وجود

... loading ...

وجود
وجود

استبال کتب

اتوار 22 اپریل 2018 استبال کتب

نام کتاب:روشنی کے خدوخال(نعتیہ مسدس)
شاعر:رفیع الدین رازؔ
ضخامت:224 صفحات
قیمت: 500 روپے
ناشر:رنگِ ادب پبلی کیشنز، کراچی
مبصر:مجید فکری
پیش نظر مجموعۂ نعت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) روشنی کے خدوخال ممتاز شاعر رفیع الدین راز کا تخلیق کردہ ہے جو بہ شکل مسدس 23 ابواب پر مشتمل ہے جسے رنگِ ادب پبلی کیشنز نے خاص اہتمام سے شائع کیا ہے۔ کتاب کے اندرونی فلیپ پر ڈاکٹر سید محمد ابو الخیر کشفی کا مختصر مگر جامع تبصرہ بھی شامل ہے۔

ڈاکٹر سید محمد ابوالخیر کشفی نے جس کتاب کا بھی دیباچہ ’’مقدمہ‘‘ تبصرہ یا تجزیہ پیش کیا ہو درحقیقت وہ یوں ہی بڑی اہمیت کا درجہ پا جاتا ہے۔ اسے آپ میرا حسنِ ظن کہیں یا اسے میری اور ان کی ذات تک محدود کرسکتے ہیں لیکن یہ حقیقت ہے او رمیں بڑے دعوے اور یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ وہ بڑے سنجیدہ ادبی محقق تھے۔گو کہ آج ڈاکٹر صاحب ہمارے درمیان موجود نہیں ہیں وگرنہ ہوسکتا تھا کہ آپ میری اس رائے کو محض ان کی خوشنودی یا مطلب براری سے منسوب کرتے۔ مگر میں یہ رائے دیتے ہوئے ادبی اُفق پر ایسی بے شمار شخصیات کو بھی دیکھ رہا ہوں جو ڈاکٹر صاحب سے متعلق میری رائے سے اتفاق کریں گی۔

حق گوئی و بے باکی اُن کا وطیرہ تھا وہ جب تک زندہ رہے مصلحت پسندی یا کسی بھی جانبداری سے کام نہیں لیا۔ حق اور سچ کا پرچار کیا اور انہی لوگوں کے نام و کلام کو سراہا جس کے وہ مستحق تھے۔

یہی وجہ ہے کہ پیش نظر مجموعہ شعری جسے نعتیہ مسدس کا نام دیا گیا ہے جناب رفیع الدین راز کا ہمیشہ زندہ رہنے والا کام ہے۔رفیع الدین راز شعر و ادب کے حوالے سے ایک اہم ادیب، شاعر اور ناقد کی حیثیت سے بھی اپنی شناخت رکھتے ہیں۔ان کی متعدد کتابیں جو نثری ادب اور شعری ادب پرمشتمل ہیں ادب عالیہ کا حصہ ہیں اور میں اُن کی ایک اور خوبی یا کمال کا ذکر کروں تو آپ کو حیرت و اچنبھا نہیں ہونا چاہئے کہ موصوف نے ابھی حال میں رُباعی کی 24 بحروں میں 24 غزلیں تحریر کی ہیں جو ایک بے مثال کارنامہ ہے جسے ادبی حلقوں میں سراہنا چاہئے وہ اس لئے کہ رباعی کہنا ہر شاعر کے بس کی بات نہیں ہوتی مگر رازؔ صاحب نے رباعی کو سمجھااور رباعی کی مشکل اور اوق بحروں میں غزل کے پیرائے میں ڈھالا یہ اہلِ دانش کے لئے بھی چونکا دینے والا کام ہے۔

مزید برآں رفیع الدین رازؔ نے مسدس جیس اہم صنف جو ادب میں تعریف و توصیفِ رسولؐ کے لئے اختیار کی ہے ایک قابل قدر کارنامہ ہے۔ اور اس مسدس میں یہ اہتمام و احتیاط بھی ملحوظِ خاطر رکھا ہے کہ سب سے زیادہ توجہ سیرتِ رسولؐ پر دی گئی ہے۔

ڈاکٹر موصوف لکھتے ہیں ’’مرحبا صل علیٰ آئینہ اے روشنی‘‘ اس مصرع میں دو دعائیہ یا تہنیتی کلمات ہیں چاہیں تو آپ انہیں درودو سلام کا صیغہ کہہ لیں اور اس کے بعد دو خطابیہ کلمات ہیں۔‘‘اے آئینہ اے روشنی‘‘ اس مصرع میں شاعر کا مفہوم ہم پر مدعائے خداوندی کی طرح روشن ہوجاتا ہے۔ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ’’اے آئینہ اے روشنی‘‘ کے الفاظ استعمال کئے گئے ہیں ۔حضور اکرم ؐ نور مجسم کی تخلیق تو مٹی سے ہوئی لیکن آپ کا وجود سراپا روشنی تھا۔ آپ کی صفات کا دائرہ اسمائے الٰہی تک پھیلا ہوا ہے۔ یہ مسدس اپنی ایک فضا رکھتی ہے جو ہمارے شعر و ادب کی مانوس فضا ہے اور فارسی عناصر کے باوجود ازدوکا مخصوص مزاج ہر جگہ برقرار رہتا ہے۔‘‘ وہ ماہنامے بھی جو نعتیہ ادب کے سلسلہ سے کام سرانجام دے رہے ہیں مثلاً ماہنامہ ارمغان نعت ماہنامہ کاروان نعت اور کتابی سلسلے ایوان نعت، دنیائے نعت، راہِ نجات سہ ماہی عقیدت، نعت نیوز، شہر نعت وغیرہ۔آخر میں اس مسدس کا ایک بند ملاحظہ فرمائیں:

خواہشوں کی دھوپ نے جھلسا رکھے تھے خال و خد
کیسا چہرہ، کون سا دل، روح کیسی، کیسا قد
کر چکا تھا آدمی ایک ایک سچائی کو رَد
روشنی سے بے خبر تھا آئینے سے نابلد
آپ نے انساں کو بخشی روح کی بالیدگی
مرحبا صلِ علیٰ، اے آئینہ اے روشنی
۰۰۰
نام کتاب:تقلید (شعری مجموعہ)
موضوع:احمد فراز کی زمینوں میں غزلیں
شاعر:شاعر علی شاعر
ناشر:ظفر اکیڈمی، کراچی
ضخامت:128 صفحات
قیمت: 200 روپے
مبصر: مجید فکری

شاعر علی شاعرؔ میرے نزدیک ایک خوش قسمت شخص ہی نہیں، خوش قسمت شاعر بھی ہیں، میں اپنے اس بیان کی توضیح خود ان کے بیان کردہ الفاظ سے کرنا چاہتا ہوں ’’کوشش کرتا ہوں کہ اپنی بساط کے مطابق میدانِ سخن میں کوئی منفرد کام سرانجام دے سکوں۔ یہی وجہ ہے کہ اردو تروینی پر کام شروع کیا تو عالمی سطح پر اردو تروینی کا اولین مجموعہ بہ عنوان ’’تروینیاں‘‘ میرا ہی قرار پایا۔‘‘

طویل غزلیں کہنا شروع کیں تو ’’غزل پہلی محبت ہے‘‘ کے نام سے طویل غزلوں کا مجموعہ ترتیب پاگیا۔ اس سے پہلے غزل کے پانچ مجموعہ ہائے کلام بالترتیب’’بہارو! اب تو آجائو‘‘، ’’وہ چاند جیسا شخص‘‘، ’’تِرے پہلو میں‘‘، ’’اعلانِ محبت‘‘ اور ’’ہم کلامی‘‘ شائع ہوچکے ہیں۔ پھر ایک اور منفرد کام کی طرف توجہ مبذول کی، ایک ہی بحر میں 100 غزلیں لکھنے پر کمر بستہ ہوگیا، بہت جلد ان تجرباتی غزلوں کا کام پایۂ تکمیل تک پہنچا تو ’’ایک بحر 100 غزلیں‘‘ کے نام سے مجموعہ نہ صرف زیورِ طباعت سے آراستہ ہو کر منصۂ شہود پر جلوہ گر ہوا بلکہ قارئینِ شعر و سخن اور ناقدینِ فن و ہنر سے داد وتحسین بھی وصول پائی۔‘‘

’’مزید اپنے پسندیدہ شاعر احمد فرازؔ کی شاعری سے متاثر ہو کر ان کی زمینوں میں غزلیں کہنا شروع کیں تو پورا مجموعہ بہ نام ’’تقلید‘‘ ترتیب پاگیا‘‘

’’خداکی پناہ! ان کی تخلیقات، تالیفات، تصنیفات، طباعت اور ترتیب وغیرہ کی تعداد اتنی ہے کہ صرف ان کی تعداد لکھتے ہوئے ایک کتابچہ تو یقیناً ترتیب دیا جائے گا۔‘‘

میں نے اپنے ایک تجزیہ میں انہیں ’’رواں لہجے کا شاعر‘‘ کہا تھا۔ اس کی وجہ درحقیقت یہی تھی کہ انہیں شعرو ادب کے خزینہ میں غزل، نظم، قصیدے، تروینی اور جانے کیا کیا…! جمع کرنے کا شوق ہے او ریہ خزانہ ان کے بقول ابھی بھرا نہیں ہے۔ جس کے لئے یہ شب و روز سرگرم عمل ہیں۔ کبھی ایک ہی بحر میں 100 غزلیں کہتے ہیں تو کبھی افسانوں پر افسانے لکھنا شروع کردیتے ہیں۔ بچوں سے پیار جتاتے ہیں تو انہیں نظموں اور گیتوں کے تحفے بخش دیتے ہیں اور جب محبوب کی حسن و دلنوازی ستاتی ہے تو اس کے حسن و ادا کی وہ داستان لکھنا شروع کردیتے ہیں کہ روایتی غزل کی وادی بھی تنگ ہوجاتی ہے۔ مگر یہ غالبؔ کے بقول’’کچھ اور چاہئے وسعت مِرے بیاں کے لئے‘‘ کہتے دکھائی دیتے ہیں۔لیکن میں نے ان کے خزانے میں جس چیز کی کمی دیکھی ہے وہ ہے نظم مخمس، نظم مسدس، سلام و قصائد اور رثاعی شاعری اور میرا مشورہ ہے کہ آپ ان اصناف پر بھی توجہ دیں تاکہ آپ کے عملی ذخائر کی پوٹلی لبالب بھرسکے ۔چاہیں تو یہ خواتین کے ادب اور اُن کی شاعری پر بھی لکھ سکتے ہیں اور ان کے لکھے ہوئے مجموعہ ہائے شاعری کو شرفِ اشاعت بھی بخش سکتے ہیں۔

میں شاید موضوع سے ہٹتا جارہا ہوں۔ بات ہو رہی تھی شاعر علی شاعرؔ کے پیش نظر مجموعۂ شاعری ’’تقلید‘‘ کی تو اس وقت ان کا یہ مجموعہ ہماری آنکھوں کے سامنے ہے۔ شاعر موصوف نے احمد فراز کی زمینوں میں لاتعداد غزلیں لکھ کر بھی ایک انوکھا ، منفرد اور چونکا دینے والا کارنامہ انجام دیا ہے۔یہ اسی صورت میں کامیاب اور تحسین و ستائش کا حقدار ہوسکتا ہے کہ جب شاعر صاحب نے احمد فراز سے اچھی شاعری نہ سہی ان کے مقابل کی شاعری ضرور کی ہو وگرنہ احمد فراز عرصہ دراز سے چوٹی کے ایک شاعر تصور کئے جاتے رہے ہیں ان کے چاہنے والوں کی کثیر تعداد بھی موجود ہے ان کا اندازِ شاعری دوسروں کو بھی بھاتا اور لُبھاتا ہے اور وہ کامیاب شعراء کی فہرست میں اپنا نام ثبت کرچکے ہیں یہ وہ شاعر ہیں جس نے غزل پر اپنا سکہ جمارکھا ہے اور آج تک لوگ اس کی شاعری کے دلدادہ ہیں یہ الگ بات ہے کہ لوگ انہیں فیض کا مقلد اور ان جیسا رویہ رکھنے والا شاعر سمجھتے ہیں۔مگر اس کے باوجود فراز کے سر سے فیض کا (Follower) ہونے کا اثر بھی زائل ہوچلا اور وہ مقبولیت کے اس معیار تک پہنچ گیا کہ جہاں شعرو ادب سے دلچسپی رکھنے والا ایک شخص بھی موجود ہے وہاں فراز موجود ہے۔

میں یہ تو نہیں کہہ سکتا کہ شاعر علی شاعرؔ نے ان کے رنگ میں شاعری لکھ کر خود کو کس مقام پر رکھا ہے اور یہ کارنامہ سرانجام دے کر وہ کہاں تک پہنچنا چاہتے ہیں۔ ان کی پیش نظر شاعری بہ اندازِ فراز کئی مقامات پر ایسی ضرورمحسوس ہوتی ہے کہ وہ اس مقصد میں کسی حد تک کامیاب بھی قرار دیئے جاسکتے ہیں لیکن میں پھر بھی کہوں گا کہ ’’خاکم بدہن‘‘ وہ خود کو فراز جیسے کلام والا شاعر کہنے میں کامیاب نہیں ہوئے تو یہ اچھا ہوا کہ انہوں نے اپنے مجموعۂ کلام کا نام ’’تقلید‘‘ رکھ کر خود کو بچالیا ہے تاہم ان کی یہ کوشش فراز کے انداز میں شعری کوشش ضرور ہے میں اپنے کلام گسترانہ کے ساتھ شہزاد نیر کو شامل کرلوں تو غیر مناسب نہ ہوگا لکھتے ہیں۔ ان کا مضمون جو پیش نظر کتاب میں’’ غزل در تقلید احمد فراز‘‘ کے عنوان سے شامل ہے ذرا ان کی درج ذیل سطور پڑھئے:

’’شاعر کے ہاں روایتی اندازِ سخن سے وابستگی و پیوستگی زیادہ ہے اور جدت شعری سے رغبت کم… یہ بات بھی دھیان میں رہے کہ اس کتاب کی غزلیں فراز کی زمینوں میں ضرور ہیں مگر شاعری شاعر کی اپنی ہے…شاعر علی شاعرؔ نے اپنے رنگ ڈھنگ میں، اپنے اندازاور اپنے مضامین کی شاعری کی ہے یا یوں ہم کہہ سکتے ہیں کہ شاعر نے فراز کی زمینوں میں اپنا ’’ہل‘‘ چلایا ہے۔‘‘

مجھے شہزاد نیرصاحب کا یہ اندازِ تخاطب قطعاً پسند نہیں آیا کیونکہ یہ تبصرہ شاعرؔ موصوف کی بھی ہمت شکنی اور ان کی اس کوشش کو رائیگاں کرنے کے مترادف ہوگا جو انہوں نے زمینِ فراز میں کی ہے۔بہر حال، یہ شاعر علی شاعرؔ اور شہزاد نیر کا معاملہ ہے میں تو شاعر کی اس کوشش کو ایک کامیاب، سراہے جانے کے قابل، علمی لیاقت کا اعلیٰ استعمال اور شعری بصیرت کا اعلیٰ نمونہ گردانتا ہوں۔ یہ اور بات ہے کہ شاعر علی شاعرؔ بقول ذوق یہ کہہ سکتے ہیں کہ:

نہ ہوا پر نہ ہوا میرؔ کا انداز نصیب
ذوق یاروں نے بہت زور غزل میں مارا
یا پھر:
شعر اپنے بھی ہیں پُر درد لیکن حسرتؔ
میرؔ کا شیوۂ گفتار کہاں سے لائوں

مگر پھر بھی شاعر علی شاعرؔ نے فرازؔ کی تقلید کا کامیابی سے دفاع کیا ہے لیکن اس سے قطعاً یہ اندازہ نہیں لگانا چاہئے کہ انہوں نے فرازؔ کی زمینوں میں شعر کہہ کر خود کو فرازؔ جیسا شاعر سمجھنے کی کوشش کی ہے اور نہ ہی ان کی شاعری سے فرازؔ کی شاعری پر کوئی حرفِ غلط آیا ہے نہ خود شاعر علی شاعرؔ کی شاعرانہ عظمت میں کوئی فرق آیا ہے انہیں اپنی کوشش جاری رکھنی چاہئے اور جس قدر ہو وہ ایسے موضوعات پر قلم اٹھانے سے گریز کریں جس سے باہمی چپقلش کا شائبہ ہو۔فرازؔ کی زمین میں شاعر علی شاعرؔ کے اشعار دیکھئے:

ہونے والا ہے تِرا ہجرت بھی رخصت مجھ سے
شاید اب جاں سے گزرجانے کا موسم آیا
شہرِ آشوب ہے ہر نظم و غزل شاعرؔ کی
ان میں ذکرِ لب و رخسار تو کم ہونا تھا
ہرے بھرے ہیں کھیت یہاں ہریالی ہے
اُڑتے پرندے آپ اُتر جاتے ہیں
ہر کوئی مجھ کو ستانے آئے
اُس کی تصویر دکھانے آئے
اپنے دامن کی طرف کیوں نہیں کرتے یہ نظر
چاک دامن ہے مِرا لوگ پریشاں کیوں ہیں


متعلقہ خبریں


6جج صاحبان کا خفیہ اداروں پر مداخلت کا الزام، چیف جسٹس کی زیر سربراہی فل کورٹ اجلاس وجود - جمعرات 28 مارچ 2024

اسلام آباد ہائی کورٹ کے 6 ججز کے سپریم جوڈیشل کونسل کو لکھے گئے خط کے معاملے پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں فل کورٹ اجلاس ہوا فل کورٹ اجلاس میں جسٹس منصور علی شاہ،جسٹس منیب اختر اور جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس امین الدین، جسٹس شاہد وحید، جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس حسن اظ...

6جج صاحبان کا خفیہ اداروں پر مداخلت کا الزام، چیف جسٹس کی زیر سربراہی فل کورٹ اجلاس

سندھ میں ڈیڑھ ارب کی لاگت سے 30پرائمری اسکول بنیں گے وجود - جمعرات 28 مارچ 2024

حکومت سندھ نے 30پرائمری ااسکولوں کی تعمیر کے لئے فنڈ کی منظوری دے دی ہے۔ ذرائع کے مطابق حکومت سندھ نے 1ارب 52 کروڑ 82 لاکھ 70 ہزار روپے کی منظوری دی محکمہ خزانہ سے رقم دینے کی سفارش بھی کردی گئی اسکولوں کی تعمیرات رواں ماہ میں ہی شروع کردی جائے گی۔

سندھ میں ڈیڑھ ارب کی لاگت سے 30پرائمری اسکول بنیں گے

سندھ میں اسمگل شدہ اسلحے کے لائسنس بنائے جانے کا انکشاف وجود - جمعرات 28 مارچ 2024

سندھ میں اسمگل شدہ اسلحے کے لائسنس بنائے جانے کا انکشاف ہوا ہے۔اسمگل شدہ اسلحہ ڈیلروں اور محکمہ داخلہ کی مدد سے لائسنس یافتہ بنائے جانے انکشاف ہوا ہے۔ایف آئی اے کے مطابق حیدرآباد میں کسٹم انسپکٹر مومن شاہ کے گھر سے سڑسٹھ لائسنس یافتہ ہتھیار ملے۔تصدیق کرائی گئی تو انکشاف ہوا کہ اس...

سندھ میں اسمگل شدہ اسلحے کے لائسنس بنائے جانے کا انکشاف

مجھے جیل میں رکھ لیں باقی رہنمائوں کو رہا کردیں، عمران خان وجود - بدھ 27 مارچ 2024

بانی پی ٹی آئی عمران خان نے کہا ہے کہ مجھے جیل میں رکھ لیں مگر باقی رہنماں کو رہا کردیں۔اڈیالہ جیل میں میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسی سے کہنا چاہتا ہوں کہ پی ٹی آئی کی 25 مئی کی پٹیشن کو سنا جائے اور نو مئی واقعات کی تحقیقات کے لیے جوڈیشل...

مجھے جیل میں رکھ لیں باقی رہنمائوں کو رہا کردیں، عمران خان

شانگلہ میں گاڑی پرخودکش دھماکا،5چینی انجینئرسمیت 6افراد ہلاک وجود - بدھ 27 مارچ 2024

خیبرپختونخوا کے علاقے شانگلہ میں بشام کے مقام پرچینی انجینیئرز کی گاڑی پر خودکش حملے کے نتیجے میں 5 چینی باشندوں سمیت 6 افراد ہلاک ہوگئے۔ ڈی آئی جی مالاکنڈ کا کہنا ہے کہ حملہ آوروں نے بارود سے بھری گاڑی مسافروں کی گاڑی سے ٹکرائی، گاڑی پر حملے میں کئی افراد زخمی بھی ہوئے۔بشام سے پ...

شانگلہ میں گاڑی پرخودکش دھماکا،5چینی انجینئرسمیت 6افراد ہلاک

تربت میں پاک بحریہ ائیربیس پر حملہ ناکام، 4 دہشت گرد ہلاک، ایک سپاہی شہید وجود - بدھ 27 مارچ 2024

سیکیورٹی فورسز نے تربت میں پاک بحریہ کے ائیر بیس پی این ایس صدیق پر دہشتگرد حملے کی کوشش ناکام بنادی، فائرنگ کے تبادلے میں 4 دہشت گرد ہلاک کر دیا جبکہ ایک سپاہی شہید ہوگیا ۔ پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ(آئی ایس پی آر)کے مطابق 25 اور 26 مارچ کی درمیانی شب دہشت گردوں نے تربت میں پ...

تربت میں پاک بحریہ ائیربیس پر حملہ ناکام، 4 دہشت گرد ہلاک، ایک سپاہی شہید

اسرائیل نے سلامتی کونسل قرارداد کو پیروں تلے روند دیا،مزید 81فلسطینی شہید وجود - بدھ 27 مارچ 2024

اسرائیل نے سلامتی کونسل کی غزہ میں فوری جنگ بندی کی قرارداد کو ہوا میں اڑاتے ہوئے مزید 81فلسطینیوں کو شہید کردیا۔غزہ کی وزارت صحت کے مطابق گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران غزہ میں اسرائیلی دہشت گردی کے آٹھ واقعات میں مزید 81 فلسطینی شہید اور 93 زخمی ہوگئے۔الجزیرہ کے مطابق رفح میں ایک گھ...

اسرائیل نے سلامتی کونسل قرارداد کو پیروں تلے روند دیا،مزید 81فلسطینی شہید

کراچی یونیورسٹی میں ناقص سیکیورٹی انتظامات، طلبا کی موٹرسائیکلیں چوری ہونے لگیں وجود - بدھ 27 مارچ 2024

جامعہ کراچی میں سیکیورٹی کے ناقص انتظامات کے باعث چوریوں کی وارداتوں میں اضافہ ہوگیا اور دو روز میں چوروں نے 4طالب علموں کو موٹرسائیکلوں سے محروم کردیا۔تفصیلات کے مطابق کراچی یونیورسٹی میں سیکیورٹی کے ناقص انتظامات کے سبب نہ صرف جامعہ کی حدود میں چوریوں کی وارداتوں میں اضافہ ہورہ...

کراچی یونیورسٹی میں ناقص سیکیورٹی انتظامات، طلبا کی موٹرسائیکلیں چوری ہونے لگیں

سلامتی کونسل اجلاس، غزہ میں فوری جنگ بندی کی قرارداد منظور وجود - پیر 25 مارچ 2024

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے 7اکتوبر کے بعد پہلی مرتبہ غزہ میں فوری جنگ بندی کی قرارداد منظور کرلی۔پیر کو سلامتی کونسل میں پیش کی گئی قرارداد پر امریکا نے اپنے سابقہ موقف میں تبدیلی کرتے ہوئے قرارداد کو ویٹو کرنے سے گریز کیا۔سلامتی کونسل کے 15 رکن ممالک میں سے 14 نے قرارداد کے ...

سلامتی کونسل اجلاس، غزہ میں فوری جنگ بندی کی قرارداد منظور

ملک میں یومیہ 4ہزار میٹرک ٹن تیل کی اسمگلنگ وجود - پیر 25 مارچ 2024

ملک میں یومیہ چار ہزار میٹرک ٹن تیل کی اسمگلنگ کا انکشاف ہوا ہے-تیل کی اسمگلنگ سے قومی خزانے کو ماہانہ تین کروڑ چھپن لاکھ ڈالرزکا نقصان ہورہا ہے۔ آئل کمپنیز نے اسمگلنگ کی روک تھام اورکارروائی کیلئیحکومت اور اوگرا سیمدد مانگ لی ہے۔آئل کمپنیز ایڈوائزری کونسل نیسیکریٹری پیٹرولیم کو ...

ملک میں یومیہ 4ہزار میٹرک ٹن تیل کی اسمگلنگ

آٹومیشن پروجیکٹ، محکمہ صحت سندھ نے کروڑوں روپے ہوا میں اڑادیے وجود - پیر 25 مارچ 2024

محکمہ صحت سندھ نے آٹومیشن پروجیکٹ کے کروڑوں روپے کی رقم ہوا میں اڑادی۔ سات سال قبل پینسٹھ کروڑ کی لاگت سے شروع ہونے والا پروجیکٹ تاحال فعال نہ ہوسکا۔مانیٹرنگ رپورٹ میں پروجیکٹ کے گھپلوں پر بڑے انکشافات کیے گئے ۔کمپنی نے پروجیکٹ پر حیرت انگیز طور پر انتالیس کروڑ خرچ کردئے ۔لیکن سا...

آٹومیشن پروجیکٹ، محکمہ صحت سندھ نے کروڑوں روپے ہوا میں اڑادیے

خاتون شہری کو جعلی بینک اسٹیٹمنٹ جاری کرنے پر ملزم گرفتار وجود - پیر 25 مارچ 2024

ایف آئی اے انسداد انسانی اسمگلنگ سرکل کراچی نے معصوم شہری کو جعلی بینک اسٹیٹمنٹ جاری کرنے میں ملوث ملزم کو گرفتار کرلیا۔ترجمان ایف آئی اے کے مطابق ملزم کو پی آئی بی کالونی کراچی سے گرفتار کیا گیا۔گرفتار ملزم ویزا فراڈ کے جرم میں ملوث تھا۔ملزم نے خاتون شہری کو جعلی بینک اسٹیٹمنٹ ج...

خاتون شہری کو جعلی بینک اسٹیٹمنٹ جاری کرنے پر ملزم گرفتار

مضامین
لیکن کردار؟ وجود جمعرات 28 مارچ 2024
لیکن کردار؟

خوابوں کی تعبیر وجود جمعرات 28 مارچ 2024
خوابوں کی تعبیر

ماحولیاتی تباہ کاری کی ذمہ دار جنگیں ہیں ! وجود جمعرات 28 مارچ 2024
ماحولیاتی تباہ کاری کی ذمہ دار جنگیں ہیں !

ریاست مسائل کی زدمیں کیوں ؟ وجود جمعرات 28 مارچ 2024
ریاست مسائل کی زدمیں کیوں ؟

مردہ قومی حمیت زندہ باد! وجود بدھ 27 مارچ 2024
مردہ قومی حمیت زندہ باد!

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر