وجود

... loading ...

وجود
وجود

زرد رُتوںکا تسلط اور مکافات عمل

منگل 22 مئی 2018 زرد رُتوںکا تسلط اور مکافات عمل

سیاست اور سماج کی رُت کیسی ہی رہی ہو، موسم کتنابھی بے فیض اور ناسازگار کیوں نہ ہو ،کالم نگارنے کتھا بیان کرنے میں اس قدر زیادہ سُستی یا تامل سے کبھی کام نہیں لیا۔ لیکن گزشتہ تین ہفتوں سے کچھ لکھا ہی نہیں گیا ۔کافی دن سفر کی نذر ہوئے ۔ لکھنے پڑھنے کے کمرے میں سانپ گھُسا پھر واپس چلا گیا یا غائب ہو گیا لیکن اُس کا خوف چھ سات دن کا عرصہ بھی ساتھ لے گیا ۔ 29 ؍ اپریل کو مینارِ پاکستان لاہور اور پھر 12 مئی کو کراچی میں منعقد ہونے والے پاکستان تحریک انصاف کے جلسوں میں عمران خان کی تقاریرسے قبل عمران اسماعیل کی جانب سے کنسرٹ پیش کرنے پر خواہش کے باوجود یہ بھی نہ لکھ پایا کہ عمران اسماعیل پر اُن کی پارٹی اس سے زیادہ بوجھ ہرگز نہ ڈالے کیونکہ بہت سے کراچی والوں کے مطابق ان کا اصل کام یہی ہے جو انہوں نے آج کل پی ٹی آئی کے جلسوں میں شروع کر رکھاہے ۔

سیاست اور حالات کی تبدیلیوںکی رفتار خاصی تیز رہی ۔مگر کالم نگار پر سید نصیر شاہ کے ان اشعار کی کیفیت طاری رہی کہ
جانے خاکے کس طرح موئے قلم سے جل گئے
رنگ سارے اُڑ گئے ویران ایزل ہوگیا
شام کے پنچھی اُڑانوں میں اچانک گر گئے دردمندوں کے لیے ہر لمحہ بوجھل ہوگیا
خیبر پختونخواہ کے حالات سے آگاہی رکھنے والے ایک دوست کی فون کال نے جھنجوڑا ۔ نیند سے بیدار کیا ۔ کہنے لگے کچھ پتا ہے کہ کیا ہورہاہے ۔۔۔؟ خیبر پختونخواہ میں ’’ نیب ‘‘ کی سربراہی ایک ایسے ذمہ دار بلکہ زبردست آفیسر کے سُپرد کر دی گئی ہے جو بے لاگ اور دوٹوک احتساب پر یقین رکھتا ہے ۔۔۔
میرا جواب تھا کہ یہ کام تو جسٹس جاوید اقبال پہلے بھی کر رہے ہیں ۔
دوست نے بتایا کہ خیبر پختونخواہ میں نیب نے بہت سی بڑی شخصیات پر ہاتھ ڈالنے کا فیصلہ کر لیا ہے ۔ یہ سب اس صوبے کے بڑے نام ہیں ان میں سے کچھ کے نام کا سکہ ماضی میں چلتا تھا کچھ نے مذہبی حلقوں کو تابع رکھا اور ایک آج کے دور کا’’ سلطان ‘‘ہے ۔ انہوں نے جو نام مجھے بتائے اُنہیں یہاں نقل کرنے میں اگرچہ کوئی امر مانع نہیں لیکن پھر بھی مجھے رازدای قائم رکھنے کی تلقین کی گئی ہے۔ ویسے بھی کالم نگار اس شعر کا ہمیشہ سے قائل رہا ہے کہ
لفظ اِک دن مدعی ہو جائیں گے اظہار پر
کوئی سچی بات کہنے سے نہ گھبرایا کرو
لہذا اب تک کی سچی بات یہی ہے کہ خیبر پختونخواہ کی تمام ہی سیاسی جماعتوںکی صفِ اول کی قیادت ایک لیڈر کے سمدھی اور ایک ناظم سمیت اپنی کارگزاریوں کے حساب کے لیے طلب کی جارہی ہے۔ موجودہ پارلیمان کی مدت پوری ہوتے ہی طلبیوں اور گرفتاریوں کا ایک نہ تھمنے والا سلسلہ شروع ہو جائے گا ۔
باتوں سے بات نکلی تو معلوم ہوا کہ میاں نواز شریف نے اپنے قریبی ساتھیوں سے آئندہ انتخابات کے بائیکاٹ کے صلاح مشورے شروع کر دیے ہیں ۔

یہ ساری صورتحال اس امر کی نشاندہی کرتی ہے کہ میاںنواز شریف اور ان کے ساتھی تین دہائیوں کے اقتدار کے بعد مکافات عمل کا شکار نظر آتے ہیں ۔ 2008 ء کے انتخابات میں اے پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے جب جنرل پرویز مشرف کی وردی کی چھتری کے سائے میں ہونے والے انتخابات کا تحریک انصاف سمیت ملک کی مختلف سیاسی پارٹیوںاور قوتوں نے بائیکاٹ کا فیصلہ کیا تو بعض بیرونی قوتوں کی مدد سے وطن واپس آنے والے میاں نواز شریف نے اے پی ڈی ایم کی قیادت کے فیصلے سے بغاوت کرتے ہوئے پیپلز پارٹی کی مشاورت سے انتخابات میں حصہ لینے کا اعلان کر دیا تھا ۔ اُن کے اس فیصلے کا جواز وہ ’’ میثاق جمہوریت ‘‘ قرار دیا جاتا ہے جس کے قیام کے پس منظر کے رازوں سے رحمن ملک کا سینہ بھرا پڑا ہے ۔ باخبر حلقے ہمارے ملک اور قومی سیاست پر اس ’’ میثاق ‘‘ کے مضمرات کے بارے میں ہمیشہ فکر مند رہے ہیں ۔

مکافات عمل کی کہانی کا جائزہ لیا جائے تو بات ’’ دلی تک چلی جانے کا اندیشہ ہے ۔ ‘‘ بے نظیر بھٹو کے اولین دورِ حکومت میں جب ’’ غیرمرئی قوتوں ‘‘کے اشارے پر میاں نواز شریف اور دائیں بازو کی تقریباً تمام ہی جماعتیں اور سیاستدان بے نظیر بھٹو کو ملک کے لیے’’ سیکورٹی رسک ‘‘ قرار دے رہے تھے تو اُس وقت کے وزیر داخلہ چوہدری اعتزاز احسن پر یہ الزام بھی لگایا گیا تھا کہ ’’ انہوں نے سکھ حُریت پسندوں کی فہرستیں اُس وقت کے بھارتی وزیر اعظم راجیو گاندھی کے حوالے کے تھیں جس کے نتیجے میں خالصتان کی تحریک کا دھڑن تختہ ہو گیا تھا۔ بعد ازاں ایک کیس میں چوہدری اعتزاز احسن نے میاں نواز شریف کی وکالت بھی کی تھی ۔ اُس کے بعد ہونے والے انتخابات کے ایک اشتہار پر چوہدری اعتزاز احسن کی تصویر پر ’’ بے نظیر کا سپاہی ۔ نواز شریف کا وکیل ‘‘ کے الفاظ بھی لکھے ہوئے دیکھے گئے ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اُن دنوں جب دائیں بازو کی تمام سیاسی جماعتیں اور سیاسی قیادت بے نظیر بھٹو کو سکیورٹی رسک قرار دے رہی تھیں تو اُس وقت مولانا فضل الرحمن بے نظیر بھٹو کی بالکل اُسی طرح حمایت کر رہے تھے جس طرح سے وہ دو روز قبل تک وہ میاں نواز شریف کے حامی تھے ۔

بے نظیر بھٹو نے پارلیمنٹ میں صدر غلام اسحق خان کے صدارتی خطات کے دوران ’’ گو بابا گو ‘‘ کے نعرے لگائے تھے تو میاں نواز شریف کی قیادت میں پارلیمنٹ میں صدارتی خطاب کے دوران ’’ گو لغاری گو ‘‘ کے نعروں کی گونج بھی اس قوم نے سُنی ہے ۔ اس موقع پر شیخ رشید احمد کی یاد بھی غیر متوقع اور بلاجواز نہیں ہے انہوں نے جنرل ضیاء الحق کے نظام میں آنکھ کھولنے والی اسمبلی سے اپنے پارلیمانی کیریئر کا اآغاز کیا تھا ۔ وہ میاں نوازشریف کے ساتھ تھے تو اسمبلی میں بے نظیر بھٹو صاحبہ پر اسی طرح پھبتیاں کسا کرتے تھے جس طرح گزشتہ پانچ سال سے قومی اسمبلی میں میاں برادران کو لتارتے رہے ہیں ۔ شیخ صاحب اُس اسمبلی میں جنرل پرویز مشرف کو ’’ سید مشرف ‘ ُکہہ کر تعظیم سے سرفراز کیا کرتے تھے جس میں عمران خان پہلی مرتبہ میانوالی سے منتخب ہو کر آئے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ29 ۔ اپریل کو لاہور میں مینار پاکستان کے سائے تلے ایک جلسے میں عمران خان نے کھل کر کہہ دیا کہ شیخ رشید احمد مجھے ایک ٹانگہ پارٹی کا سربراہ کہا کرتے تھے ۔سیاست کے رُخ بڑی حد تک متعین اور واضح ہو چُکے ہیں ۔ ٹیکنوکریٹس کی حکومت کے خواب دیکھنے والے اپنے خوابوں سے ہلکان ہو کر ان کا بوجھ کسی اور کے سُپرد کر رہے ہیں ۔ جہانگیر خان ترین دن کے پہلے پہر اِدھر اُدھر گھوم کر جن الیکٹیبلز کو گھیرتا ہے انہیںسہ پہر کو بنی گالہ کے ’’ مکین ‘‘ کی جھولی میں ڈال دیتا ہے ۔ میاں برادران کی جھولی کے چھیدوں نے اب ان کے لیے کچھ نہیں بچایا۔ انہوں نے تیس سال میں جو بویا اب وہی فصل کاٹنے کی رُت آگئی ہے۔ کالم سمیٹنا چاہتا ہوںتو یہ شعر فرار کا راستہ نہیں دیتا لہذاپڑھنے والوں کی نذر

ویسے تو ہے ابلیس کا یزداں سے تصادم
او ر اصل میں انسان کا نُقصان ہوا ہے


متعلقہ خبریں


مضامین
لیکن کردار؟ وجود جمعرات 28 مارچ 2024
لیکن کردار؟

خوابوں کی تعبیر وجود جمعرات 28 مارچ 2024
خوابوں کی تعبیر

ماحولیاتی تباہ کاری کی ذمہ دار جنگیں ہیں ! وجود جمعرات 28 مارچ 2024
ماحولیاتی تباہ کاری کی ذمہ دار جنگیں ہیں !

ریاست مسائل کی زدمیں کیوں ؟ وجود جمعرات 28 مارچ 2024
ریاست مسائل کی زدمیں کیوں ؟

مردہ قومی حمیت زندہ باد! وجود بدھ 27 مارچ 2024
مردہ قومی حمیت زندہ باد!

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر