وجود

... loading ...

وجود
وجود

قائدِ حزب اختلاف کی کشمکش

جمعه 13 اپریل 2018 قائدِ حزب اختلاف کی کشمکش

یہ سال2013ء کے مہینے مارچ کی20 تاریخ تھی۔ بلوچستان ہائی کورٹ کے احاطہ میں سیاسی رہنمائوں اور کارکنوں کا جَم گھٹا تھا ۔جمعیت علماء اسلام، پشتونخوامیپ، نیشنل پارٹی کے لوگ موجود تھے۔ نوابزادہ طارق مگسی، شیخ جعفر خان مندوخیل ،اسلم بھوتانی ،مولانا عبدالواسع اور اس وقت کے بلوچستان اسمبلی میں اسپیکر سید مطیع اللہ آغا بھی حاضر تھے۔ بلوچستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی عدالت میں نوابزادہ طارق مگسی کی درخواست پر شنوائی ہورہی تھی۔ حکومت نواب اسلم رئیسانی یعنی پیپلز پارٹی کی تھی اور یہ بڑی نرالی حکومت تھی جس میں پوری اسمبلی حزب اقتدار کا حصہ تھی۔ حزب اختلاف تھی ہی نہیں محض نوابزادہ طارق مگسی آزاد بنچ پر بیٹھے ہوئے تھے وہ بھی غیر فعال تھے۔ اسلم بھوتانی طویل عرصہ اسپیکر رہے۔ ان کی اور حکومت کی آپس میں نہ بنتی تھی۔ اس خاطروہ 26 مارچ 2012 ء کوعدم اعتماد کی تحریک کے ذریعے ہٹا د یئے گئے ۔ اسلم بھوتانی جب اسپیکر تھے تو وہ برابر پشتونخوامیپ اور نیشنل پارٹی کو حکومت کے خلاف مواد فراہم کرتے۔ان میں پشتونخوامیپ کے نشانے پر جمعیت علمائے اسلام(ف) اور اے این پی تھی۔ جبکہ نیشنل پارٹی کی نگاہ بلوچستان نیشنل پارٹی عوامی کی کمزوریوں پر مرکوز تھی۔ 14 فروری 2013 ء کو صوبے میںگورنر راج کا نفاذ ہوا جو 13 مارچ 2013 ء تک نافذ رہا۔ آصف علی زرداری نواب اسلم رئیسانی کو زیر نہ کرسکے۔نواب رئیسانی نے تاوقت آخر استعفی نہ دیا ۔نواب رئیسانی نے بہت سارے معاملا ت کو سنجیدہ نہ لیا تھا ۔ویسے نواب اسلم رئیسانی کمزور آدمی بھی نہ تھے۔ دبائو ان پر بھی مختلف حوالوں سے تھا لیکن موجودہ حکومت کے نوابوں اور سرداروں کے برعکس وہ کسی کے آگے سرنگوں نہ ہوئے۔

چنانچہ حکومت کے آخری دنوں میں جمعیت علماء اسلام (ف) کے اراکین اسمبلی نے حزب اختلاف کے بنچوں پر بیٹھنے کے لیے اسپیکر کو درخواست دی۔ اسپیکر نے انہیں حزب اختلاف کی نشستیں الاٹ کردیں۔ اسپیکر سید مطیع اللہ آغا کا تعلق بھی جے یو آئی سے تھا۔ اس حکومت میں شیخ جعفر خان مندوخیل کے پاس وزارت نہیں تھی وہ لینا بھی نہیں چاہتے تھے ۔مگراسمبلی کے اندر فعال تھے ان کی تنقید بڑی نوک دار ہو ا کر تی تھی۔ چنانچہ اسلم بھوتانی اور شیخ جعفرخان مندوخیل کے تعاون سے نوابزادہ طارق مگسی نے عدالت سے رجوع کر لیا۔ اور مؤقف اختیار کیا کہ یہ کس طرح ہوسکتا ہے کہ ساڑھے چار سال حکومت اور وزارتوں پر رہنے کے بعد حزب اختلاف کی نشستوں پر بیٹھا جا ئے ۔ دراصل یہ نواب رئیسانی کی حکومت کا باہمی مشورہ تھا ،کیونکہ اٹھارہویں آئینی ترمیم کے بعد نگراں وزیراعلیٰ اور کابینہ کا انتخاب وزیراعلیٰ اور قائد حزب اختلاف کی مشاورت سے طے کیا جانا تھا۔مولانا عبدالواسع اس اسکیم کے تحت قائد حزب اختلاف بنے تھے۔غرض عدالت نے درخواست سماعت کے لیے منظور کرلی۔

قاضی فائز عیسیٰ کی عدالت کھچا کھچ بھری ہوئی تھی۔ باز محمد کاکڑ شہید ایڈووکیٹ مولانا عبدالواسع کی جانب سے معزز چیف جسٹس کے سامنے زبردست دلائل دے رہے تھے۔ گویا اسمبلی قواعد و ضوابط کو بڑی تفصیل اور وضاحت کے ساتھ عدالت کے سامنے پیش کردی۔ عدالت نے کئی موا قعوں پر سیکریٹری اسمبلی کو بھی کوسا۔ میری ساتھ والی نشست پراسلم بھوتانی بیٹھے ہوئے تھے۔ فریق ہونے کے باوجود مجھ سے سرگوشی کی کہ سیکریٹری اسمبلی جو کچھ عدالت کو بتارہا ہے عین یہی ضابطہ اور قانون ہے۔ چو نکہ نواب رئیسانی حکومت کے خلاف مبالغہ کی حد تک پروپیگنڈہ ہوچکا تھا۔ اس عرصہ صوبے کے حالات خرابی کی انتہاء پر تھے۔ اسی بناء پر گورنر راج کا نفاذ ہوا تھا۔اس خاطر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے بھی عمومی فضاء کو مدنظر رکھ کر فیصلہ نوابزاہ طارق مگسی کے حق میں دیا ،وہ قائد حزب اختلاف بنے۔یو ں نگراں وزیراعلیٰ مشاورت سے نواب باروزئی بنائے گئے۔ مجھے یاد ہے کہ شہید باز محمد کاکڑ ایڈووکٹ نے سماعت کے دوران معزز چیف جسٹس سے ازراہ مذاق کہا کہ آپ جلدی فیصلہ سنادیں تاکہ ہم سپریم کورٹ میں اپیل کی تیاری شروع کریں۔ مولانا عبدالواسع نے ہمیں احاطہ عدالت میں بتایا کہ وہ سپریم کورٹ سے اسمبلی کے اس ضابطے ،قائدے اور قانون کی وضاحت کے لیے رجوع کر یں گے ۔ اب مولانا عبدالواسع اس غلط فیصلے کو بنیاد بناکر پشتونخوامیپ اور نیشنل پارٹی کے خلاف عدالت میں گئے ہیں(اُنیس مارچ کو عدالت میں پٹیشن داخل کی گئی)۔یقینا ان کا یہ اقدام اپنے سابقہ قول اور رائے کی ضد ہے۔ پشتونخوامیپ اور نیشنل پارٹی اقتدار سے بے دخل کردی گئی ہیں۔اب اگر وہ حزب اختلاف کی نشستوں پر نہ بیٹھیں تو کہاں جائیں؟۔ اسپیکر کو حزب اختلاف کی نشستوں پر بیٹھنے کے لیے درخواست دی۔ 23ارکان کی حمایت حاصل ہوئی ۔

اسی طرح15مارچ کو پشتونخوامیپ کے عبدالرحیم زیارتوال کا بطور قائد حزب اختلاف نوٹیفکیشن جاری ہوا۔ مولانا عبدالواسع ہنوز کہتے ہیں کہ ہمارے ساتھ 13 اراکین ہیں اور ہم حزب اختلاف میں ہیں۔ آپ یقینا حزب اختلاف کا حصہ ہو لیکن اکثریت ثابت نہ کرنے کی بناء پر آ پ عبدالرحیم زیارتوال کو بطور قائد حزب اختلاف تسلیم کرنے کے پابند ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ مولانا عبدالواسع یا جے یو آئی تضادات کا شکار ہیں۔ حکومت کا بھی بالواسطہ حصہ ہیں اور حزب اختلاف سے بھی چمٹے ہوئے ہیں۔ وزیراعلیٰ کے انتخاب کے موقع پر جے یو آئی کے تمام اراکان نے عبدالقدوس بزنجو کو ووٹ دیئے۔

رؤف عطاء ایڈووکیٹ جنرل بلوچستان بنائے گئے ۔ منصوبہ بندی و ترقیات کا محکمہ مولانا عبدالواسع کا بھائی محب اللہ چلارہا ہے۔ محکمہ بلوچستان ڈویلپمنٹ اتھارٹی جے یو آئی کے رکن مفتی گلاب کے تصرف میں ہے۔ اور شنید ہے کہ کوئٹہ ڈویلپمنٹ اتھارٹی کا اختیار بھی جے یو آئی کے رکن اسمبلی خلیل دمڑ کو دیا گیا ہے۔ کیا ایک نظریاتی اور دینی جماعت کو یہ دو رنگی زیب دیتی ہے؟ اخلاقاً مولانا عبدالواسع کو دائر کی گئی رٹ پٹیشن واپس لے لینی چاہیے کیونکہ عدالت کا وہ فیصلہ خود مولانا عبدالواسع اور ان کے پیرِ سیاست مولانا محمد خان شیرانی نے درست قرار نہیں دیا تھا۔ مجھے بی این پی عوامی، اے این پی اور بی این پی کے حزب اختلاف سے وابستگی کی منطق بھی سمجھ نہیں آتی۔ میر ظفر زہری تو عبدالقدوس بزنجو کی ہر محفل میں شریک رہتے ہیں۔ ایسی ہی سیاست نیشنل پارٹی کے میر خالد لانگو کی ہے۔ حکومت میں ہیں اور نیشنل پارٹی میں بھی ہیں۔27مارچ کے اجلاس میں مولانا عبدالواسع سے اُلجھ پڑے، پیش ازیں بھی اسمبلی اجلاسوں میں زودرنجی و تلخی کا مظاہرہ کرچکے ہیں۔ مولانا عبدالواسع نے پشتونخوامیپ اور نیشنل پارٹی کی پچھلی حکومت پر تنقید کی، کہا کہ پانی کی ٹینکیوں سے پیسے برآمد ہوئے۔ ظاہر ہے کہ میر خالد کے گھر یا دفتر سے ایک پائی بھی برآمد نہیں ہوئی۔ جن کے گھروں سے رقم برآمد ہوئی وہ پوری دنیا کو معلوم ہے۔ لہٰذا خالد لانگو حوصلہ مند رہیں۔ اگر وہ سابق سیکریٹری خزانہ مشتاق رئیسانی کیس میں با عزت بری ہوبھی جائیں تو معاشرے کا عمومی مزاج رہا ہے کہ وہ طعنہ زنی کرتا رہے گا۔ میر خالد لا نگو نیشنل پارٹی کے ساتھ نبھا نہ کرسکے ہیں۔ پارٹی نے بھی کسی موقع پر ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی۔ الیکشن کمیشن میں ڈی سیٹ کرنے کی درخواست تو چھو ریئے ،آج تک اخباری بیان تک میں ان پر تنقید نہ کی ہے ۔ بہتر ہے کہ میر خالد نیمے دروں ونیمے بروںکی کیفیت سے نکلنے کا خود ہی فیصلہ کریں۔


متعلقہ خبریں


مضامین
شادی۔یات وجود بدھ 24 اپریل 2024
شادی۔یات

جذباتی بوڑھی عورت وجود بدھ 24 اپریل 2024
جذباتی بوڑھی عورت

تمل ناڈو کے تناظر میں انتخابات کا پہلامرحلہ وجود منگل 23 اپریل 2024
تمل ناڈو کے تناظر میں انتخابات کا پہلامرحلہ

بھارت اورایڈز وجود منگل 23 اپریل 2024
بھارت اورایڈز

وزیر اعظم کا یوتھ پروگرام امید کی کرن وجود منگل 23 اپریل 2024
وزیر اعظم کا یوتھ پروگرام امید کی کرن

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر