وجود

... loading ...

وجود
وجود

شام میں ’’عالمی جنگ‘‘ کا بگل بج گیا…؟؟

جمعرات 03 مئی 2018 شام میں ’’عالمی جنگ‘‘ کا بگل بج گیا…؟؟

جس وقت 2016ء میں پوٹن کی قیادت میں روس نے مشرقی یوکرین میں مداخلت کا آغاز کیا تو اس وقت اس کی نظر درحقیقت کرایمیا کی اس واحد بندرگاہ پر لگی ہوئی تھی جسے 1955ء میں اس نے خود ہی یوکرین کے حوالے کردیا تھا لیکن اس مرتبہ اس کا سب سے بڑا ھدف اس اہم ترین بندرگاہ کا قبضہ دوبارہ حاصل کرنا تھا جو اس نے جلد ہی حاصل کرکے امریکا اور یورپ کو آنے والے حالات سے خبردار کردیا۔اسی بنیاد پر اس نے 1967ء میں مصر سے نکلنے کے بعد دوبارہ مشرق وسطی میں تدخل کی پالیسی اختیار کی تھی اور اپنے پرانے اتحادی شام کی اسد حکومت کی مدد کے لیے وہ اس جنگ میں کود گیا۔ 2015ء سے لیکر تاحال تک امریکا، اسرائیل اور یورپ کی پوری کوشش تھی کہ روس بحیرہ اسود کے پانیوں سے دور رکھا جائے تاکہ اسے درہ دانیال سے گذر کر بحیرہ روم میں داخل ہونے کی جگہ نہ مل سکے اس مقصد کے لیے پہلے آب غازیہ اور پھر جارجیا میں عسکری گڑبڑ کرائی گئی لیکن روسی فوج کے جارحانہ اقدامات نے یہاں سے امریکا اور اسرائیل کو پسپا ہونے پر مجبور کردیااس کے بعد مشرقی یورپ کی جانب یوکرین کے مسئلے نے سر اٹھایا تو امریکا اسرائیل اور برطانیا کی پوری کوشش رہی کہ یہاں کر روس کے خلاف مسلح مزاحمت شروع کروا دی جائے اور اس کے بڑھتے ہوئے قدموں کو یہاں پر روک دیا جائے۔لیکن صورتحال کچھ اس طرح بنی کہ افغانستان کے بعد لیبیا کا محاذ بھی امریکا اور یورپ کے ہاتھوں سے پھسلنا شروع ہوگیا جس کی وجہ سے روس کی جانب منسک کے علاقے پر امریکا اور یورپ کی گرفت کمزور پڑنا شروع ہوگئی یوکرین اور کرائمیا میں قدم جماکر روس نے بھرپور انداز میں شام میں مداخلت کا فیصلہ کرلیا ۔امریکیوں کا خیال تھا کہ ترکی کو ساتھ ملاکر شام میںروس کے لیے افغانستان والی صورتحال پیدا کی جاسکتی ہے لیکن اس صورتحال کو روس نے اس انداز میں کائونٹر کیا کہ اس نے ایران اور ایران نواز شیعہ ملیشیائوں کو شام میں قدم جمانے کا موقع فراہم کردیا جس کے بعد اس جنگ نے عراق کے بعد شام میںبھرپور انداز میں شیعہ سنی جنگ کا روپ دھار لیا اور دونوں طرف کے مسلمانوں نے ایک دوسرے کو مارنا شروع کردیا جب عرب ملکوں کی جانب سے جوابی مداخلت کی جانے لگی تو یہ جنگ مسلک کے ساتھ ساتھ قومیت کی جنگ میں تبدیل ہوئی اب دور جہالت کا عرب ایران تنازعہ سر اٹھانے لگااور عالمی صہیونی سرمایہ دار اس سے بھرپور فائدہ اٹھانے لگے۔ آج اگر جب دنیا میں رائج نظام کی طرف نظر دوڑائی جائے تو ہم دیکھتے ہیں کہ سرمایہ دارانہ نظام نے اس دنیا کو بری طرح جکڑ لیا ہے چین جس کے ساتھ سوشلسٹ کا نام آتا تھا اس کے پارلیمانی ارکان اس وقت دنیا کے امیر ترین افراد یعنی سرمایہ داروں میں شمار ہونے لگے ہیں، روس جو کمیونزم کا گھر کہلاتا تھا آج سرمایہ دارانہ نظام کے تحت ہے۔ باقی امریکا اور یورپ کی بات تو پہلے ہی وہ اس نظام کے سب سے بڑے داعی ہیں ۔ نقصان کس کا ہورہا ہے صرف مسلمانوں کا، چاہئے وہ شیعہ ہوں یا سنی۔

اس لیے ہم کہہ سکتے ہیں کہ امریکا نے شام پر کیے جانے والے میزائل حملے مسلمانوں کی حمایت میں نہیں کیے ہیں بلکہ اس نے روس کو ایک طرح سے اپنی ’’فائر پاور‘‘ظاہر کی ہے۔ امریکا کی عسکری اسٹیبلشمنٹ جس نے متعدد بار سابق امریکی صدر اوباما کو ہلا دیا تھا اور اسے افغانستان سے نکلنے نہیں دیا تھا وہ کسی طور بھی ٹرمپ کے ذریعے اس آگ کو نہیں بجھنے دینا چاہتی۔دوسری جانب امریکی نظام عدل کا پتا لگانا ہو تو امریکی دانشوروں کی ہی زبانی اس نظام کی پول کھل جاتی ہے تو اسے امریکا کی عسکری اسٹیبلشمنٹ کا مہرہ قرار دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے اب واشنگٹن میں کھل کر اس پر بات ہوتی ہے کہ ڈونالڈ ٹرمپ کو ایک خاص منصوبہ بندی کے تحت وائٹ ہائوس بھیجا گیا ہے ۔ سابق صدر کلنٹن نے جس وقت فوجی قوت کے کم سے کم استعمال پر زور دینا شروع کیا تھا تو اس وقت مانیکا لیونسکی کا اسکینڈل سامنے لایا گیا تھا جس کے بعد ہی نوئے کی دہائی میں کلنٹن دور میں افغانستان اور سوڈان پر القاعدہ کو نشانہ بنانے کے نام پر میزائل برسائے گئے تھے۔ باراک اوباما افغانستان اور عراق سے فوجیں نکالنے کا ایجنڈہ لے کر وائٹ ہائوس میں داخل ہوا تھا لیکن ہزار کوشش کے باوجود اسے ان ملکوں سے فوجیں نہیں نکالنے دی گئیں اگر ایسا ہوجاتا تو امریکا کا ہتھیار تیار کرنے والا کمپلکس بند ہوجاتا ، عسکری ٹھیکوں کی شکل میں امریکی صہیونی مافیائوں کو کئی بلین ڈالر کے فوائد نہ حاصل ہوتے ، ایرک پرنس جیسے امریکی دہشت گرد کس طرح اپنی نجی فوجوں تیار کرکے انکے ذریعے تباہی مچاتے اور اربوں ڈالر کماکر امریکی جرنیلوں کو بھاری کمیشن ادا کرتے۔ اسرائیل ان امریکی اور برطانوی سیاسی اور عسکری دہشت گردوں کے ذریعے دنیا بھر میں تباہی مچاکر کس طرح اپنی آئندہ دجالی سیادت کا راستہ صاف کرتا؟

آج خود بہت سے امریکی ذرائع سوشل میڈیا پر ٹرمپ کے بارے میں کہہ رہے ہیں کہ یہ شخص (ٹرمپ) امریکی عسکری اسٹیبلشمنٹ کا مہرہ ہے جسے بہت پہلے تیار کرلیا گیا تھا۔ جیسے ہی وہ لائن سے ہٹتا ہے اسے اس کا رنگین ماضی دکھا دیا جاتا ہے اور وہ پھر لائن پر آجاتا ہے۔ٹرمپ نے اب تک جتنے عہدیدار برطرف کیے عسکری اسٹیبلشمنٹ اور سی آئی اے کے کہنے پر کیے۔ اس سارے بین الاقوامی دجالی کھیل میں بدقسمتی سے مسلمان حکمران کسی فریق کی حیثیت سے نہیں بلکہ چارے کے طور پر شامل ہیں۔ مسلمانوں کو یاد رکھنا ہوگا کہ شام اور بلاد شام میں لڑی جانے والی اس جنگ کے بڑے فریق اسرائیل اور روس ہیںجبکہ اس ساری لڑائی میں مسلمان حکمرانوں کے بنائے ہوئے عسکری اتحاد محض تماش بینی کا شوق پورا کرنے کے لیے ہیں۔ اسرائیل ہر صورت اپنی دجالی سیادت قائم کرنے پر تلا ہوا ہے کسی وقت بھی وہ اسٹیٹ آف دی آرٹ ہتھیاروں کے ساتھ سامنے آئے گااور مشرقی وسطی میں اپنی سیادت کا مرکز بناکر باقی دنیا کو اپنے سامنے جھکنے پر مجبور کرے گا لیکن روس کے حرکت میں آتے ہی ’’ملحمۃ الکبری‘‘ وقوع پذیر ہوسکتی ہے جو عالمی سطح پر عسکری اور روایتی ٹیکنالوجی کے زوال کا سبب بن جائے گی اور جو اس میں بچیں گے وہی روایتی جنگلڑ سکیں گے اس کے بعد ہی ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مسلمان اس جنگ میں باقاعدہ ایک فریق کے طور پر سامنے آئیں گے۔(ختم شد)


متعلقہ خبریں


مضامین
مسلمان کب بیدارہوں گے ؟ وجود جمعه 19 اپریل 2024
مسلمان کب بیدارہوں گے ؟

عام آدمی پارٹی کا سیاسی بحران وجود جمعه 19 اپریل 2024
عام آدمی پارٹی کا سیاسی بحران

مودی سرکار کے ہاتھوں اقلیتوں کا قتل عام وجود جمعه 19 اپریل 2024
مودی سرکار کے ہاتھوں اقلیتوں کا قتل عام

وائرل زدہ معاشرہ وجود جمعرات 18 اپریل 2024
وائرل زدہ معاشرہ

ملکہ ہانس اور وارث شاہ وجود جمعرات 18 اپریل 2024
ملکہ ہانس اور وارث شاہ

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر