وجود

... loading ...

وجود
وجود

کسانوں کے لیے ضروری ازخود نوٹس

بدھ 16 مئی 2018 کسانوں کے لیے ضروری ازخود نوٹس

گناکی فصل نے بالخصوص سندھ اور جنوبی پنجاب کے کسانوں کے گھروں میں حشر برپا کرڈالا ہے اغلب امکان یہی ہے کہ آئندہ جنوبی پنجاب کے کسان گنا کی فصل کم کم ہی کاشت کریں گے پی ٹی آئی کے سابق جنرل سیکریٹری ترین صاحب نے ہائیکورٹ میں رٹ کرکے شریفوں کے عزیزوں کی شوگر ملز کو بند کرڈالنے کا حکم لے لیا تھا اور یہ بھی کہ انہیں فوراً یہاں سے اکھاڑ لیا جائے اگر کسانوں کو پہلے ایسے کسی عمل کا علم ہوتا تو وہ لاکھوں ایکڑ فالتو گناکاشت ہی نہ کرتے بندملوں والے علاقہ میں ڈیڑھ لاکھ ایکڑسے زائد گنا فصلوں میں کھڑا سوکھتا رہا مگر ترین کے حاصل کردہ عدالتی حکم کے بموجب یہ گنا کسی ملز میں بھی فروخت نہ کیا جا سکتا تھاکہ وہ وافر گنا خریدنے کو تیار نہ تھے بالآخر بھلا ہو سپریم کورٹ کاکہ اس مرتبہ کے لیے گناخریدنے کی چھوٹ مل گئی مگر کسان انتہائی دیر ہوجانے کی وجہ سے اونے پونے داموں ملوں کی بجائے درمیانی ٹھگ وسود خور سرمایہ داروں کو بیچتے رہے تھے آخری صورتحال کے مطابق کہ کسان گنا بھی ہاتھ سے نکال بیٹھے اور ان کو ملز یادرمیانی افراد رقوم بھی دینے کو تیا ر نہیں۔

چیف جسٹس صاحب نے نوٹس لیااور حکماً گنا کی رقوم تمام کسانوں کو ادا کرنے کا کہابہر حال تمام ملوں ہی نے گنا حکومتی طے کردہ ریٹ سے 40تا50روپے کم قیمت پرخرید کر ہی کسانوں کی کمر توڑ ڈالی ہے سپریم کورٹ کے حکم پر آدھی پونی رقوم ملنے کا امکان ہے مگر کسان بری طرح رُل گئے ہیںاور “کون جیتا ہے تیری زلف کے سر ہونے تک “اگلی فصل انتہائی لیٹ ہوچکی ہے اب گندم بھی مارکیٹ میں آچکی اور حکومتی محکمہ فوڈکا وہی انوکھا وطیرہ جاری ہے کہ فی بوری 80تا120روپے بھتہ دو گے تو ہی 1300روپے فی من گندم خریدیں گے حکومت نے مکمل پیداوار کا غالباً چو تھا یا پانچواں حصہ ہی خریدنا ہے کسان مرتا کیا نہ کرتا سرکاری سینٹروں پر اس کی گندم کم ہی خریدی جارہی ہے کہ باردانہ بھی جان بوجھ کر دیر سے سپلائی کیا گیاتاکہ سینٹروں پر ہجوم نہ لگ سکے باردانہ بھی حکومتی ممبران اسمبلیوں و عہدیداروں کی سفارش کے بغیر ملنا محال ہو چکا ہے اس لیے کسان اونے پونے داموں یعنی850تا1050فی من ریٹ پر زیادہ گندم اوپن مارکیٹ میں بیچ چکے ہیں سرکاری سینٹروں پر تو تو ل میں بھی دو تاتین کلو زیادہ فی بوری گندم دینی پڑتی ہے ہر ضلع میں تقریباً 25تا30سینٹرز ہیں اور ہر سینٹر پر80ہزارتا ڈیڑھ لاکھ بوری گندم خریدی جاتی ہے اسطرح فی ضلع کل بوری تقریباً35تا40لاکھ خریدی جائے گی۔تو اسطرح 35تا40کروڑ رشوت لازماً فی ضلع وصول ہو جائے گی پھر ان حرام رقوم کی بندر بانٹ اپنے پکے اصولوں کے مطابق نیچے سے لیکر اوپر تک بلا جھجک کرڈالی جائے گی ۔

اب کپاس کی فصل کے ایڈوانس سودے بھی ہورہے ہیں بنک خوب سود کما رہے اور سود خور نودولتیوں کو بھاری سرمایہ فراہم کر رہے ہیںکسان بیچارہ گنا اور گندم دو فصلوں کا ڈسا ہوا ہے اب پھر انہی ٹھگوں سے لُٹے گا اس کے لیے ضروری ہے کہ چیف جسٹس جناب ثاقب نثار ازخود نوٹس لیکر کسانوں کی فصلات کی فروخت کا احسن انتظام کر ڈالیں کپا س کی ساری فصل اگر محکمہ فوڈ محکمہ زراعت اور پاسکو وغیرہ کے ذمہ لگا دیں تو بہتوں کا بھلا ہو جائے گا ہر یونین کونسل میں کم ازکم دو سینٹرز حکومتی کارپردازوں کے کھل جائیں تو دنیا کے غلیظ ترین غیر اسلامی نظام سود کی لعنت سے پاکستان کے کسانوں کی جان چھوٹ جائے گی سود لینے والا دینے والا اور اس معاہدہ میں گواہ بننے والا سبھی جہنمی ہو جاتے ہیں اور سود تو خدا اور اس کے رسول ﷺکے خلاف واضح جنگ کا نام ہے تقریباً پورا ملک ہی اس انتہائی بڑے گناہ کی زد میں رہتا ہے تو رحمت کے فرشتے کیسے ایسی ناپاک و پلید زمین پر اتر سکتے ہیں کر بھلا ہو بھلا کی طرح موبائل فون کی تقریباً چالیس فیصد رقوم کاٹے جانے کا ازخود نوٹس لیا جا چکا ہے ایک اور ازخودنوٹس لیکر کپاس جو کہ ملک کی بڑی اہم فصل ہے اس کے غریب کا شتکار کسانوں کوبچانے کا سوائے اس کے کوئی حل نہیں کہ یہ ساری فصل حکومت کی طے کردہ قیمت پر حکومتی مراکز پر خود حکومتی ملازمین نقد قیمت پرخریدیں۔

اسی طرح ازخود نوٹس کے تحت تمام خوردنی ،خورانی فصلوں ،دالوں چاول چنا آلو پیاز لہسن ٹماٹر سبزیاں وغیرہ کی بھی سرکاری خریداری ہو اور صارفین کو کم سے کم قیمت پر دستیاب ہوں اللہ اکبر تحریک تو پہلے ہی تمام کھانے پینے کی چیزوں کو بذریعہ سبسڈی 1/3 قیمت پر عوام کو سپلائی کرنے کا عہد کیے ہوئے ہے وہ تو ہر قسم کا تیل بھی نصف قیمت پرعوام کو دینے کے وعدے کی پابند ہے اس طرح سے سرکاری خریداری کی وجہ سے ٹھگوں لٹیروںاور سودی کاروبار کرنے والے افراد کی جان چھوٹ جائے گی تو خدائے عز وجل بھی خصوصی رحم فرمائیں گے اگر ایسا نہ کیا جا سکاتو پھر کسانوں کے جگ رتوں اور محنتوں کا صلہ صرف اٹھائی گیر سود خور طبقات مسلسل اٹھاتے رہیں گے یہی وہ واحد وجہ ہے کہ کسان اپنی زمینوں کو رہائشی سکیموں کے تحت فروخت کرکے شہروں میں شفٹ ہوتے جارہے ہیں جس سے قحط کے خطرات بڑھ رہے ہیں اوریہ ملک بھر میںزراعت کی تباہی کا موجب بھی بنے گاکہ فصلیں تو کسان بوئیں اور فصلوں کے آتے ہی لٹیرے انہیں دونوں ہاتھوں سے لوٹنے کے لیے پہنچ جائیں۔


متعلقہ خبریں


مضامین
سی اے اے :ایک تیر سے کئی شکار وجود منگل 19 مارچ 2024
سی اے اے :ایک تیر سے کئی شکار

نیم مردہ جمہوریت کے خاتمے کے آثا ر وجود منگل 19 مارچ 2024
نیم مردہ جمہوریت کے خاتمے کے آثا ر

اسرائیل سے فلسطینیوں پر حملے روکنے کی اپیل وجود منگل 19 مارچ 2024
اسرائیل سے فلسطینیوں پر حملے روکنے کی اپیل

اندرا گاندھی ، گولڈا میئر اور بے نظیر وجود پیر 18 مارچ 2024
اندرا گاندھی ، گولڈا میئر اور بے نظیر

نازک موڑ پر خط وجود پیر 18 مارچ 2024
نازک موڑ پر خط

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر