وجود

... loading ...

وجود
وجود

سانپ بھی مرجائے اورلاٹھی بھی نہ ٹوٹے

هفته 05 مئی 2018 سانپ بھی مرجائے اورلاٹھی بھی نہ ٹوٹے

کوئٹہ شہر پھر دہشت گردوں کے نشانہ پر ہے گزشتہ دنوں تین اکٹھے خود کش حملے کیے گئے ہیں بعد ازاں کوئٹہ کی ہزارہ برادری کے افراد کو ٹارگٹ کلنگ کے ذریعے مار ڈالا گیا انہوں نے دھرنا دیا اور بھوک ہڑ تال کی وزیر داخلہ منانے کے لیے گئے مگر انہوں نے احتجاج ختم کرنے سے انکار کردیااور چیف آف آرمی اسٹاف جنرل باجوہ سے ملے بغیر احتجاج ختم نہ کرنے کا اعلان کردیا جنرل باجوہ گئے ان کے عمائدین سے مذاکرات کرکے ان کا احتجاج ختم کروایاہزارہ برادری کے افراد مستقل فرقہ وارانہ دہشت گردوں کی ہٹ لسٹ پر ہیں۔ فرقہ واریت کے زہر کا توڑتو صرف اللہ اکبر تحریک کے ذریعے ہی ممکن ہو سکتا ہے کہ اس نام پر تمام مسالک متحد رہ سکتے ہیں ۔

اس کا مطلب ہے کہ ابھی تک دہشتگردوں کا مکمل قلع قمع نہیں کیا جا سکا بلوچستان بین الاقوامی سامراجیوں ،مفاد پرستوں اور پاک وطن کے دشمنوں کا ہمیشہ سے ہی ٹارگٹ رہا ہے اس لیے یہاں مکمل نارمل حالات بمشکل سے ہی پیدا ہو سکتے ہیںگو کہ علیحدگی پسندوں سے افواج نے مذاکرات بھی کیے ہیں جس سے ان کی خاصی تعداد افواج کی خصوصی مہربانیوں اور فلاحی کاموں سے قومی دھارے میں شامل ہو چکی ہے ۔

مگر کیا کیا جائے سیاست میں پیسے کے عمل دخل کا؟کہ ملک دشمن قوتیں کروڑوں کے حساب سے بھاری سرمایہ خرچ کرکے نئے ایجنٹس ڈھونڈھ لیتی ہیں !را کی سرگرمیاں بھی بلوچستان میں عرصہ دراز سے جاری ہیں جس کے ثبوت بھی پاکستانی حکومت بین الاقوامی فورمزپرپیش کرتی رہتی ہے کلبھوشن بھی مکمل نیٹ ور ک کے ساتھ پکڑا گیا تھا مگر شاید بین الاقوامی مجبوریاں آڑے آجاتی ہیں کہ ہم کھلم کھلا ملک دشمنوں کو پکڑ کر بھی قرار واقعی سزا نہیں دے پاتے کچھ موجودہ حکمرانوں کا جھکائو مودی اور اسطرح بھارت کی طرف رہا ہے (شاید کاروباری مصلحتوں کے تحت ) ذاتی کاروباری وسعتیں صنعتکارحکمرانوں کو لے ڈوبتی ہیںویسے بھی اکثر و بیشتر دنیا بھر میں کاروباری اور صنعتکار شخصیات کے حوالے ملکوں کی باگ ڈور نہیں دی جاتی کہ اس طرح وہ اپنے کاروبار کو ہر قسم کے ملکی و قومی مفادات پر ترجیح دیتے رہتے ہیںویسے بھی اکثر راقم سمیت موُثر کالم نویس لکھ چکے ہیں کہ موجودہ لادینی غیر اسلامی جمہوریت کا نتیجہ خواہ کسی طرح نکال لیں کانوں کو دایاں ہا تھ ،بایاں ہاتھ یا دونوں ہا تھوں سے پکڑ لیویں نودولتیے سود خور سرمایہ دار ،ڈھیروں منافع خور صنعتکار ،پرانے وڈیرے ،ظالم جاگیردار،خوانین اورکرپٹ جغادری سیاستدان(کسی نہ کسی روپ میں ) ہی جیتتے رہیں گے اسی لیے عمران خان کا نئی قیادت کا فارمولہ کبھی کا دفن ہو چکا اور وہ بھی غالباً نہ چاہتے ہوئے انہی لالچی کرپٹ مفاد پرست سیاستدانوں کو اچکنے کے لیے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں کہ یہ حرام ذرائع سے کمایا گیا کروڑوں روپے خرچ کرکے اسمبلی کی سیٹیں جیت سکتے ہیں جس سے پارٹی حکومتیں قائم ہو سکتی ہیں اور ذاتی طور پر وزیر اعظم بننے کا دیرینہ خواب بھی پورا ہو سکے گا۔

سیاست در اصل پوری دنیا میں ہی نہیں بلکہ بالخصوص پاکستان میں تو کبھی کا کاروبار بن چکی کہ کروڑوں لگائو اربوں کمائو کا فارمولہ چل رہا ہے سرمایہ دار طبقات کے لیے 45تا 50ہزارووٹو ں کو خریدنا کوئی کام ہی نہ ہے بلکہ اِسے وہ اپنے بائیں ہا تھ کا کھیل سمجھتے ہیں اس لیے تمام بڑی سیاسی جماعتیں راندۂ درگاہ طبقات سے بھری پڑی ہیں اور انہیں نام نہاد پارٹی لیڈران خوش آمدید کرتے اور ان کے آگے آنکھیں بچھاتے نہیں تھکتے اب عمران ہو یا نواز یا آصف زرداری یا پھر کٹھ ملائیت کے علمبرداران جب کروڑوں روپے چندہ کی صورت میں وصول کرکے اپنی پارٹی ٹکٹیں کرپشن کے حمام میں نہائے ہو ئے افراد کے حوالے کریں گے تومنتخب ممبران اربوں نہ کمائیں گے تو اور کیا کریں گے ؟ کہ کاروبار میں لگا ہو اسرمایہ کوئی بھی ضائع نہیں کرنا چاہتا پھر یہاں تو سیاسی کاروبار میں لگا ہواروپیہ دنوں ہفتوں میں ہی کئی گنا بڑھ جاتا ہے نئی سڑکیں پلازے سکولزپانی کی ڈگیاں صاف پانی کے پلانٹس عمارتوں و سڑکوں کی مرمت ،فلائی اوورز اور نہ جانے کیا کیا ایسے کام نہ ہیں جن کو ممبران نے اپنے سیاسی آقائوں سے بھاری رقوم لیکر کرنا ہوتا ہے ایسے سیاستدانوں کی پانچوں انگلیاں ہی نہیں بلکہ سراور پائوں بھی گھی کی کڑاہی میں ہو تے ہیں کسانوںکو ہی قرضے دلوادو تو بھی کروڑوں بچ رہتے ہیں اور ووٹر بھی بمع اہل و عیال اور قریبی دوسست احباب کے پکے ہو جاتے ہیں کمانڈو جنر ل نے ایک فون کال پر امریکا کی تابعداری کرکے عرصہ دراز سے ہمیں دو ہرے تہرے عذاب میں مبتلا کر رکھا ہے پرائی لڑائی میں پڑ کر ہم نے 70000سے زائد سویلین واداروں کے افسروں و نوجوانوں کی قربانی دے ڈالی ہے مگر امریکابہادر یہودیوں کی شہ پر ہمیں میلی آنکھوں سے دیکھنے سے باز نہیں رہ سکاہم خوامخواہ نکو بن کر رہ گئے ہیں ۔

مغربی بارڈرز مکمل محفوظ تھے مگر کتوں کو گلے میں لٹکا کر فوٹو کھچوانے اور مغربی دنیا میں اپنے آپ کو لبرل شو کروانے والاہمارے بیرون ملک بھاگے ہوئے سابق صدرصاحب کی وجہ سے ہماری یہ سرحدیں بھی غیر محفوظ ہو کر رہ گئیں ہیں وہاں بھی اکثر ہماری جنگ جاری رہتی ہے ہمیں مغربی بارڈر پر اربوں کے خرچہ سے آہنی باڑ لگانا پڑ رہی ہے افغانی مسلمان پاکستانی ہوائی اڈوں سے ستر ہزار سے زائد حملوں کا ہمیں ہی ذمہ دار ٹھہراتے ہیں حتیٰ کہ زہر یلی گیسیں برسا کرپہاڑوں کی غاروں کے اندر بھی موجود افراد ہلاک کیے گئے امریکہ بہادرتو بالآخر کھربوں ڈالر خرچ کرکے افغانستان میں شکست پاکرواپس نکل جائے گامگر ہمیںیہ پہاڑی جنگجو افراد شاید کبھی معاف نہ کرسکیںپھرسامراج کے پروردہ جناب مشرف کی ساری وارداتوں کانتیجہ ہمیں ہی بھگتنا ہو گا ہزاروں افرادکو ڈالروں کے عوض بیرون ممالک بھیجنے کے “کارنامہ کی شہرت” بھی ہمارے ہی کمانڈو کے حصہ میں لکھی جا چکی ہے اب اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں بچا کہ ہمارے ہاں موجود بچے کچھے دہشت گردوںکو راہ راست پر لانے کے لیے مزید عملی اقدامات کریں جو کہ افواج پاکستان بخوبی کر بھی رہیں ہیں ہر لحظہ خود کش حملے اور دہشت گردانہ کاروائیاں قطعاً ہمارے ملکی مفاد میں نہ ہیں۔جنرل قمر جاوید باجوہ ہی اس کا بہترین حل ڈھونڈھ سکتے ہیں اور مستقلاً کوئٹہ جیسی وارداتوں کو روکنے کے انتظامات بخوبی کرسکتے ہیں کہ سول حکمران تو اپنے ہی کرپشنی معاملات میں ملوث ہو کر “مصروف خاص “ہیںہماری دنیا بھر کی اولین قرار دی گئی آئی ایس آئی اس کا بہترین حل نکال کر اس پر عمل در آمد کروائے تو ستے خیراں ہو جائیں گی انشاء اللہ۔اسطرح سانپ بھی مر جائے گا اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے گی۔


متعلقہ خبریں


مضامین
تمل ناڈو کے تناظر میں انتخابات کا پہلامرحلہ وجود منگل 23 اپریل 2024
تمل ناڈو کے تناظر میں انتخابات کا پہلامرحلہ

بھارت اورایڈز وجود منگل 23 اپریل 2024
بھارت اورایڈز

وزیر اعظم کا یوتھ پروگرام امید کی کرن وجود منگل 23 اپریل 2024
وزیر اعظم کا یوتھ پروگرام امید کی کرن

انتخابی منظرنامہ سے غائب مسلمان وجود پیر 22 اپریل 2024
انتخابی منظرنامہ سے غائب مسلمان

جناح کا مقدمہ ( قسط نمبر 3) وجود اتوار 21 اپریل 2024
جناح کا مقدمہ ( قسط نمبر 3)

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر