وجود

... loading ...

وجود

چائلڈ لیبر۔معاشرے کی بدنما تصویر

پیر 30 اپریل 2018 چائلڈ لیبر۔معاشرے کی بدنما تصویر

کبھی اپنی روزمرہ کی مصروف زندگی سے اور اپنی ذات سے نظر اٹھا کر دیکھیں تو آپ کو اپنے اردگرد اطراف میں کتنے ہی ایسے پھول سے معصوم چہرے نظر آئیں گے جو حسرت و یاس کی چلتی پھرتی تصویریں ہیں۔ ان کی آنکھوں کو قریب سے دیکھیں تو ان میں آپ کو کتنے ہی خواب مرتے نظر آئیں گے۔ کبھی ان کے اداس لپوں کا تصور کیجے ،کیا آپ کو ایسا لگا ہوگا کہ یہ کبھی مسکرائے بھی ہوں گے؟

ان کی زندگی روزمرہ مشقت کی ایسی تصویر ہے جس میں صرف انہیں کام ہی کرنا ہے اور پھر بھی وہ اپنی محنت کے حساب سے معاوضہ نہیں پاتے۔ان کا معاشی، جسمانی، روحانی استحصال کیا جاتا ہے۔ معاشی اس لحاظ سے کہ ان کی عمر کے مطابق اور وقت کا حساب کیے بغیر بے حساب کام لیا جاتا ہے اور انہیں ان کی محنت کا اتنا صلہ نہیں ملتا جس کے وہ حقدار ہیں۔جسمانی اس لحاظ سے کہ اس قدر نوعمری میں استطاعت سے زیادہ کام لیا جاتا ہے۔ ان کے کام کے اوقات مخصوص نہیں ہیں۔ ان کے جسم درد سے بکھر رہے ہوں مگر انہیں دن کی دیہاڑی پوری کرنی ہے۔ روحانی استحصال اس انداز میں کہ کبھی انہیں جھڑکیاں ملتی ہیں اور کبھی مختلف سزائیں انہیں ذلت کا احساس دلانے کے لیے ملتی ہیں۔ کیا کبھی کسی نے سوچا ہے ان کے ساتھ جو یہ سلوک کیا جاتا ہے، تو ان کے دل پر کیا گذرتی ہے۔وہ کس کرب سے گزرتے ہیں۔ کیا معاشرے میں بسنے والے افراد کے دل میں ان کے لیے کسی قسم کا احساس بیدار نہیں ہوتا ؟

یہاں بات کی جارہی ہے ان معصوم پھول جیسے بچوں کی جن کی عمریں بمشکل 5 سے 10 سال کی ہیں اور وہ پورے کنبے کا بوجھ اٹھانے کے لیے صبح منہ اندھیرے گھر سے نکلنے پر مجبور ہیں۔ ان سبھی بچوں کے گھروں کی یہی کہانی ہے۔ گھر کے افراد زیادہ ہیں اور باپ نشے میں دھت اپنی ذمہ داریوں سے دور۔ ہر احساس سے عاری، اولاد تو پیدا کرلیتے ہیں مگر ان کی ضروریات پوری کرنے سے قاصر ہیں تبھی ان ننھے محنت کش کاریگر بچوں کو اپنے بچپن کی معصومیت اور شرارتوں کو بھول کر زندگی کی مشقت زدہ شاہراہ پر قدم رکھنا پڑتا ہے جہاں قدم قدم پر ان کے لیے ایک نیا امتحان ہے۔

آپ صبح اپنے کام پر جانے کے لیے گھر سے نکلتے ہیں راستے میں آپ کو کسی دکان پر ، کسی ڈھابے پر، چوراہوں پر ، ٹریفک سگنلز پر، بے شمار ایسے بچے نظر آئیں گے جو اپنی عمر سے بڑھ کر بوجھ اٹھائے ہوئے ہوں گے۔کہیں ان کے ہاتھ سخت اوزار پکڑے گاڑی کے نٹ بولٹ ٹھیک کرتے ، ٹائر مرمت کرتے نظر آئیں گے ، تو کہیں ڈھابے پر چائے کی ٹرے پکڑے گاہکوں کے آگے پیچھے بھاگتے نظر آئیں گے اور اگر کہیں ٹرے ان کے ہاتھوں سے پھسل کر گر جائے اور کپ ٹوٹ جائیں تو ان کے ننھے گالوں پر پڑنے والے طمانچوں کی تکلیف کوایک لمحے کے لیے محسوس کر کے دیکھئے گااگر آپ حساس دل کے مالک ہیں تو آنکھوں میں نمی آئے بغیر نہیں رہے گی۔مگر کچھ لوگوں کے نزدیک یہ روز کا معمول ہے۔

چائلڈ لیبر کے حوالے سے بات کی جائے تو پاکستان دنیا کا تیسرا بڑا ملک ہے جہاں چائلڈ لیبر کا تناسب 37فیصد ہے اور اس میں 49 لڑکے اور 51 لڑکیاں ہیں۔ گزشتہ کئی سالوں میں اس تناسب میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ یہ کم عمر بچیاں کوٹھیوں میں صبح سے شام تک کام کرکے اپنے گھروں کی کفالت کرتی ہیں۔ ان کی زندگی بھی آسان نہیں ہے۔ ان کی الگ درد بھری کہانی ہے۔ ان گھروں میں ان کے ساتھ جو سلوک ہوتا ہے۔وہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ کہیں ان پہ چوری کا الزام لگا کر تشدد کیا جاتا ہے تو کہیں ان کے ساتھ زیادتی کی جاتی ہے۔ ان کی زندگی برباد کردی جاتی ہے۔ ستم ظریفی کی بات یہ ہے کہ یہ معصوم عزت جانے پر بھی خاموش رہتی ہیں جس کے باعث اس نوع کے جرائم میں مزید اضافہ ہوتا ہے اور کوئی اس جرم کے خلاف آواز بھی بلند نہیں کرتا۔ اخبارات میں کتنے ہی ایسے واقعات آپ کی نظروں کے سامنے سے گزرے ہوں گے اور آپ نے سرسری نظر سے پڑھا بھی ہوگامعصوم بچیوں پر تشدد کیا گیا۔ اور ان کے ساتھ انسانیت سوز سلوک روا رکھا گیا۔ اس سلسلے میں انہیں انصاف بھی نہیں ملا۔ نہ جانے کتنے ایسے کیس ہوں گے جو منظر عام پر بھی نہیں آسکے۔

سب سے زیادہ افسوس کی بات یہ ہے کہ یہ تمام بچے جن کی عمریں بمشکل 13 سے 15 سال ہیں زندگی کے مشکل دور سے گزر رہے ہوتے ہیں۔ ان کو نہ تعلیم ، خوراک اور لباس جیسے مسائل کا سامنا ہے بلکہ بعض اوقات زندگی سختیوں سے گھبرا کر یہ مختلف جرائم کی راہ اختیارکرلیتے ہیں۔ کسی گروہ کے آلہ کار بن جاتے ہیں۔ پھر ساری زندگی اسی دلدل میں گزار دیتے ہیں جبکہ صرف ذرا سی کوشش سے انہیں معاشرے کا مفید فرد بنایا جاسکتا ہے۔

اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن (آئی۔ ایل۔ او) کے تحت ہر سال 12 جون کو بچوں سے جبری مشقت کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ اس کا آغاز 2002 ء میں ہوا تھا۔ آئی ایل او کے تحت کیے گئے سروے کے مطابق پاکستان میں چائلڈ لیبر کی تعداد ایک کروڑ سترہ لاکھ تھی اور اس میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ SPARC نامی ایک این جی او کیے گئے سروے کے مطابق پاکستان 2 کروڑ4 لاکھ بچے اسکول نہیں جاتے جبکہ 1کروڑ 5لاکھ بچے کسی نہ کسی معاشی سرگرمی میں شامل ہیں۔چائلڈ لیبر کے حوالے سے بنے عالمی قوانین کی بات کی جائے تو اس کے مطابق ان کی یومیہ اجرت، کام کے اوقات اور اس میں وقفہ اور ساتھ ان سے غیر انسانی سلوک کرنے پر سخت اصول بنائے گئے ہیں۔ دنیا کے کتنے ہی ممالک ایسے ہوں گے جو ان پر عمل کرتے ہوں گے۔ممکن ہے کسی حد تک انسانیت ان میں زندہ ہو۔اس حقیقت سے کسی کو انکار نہیں کہ ہمارے ملک میں ہر طرح کے قوانین بنائے جاتے ہیں مگر ان پر عمل نہیں کیا جاتا۔ ہماری روزمرہ زندگی میں متعدد واقعات ایسے سامنے آتے ہیں جن میں قانون کی دھجیاں اڑائی جارہی ہوتیں ہیں۔ ٹریفک قوانین کی پابندی سے لے کر دفتری اوقات کی پابندی تک ، ہم اپنے اخلاقی رویوں میں ہر قسم کے قانون سے آزاد ہوچکے ہیں۔

اس میں سب سے زیادہ استحصال لیبر قوانین کا کیا جاتا ہے جس کا شکار یہ معصوم بچے ہوتے ہیں اس کا اندازہ ان کی شب وروز کی زندگی سے لگایا جاسکتا ہے کہ جہاں وہ زندگی کی بنیادی سہولیات سے بھی محروم ہیں۔افسوس کا مقام یہ ہے کہ قوم کے ان نونہالوں کے مستقبل کی یہ ضمانت بھی نہیں دی جاسکتی کہ وہ کم از کم کبھی زندگی میں اس مقام پر بھی ہوں گے کہ وہ مشقت بھری اس زندگی سے نجات پاسکیں۔کیا ان کا صرف یہی ایک خواب پورا نہیں کیا جاسکتا؟پاکستان میں متعدد این جی او اور فلاحی ادارے اپنے طور پر کام ک رہے ہیں مگر ان کی مالی استطاعت میں اضافہ کرنے کے لیے ضروری ہے کہ حکومت بھی ان کے شانہ بشانہ کھڑی ہو تاکہ یہ کام مؤثر اور وسیع پیمانے پر ہوسکے اور مزدور بچوں کی زندگی سنور سکے۔اس سلسلے میں خوش آئند بات یہ ہے کہ 2014 ء میں پنجاب نے پہلی بار ساؤتھ ایشیا لیبر کانفرنس بلا کر چائلڈ لیبر خاتمے کے لیے پہلے میگا پروجیکٹ مربوط منصوبہ برائے بچگانہ وجبری مشقت کا خاتمہ کا آغاز کیا۔اس پروجیکٹ کا مقصد چائلڈ لیبر کی بدترین صورتوں کا خاتمہ، قرج کی ادائیگی کے نام پر جبری مشقت کا خاتمہ، متاثرہ خاندانوں کی بحالی، جبری مشقت کے خلاف قوانین کی مضبوطی اور افسران کی استعداد کار میں اضافہ کرنا تھا۔کچھ وقت کے لیے یہ پروگرام تعطل کا شکار رہا۔ شاید اس پر مکمل طور سے عمل درامد نہیں ہوسکا۔مگر اس سلسلے کی خوش آئند بات یہ ہے کہ اسی سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے وزیر خزانہ پنجاب ڈاکٹر عائشہ غوث پاشا نے محنت کش بچوں کے لیے خصوصی مراعات کا اعلان کرتے ہوئے ان کے لیے ایوننگ اسکولز بنانے کا اعادہ کیا ہے جنہیں سرکاری اسکولوں اور ٹیکنیکل کالجوں کی عمارتوں میں محنت کش بچوں کے لیے بنایا جائے گا۔

ایک کثیر الاشاعت اخبار کی 7 مارچ 2018ء کی خبر کے مطابق محکمہ اسکول ایجوکیشن، پنجاب ایجوکیشن فاؤنڈیشن، ٹیوٹا اور لیبر اینڈ ہیومن ریسورس ڈیپارٹمنٹ مل کر منصوبے کو حتمی شکل دیں گے۔ اجلاس میں صوبائی وزیر عائشہ غوث نے کہا کہ ان بچوں کی استحصالی مشقت ختم کرنے کے لیے ان بچوں کے ماہانہ وظائف اور ان کے والدین کی مالی مدد کی جائے گی۔ ان میں آٹوورکشاپس،پیٹرول پمپس،قہوہ خانوں اور ہوٹلوں میں کام کرنے والے بچوں کو اسکول میں داخلہ دیا جائے گا اور جلد ہی اس کا دائرہ کار چائلڈ لیبر کے تمام ممکنہ شعبوں تک پھیلایا جائے گا۔ان بچوں کو رسمی تعلیم کے ساتھ ساتھ فنی تعلیم اور پیشہ ورانہ تربیت بھی دی جائے گی۔

اس خبر کے مطابق چیف سیکرٹری پنجاب کیپٹن ریٹائرڈ زاہد سعید نے متعلقہ محکموں کے افسران کو ہدایت کی ہے کہ وہ اگلے اجلاس میں موجودہ صورتحال کے مطابق درپیش مسائل اور وقت و اخراجات کا تخمینے کے ساتھ شرکت کریں تاکہ پروگرام پہ جلد عمل کیا جاسکے۔ یہ ایوننگ اسکول پروگرام نوعمری میں مجبوری کے تحت کام کرنے والے بچوں کو ا سکول تک لے آئے گا اور ان کے بہتر مستقبل کا ضامن ہوگا۔یہ ایک مثالی اور روشن قدم ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ اس انقلابی اقدامات کو نہ صرف نیک نیتی اور خلوص سے پایہ تکمیل تک پہنچایا جائے بلکہ اسے مثال بناکر ایسے اقدامات دیگر صوبوں میں بھی کیے جائیں تاکہ مستقبل کے یہ معمار پاکستان کی ترقی وخوشحالی کے ضامن بن سکیں۔ایک عام آدمی کی حیثیت سے یہ سوچنا کہ ہم کیا کرسکتے ؟ کافی نہیں۔ ہر فرد اگر اپنی جگہ پر صرف ایک چھوٹی سی نیکی کے طور پر احساس کرتے ہوئے کسی حد تک مالی مدد یا ذرہ بھر ضرورت بھی پوری کر دیں ،آپ یقین مانیے یہ نیکی قظرے سے سمندر بن سکتی ہے۔ ہر ایک قدم پر حکومت کی طرف نظر کرنا بھی غلط ہے۔ یہ کام کسی حد تک معاشرے کا ہر فرد اپنی جگہ کر سکتا ہے۔ ان کے چہرے پر مسکراہٹ لا سکت ہے۔ان میں ہی کہیں پاکستان کا روشن مستقبل بھی چھپا ہوا ہے۔کسے معلوم ان بچوں کی صلاحیتیں ابھارنے پر ان میں کہیں ڈاکٹر عبدالسلام ، ڈاکٹر عبد القدیر خان موجود ہوں، کہیں عبد الستار ایدھی ہوں جو انسانیت کی فلاح کے روشن چراغ تھے۔ ان میں ہی کہیں ملک کا کوئی ایسا لیڈر موجود ہو جو اس ملک کے لیے نجات دہندہ بن سکے کسے معلوم؟


متعلقہ خبریں


سیکریٹری جنرل اقوام متحدہ کی پاکستان اور بھارت کے درمیان مصالحت کی پیشکش وجود - بدھ 30 اپریل 2025

  پیچیدہ مسائل بھی بامعنی اور تعمیری مذاکرات کے ذریعے پرامن طور پر حل کیے جا سکتے ہیں،یو این سیکریٹری کا مقبوضہ کشمیر واقعے کے بعد پاکستان، بھارت کے درمیان کشیدگی پر گہری تشویش کا اظہار دونوں ممالک کے درمیان تناؤ کم کرنے اور بات چیت کے دوبارہ آغاز کے لیے کسی بھی ایسی ک...

سیکریٹری جنرل اقوام متحدہ کی پاکستان اور بھارت کے درمیان مصالحت کی پیشکش

دہشت گردوں اور ان کے سرپرستوں کو جوابدہ ٹھہرایا جائے ،قونصلر جواد اجمل وجود - بدھ 30 اپریل 2025

  پاکستان نے کہا ہے کہ اس کے پاس جعفر ایکسپریس مسافر ٹرین پر حملے کے بارے میں قابل اعتماد شواہد موجود ہیں جس میں کم از کم 30 بے گناہ پاکستانی شہری شہید ہوئے اور درجنوں کو یرغمال بنایا گیا ۔ یہ حملہ اس کے علاقائی حریفوں کی بیرونی معاونت سے کیا گیا تھا۔اقوام متحدہ میں دہشت ...

دہشت گردوں اور ان کے سرپرستوں کو جوابدہ ٹھہرایا جائے ،قونصلر جواد اجمل

تنازع زدہ علاقوں کو درپیش چیلنجز سے نمٹنے کے لیے یکساں نقطہ نظر اپنایا جائے وجود - بدھ 30 اپریل 2025

دہشت گردوں اور ان کے سرپرستوں کو جوابدہ ٹھہرایا جائے ،قونصلر جواد اجمل پاکستان نے کہا ہے کہ اس کے پاس جعفر ایکسپریس مسافر ٹرین پر حملے کے بارے میں قابل اعتماد شواہد موجود ہیں جس میں کم از کم 30 بے گناہ پاکستانی شہری شہید ہوئے اور درجنوں کو یرغمال بنایا گیا ۔ یہ حملہ اس کے علاق...

تنازع زدہ علاقوں کو درپیش چیلنجز سے نمٹنے کے لیے یکساں نقطہ نظر اپنایا جائے

جعفر ایکسپریس حملے میں بیرونی معاونت کے ٹھوس شواہد ہیں،پاکستان وجود - بدھ 30 اپریل 2025

تنازع زدہ علاقوں کو درپیش چیلنجز سے نمٹنے کے لیے یکساں نقطہ نظر اپنایا جائے دہشت گردوں اور ان کے سرپرستوں کو جوابدہ ٹھہرایا جائے ،قونصلر جواد اجمل پاکستان نے کہا ہے کہ اس کے پاس جعفر ایکسپریس مسافر ٹرین پر حملے کے بارے میں قابل اعتماد شواہد موجود ہیں جس میں کم از کم 30 بے گنا...

جعفر ایکسپریس حملے میں بیرونی معاونت کے ٹھوس شواہد ہیں،پاکستان

دو دہائیوں کی نسبت آج کی ڈیجیٹل دنیا یکسر تبدیل ہو چکی ، وزیراعظم وجود - بدھ 30 اپریل 2025

زراعت، صنعت، برآمدات اور دیگر شعبوں میں آئی ٹی اور اے آئی سے استفادہ کیا جا رہا ہے 11 ممالک کے آئی ٹی ماہرین کے وفود کو پاکستان آنے پر خوش آمدید کہتے ہیں، شہباز شریف وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ کہ ٹیکنالوجی کے شعبے میں تیزی سے تبدیلی آئی ہے ، دو دہائیوں کی نسبت آ...

دو دہائیوں کی نسبت آج کی ڈیجیٹل دنیا یکسر تبدیل ہو چکی ، وزیراعظم

عوامی احتجاج کے آگے حکومت ڈھیر، متنازع کینال منصوبہ ختم وجود - منگل 29 اپریل 2025

  8 رکنی کونسل کے ارکان میں چاروں صوبائی وزرائے اعلیٰ، وفاقی وزرا اسحٰق ڈار، خواجہ آصف اور امیر مقام شامل ، کونسل کے اجلاس میں 25 افراد نے خصوصی دعوت پر شرکت کی حکومت نے اتفاق رائے سے نہروں کا منصوبہ واپس لے لیا اور اسے ختم کرنے کا اعلان کیا، نہروں کی تعمیر کے مسئلے پر...

عوامی احتجاج کے آگے حکومت ڈھیر، متنازع کینال منصوبہ ختم

دو تین روز میں جنگ چھڑ نے کا خدشہ موجود ہے ،وزیر دفاع وجود - منگل 29 اپریل 2025

  دونوں ممالک کی سرحدوں پر فوج کھڑی ہے ، خطرہ موجود ہے ، ایسی صورتحال پیدا ہو تو ہم اس کے لیے بھی سو فیصد تیار ہیں، ہم پر جنگ مسلط کی گئی تو بھرپور جواب دیں گے ، تینوں مسلح افواج ملک کے دفاع کے لیے تیار کھڑی ہیں پہلگام واقعے پر تحقیقات کی پیشکش پر بھارت کا کوئی جواب نہ...

دو تین روز میں جنگ چھڑ نے کا خدشہ موجود ہے ،وزیر دفاع

بھارتی جارحیت کا منہ توڑ جواب دیا جائے گا، اراکین سینیٹ وجود - منگل 29 اپریل 2025

مودی نے سیاسی حکمت عملی یہ بنائی کہ کیسے مسلمانوں کا قتل عام کرنا ہے، عرفان صدیقی بھارت کی لالچی آنکھیں اب جہلم اور چناب کے پانی پر لگی ہوئی ہیں، سینیٹر علی ظفر سینیٹ اجلاس میں اراکین نے کہاہے کہ دنیا بھر میں کہیں بھی دہشت گردی ہو اس کی مذمت کرتے ہیں، پہلگام واقعہ بھارت کی سو...

بھارتی جارحیت کا منہ توڑ جواب دیا جائے گا، اراکین سینیٹ

چین نے پاکستان کی بھرپور حمایت کا اعلان کر دیا وجود - منگل 29 اپریل 2025

پاکستان کی خودمختاری و سلامتی کے تحفظ کی کوششوں کی بھرپور حمایت کرتے ہیں پاکستان کے جائز سکیورٹی خدشات کو سمجھتے ہیں ،پہلگام واقعے کی تحقیقات پر زور چین نے پہلگام واقعے کے معاملے پر پاکستان کی بھرپور حمایت کا اعلان کر دیا۔چین کے وزیر خارجہ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے ...

چین نے پاکستان کی بھرپور حمایت کا اعلان کر دیا

پاکستان و بھارت دونوں سے رابطے میں ہیں،امریکہ وجود - منگل 29 اپریل 2025

مل کر مسئلے کا ذمہ دارانہ حل تلاش کیا جائے،مختلف سطح پر سنجیدہ بات چیت جاری ہے امریکہ نہیں سمجھتا اس میں پاکستان ملوث ہے، سعودیہ و ایران ثالثی پیشکش کرچکے ہیں مقبوضہ کشمیر کے علاقے پہلگام میں حالیہ واقعے کے بعد پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی اور تناؤ کے درمیان امریکا کا ...

پاکستان و بھارت دونوں سے رابطے میں ہیں،امریکہ

سیکیورٹی فورسزکی کارروائی، افغانستان سے دراندازی کرنے والے 54دہشت گرد ہلاک وجود - پیر 28 اپریل 2025

  بھارت کے پاکستان پر بے بنیاد الزامات کے وقت ، کارروائی سے واضح ہے یہ کس کے اشارے پر کام کر رہے ہیں، دہشت گردی کے خلاف مہم میں کسی ایک کارروائی میں یہ سب سے زیادہ ہلاکتوں کا ریکارڈ ہے دہشت گرد اپنے غیر ملکی آقاؤںکے اشارے پر پاکستان میں بڑی دہشت گرد کارروائیاں کرنے کے ...

سیکیورٹی فورسزکی کارروائی، افغانستان سے دراندازی کرنے والے 54دہشت گرد ہلاک

ایدھی رضا کاروں پر حیدرآباد میں شرپسندوں کا شدید تشدد وجود - پیر 28 اپریل 2025

ٹنڈو یوسف قبرستان میں لاوارث میتوں کی تدفین سے روک دیا، ایدھی ترجمان کا احتجاج قبرستان کے گورکن بھی تشدد کرنے والوں میںشامل، ڈپٹی کمشنر حیدرآباد سے مداخلت کی اپیل حیدرآباد کے ٹنڈویوسف قبرستان میں لاوارث میتوں کی تدفین کرنے والے ایدھی رضاکاروں پر نامعلوم افراد نے حملہ کیا، ج...

ایدھی رضا کاروں پر حیدرآباد میں شرپسندوں کا شدید تشدد

مضامین
سندھ طاس معاہدہ کی معطلی وجود جمعه 02 مئی 2025
سندھ طاس معاہدہ کی معطلی

دنیا کی سب سے زیادہ وحشت ناک چیز بھوک ہے وجود جمعه 02 مئی 2025
دنیا کی سب سے زیادہ وحشت ناک چیز بھوک ہے

بھارت کیا چاہتا ہے؟؟ وجود جمعرات 01 مئی 2025
بھارت کیا چاہتا ہے؟؟

انڈیا کھلے معاہدوں خلاف ورزی کا مرتکب وجود جمعرات 01 مئی 2025
انڈیا کھلے معاہدوں خلاف ورزی کا مرتکب

پاکستان میں بھارتی دہشت گردی وجود جمعرات 01 مئی 2025
پاکستان میں بھارتی دہشت گردی

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر