وجود

... loading ...

وجود

فاٹا کاانضمام ہی مناسب فیصلہ ہے

منگل 22 مئی 2018 فاٹا کاانضمام ہی مناسب فیصلہ ہے

قومی سلامتی کمیٹی نے آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کو مزید انتظامی اور مالی اختیارات اور گلگت بلتستان کو 5 سالہ ٹیکس چھوٹ دینے پر اتفاق کرتے ہوئے فاٹا کے خیبر پختونخوا میں انضمام ،اس کے ساتھ ساتھ فاٹا کے لیے اضافی ترقیاتی فنڈز فراہم کرنے کی توثیق کر دی اور متعلقہ وزارتوں کو ہدایت کی کہ آئینی ، قانونی اور انتظامی طریقہ کار طے کیاجائے۔وزیر اعظم کی زیر صدارت اجلاس میں وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال ، وزیر دفاع و خارجہ امور خرم دستگیر خان ، وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل ، چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی جنرل زبیر محمود حیات ، آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ ، نیول چیف ایڈمرل ظفر محمود عباس ، ائیر چیف مارشل مجاہد انور خان اور ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل نوید مختار سمیت سینئر سول و عسکری رہنماوں نے شرکت کی۔ منصوبہ بندی کمیشن کے ڈپٹی چیئرمین سرتاج عزیز نے کمیٹی کو بریفنگ دی۔ وزیر اعظم نے کمیٹی کو بتایا کہ سیاسی مشاورت میں فاٹا کے خیبر پختونخوا میں ضم ہونے پر اتفاق ہے جس پر قومی سلامتی کمیٹی نے فاٹا کے خیبر پختونخوا میں انضمام کی توثیق کر دی۔ دریں اثناء قومی اسمبلی میں پارلیمانی رہنمائوں کے اجلاس میں بھی فاٹا اصلاحات پر اتفاق کیاگیا۔ سپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق کے چیمبر میں پارلیمانی جماعتوں کے ارکان کا اجلاس ہوا جس کی صدارت مشیر قانونی امور بیرسٹر ظفر اللہ نے کی۔ اجلاس میں پی ٹی آئی کے شاہ محمود قریشی، پی پی پی کی شیری رحمن، قومی وطن پارٹی کے آفتاب شیرپاو، جماعت اسلامی کے صاحبزادہ طارق اللہ، مسلم لیگ (ن) اور فاٹا کے ارکان نے شرکت کی۔ ایم کیو ایم اور جے یو آئی (ف) کے ارکان اجلاس میں شریک نہ ہوئے۔بیرسٹر ظفراللہ اور وزارت قانون کے حکام نے مجوزہ بل پر بریفنگ دی جبکہ فاٹا کو خیبرپی کے میں ضم کرنے کے حوالے سے حکومتی بل کا جائزہ لیا گیا۔جماعت اسلامی کے پارلیمانی لیڈر صاحبزادہ طارق اللہ نے بتایا کہ فاٹا اصلاحات پر اتفاق رائے پایا جاتا ہے اور دو تین دن بعد بل اسمبلی میں پیش کردیا جائے گا۔

قبائلی علاقہ جات یا وفاقی منتظم شدہ قبائلی علاقہ جات، پاکستان کے قبائلی علاقہ جات چاروں صوبوں سے علیحدہ حیثیت رکھتے اور یہ وفاق کے زیر انتظام ہیں۔ یہ علاقہ جات 27 ہزار 220 مربع کلومیٹر کے علاقے پر پھیلے ہوئے ہیں جو صوبہ سرحد سے منسلک ہیں۔مغرب میں قبائلی علاقہ جات کی سرحد افغانستان سے ملتی ہیں جہاں ڈیورنڈ لائن انہیں افغانستان سے جدا کرتی ہے۔ مشرق میں پنجاب اور جنوب میں صوبہ بلوچستان ہے۔ قبائلی علاقہ جات کی کل آبادی 40لاکھ کے قریب ہے جو پاکستان کی کل آبادی کا تقریبا 2 فیصد ہے۔یہ علاقے پاکستان کا حصہ توہیں تاہم ابھی تک کسی صوبے کا حصہ نہیں ہیں۔ یہ پاکستان کے دو وفاقی اکائیوں میں سے ایک ہے۔دوسری اکائی اسلام آباد ہے جبکہ تعمیرو ترقی کے حوالے سے دونوں اکائیوں میںزمین و آسمان کا فرق ہے جس کا اندازہ فاٹا کے عمومی نام علاقہ¿ غیر سے ہو جاتا ہے۔فاٹا کا علاقائی دار الحکومت پاراچنار ہے۔ علاقوں کو سات ایجنسیوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ خیبر ایجنسی، کرم ایجنسی، باجوڑ ایجنسی، مہمند ایجنسی اورکزئی ایجنسی، شمالی وزیرستان اورجنوبی وزیرستان ،ان کے علاوہ پشاور، ٹانک، بنوں، کوہاٹ اور ڈیرہ اسماعیل خان سے ملحقہ 6 سرحدی علاقے بھی موجود ہیں۔ فاٹا کو ایف سی آر قانون کے تحت چلایا جاتا ہے جو آج 21ویں صدی میں بھی سامراجیت کی علامت ہے۔ فرنٹیئر کرائمز ’’ریگولیشن( ایف سی آر) قانون کا نفاذ1848ء￿ میں انگریزوں نے علاقے پر اپنا کنٹرول مضبوط کرنے کے لیے کیا۔ اس میں وقتاً فوقتاً ترمیم ہوتی رہی۔ قانون کی رو سے فاٹا اور شمالی علاقہ جات کے عوام بنیادی انسانی حقوق سے محروم چلے آ رہے تھے۔2011ء تک کسی سیاسی جماعت کو ان علاقوں میں سرگرمیوں کی اجازت نہیں تھی۔ پیپلزپارٹی کی حکومت نے ایف سی آر قانون کو ختم کرنے کا اعلان تو کیا مگر عمل میں بہت تاخیر ہو گئی۔ آج بھی فاٹا کے لوگوں کو پاکستان کے آئین کی رو سے شخصی آزادی اور قانونی و سیاسی حقوق حاصل نہیں، جن کی راہ میں ایف سی آر بڑی رکاوٹ ہے۔فاٹا کے عوام کو قومی دھارے میں لانے کے لیے حکومت نے تاخیر ہی سے سہی بڑا دانشمندانہ فیصلہ کیا۔

سرتاج عزیز کی سربراہی میں فاٹا اصلاحات کے لیے ایک کمیٹی قائم کی گئی، کمیٹی نے شبانہ روز محنت سے سفارشات تیار کرکے پارلیمنٹ کے سامنے رکھ دیں۔ سرتاج عزیز کمیٹی نے فاٹا کے لوگوں سے رائے لی۔ عمومی رائے فاٹا کا خیبر پی کے میں انضمام ہے۔ دس دسمبر2017ء کو وزیرسفیران عبدالقادربلوچ اور سرتاج عزیز نے مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگلے ہفتے فاٹا کے حوالے سے قانون سازی ہو جائے گی۔ گزشتہ سال دسمبر کے وسط میں فاٹا اصلاحات بل قومی اسمبلی میں پیش ہونا تھا۔ ممبران اسمبلی میں کازلسٹ بھی تقسیم کر دی گئی تھی۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق مولانا فضل الرحمن نے سابق وزیراعظم نوازشریف کو فون کرکے بل پیش کرنے پر ناراضی کا اظہار کیا جس پر حکومت نے یہ کہہ کر بل کازلسٹ سے خارج کر دیا کہ ابھی مزید مشاورت کی جائے گی۔ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے اسی سال اکتوبر میں فاٹا میں بلدیاتی انتخابات کرانے کا اعلان کیا۔ فاٹا کے معاملات میں اسے مثبت پیشرفت قرار دیا گیا مگر وزیر سفیران عبدالقادر بلوچ کہتے ہیں ملک میں عام انتخابات کے ایک سال بعد فاٹا میں بلدیاتی انتخابات ہونگے جو فاٹا کے عوام کے لیے ایک مایوس کن خبر تھی۔پارلیمنٹ میں موجود تمام پارٹیاں سوائے جے یو آئی(ف) اور محمود اچکزئی کی پشتونخواہ ملی پارٹی کے، فاٹا کے خیبر پی کے میں انضمام پر متفق ہیں۔ محمود اچکزئی کا فاٹا اور کے پی کے میں کوئی سیاسی سٹیک نہیں ہے۔ وہ فاٹا کے خیبر پی کے میں ضم ہونے کی مخالفت کر رہے ہیں۔

مولانا فضل الرحمن کے پی کے اور فاٹا میں سیاسی حمایت رکھتے ہیں۔ مولانا فضل الرحمن فاٹا کی کے پی کے میں انضمام کی سخت مخالفت کرتے ہوئے اسے صوبے کا درجہ دینے پر زور دے رہے ہیں، وہ متعدد بار انضمام کا کسی طور پر فیصلہ تسلیم نہ کرنے کا اعلان کر چکے ہیں۔ وزیراعظم اور آرمی چیف کے ساتھ ملاقات میں ان کے موقف میں نرمی دیکھنے میں آئی جو وقتی ثابت ہوئی۔ مولانا کے موقف سے عدم اتفاق رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ وہ فاٹا کے معاملے کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ بادی النظر میں فاٹا کو قومی دھارے میں شامل کرنے کا مناسب طریقہ اسے خیبر پی کے میں شامل کرنا ہی ہے۔ سات اضلاع (ایجنسیوں) پر مشتمل 40لاکھ آبادی پر مشتمل علاقے کو کس طرح ایک صوبے کی حیثیت دی جا سکتی ہے؟ فاٹا صوبہ بنا تو مزید صوبوں کے قیام کے مطالبات میں بھی شدت آئے گی۔ مولانا ریفرنڈم کی بات کرتے ہیں کسی ضلع کے عوام کے سامنے صوبے کا آپشن رکھا جائے تو وہ بھی اس کے حق میں ووٹ دیں گے۔ مولانا ریفرنڈم ہی چاہتے ہیں تو فاٹا کے عوام سے یہ سوال پوچھا جا سکتا ہے کہ وہ کے پی کے میں انضمام یا ایف سی آر قانون کے تحت سٹیٹس کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔ کیا اس سوال پر مولانا اور اچکزئی کو ریفرنڈم قبول ہے؟۔حکومت بلاشبہ فاٹا کو قومی دھارے میں شامل کرنا چاہتی ہے۔ اس حوالے سے وہ اتفاق رائے کے لیے کوشاں ہے۔ مزید کوشش بھی کرنی چاہئے وہ اپنے اتحادیوں کو اعتماد میں لینے کے لیے سرگرم رہی ہے۔ حالات کو دیکھتے ہوئے امید کی جا سکتی ہے کہ اتحادی حکومت کا ساتھ دیتے ہوئے فاٹا کے خیبر پی کے میں انضمام کی حمایت کرنے پر آمادہ ہو جائیں گے۔ اگر وہ حمایت نہیں کرتے تو فاٹا کے خیبر پی کے میں انضمام میں مزید تاخیر کرکے فاٹا کے عوام کو مایوس نہ کیا جائے۔


متعلقہ خبریں


( صیہونی درندگی)22 گھنٹوں میں غزہ کے118مسلم شہید وجود - بدھ 02 جولائی 2025

ہنستے کھیلتے بچوں کی سالگرہ کا منظر لاشوں کے ڈھیر میں تبدیل ، 24 افراد موقع پر لقمہ اجل الباقا کیفے، رفح، خان یونس، الزوائدا، دیر البلح، شجاعیہ، بیت لاحیا کوئی علاقہ محفوظ نہ رہا فلسطین کے نہتے مظلوم مسلمانوں پر اسرائیلی کی یہودی فوج نے ظلم کے انہتا کردی،30جون کی رات سے یکم ج...

( صیہونی درندگی)22 گھنٹوں میں غزہ کے118مسلم شہید

(غلامی نا منظور )پارٹی 10 محرم کے بعد تحریک کی تیاری کرے(عمران خان) وجود - بدھ 02 جولائی 2025

ستائیسویں ترمیم لائی جا رہی ہے، اس سے بہتر ہے بادشاہت کا اعلان کردیںاور عدلیہ کو گورنمنٹ ڈیپارٹمنٹ بنا دیں،حکومت کے پاس کوئی عوامی مینڈیٹ نہیں یہ شرمندہ نہیں ہوتے 17 سیٹوں والوں کے پاس کوئی اختیار نہیںبات نہیں ہو گی، جسٹس سرفراز ڈوگرکو تحفے میں چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ لگای...

(غلامی نا منظور )پارٹی 10 محرم کے بعد تحریک کی تیاری کرے(عمران خان)

اشرافیہ کو نوازو، عوام کی کمر توڑو، یہ ہے حکومت کی پالیسی(حافظ نعیم) وجود - بدھ 02 جولائی 2025

عالمی مارکیٹ میں قیمتیں گریں توریلیف نہیں، تھوڑا بڑھیں تو بوجھ عوام پر،امیر جماعت اسلامی معیشت کی ترقی کے حکومتی دعوے جھوٹے،اشتہاری ہیں، پیٹرولیم کی قیمتوں میں اضافہ مسترد پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے پر امیر جماعت اسلامی پاکستان حافظ نعیم الرحمان کا ردعمل آگیا۔انہوں...

اشرافیہ کو نوازو، عوام کی کمر توڑو، یہ ہے حکومت کی پالیسی(حافظ نعیم)

حکومت کابجلی بلوں سے صوبائی الیکٹریسٹی ڈیوٹی ختم کرنے کا فیصلہ وجود - منگل 01 جولائی 2025

وفاقی وزیر توانائی نے تمام وزرائے اعلی کو خط لکھ دیا، محصولات کی وصولی کے متبادل طریقوں کی نشاندہی ،عملدرآمد کے لیے تعاون طلب بجلی کے مہنگے نرخ اہم چیلنج ہیں، صارفین دیگر چارجز کے بجائے صرف بجلی کی قیمت کی ادائیگی کر رہے ہیں، اویس لغاری کے خط کا متن حکومت نے بجلی کے بلوں میں ...

حکومت کابجلی بلوں سے صوبائی الیکٹریسٹی ڈیوٹی ختم کرنے کا فیصلہ

اسرائیل، امریکا کے عزائم کو متحد ہو کر ہی ناکام بنانا ہوگا( حافظ نعیم ) وجود - منگل 01 جولائی 2025

پاکستان، ایران اور ترکی اگراسٹریٹجک اتحاد بنالیں تو کوئی طاقت حملہ کرنے کی جرات نہیں کرسکتی گیس پائپ لائن منصوبے کو تکمیل تک پہنچایا جائے، ایران کے سفیر سے ملاقات ،ظہرانہ میں اظہار خیال پاکستان میں ایران کے سفیر رضا امیری مقدم نے اسرائیلی اور امریکی جارحیت کے خلاف ایران کی حم...

اسرائیل، امریکا کے عزائم کو متحد ہو کر ہی ناکام بنانا ہوگا( حافظ نعیم )

خودمختارپارلیمان ہماری جمہوریت کا دھڑکتا ہوا دل ہے(بلاول بھٹو) وجود - منگل 01 جولائی 2025

پارلیمان میں گونجتی ہر منتخب آواز قوم کی قربانیوں کی عکاس ، امن، انصاف اور پائیدار ترقی کیلئے ناگزیر ہے کسی کو بھی پارلیمان کے تقدس کو پامال کرنے کی اجازت نہیں دی جانی چاہئے،عالمی یوم پارلیمان پر پیغام پاکستان پیپلز پارٹی کے چیٔرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ خودمختار پا...

خودمختارپارلیمان ہماری جمہوریت کا دھڑکتا ہوا دل ہے(بلاول بھٹو)

ہاکی کے میدان میں بھی بھارت کی رسوائی وجود - منگل 01 جولائی 2025

ایف آئی ایچ پرو لیگ میں بھارتی ویمنز ٹیم آخری پوزیشن پانے کے بعد لیگ سے باہر آئرلینڈ کی جگہ نیوزی لینڈ یا پاکستان کی ٹیم کو اگلے سیزن کیلیے شامل کیا جائے گا،رپورٹ ہاکی کے میدان میں بھی بھارت کو رسوائی کا سامنا کرنا پڑ گیا۔ایف آئی ایچ پرو لیگ میں بھارتی ویمنز ٹیم آخری پوزیشن پ...

ہاکی کے میدان میں بھی بھارت کی رسوائی

غزہ میں صہیونی مظالم کی انتہا(140نہتے مسلم شہید) وجود - منگل 01 جولائی 2025

درندگی کا شکار فلسطینیوں میں بیشتر کی نعش شناخت کے قابل نہ رہی ،زخمیوں کی حالت نازک جنگی طیاروں کی امدادی مراکز اور رہائشی عمارتوں پر بمباری ،شہادتوں میں اضافے کا خدشہ غزہ کی پٹی پر اسرائیلی بمباری نے ایک بار پھر انسانیت کو شرما دیا۔ گزشتہ48گھنٹوں کے دوران صیہونی افواج کے وحش...

غزہ میں صہیونی مظالم کی انتہا(140نہتے مسلم شہید)

پیپلزپارٹی کا حکومت میں باقاعدہ شمولیت کا فیصلہ، وفاق میں وزارتیںلینے پر رضامند وجود - پیر 30 جون 2025

  حکومت کی تبدیلی کا کوئی امکان نہیں ، ملک کی بہتری، کامیابی کے لیے سسٹم چلانا ہے اور یہی چلے گا( مقتدر حلقوں کا پی پی کو پیغام) دونوں جماعتوں کی مرکزی قیادت کو ایک پیج پر متحد بھی کردیا گیا اگلے ماہ دونوں جماعتوں کے درمیان وزارتوں کی تقسیم کا معاملہ طے ہوجائے گا، جولا...

پیپلزپارٹی کا حکومت میں باقاعدہ شمولیت کا فیصلہ، وفاق میں وزارتیںلینے پر رضامند

اسلام آباد میں ایک ہفتے کی کال پر قبضہ کرسکتے ہیں،مولانافضل الرحمان وجود - پیر 30 جون 2025

  جب ملک کو ضرورت پڑی تو جہاد کا اعلان کریں گے ، پھر فتح ہمارا مقدر ہوگی ، دھاندلی زدہ حکومتیں نہیں چل سکتیں اس لیے خود کو طاقتور سمجھنے والوں کو کہتا ہوں کہ عوامی فیصلے کے آگے سر تسلیم خم کریں ہم نے 2018کے الیکشن قبول کیے ،نہ ہی 2024کے دھاندلی زدہ انتخابات کو قبول کی...

اسلام آباد میں ایک ہفتے کی کال پر قبضہ کرسکتے ہیں،مولانافضل الرحمان

کراچی کی مئیرشپ پر ڈاکا ڈالا گیا،حافظ نعیم الرحمان وجود - پیر 30 جون 2025

پورا عدالتی نظام یرغمال ہے ،سپریم کورٹ سے جعلی فیصلے کرواکر سیاست کی جاتی ہے اسٹبلشمنٹ آج اپوزیشن سے بات کر لے تو یہ نظام کو قبول کرلیں گے ،امیر جماعت امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمن نے کہا ہے کہ حکومت اور اسٹبلشمنٹ نے ٹرمپ کی چاپلوسی میں کشمیر پر کمپرومائز کیا تو قوم مزاح...

کراچی کی مئیرشپ پر ڈاکا ڈالا گیا،حافظ نعیم الرحمان

وزیراعظم کا بجلی بلوں میں ٹی وی لائسنس فیس ختم کرنے کا اعلان وجود - پیر 30 جون 2025

پیداوار کے مقابلے کھپت میں کمی، بجلی چوری توانائی کے شعبے کے سب سے بڑے چیلنجز ہیں اپنا میٹر، اپنی ریڈنگ منصوبے کا باضابطہ اجرا باعث اطمینان ہے ، شہبازشریف کا خطاب وزیراعظم شہباز شریف نے ملک بھر میں بجلی کے بلوں میں ٹی وی لائسنس فیس ختم کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ سالانہ...

وزیراعظم کا بجلی بلوں میں ٹی وی لائسنس فیس ختم کرنے کا اعلان

مضامین
بھارتی تعلیمی ادارے مسلم تعصب کا شکار وجود جمعه 04 جولائی 2025
بھارتی تعلیمی ادارے مسلم تعصب کا شکار

سیاستدانوں کے نام پر ادارے وجود جمعه 04 جولائی 2025
سیاستدانوں کے نام پر ادارے

افریقہ میں خاموش انقلاب کی بنیاد! وجود جمعه 04 جولائی 2025
افریقہ میں خاموش انقلاب کی بنیاد!

بلوچستان توڑنے کی ناپاک سازش وجود جمعرات 03 جولائی 2025
بلوچستان توڑنے کی ناپاک سازش

ابراہیمی معاہدے کی بازگشت وجود جمعرات 03 جولائی 2025
ابراہیمی معاہدے کی بازگشت

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر