وجود

... loading ...

وجود
وجود

آٹزم کیا ہے ؟

منگل 10 اپریل 2018 آٹزم کیا ہے ؟

اگرآپ اپنے بچے کا نام لیں اور وہ بہت کم ردعمل ظاہر کرے، جب دوسرے لوگ اس سے بات کرنے یا اس کے ساتھ کھیلنے کی کوشش کریں تو وہ لاپروا سا رہے۔ وہ دوسروں کی توجہ کا طالب نہ ہو یا بہت کم ہو، اس کا کھلونوں سے کھیلنے کا طریقہ عام بچوں سے ہٹ کر ہو یا کھلونوں میں دلچسپی ہی نہ لے یا ایک ہی کام بار بار کرتا رہے تو ممکن ہے کہ وہ آٹزم (خودتسکینی) کا شکار ہو۔آٹزم کی دیگر علامات میں بول چال میں دشواری، بے ربط الفاظ میں مدعا بیان کرنا، لوگوں سے نظریں چارکرنے سے گریز، کچھ آلات یا اشیا مثلاً بجلی کے سوئچ، پنکھے اور گھومنے والے پرزے یا کھلونوں کے ساتھ غیر معمولی لگاو، کسی کو اپنی جانب متوجہ کرنے کی کوشش نہ کرنا، کسی سنی ہوئی بات یا جملے کو بغیر کسی وجہ کے دہراتے رہنا اور گرمی اور سردی کے احساس سے عاری ہونا شامل ہیں۔آٹزم میں مبتلا فرد اپنی دنیا میںگم رہتا ہے۔ اسے اپنی توجہ مرکوز کرنے میں دشوار ی ہوتی ہے اور اس کی حرکات و سکنات میں ہم آہنگی نہیں ہوتی۔ ان علامات کا مشاہدہ کرتے ہوئے خود ہی یہ یقین مت کر لیجیے کہ بچے کوآٹزم ہی ہے۔آٹزم کی تشخیص پیچیدہ ہے اور صرف ظاہری علامات کی بنیاد پر کسی کو آٹسٹک نہیں کہا جا سکتا۔ اگرآپ کوشک گزرے کہ کسی بچے کو آٹزم ہے توڈاکٹر سے رابطہ کیجیے اور مسئلہ بیان کیجیے۔ کسی ماہر نفسیات سے مشاورت کی ضرورت بھی ہو گی۔آٹزم میں مبتلا افراد اردگرد کی دنیا کا ادراک مختلف انداز سے کرتے ہیں اور ان کا دوسرے سے تعلق اور رابطہ ا?ٹزم کی وجہ سے متاثر ہوتاہے۔یہ افراد دنیا کو مختلف انداز سے دیکھتے، سنتے اور محسوس کرتے ہیں۔

آٹزم روایتی معنوں میں کوئی بیماری نہیں اور نہ ہی اس کا ’’علاج‘‘ موجود ہے۔ البتہ ان افراد کی صورت حال میں بہتری لائی جا سکتی ہے جس کے نتیجے میں وہ بہتر طور پر زندگی گزارنے کے قابل ہو سکتے ہیں۔ آٹزم کی آمد میں جینیاتی اور ماحولیاتی عناصر کا عمل دخل ہوتا ہے۔آٹزم ایک طرح کا نہیں ہوتا بلکہ اس کی کئی اقسام ہیں۔ اسی وجہ سے تمام آٹسٹک افراد کو ایک ہی طرح کی مشکلات اور چیلنجز کا سامنا نہیں ہوتا۔ ان کی صورت حال میں بہتری کے لیے ان کے آٹزم کی نوعیت اور شدت کو سمجھنا ضروری ہے۔ بچوں میں آٹزم کی شناخت کے لیے والدین کا مشاہدہ بہت اہمیت کا حامل ہوتا ہے کیونکہ جتنا جلد اس کا پتا چلا لیا جائے اتنا ہی بہتر ہوتا ہے۔ ابتدائی عمر میں والدین ہی سب سے زیادہ قریب ہوتے ہیں۔ آٹزم کی زیادہ واضح علامات دو سے تین سال کی عمر میں ظاہر ہونے کا امکان ہوتا ہے۔

بعض معاملوں میں اسے 18 ماہ کی عمر میں بھی پہچانا جا سکتا ہے۔والدین کی لاپروائی یا غفلت بچوں میں ا?ٹزم کی وجہ شمار نہیں ہوتی یعنی اس مسئلے کی بنیاد ان کا رویہ نہیں لیکن اگر وہ تشخیص اور انتظام وانصرام میں لاپروائی برتیں تو بچے کو ا?ئندہ کی زندگی میں زیادہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہ ذمہ داری صرف والدین کی نہیں بلکہ سماجی بھی ہے۔

اس معاملے میں متعلقہ ریاستی اداروں کا کردار بھی کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔ آٹزم نشوونما سے منسلک عمر بھر ساتھ رہنے والی ’’معذوری‘‘ ہے۔ ا?ٹزم کی نوعیت اور شدت پر منحصر ہے کہ تربیت و تعلیم اور تھراپی کے بعد کیا متاثرہ فرد اپنے طور پرآزادانہ زندگی گزار سکتا ہے یا اسے تاعمر مدد کی ضرورت رہے گی۔ یہ مسئلہ دنیا کے تمام خطوں کے افراد میں موجود ہے اور اس میں رنگ، نسل اور سماجی پس منظر کی کوئی قید نہیں۔آٹزم کا کوئی مکمل طبی علاج نہیں ہے یعنی یہ سر درد کی نوع جیسا کوئی مسئلہ نہیں جسے ادویات کے استعمال سے دور کیا جا سکے۔ آٹزم میں مبتلا افراد کی تھراپی اورمینجمنٹ سے ان کے رویوں میں بہتری لائی جا سکتی ہے اور زندگی گزارنے کے لیے لازمی صلاحیتوں میں اضافہ کیا جاسکتا ہے۔ تاہم آٹزم کی چند خصوصیات عمر بھر ساتھ رہتی ہیں۔

ان میں پائی جانے والی بعض علامات کے لیے ادویات کا سہارا بھی لیا جاتا ہے جیسا کہ بے چینی کے لیے۔ بدقسمتی سے دنیا میں ا?ٹزم میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔

لڑکیوں کی نسبت لڑکے اس کا چار سے پانچ گنا زیادہ شکار ہوتے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق دنیا کی آبادی میں ہر ایک ہزارافراد میں ایک سے دوآٹسٹک ہیں۔ یوں تو دنیا بھر میںآٹزم کے بارے میں آگاہی کی کمی ہے لیکن پاکستان میں اس کمی کا احساس زیادہ شدت سے ہوتا ہے۔

آگاہی اور انتظام کی کمی کی وجہ سے اآٹزم میں مبتلا افراد نہ صرف خود مشکلات بھری زندگی بسر کرتے ہیں بلکہ ان کے اہل خانہ بھی متاثر ہوتے ہیں۔ بدقسمتی سے آٹزم میں مبتلا افراد کی صورت حال اور ان کے دکھ درد کو کم سمجھا جاتا ہے اور شاید اسی لیے وہ ذہنی امراض کا زیادہ شکار ہوتے ہیں۔ سویڈن میں ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق آٹزم کے شکار افراد کی اوسط عمر کم ہوتی ہے۔

ان میں دل کی بیماری کے بعد اموات کی عام وجہ خودکشی پائی گئی۔آٹزم میں مبتلا بچوں کو عموماً ان کے رویے کی وجہ سے شرارتی، الگ تھلگ رہنے والا اور خاموش کہا جاتا ہے۔ لیکن یہ بچے بہت ذہین بھی ہو سکتے ہیں۔آٹزم سے متا ثر بچے بعض غیر معمولی صلاحیتوں کے حامل بھی ہو سکتے ہیں۔

مثلاً ان کی یادداشت بہت اچھی ہو سکتی ہے، وہ ریاضی میں مہارت رکھ سکتے ہیں یا گانے بجانے اور موسیقی کے آلات استعمال کرنے میں اپنے ہم عمر بچوں سے بہت زیادہ باصلاحیت ہو سکتے ہیں۔ اس امر سے اندازہ لگا لیجیے کہ مشہور سائنسدان نیوٹن اورآئن سٹائن آٹزم کا شکا ر تھے۔


متعلقہ خبریں


کسی جج نے شکایت نہیں کی، عدلیہ میں مداخلت قبول نہیں، چیف جسٹس وجود - جمعه 26 اپریل 2024

چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا ہے کہ عدالتی معاملات میں کسی کی مداخلت قابل قبول نہیں ہے۔سندھ ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن کی تقریب سے خطاب میں چیف جسٹس نے کہا کہ وہ جب سے چیف جسٹس بنے ہیں ہائیکورٹس کے کسی جج کی جانب سے مداخلت کی شکایت نہیں ملی ہے اور اگر کوئی مداخلت ...

کسی جج نے شکایت نہیں کی، عدلیہ میں مداخلت قبول نہیں، چیف جسٹس

حق نہ دیا تو حکومت گرا کر اسلام آباد پر قبضہ کرلیں گے ، وزیراعلی خیبرپختونخوا وجود - جمعه 26 اپریل 2024

وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا اور پاکستان تحریک انصاف کے رہنما نے کہا ہے کہ اگر ہمیں حق نہ دیا گیا تو حکومت کو گرائیں گے اور پھر اس بار اسلام آباد پر قبضہ کرلیں گے۔اسلام آباد میں منعقدہ پاکستان تحریک انصاف کے 28ویں یوم تاسیس کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے علی امین گنڈا پور نے ایک بار پھر ...

حق نہ دیا تو حکومت گرا کر اسلام آباد پر قبضہ کرلیں گے ، وزیراعلی خیبرپختونخوا

ڈاکوئوں سے روابط رکھنے والے پولیس اہلکاروں کا کراچی تبادلہ وجود - جمعه 26 اپریل 2024

اندرون سندھ کی کالی بھیڑوں کا کراچی تبادلہ کردیا گیا۔ مبینہ طور پر کچے کے ڈاکوئوں سے روابط رکھنے والے اناسی پولیس اہلکاروں کا شکارپور سے کراچی تبادلہ کردیا گیا۔ شہریوں نے ردعمل دیا کہ ان اہلکاروں کا کراچی تبادلہ کرنے کے بجائے نوکری سے برطرف کیا جائے۔ انھوں نے شہر میں جرائم میں اض...

ڈاکوئوں سے روابط رکھنے والے پولیس اہلکاروں کا کراچی تبادلہ

چیف جسٹس ،کراچی کے کھانوں کے شوقین نکلے وجود - جمعه 26 اپریل 2024

چیف جسٹس کراچی آئے تو ماضی میں کھو گئے اور انہیں شہر قائد کے لذیذ کھانوں اور کچوریوں کی یاد آ گئی۔تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسی نے کراچی میں سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی ایک تقریب میں وکلا سے خطاب کرتے ہوئے وہ ماضی میں کھو گئے اور انہیں اس شہر کے لذیذ کھ...

چیف جسٹس ،کراچی کے کھانوں کے شوقین نکلے

آگ کا دریا عبور کرکے وزیراعلیٰ کی کرسی تک پہنچنا پڑا، مریم نواز وجود - جمعه 26 اپریل 2024

وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز نے کہا ہے کہ وزیراعلی کی کرسی اللہ تعالی نے مجھے دی ہے اور مجھے آگ کا دریا عبور کرکے یہاں تک پہنچنا پڑا ہے۔وزیراعلی پنجاب مریم نواز نے پولیس کی پاسنگ آٹ پریڈ میں پولیس یونیفارم پہن کر شرکت کی۔پاسنگ آئوٹ پریڈ سے خطاب میں مریم نواز نے کہا کہ خوشی ہوئی پو...

آگ کا دریا عبور کرکے وزیراعلیٰ کی کرسی تک پہنچنا پڑا، مریم نواز

پی ڈی ایم جماعتیں پچھلی حکومت گرانے پر قوم سے معافی مانگیں، حافظ نعیم وجود - جمعه 26 اپریل 2024

امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمن نے کہا ہے کہ پاک ایران گیس پائب لائن منصوبہ ہر صورت میں مکمل کیا جائے، امریکا پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت بند کرے۔ احتجاج کرنے والی پی ڈی ایم کی جماعتیں پچھلی حکومت گرانے پر قوم سے معافی مانگیں، واضح کریں کہ انھیں حالیہ انتخابات پر اعت...

پی ڈی ایم جماعتیں پچھلی حکومت گرانے پر قوم سے معافی مانگیں، حافظ نعیم

پسند نا پسند سے بالاتر ہوجائیں،تاجروں کی وزیراعظم کو عمران خان سے ہاتھ ملانے کی تجویز وجود - جمعرات 25 اپریل 2024

وزیراعظم شہباز شریف کو کاروباری شخصیت عارف حبیب نے معاشی استحکام کے لیے بانی پی ٹی آئی سے ہاتھ ملانے کی تجویز دے دی۔تفصیلات کے مطابق کراچی میں وزیراعظم شہباز شریف نے تاجر برادری سے گفتگو کی اس دوران کاروباری شخصیت عارف حبیب نے کہا کہ آپ نے اسٹاک مارکیٹ کو ریکارڈ سطح پر پہنچایا ...

پسند نا پسند سے بالاتر ہوجائیں،تاجروں کی وزیراعظم کو عمران خان سے ہاتھ ملانے کی تجویز

نواز اور شہباز میں جھگڑا چل رہا ہے، لطیف کھوسہ کا دعویٰ وجود - جمعرات 25 اپریل 2024

تحریک انصاف کے رہنما لطیف کھوسہ نے نواز شریف اور شہباز شریف کے درمیان جھگڑا چلنے کا دعوی کر دیا ۔اسلام آباد ہائیکورٹ میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ چھوٹے بھائی نے دھوکا دیکر نواز شریف سے وزارت عظمی چھین لی ۔ شہباز شریف کسی کی گود میں بیٹھ کر کسی اور کی فرمائش پر حکومت کر رہے ہیں ۔ ان...

نواز اور شہباز میں جھگڑا چل رہا ہے، لطیف کھوسہ کا دعویٰ

امریکی طالبعلموں کا اسرائیل کے خلاف احتجاج شدت اختیار کرگیا وجود - جمعرات 25 اپریل 2024

غزہ میں صیہونی بربریت کے خلاف احتجاج کے باعث امریکا کی کولمبیا یونیوسٹی میں سات روزسے کلاسز معطل ہے ۔سی ایس پی ، ایم آئی ٹی اور یونیورسٹی آف مشی گن میں درجنوں طلبہ کو گرفتار کرلیا گیا۔فلسطین کے حامی طلبہ کو دوران احتجاج گرفتار کرنے اور ان کے داخلے منسوخ کرنے پر کولمبیا یونیورسٹی ...

امریکی طالبعلموں کا اسرائیل کے خلاف احتجاج شدت اختیار کرگیا

پنجاب کے ضمنی انتخابات میں پولیس نے مداخلت کی، یہاں جنگل کا قانون ہے ،عمران خان وجود - بدھ 24 اپریل 2024

بانی پی ٹی آئی عمران خان نے کہا ہے کہ پنجاب کا الیکشن پہلے سے پلان تھا اور ضمنی انتخابات میں پہلے ہی ڈبے بھرے ہوئے تھے۔اڈیالہ جیل میں میڈیا سے بات چیت میں انہوں نے کہا کہ جمہوریت، قانون کی بالادستی اور فری اینڈ فیئر الیکشن پر کھڑی ہوتی ہے مگر یہاں جنگل کا قانون ہے پنجاب کے ضمنی ...

پنجاب کے ضمنی انتخابات میں پولیس نے مداخلت کی، یہاں جنگل کا قانون ہے ،عمران خان

ایرانیوں کے دل پاکستانیوں کے ساتھ دھڑکتے ہیں ایرانی صدر وجود - بدھ 24 اپریل 2024

ایرانی صدر ابراہیم رئیسی لاہور پہنچ گئے، جہاں انہوں نے مزارِ اقبال پر حاضری دی۔ اس موقع پر ان کا کہنا تھا کہ ایرانیوں کے دل پاکستانیوں کے ساتھ دھڑکتے ہیں۔ غزہ کے معاملے پر پاکستان کے اصولی مؤقف کو سراہتے ہیں۔وزیراعلی پنجاب مریم نواز نے علامہ اقبال انٹرنیشنل ائرپورٹ پر مہمان ایرا...

ایرانیوں کے دل پاکستانیوں کے ساتھ دھڑکتے ہیں ایرانی صدر

سپریم کورٹ، کراچی میں 5ہزار مربع گز پلاٹ پر پارک بنانے کا حکم وجود - بدھ 24 اپریل 2024

سپریم کورٹ نے کراچی میں 5 ہزار مربع گز پلاٹ پر پارک بنانے کا حکم دیدیا۔عدالت عظمی نے تحویل کے لئے کانپور بوائز ایسوسی ایشن کی درخواست مسترد کردی۔سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں کانپور اولڈ بوائز ایسوسی ایشن کو زمین کی الاٹمنٹ کیس کی سماعت کے دوران وکیل نے عدالت کو بتایا کہ انیس سو اک...

سپریم کورٹ، کراچی میں 5ہزار مربع گز پلاٹ پر پارک بنانے کا حکم

مضامین
صدر رئیسی کا رسمی دورۂ پاکستان اور مضمرات وجود جمعه 26 اپریل 2024
صدر رئیسی کا رسمی دورۂ پاکستان اور مضمرات

سیل ۔فون وجود جمعه 26 اپریل 2024
سیل ۔فون

کڑے فیصلوں کاموسم وجود جمعه 26 اپریل 2024
کڑے فیصلوں کاموسم

اسکی بنیادوں میں ہے تیرا لہو میرا لہو وجود جمعه 26 اپریل 2024
اسکی بنیادوں میں ہے تیرا لہو میرا لہو

کشمیری قیادت کا آرٹیکل370 کی بحالی کا مطالبہ وجود جمعه 26 اپریل 2024
کشمیری قیادت کا آرٹیکل370 کی بحالی کا مطالبہ

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر