... loading ...
بزرگ سیاستدان میر بلخ شیر مزاری کو اچانک ’’جنوبی پنجاب صوبہ محاذ‘‘ کا چیئرمین بنا دیا گیا ہے تو ان کے نگران وزیراعظم بننے کا زمانہ آنکھوں کے سامنے گھوم گیا ہے، نوازشریف کی پہلی حکومت کو غلام اسحاق خان نے 18 اپریل 1993ء کو برطرف کرکے میر بلخ شیر مزاری کو یہ منصب سونپا تھا، میر صاحب کی کابینہ میں مرحومہ بیگم نصرت بھٹو اور آصف علی زرداری بھی شامل تھے۔ یہ دوسری حکومت تھی جو غلام اسحاق خان نے آئین کے آرٹیکل 58، 2(بی)کے تحت برطرف کی، اس سے پہلے وہ 6 اگست 1990ء کو محترمہ بے نظیر بھٹو کی پہلی حکومت برطرف کر چکے تھے، برطرفی کی جو وجوہ انہوں نے آن دی ریکارڈ اپنی تقریر میں بیان کی تھیں وہ تو اپنی جگہ، لیکن یہ بات زبان زدِعام تھی کہ وہ آصف علی زرداری کی سرگرمیوں سے خوش نہیں تھے اور برطرفی کے پس پردہ محرکات میں سے ایک محرک آصف علی زرداری بھی تھے۔ لیکن ستم ظریفی ملاحظہ ہو کہ وہ آصف علی زرداری کو وزیر بنانے پر مجبور ہوگئے۔
بے نظیر بھٹو کی حکومت کی برطرفی کے بعد جو انتخابات ہوئے، اْن میں اسلامی جمہوری اتحاد (آئی جے آئی) کامیاب ہو گیا تھا جس کی سربراہی میاں نوازشریف کے پاس تھی، اگرچہ غلام مصطفیٰ جتوئی بھی مضبوط امیدوار تھے، لیکن قرعہ فال نوازشریف کے نام نکل آیا تھا، تاہم جوان نوازشریف اور بوڑھے صدر کے درمیان تعلقات کی خرابی کا آغاز جلد ہی ہو گیا۔ اِس پورے دور میں محلاتی سازشیں اپنے عروج پر تھیں، نوازشریف کی مخالف لابی صدر کے کان بھرتی رہتی تھی اور غلام اسحاق خان کے مخالفین نوازشریف کو اْکساتے رہتے تھے۔ وزیراعظم کی برطرفی سے کئی ماہ پہلے جوڑ توڑ کا سلسلہ زوروں پر تھا، اِنہی ایام میں اْس وقت کے امریکی سفیر کراچی میں سردار شیرباز خان مزاری سے ملے اور انہیں وزیراعظم بننے کا عندیہ دیا، وہ بہت حیران ہوئے کہ ملک میں ایک وزیراعظم موجود ہے، الیکشن بھی ابھی 1995ء میں ہونے ہیں اور امریکی سفیر دو سال پہلے ہی وزیراعظم تلاش کر رہے ہیں۔ شیرباز مزاری نے امریکی سفیر سے کہا کہ جناب میرے حلقہ انتخاب نے تو مجھے قومی اسمبلی کی رکنیت کا اہل نہیں سمجھا، مَیں وزیراعظم کیسے بن سکتا ہوں۔ تو سفیر محترم نے کہا کہ امریکا آپ کو وزیراعظم دیکھنا چاہتا ہے، سردار شیرباز مزاری نے معذرت کر لی۔
اس ملاقات کو زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا کہ یہ خبریں اْڑنے لگیں کہ نوازشریف کی حکومت چند دنوں کی مہمان ہے، جب اْنہیں یقین ہو گیا کہ اب ہونی کو ٹالا نہیں جا سکتا تو اْنہوں نے برطرفی سے پہلے دل کی بھڑاس نکالنے کا فیصلہ کیا اور 17 اپریل کو ٹی وی پر اپنے خطاب میں یہ جملہ کہا کہ وہ ڈکٹیشن نہیں لیں گے، اگلے دن وہ برطرف ہو گئے اور شیرباز کے بڑے بھائی میر بلخ شیر مزاری نگران وزیراعظم بن گئے۔ نوازشریف کی حکومت اور قومی اسمبلی کو سپریم کورٹ نے بحال کر دیا، البتہ بحالی کے باوجود یہ حکومت زیادہ عرصے تک نہ چل سکی اور ایک بار پھر نئے انتخابات کی خاطر نوازشریف کو استعفا دینا پڑا، ساتھ ہی غلام اسحاق خان بھی صدارتی منصب سے رخصت ہو گئے۔ ملک کے اعلیٰ ترین عہدے سے علیحدگی کے بعد غلام اسحاق خان تو گوشہ گیر ہو گئے اور پھر کبھی منظرعام پر نہیں آئے لیکن نواز شریف اس کے بعد دو دفعہ وزیراعظم بنے اور آج بھی اْن کی جماعت برسرِاقتدار ہے۔
میر بلخ شیر مزاری کی یاد اْن کے تازہ عہدے کے حوالے سے آئی ہے اْنہیں ’’جنوبی پنجاب صوبہ محاذ‘‘ کا چیئرمین بنایا گیا ہے، یہ عہدہ غالباً انہیں اْن کی بزرگی کی وجہ سے سونپا گیا ہے اور اِسی وجہ سے سردار نصراللہ دریشک کو شریک چیئرمین بنایا گیا ہے۔ ممکن ہے اِس محاذ کی تشکیل کے لیے پس پردہ سرگرمیاں پہلے سے جاری ہوں لیکن محاذ کے عہدیدار اچانک منظرعام پر آئے ہیں۔ دونوں سردار صاحبان تو از راہ خیر و برکت محاذ کا حصہ بنائے گئے ہیں، کیونکہ اپنی جوانی سے بڑھاپے تک دونوں بزرگوں کی زبان سے ہم نے کبھی جنوبی پنجاب کی سیاست کا تذکرہ نہیں سنا، دونوں کا تعلق اگرچہ ڈی جی خان سے ہے لیکن یاد نہیں پڑتا کہ اْنہوں نے ماضی میں کبھی جنوبی پنجاب کو صوبہ بنانے کے لیے کوئی سیاسی سرگرمیاں کی ہوں، اب اْنہیں نہ جانے کیا سوجھی کہ وہ ایک ایسے محاذ کے چیئرمین اور شریک چیئرمین بن گئے جو جنوبی پنجاب کو صوبہ بنانے کے لیے قائم کیا گیا ہے جونہی اس محاذ کی تخلیق ہوئی اگلے ہی دن اس کی تشہیر شروع کر دی گئی۔
پیر صاحب پگارہ سندھ سے لاہور تشریف لائے تو انہوں نے بھی محاذ کے عہدیداروں سے ملاقات کرکے انہیں نئے صوبے کی حمایت کا یقین دلا دیا، اس دورے میں پیر صاحب نے چودھری شجاعت حسین اور چودھری پرویز الٰہی سے بھی ملاقات کی اور طے پایا کہ گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس اور مسلم لیگ (ق) ایک ہی نشان پر الیکشن لڑیں گے۔ بعید نہیں کہ حالات کا رخ دیکھ کر جنوبی پنجاب صوبہ محاذ بھی کسی نہ کسی اتحاد میں شامل ہو جائے کیونکہ ابھی تک اس محاذ نے باقاعدہ سیاسی جماعت کی شکل اختیار نہیں کی، ابھی یہ محاذ الیکشن کمیشن کے پاس رجسٹرڈ بھی نہیں ہے اور نہ ہی اس نے اپنے لیے کوئی انتخابی نشان منتخب کیا ہے۔ ویسے یہ تو کوئی مشکل کام بھی نہیں، محاذ بطور سیاسی جماعت رجسٹر ہو گیا تو نشان بھی مل جائے گا لیکن جب پیپلزپارٹی، تحریک انصاف یہاں تک کہ مسلم لیگ (ن) بھی جنوبی پنجاب کے معاملے پر سیاست کر رہی ہوں گی تو محاذ کی انفرادیت کیا رہ جائے گی۔ یہ تو ممکن ہے کہ محاذ سے وابستہ چند حضرات دوبارہ منتخب ہو جائیں لیکن کیا ان کے پاس اتنی انتخابی طاقت ہوگی کہ وہ جنوبی پنجاب کو عملاً صوبہ بنانے میں کامیابی حاصل کر لیں، ہمارے خیال میں تو یہ سرگرمی الیکشن تک ہے، الیکشن میں محاذ ہارے یا جیتے، اس کے بعد جنوبی پنجاب کے صوبے کا مسئلہ پہلے کی طرح طاقِ نسیاں پر رکھ دیا جائے گا۔ اس لیے محاذ کی سیاسی افادیت کا عرصہ بہت ہی مختصر رہے گا۔ الیکشن کا ہنگامہ ختم ہوا تو یہ محاذ بھی وقت کی دھول میں گم ہوجائے گا۔
افواج پاکستان دشمن کو منہ توڑ جواب دینے کیلئے تیار ہیں، ڈی جی آئی ایس پی آر ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا ہے کہ پاکستان ایک پُر امن ملک ہے اور خطے میں امن چاہتا ہے لیکن اگر پاکستان پر جارحیت مسلط کی جاتی ہے تو افواج پاکستان دشمن کو منہ توڑ جواب دینے کیلئے تیار ہیں۔ذرا...
سلامتی کونسل کے اجلاس میں بھارت کے جارحانہ اقدامات، اور اشتعال انگیزی سے آگاہ کیا جائے گا ، سندھ طاس معاہدے کو معطل کرنے کے بھارتی اقدامات کو بھی اُجاگر کرنے کا فیصلہ سلامتی کونسل اجلاس میں خطے کی موجودہ صورتحال پر بریفنگ دی جائے گی، وزیر خارجہ اسحاق ڈار کی پاکستان ک...
ہمارے پاس انٹیلی جنس شواہد ہیں کہ بھارت پاکستان پر حملہ کرنے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے،پانی کے مسئلے پر کسی بھی جارحیت کا جواب جنگ سے ہوگا، پاکستان اپنی سرحدوں کے دفاع میں کسی بھی حد تک جائے گا اگر بھارت کی جانب سے حملہ کیا گیا تو مکمل طاقت سے جواب دیا جائے گا، پاکستا...
امبالا سے اڑنے والے طیاروں کو واپس بھگانے کی تفصیلات منظر عام پر آگئیں کسی بھی ممکنہ حادثے سے بچنے کیلئے واپس امبالا جانے سے گریز‘ سری نگر پر لینڈ پاک فضائیہ نے 29 اور 30 اپریل کی شب بھارت کی پاکستان کی جانب پیش قدمی کی کوشش کو کیسے ناکام بنایا؟ اور بھارت کے 4 جدید رافیل طیا...
تیسرے ملکوں کے پرچم بردار جہازوں کو بھی بھارتی بندرگاہ پر لنگر انداز ہونے سے روک دیا بھارت نے پاکستان کی ایکسپورٹ کو متاثر کرنے کے لیے نیا ہتھکنڈا اختیار کرلیا، رپورٹ بھارت نے پاکستان کی بین الاقوامی تجارت پر وار کرتے ہوئے پاکستانی کنٹینرز لے کر بھارتی بندرگاہ پر لن...
وفاقی وزرا کی تنخوا ہیں2لاکھ سے بڑھا کر 5 لاکھ 19 ہزارروپے کر دی گئیں صدر مملکت نے تنخواہوں اور مراعات میں اضافے کا آرڈیننس جاری کردیا سرحدوں پر تناؤ اور ملک کے جنگی حالات سے دوچار ہو نے کے باوجود حکمران اپنے اپنے اللوں تللوں میں کوئی کمی کرنے کو تیار نہیں۔ بھارت کی طرف سے ب...
کشمیر میں حالیہ حملے کے بعد بھارتی جارحانہ اقدامات کے نتیجے میں پیدا ہونے والی صورتحال پر پاکستان گہری نظر رکھے ہوئے ہے جب مناسب وقت آئے گا تو پاکستان اجلاس بلانے کی درخواست کرے گا دہشت گردی میں بھارت ملوث ہے ، نہ صرف پاکستان بلکہ شمالی امریکا تک کے معاملات میںیہ بات دستاویزی ...
ہمارے لوگوں کو بے عزت کروگے ، ہماری نسل کشی کروگے ، ہماری خواتین کو سڑکوں پر گھسیٹو گے ، ہمارے نوجوانوں کی مسخ شدہ لاشیں پھینکو گے تو اس کے بعد بھی آپ کہو گے کہ ہم خاموش رہیں ہم پاکستان کی پارلیمنٹ اور عدلیہ سمیت تمام فورمز پر گئے لیکن ہمیں مایوسی کے سوا کچھ نہیں ملا...
پہلگام میں صرف ہندوؤں کو نہیں بلکہ مسلمانوں اور دوسرے ممالک کے لوگوں کو بھی ٹارگٹ کیا انسانی حقوق کی کارکن اور حریت رہنما یاسین ملک کی اہلیہ مشعال ملک نے کہا ہے کہ بھارت پہلگام فالز فلیگ کی آڑ میں کشمیریوں کو ٹارگٹ کر رہا ہے ، کشمیری قوم بڑی بھاری قیمت ادا کر رہی ہے ۔پریس کان...
عالمی صحافتی تنظیم رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز کی 180ممالک میں آزادی صحافت کی صورتحال پر رپورٹ جاری عالمی پریس فریڈم انڈیکس میں پاکستان کی تنزلی ہوگئی۔عالمی صحافتی تنظیم رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز نے 180ممالک میں آزادی صحافت کی صورتحال پر نئی رپورٹ جاری کردی۔عالمی پریس فریڈم ان...
بھارتی اقدامات پاکستان کی انسداد دہشت گردی کی کوششوں سے توجہ ہٹانے کی مذموم کوشش ہے بھارت کی اشتعال انگیز کارروائیوں کے باوجود پاکستان کا ردعمل ذمہ دارانہ رہا ہے، شہباز شریف وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ پہلگام واقعہ کے بعد بھارت کی اشتعال انگیز کارروائیوں کے با...
موجودہ حالات میںچین کے ساتھ مشترکہ فوجی تعاون کی بات چیت شروع کرنا ضروری ہے بنگلادیش کے عبوری سربراہ محمد یونس کے قریبی ساتھی فضل الرحمان کا بھارت کو کرار جواب بنگلادیش کے سابق آرمی آفیسر فضل الرحمان نے خبردار کیا ہے کہ اگر پاکستان پر حملہ ہوا تو ہم بھارت کی 7شمال مشرقی ریا...