سے جانے کی اجازت مل گئی۔
جنرل درانی کے بیٹے
جرمن شہری بن گئے
عثمان نے جرمنی لوٹ کراپنی بیوی اور دو بیٹیوں کے ساتھ جرمنی کی شہریت اختیار کر لی تاکہ پھر بھارت میں انہیں ایسی مشکل کا سامنا نہ کرناپڑے۔ جنرل اسد درانی نے عثمان کے ممبئی سے نکلنے کے بعد امرجیت سنگھ دولت کو فون کیا اور کہا کہ آپ کے واہے گرو پر ایمان نے عثمان کوبچا لیا۔ دولت نے جواب دیا کہ واہے گرو نے کہا تھا کوئی ہندو ہے نہ مسلمان۔ ہم سب ایک ہی مذہب پرپیدا ہوئے ہیں۔ کائنات چلانے والی عظیم ہستی نے عثمان کو بچایا ہے۔ دولت نے جیون کا شکریہ ادا کرنے کے ساتھ ساتھ را میں اپنے سابق ساتھی کو بھی فون کیا۔ اس شخص نے شکریے کیجواب میں جنرل درانی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ان کی مدد کرنا ہمارافرض تھا کیونکہ آخر وہ بھی ہمارے کولیگ ہیں۔
حکومت کی تبدیلی کا کوئی امکان نہیں ، ملک کی بہتری، کامیابی کے لیے سسٹم چلانا ہے اور یہی چلے گا( مقتدر حلقوں کا پی پی کو پیغام) دونوں جماعتوں کی مرکزی قیادت کو ایک پیج پر متحد بھی کردیا گیا اگلے ماہ دونوں جماعتوں کے درمیان وزارتوں کی تقسیم کا معاملہ طے ہوجائے گا، جولا...
جب ملک کو ضرورت پڑی تو جہاد کا اعلان کریں گے ، پھر فتح ہمارا مقدر ہوگی ، دھاندلی زدہ حکومتیں نہیں چل سکتیں اس لیے خود کو طاقتور سمجھنے والوں کو کہتا ہوں کہ عوامی فیصلے کے آگے سر تسلیم خم کریں ہم نے 2018کے الیکشن قبول کیے ،نہ ہی 2024کے دھاندلی زدہ انتخابات کو قبول کی...
پورا عدالتی نظام یرغمال ہے ،سپریم کورٹ سے جعلی فیصلے کرواکر سیاست کی جاتی ہے اسٹبلشمنٹ آج اپوزیشن سے بات کر لے تو یہ نظام کو قبول کرلیں گے ،امیر جماعت امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمن نے کہا ہے کہ حکومت اور اسٹبلشمنٹ نے ٹرمپ کی چاپلوسی میں کشمیر پر کمپرومائز کیا تو قوم مزاح...
پیداوار کے مقابلے کھپت میں کمی، بجلی چوری توانائی کے شعبے کے سب سے بڑے چیلنجز ہیں اپنا میٹر، اپنی ریڈنگ منصوبے کا باضابطہ اجرا باعث اطمینان ہے ، شہبازشریف کا خطاب وزیراعظم شہباز شریف نے ملک بھر میں بجلی کے بلوں میں ٹی وی لائسنس فیس ختم کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ سالانہ...
ترقی کیلئے عوام، حکومت اور افواج کے درمیان مضبوط تعلقات ناگزیر ہیں، بھارت اپنی فوجی طاقت، قوم پرستی اور جعلی اسٹریٹجک اہمیت سے سیاسی فوائد حاصل کرنا چاہتا ہے بھارت کا غرور خاک میں مل گیا، ہمارا مستقبل روشن ہے،معرکہ حق اور اس میں ہونے والی شکست کو کبھی بھول نہیں سکے گا، پاکستان ن...
مذاکرات ہی تمام چیزوں کا حل ہے، بیٹھ کر بات کریں، پہلے بھی آپ کو کہا ہے کہ بیٹھ کر بات کر لیںشہباز شریف انشااللہ‘ بیرسٹر گوہر کا وزیر اعظم کو جواب شہباز شریف اور بیرسٹر گوہر کے درمیان مکالمہ مخصوص نشستوں کے فیصلے سے قبل ہوا، قومی اسمبلی میں وزیراعظم اٹھ کر بیرسٹر گوہر سے مصافحہ...
سپریم کورٹ کے فیصلے سے ہمیں مایوس ہوئی،اُمید تھی کہ مخصوص نشستیں ہمیں مل جائیں گی 39 امیدواروں کے نوٹیفکیشن کو کسی نے چیلنج نہیں کیا تھا، چیئرمین پی ٹی آئی کی میڈیا سے گفتگو پاکستان تحریک انصاف پی ٹی آئی کے چیٔرمین بیرسٹر گوہر علی خان نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے سے ہمی...
شہباز شریف کا سندھ طاس معاہدے کی یکطرفہ معطلی پر مستقل ثالثی عدالت کی طرف سے دیے گئے ضمنی ایوارڈ کا خیرمقدم عدالتی فیصلے سے پاکستانی بیانیہ کو تقویت ملی ، آبی وسائل پر کام کر رہے ہیں، اعظم نذیر تارڑ اور منصور اعوان کی کاوشوں کی تعریف وزیراعظم شہباز شریف نے سندھ طاس معاہدے کی...
چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی کا سندھ طاس معاہدے پر عالمی ثالثی عدالت کے فیصلے کا خیر مقدم بھارتی فیصلے کی بین الاقومی قانون میں کوئی گنجائش نہیں ہے، سندھو پر حملہ نامنظور،ایکس پر بیان چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے سندھ طاس معاہدے پر عالمی ثالثی عدالت کے فیصل...
ہلاکتیں ٹریفک حادثات، کرنٹ لگنے، دیوار گرنے اور ندی میں ڈوبنے کے باعث ہوئیں سپرہائی وے ،لانڈھی ،جناح کارڈیو ،سائٹ ایریا ،سرجانی، لیاری میں حادثات پیش آئے شہر قائد میں مون سون کی پہلی بارش جہاں موسم کی خوشگواری کا پیغام لائی، وہیں مختلف حادثات و واقعات میں 7 افراد زندگی کی با...
بھارت ہم سے7گنا بڑا ملک اوروسائل میں بھی زیادہ ہے، تاریخی شکست ہوئی اسلام آباد پریس کلب دعوت پرشکرگزارہوں، میٹ دی پریس میں میڈیا سے گفتگو چیئرمین پاکستان پیپلزپارٹی بلاول بھٹوزرداری نے کہا ہے کہ ہم جنگ جیتنے کے باوجود امن کی بات کرتے ہیں۔اسلام آباد پریس کلب میں ’میٹ دی پریس...
(کوہستان میگاکرپشن اسکینڈل) اسیکنڈل کس وقت کا ہے،کرپشن کے اصل ذمے دار کون ہیں؟،عوام کے سامنے اصل حقائق لائے جائیں اڈیالہ جیل میں بانی پی ٹی آئی سے ایک روز قبل بیرسٹر سیف کی ہونیوالی ملاقات کی اندرونی کہانی سامنے آ گئی کوہستان میگاکرپشن سکینڈل میں ہماری حکومت کا تاثر غلط جا...