وجود

... loading ...

وجود

صحت کا عالمی دن

منگل 10 اپریل 2018 صحت کا عالمی دن

اچھی صحت کا حصول ہر شہری کا بنیادی حق ہے اور کسی بھی ملک کی ترقی اور خوشحالی کے لئے اس ملک کا صحت کا شعبہ کلیدی کردار ادا کرتا ہے ۔ اور ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے اور اس شعبے میں ترقی کئے بغیر کوئی بھی ملک ترقی کی راہوں پر کامزن نہیں ہوسکتا ہے ۔ صحت کی ابتر ہوتی ہوئی صورتحال کے بہت سے عوامل کارفرما ہوتے ہیں مگر غیر معیاری تعلیم ، مستند ڈاکٹرز اور پیرا میڈاکس اسٹاف کی عدم دستیابی اور عوام میں آگاہی اور شعور کی کمی اس کی اہم اور بنیادی وجوہات ہیں ۔

پاکستان میں صحت کے حوالے سے ابھی تک لوگوں میں شعور کی کمی ہے ۔ ہمارے ہاں ابھی تک بچوں کو پولیو کے قطرے پلانے یا نا پلانے کی بحث جاری ہے ۔اس وقت دنیا میں تین ممالک میں پولیو کا مرض موجود ہے ، جن میں پاکستان ، افغانستان اور نائیجریا شامل ہیں ۔ پولیو کا خاتمہ پاکستان کے لئے ایک بہت بڑ ا چیلنج ہے ۔پولیو کی بیماری ایک متعدی بیماری ہے جو کہ ایک فرد سے دوسرے فردمیں پھیل سکتی ہے ۔ یہ بیماری متاثرہ شخص کے تھوک اور چھینک سے بھی منتقل ہو سکتی ہے ۔ عام طور پر پولیو وائرس منہ یا ناک کے ذریعے انسانی جسم میں داخل ہوتا ہے ۔ یہ وائرس پانی کے استعمال سے بھی ایک فرد سے دوسرے فرد میں پھیل سکتا ہے ۔اس کے علاوہ متاثرہ شخص کے ساتھ بلا واسطہ رابطے سے بھی پولیو کے وائرس پھیلنے کے امکانات ہوتے ہیں ۔عام طور پر یہ وائرس متاثرہ شخص کے فضلے (Stool) کے ذریعے بھی پھیلتا ہے اورا گرمتاثرہ فرد نے رفع حاجت کے بعد اپنے ہاتھوں کو ٹھیک طریقے سے نہیں دھویا تو یہ اس کے ہاتھوں کے ذریعے ہر جگہ پھیل جا تے ہیں ۔ ایک تجزیہ کے مطابق پولیو وائرس انفیکشن ہر 25 افراد میں سے تقریباََ ایک میں پایا جاتا ہے ۔ جبکہ فالج پولیو وائرس انفیکشن کے ساتھ ہر 200 لوگوں میں سے ایک میں موجود ہوتا ہے ۔

پولیو کا وائرس جب ایک بار دماغ میں داخل ہو جاتے ہیں تو پھر اسکا علاج ناممکن ہوتا ہے ۔اور پولیو کو صرف حفاظتی قطروں کے ذریعے ہی کنٹرول کیا جاسکتا ہے ۔ منہ کے ذریعے پلائے جانے والے پولیو کے قطرے OPV )(Oral Polio Vaccine) بچوں کو پولیو کے خلاف تحفظ دینے کے لئے ضروری ہیں اور یہ بچے کو عمر بھر کا تحفظ فراہم کرتے ہیں ۔یہ پولیو ویکسین پولیو وائرس سے لڑنے کے لئے بچوں کے جسم کی مدد کرتا ہے اور ایک تحقیق کے مطابق ویکسین کے ذریعے تقریباََ تمام بچوں کو پولیو سے حفاظت یقینی ہو جاتی ہے ۔

پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن اور حالیہ ریسرچ کے مطابق پاکستان میں استعمال ہونے والی پولیو ویکسین موثر اور محفوظ ہے اور یہی ویکسین ساری دنیا میں پولیو کے خاتمے کے لیے استعمال کی جارہی ہے ۔ پاکستان میں پولیو کے خاتمے کے لیے سرکاری اور انتظامی سطح پر اس حوالے سے بہت کام ہوا ہے ۔ پاکستان کے کچھ علاقے ایسے بھی ہیں جہاں پولیو ویکسین کی فراہمی میں گزشتہ برسوں میں متواتر کمی دیکھی گئی ہے ، جو پولیو کو پاکستان میں پھیلنے کے لیے سازگار مواقع فراہم کر رہی ہے ۔

آج بھی پاکستان میں بچوں کی بہت بڑی تعداد اس بیماری میں مبتلا ہو کر نہ صرف موت کے منہ میں جارہی ہے ، بلکہ انہیں عمر بھر کی معذوری کا بھی سامنا ہے ۔ پولیو کے اس وائرس سے بچائو کے لئے کسی بھی قسم کی اینٹی بائیوٹکس یا ادویات موجود نہیں ہیں ۔ صرف پولیو ویکسین ہی اس بیماری کا ایک کامیاب اور موثر حل ہے جس کو اپنا کر ہم پاکستان سے بھی اس موذی مرض کو ہمیشہ کے لئے جڑ سے اکھاڑ کر پھینک سکتے ہیں ۔عالمی ادارہ صحت کے مطا بق پاکستان ٹی بی کے حوالے سے پانچوں نمبر پر ہے ۔اور ایک رپورٹ کے مطا بق ہر گزرتے سال پاکستان میں ٹی بی میں مبتلا افراد کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ پاکستان کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں ٹی بی کے مریضوں کی کافی زیادہ تعداد پائی جاتی ہے ۔ عالمی ادارہ صحت کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں سالانہ پندرہ ہز ار بچے ٹی بی میں مبتلا ہو تے ہیں، جن میں سے تقر یباً پچیس فیصد اپنی زندگی سے محرو م ہو جاتے ہیں ۔

یہ بیماری مریض کے کھانسنے ، چھیکنے وغیرہ سے دوسرے لوگوں میں منتقل ہو سکتی ہے ۔ جس کی بنیادی وجوہ میں پرانے اورگنجائش سے زیادہ گنجان آباد علاقے جہاں گھروں میں آکسیجن کی کمی ہوتی ہے ، حفظان صحت کے اصولوں کی خلاف ورزی، کم طبی سہولیات، بہتر رہائش کا نہ ہونا ٹی بی کی اہم وجوہ میں شامل ہے ۔ ٹی بی کے مریضوں کوفوراََ بنا کسی تاخیر کے قریبی معالج سے رجوع کرنا چاہیے۔

ماہر ین کے مطابق ٹی بی کے مرض میں کمی نہ ہونے کی ایک وجہ اسکا طویل علاج ہے۔ جس کے باعث مریض علاج مکمل کئے بغیر ہی ادویات کا استعمال ترک کر دیتا ہے ، جس کی وجہ سے اس مرض کے دوبارہ ہونے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔پاکستان میں نیشنل ٹی بی پروگرام ٹی بی جیسے موذی مرض کے تدارک میں اپنا کردار ادا کررہی ہے مگر ٹی بی جیسے مرض کو ختم کرنے کے لیے حکومت اور پرائیوٹ سیکٹر کو مل کر تیز رفتاری کے ساتھ اپنا حصہ ادا کرنا ہو گا اور کمپین کے ذریعے عوام الناس میں آگاہی پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ ایک مناسب فنڈ بھی اس کو ختم کرنے اور مریضوں کا مفت علاج فراہم کرنے کے لیے مختص کرنا چاہیئے ۔ پاکستان کے تمام صوبوں میں اس مرض کو ختم کرنے کے لیے مختلف اداروں کے ساتھ مل کر پروگرام شروع کرناہوں گے ۔

ملیریا جس کے ساتھ ساتھ آج کل ڈینگی اور چکن گونیا وغیرہ بھی بہت تیزی سے پھیل رہے ہیں ۔جن کی اہم وجہ گندے اور ٹھہرے پانی کی موجودگی اور ان میں مچھروں کی افزائش ہے ۔WHO کی رپورٹ کے مطابق ملیریا پاکستان میں ہونے والا دوسرا عام مرض ہے اور پاکستان میں 3.5 ملین لوگ سالانہ اس مرض میں مبتلا ہو رہے ہیں۔ ملیریا کی شرح پاکستان میں خصوصاََ مون سون کے موسم میں یعنی اگست سے نومبر تک زیادہ رہتی ہے ۔ پاکستان کے ملیر یا کنٹرول آرگنائزیشن کے وضع کردہ اسٹریجک پلان کے مطابق 2020 تک پاکستان میں ملیر یا کی شرح 75% تک کم کرناہے ۔ ملیر یا کے ساتھ ساتھ چکن گونیا جو ایڈیس ایجیپٹی (aedes aegypti) نامی مادہ مچھر کے کاٹنے سے انسانی جسم میں منتقل ہوتا ہے جو پاکستان اور خصوصاََ کراچی اور اب تھرپارکر میں بری طرح اپنے پنجے گاڑچکا ہے ، پر قابو کرنا ہو گا۔ ایک رپورٹ کے مطابق کر اچی میں تقریباََ 40000 کے قریب چکن گونیا کے مریض ملیر ، شاہ فیصل ، کورنگی اور کیماڑی کے علاقے سے شناخت کئے گئے ۔

عالمی ادارہ صحت کے مطابق حالیہ برسوں میں پوری دنیا میں ڈینگی بخار سے متاثرہ افراد کی تعداد بے حد بڑھ چکی ہے اور تقریباََ دنیا کی چالیس فیصد آبادی ڈینگی میں مبتلا ہے ۔ اور ہر سال تقریباََ 5 کروڑ کیسزسامنے آتے ہیں جس سے پوری دنیا میں سالانہ تقریباََ پندرہ ہزار سے زائد افراد ہلاک ہو جاتے ہیں ۔پاکستان میں بھی ڈینگی خیبر بختونخوا، ایبٹ آباد ، پشاور وغیرہ کے علاقوں میں بہت سارے افراد کو متاثر کر چکا ہے ۔ جبکہ کراچی شہر میں بھی ڈینگی سے متاثرہ افراد موجود ہیںاور ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق اس سال کراچی میں ڈینگی سے ہونے والی اموات کی تعداد بہت زیادہ ہو چکی ہیں۔ یہ ا مراض قابل علاج بھی ہے اور اس سے باآسانی بچا بھی جاسکتا ہے ۔ان سب کی بنیادی وجہ نا مناسب آگاہی ، ناقص صفائی اورحفاظتی تدابیر کا نہ ہونا ہے، جس کی وجہ سے یہ ایک عام سی بیماری مہلک اور خطرناک صورت اختیار کر تی جا رہی ہے ۔

ورلڈ کینسر ریسرچ فنڈ انٹرنیشنل کی ایک رپورٹ کے مطابق چھاتی کا سرطان پوری دنیا کی خواتین میں پایا جانے والا سب سے عام سرطان ہے اور دنیا کی خواتین کی کل آبادی میں تقریباََ سولہ(16) فیصد خواتین کو چھاتی کے سرطان کامرض لاحق ہے۔ جبکہ بریسٹ کینسر سے پوری دنیا میں ہر سال تقریباََ پانچ لاکھ خواتین موت کے منہ میں چلی جاتی ہیں ۔ پاکستان کا شمار ان ا یشیائی ممالک میں ہوتا ہے جہاں خواتین میں چھاتی کے سرطان کی شرح بہت زیادہ ہے اور پاکستان میں گزشتہ چند سالوں سے خواتین میں چھاتی کے سرطان کے مریضوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے ۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان میںہر سال نوے ہزار (90000) خواتین چھاتی کے سرطان میں مبتلا ہو جاتی ہیں جن میں سے تقریباََ چالیس ہزار خواتین بروقت علاج اور آگاہی کی غیر موجودگی کے باعث کینسر سے زندگی کی جنگ ہار جاتی ہیں ۔ خواتین میں لاعلمی ، آگاہی کی کمی اور بروقت شناخت یا علاج نہ ہونے کی وجہ سے شرح اموات میں دن بدن اضافہ ہوتا جارہاہے ۔۔ خاص کر ان لوگوں کو اس آگاہی کی زیادہ ضرورت ہے جو کہ گائوں دیہات میں رہتے ہیں اورجہاں پر تعلیم کی کمی ہے ۔ کیونکہ ایسے علاقوں میں ایک تو خواتین اس مرض کو دوسروں سے چھپاتی ہیں اور پھر اس مرض کے بارے میں معلومات اور آگاہی بھی کم ہوتی ہے اور جب یہ بیماری آگے بڑھ کر پھیل جاتی ہے تو ڈر، خوف اور روایتی علاج مریض کو موت کے منہ میں دھکیل دیتا ہے ۔

نگلیریا فائولیری(Naegleria fowleri) جسے دماغ کھانے والا امیبا (Brain Eating Amoeba) بھی کہتے ہیں ،صرف آلودہ پانی میں پرورش پاتا ہے اور یہ جھیلوں ، تالابوں ، چشموں ، سوئمنگ پولز اور نلکوں کے پانی میں پائے جاتے ہیں ۔

نگلیریا فائولیری انسانی جسم میں ناک کے راستے انسانی دماغ میں داخل ہو تا ہے اور ناک کی جھلی سے گزر کر یہ طفیلی امیبا قوتِ شامہ سے منسلک اعصاب کو نقصان پہنچاتے ہوئے دماغ کے اندر داخل ہو کر دماغی خلیات کو اپنی غذا بناتے ہیں ۔ اس کے پھیلنے کی وجہ آلودہ پانی کے ذخائر ہیں ۔ حالیہ ریسرچ کے مطابق اس دماغ کھانے والے امیبا کے پھیلائوں میں سوئمنگ پولز ایک نمایا ں کردار ادا کرتے ہیں ۔ سوئمنگ پولز میں کلورین کی مقدار کا نامناسب استعمال اس انفیکشن کی وجہ بنتا ہے ۔

اس جرثومے کے پھیلنے کی وجہ درجہ حرارت میں اضافہ ، گھریلو استعمال والے پانی کا آلودہ ہونا اور فراہمی آب کے نظام میں مختلف خرابیاں ہو سکتی ہیں لہذا ہمیں چاہیئے کہ صاف پانی کے استعمال کو یقینی بنائیں اور جراثیم سے پاک پانی استعمال کریں ۔

ان کے علاوہ مختلف وائرل اور بیکٹیریل بیماریوں میں ہیپا ٹائٹس ، ٹائیفائیڈ، خسرہ ، ریبیز وغیرہ شامل ہیں ۔ ٹائیفائیڈ اور ہیپاٹائٹس پاکستان میں بہت عام ہو تے جا رہے ہیں جو کہ آلودہ پانی اور خراب کھانوں سے پھیلتی ہیں اور جگر کی خرابی کا باعث بنتی ہیں ۔ٹائیفائیڈ بھی ایک بیکٹیریل بیماری ہے جو خراب اور آلودہ پانی اور خوراک سے پھیلتی ہے ۔
2016 ء میں ہسپتالوں کی رینکنگ کے عالمی ادارے رینکنگ ویب آف ہاسپٹلز (Ranking web of Hospitals) کے مطابق پاکستان کا کوئی بھی سرکاری ہسپتال دنیا کے ساڑھے پانچ ہزار بہترین ہسپتالوں میں شامل نہیں ہے ۔ جبکہ پاکستان کا سی آئی ڈی پی انٹرنیشنل فائونڈیشن(Cidp International Foundation)کو پاکستان کا درجہ اول کا ہسپتال مانا گیا ہے ۔جو عالمی طورپر 1842 ویں نمبر پر ہے ۔جبکہ جناح میموریل ہسپتال 2400 ویں نمبر پر اور سندھ انسٹی ٹیوٹ آف یورولوجی 2736 ویں نمبر پر ہے ۔ اس کے علاو ہ پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز (PIMS) جو پاکستان کا بہترین ہسپتال مانا جاتا ہے ۔ وہ دنیا کے بہترین ہسپتالوں میں 5 ہزار 911 نمبر پر موجود ہے ۔ رینکنگ ویب آف ورلڈ ہاسپٹلز (Ranking web of Hospitals) میں ہسپتالوں میں موجود سہولیات ، آلات ، مستند اور ا سپیشلسٹ ڈا کٹر وں کی تعداد، صفائی کے معیار ااور ہسپتال میں ہونے والی تحقیق کرنے کے پس منظر کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ رینکنگ کی گئی ہے اور اسی رینکنگ کی بنیاد پر ہی عالمی بینک ، عالمی ادارہ صحت اور ایشین ڈولپمنٹ بینک اپنے گرانٹس اور فنڈز جاری کرتے ہیں ۔
ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق پاکستان میں مجموعی قومی پیداوار کا صرف 2 فیصد شعبہ صحت پر خرچ کیا جاتا ہے جن کا بھی شفاف استعمال نہیں کیا جاتا ہے اورکروڑوں کی آبادی کے حامل اس ملک کے لئے چند ہزار سرکاری ہاسپٹلز اور ان میں موجود ناکافی اور غیر میعاری ادویات ، غیر تجربہ کار پیرا میڈیکل اسٹاف اور بہتر مشینری کی کمی سو نے پر سہاگہ کا کام کر رہی ہے ۔پاکستان کے دیہی علاقوں کی صورت حال اس سے بھی بہت ابتر ہے ، جہاں اسپتال تو دور کی بات ایک ڈاکٹر تک کی سہولت موجود نہیں ۔ وہاں بے حد توجہ کی ضرورت ہے اورابتدائی نگہداشت کی اصلاح کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ عطائی اور پیرامیڈکس کے بجائے مستند اور تربیت یافتہ ڈاکٹر متعین کیے جائیں ۔ ڈاکٹر ز کو بھی پروفیشنل اور با خبر ہونا چاہیئے کہ عالمی طور پر صحت میں ریسرچ کے حوالے سے اور مختلف بیماریوں کے حوالے سے جو تبدیلیاں آرہی ہیں ، انہیں بھرپور آگاہی اور دسترس ہونی چاہیئے ۔ کیونکہ صحت کے شعبے میں ریسرچ کے بغیر گزارہ مشکل ہی نہیں ناممکن ہے ۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مختلف موضوعات پر اپ ڈیٹ معلوماتی لٹریچرز اور ریسرچ بیس ڈیٹا سے استفادہ حاصل کرتے ہوئے نت نئے امراض کا علاج جو کہ عالمی طورپر اور خصوصاً پاکستان میں موجود ہے ، ان کا شعو ر اور ان پر عبور لازم ہے ۔ صحت اور تندرستی جیسے اہم شعبے کے لئے ہسپتالوں اور طب سے وابستہ افراد کو سہولیات کی فراہمی کو یقینی بنا نا اشد ضروری ہے ۔ اور سرکاری ہسپتالوں میں تشخیصی لیبارٹریز میں جدید طرز کی مشینوں کا استعمال بھی بے حد ضروری ہے کیونکہ درست تشخیص کے باعث مریض کی جان کو بچانے کے ساتھ ساتھ علاج بھی با آسانی کیا جاسکتا ہے ۔ اس کے علاوہ صحت سے متعلق عوام الناس میں شعور آگاہی کے پھیلائو کی بھی اشد ضرورت ہے اور خصوصاََ دیہی علاقوں میں مختلف بیماریوں کے حوالے سے پروگرامز اور سیمینارز منعقد کئے جانے چاہیئے ۔


متعلقہ خبریں


ملک بھر میں گھریلو صارفین کیلئے گیس کنکشن کھولنے کا اعلان وجود - پیر 27 اکتوبر 2025

آر ایل این جی سے گھریلو صارفین کو معیاری ایندھن کی فراہمی ممکن ہوگی،شہبازشریف خوشی کا دن ہے،پورے ملک کے عوام کا ایک دیرینہ مطالبہ پورا ہوگیا، تقریب سے خطاب وزیراعظم میاں محمد شہباز شریف نے ملک بھر میں گھریلو گیس کنکشن کھولنے کا اعلان کردیا۔اسلام آباد میں گھریلو گیس کنکشن کی...

ملک بھر میں گھریلو صارفین کیلئے گیس کنکشن کھولنے کا اعلان

21 نومبر کو نظام تبدیل کرنے کی تحریک کا آغاز ہوگا، حافظ نعیم وجود - پیر 27 اکتوبر 2025

نوجوان اس ملک کا قیمتی سرمایہ ہیں،طلباو طالبات کی ہزاروں میں ٹیسٹ میں شرکت نوجوان نہیں مستقبل میں سیاسی قبضہ گروپ مایوس ہوگا، بنو قابل پروگرام سے خطاب امیر جماعت اسلامی پاکستان حافظ نعیم الرحمان نے کہا ہے کہ نوجوان اس ملک کا قیمتی سرمایہ ہیں، نوجوانوں کو ساتھ ملا کر نومبر میں...

21 نومبر کو نظام تبدیل کرنے کی تحریک کا آغاز ہوگا، حافظ نعیم

وفاق سے حقوق طاقت کے زور پر لیں گے، وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا وجود - پیر 27 اکتوبر 2025

ڈی جی آئی ایس پی آر نے میرے خلاف پریس کانفرنس کی، وفاقی وزرا نے گھٹیا الزامات لگائے میرے اعصاب مضبوط ، ہم دلیر ہیں، کسی سے ڈرنے والے نہیں، سہیل آفریدی کی پریس کانفرنس وزیر اعلی خیبر پختونخوا سہیل آفریدی نے کہا ہے کہ وفاق سے اپنے حقوق طاقت کے زور پر لیں گے ، صوبے میں امن ل...

وفاق سے حقوق طاقت کے زور پر لیں گے، وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا

کشمیریوں کا بھارتی جارحیت کیخلاف یوم سیاہ منانے کا اعلان وجود - پیر 27 اکتوبر 2025

27 اکتوبر 1947 کو بھارت نے اپنی فوجیں اتاری تھیں اوربڑے حصے پر ناجائز قبضہ کیا مقبوضہ کشمیر کی آزادی کی جدوجہد جاری رہے گی، کل جماعتی حریت کانفرنس کی پریس کانفرنس کشمیریوں نے بھارتی جارحیت کے خلاف آج دنیا بھر میں یوم سیاہ منانے کا اعلان کر دیا۔ کل جماعتی حریت کانفرنس کے رہن...

کشمیریوں کا بھارتی جارحیت کیخلاف یوم سیاہ منانے کا اعلان

پاک-افغان مذاکرات، معاملات حل نہ ہوئے تو کھلی جنگ ہو گی، وزیر دفاع وجود - اتوار 26 اکتوبر 2025

  افغانستان بھارت کی پراکسی کے طور پر کام کر رہا ہے، 40 سال تک افغانوں کی مہمان نوازی کی افغان مہاجرین نے روزگار اور کاروبار پر قبضہ کیا ہوا ہے، خواجہ آصف کی میڈیا سے گفتگو وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا ہے اگر افغان طالبان کے ساتھ مذاکرات سے معاملات طے نہیں پاتے تو پھر...

پاک-افغان مذاکرات، معاملات حل نہ ہوئے تو کھلی جنگ ہو گی، وزیر دفاع

مودی سرکار اور افغانستان کا آبی گٹھ جوڑ، بھارت نے آبی جارحیت کو ہتھیار بنانا شروع کردیا وجود - اتوار 26 اکتوبر 2025

پاکستان کا آبی دفاع اور خودمختاری کا عزم،طالبان رجیم دریائے کنڑ پر بھارتی حکومت کے تعاون سے ڈیم تعمیر کرکے پاکستان کو پانی کی فراہمی روکناچاہتی ہے،انڈیا ٹو ڈے کی شائع رپورٹ افغان وزیر خارجہ کے دورہ بھارت کے بعد پانی کو بطور سیاسی ہتھیاراستعمال کرنے کی پالیسی واضح ہو گئی،بھارت ک...

مودی سرکار اور افغانستان کا آبی گٹھ جوڑ، بھارت نے آبی جارحیت کو ہتھیار بنانا شروع کردیا

بلوچستان کے عوام کو ترقی میں برابر شریک کرنا ہوگا، وزیراعظم وجود - اتوار 26 اکتوبر 2025

صوبے ایک خاندان، بلوچستان کی ترقی پاکستان کی مجموعی خوشحالی سے جڑی ہے،شہباز شریف پورا پاکستان ایک فیملی،کہیں بھی آگ لگے اسے مل کر بجھانا ہوگا، ورکشاپ کے شرکا سے خطاب وزیر اعظم محمد شہباز شریف نے قومی یکجہتی اور ہم آہنگی کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ پورا پاکستان ایک گ...

بلوچستان کے عوام کو ترقی میں برابر شریک کرنا ہوگا، وزیراعظم

گلگت سے کراچی تک سیوریج کا نظام ٹھیک نہیں،مصطفی کمال وجود - اتوار 26 اکتوبر 2025

ویکسین لگانے جائو تو کہا جاتا ہے کہ یہ سازش ہے،لوگوں کو مریض بننے سے بچانا ہے یہاں ہیلتھ کیٔر نہیں،ویکسین 150 ممالک میں استعمال ہوچکی ہے،تقریب سے خطاب وفاقی وزیر صحت مصطفی کمال نے کہا ہے کہ گلگت سے کراچی تک سیوریج کا نظام ٹھیک نہیں۔ویکسین لگانے جائو تو کہا جاتا ہے کہ یہ سازش ...

گلگت سے کراچی تک سیوریج کا نظام ٹھیک نہیں،مصطفی کمال

سرکریک سے جیوانی تک سمندری سرحدوں کا دفاع کرنا جانتے ہیں، سربراہ پاک بحریہ وجود - اتوار 26 اکتوبر 2025

ایڈمرل نوید اشرف نے کریکس ایریا میں اگلے مورچوں کا دورہ کیا اور آپریشنل تیاریوں اور جنگی استعداد کا جائزہ لیا پاک بحریہ کی دفاعی صلاحیتیں ساحل سے سمندر تک بلند حوصلوں کی طرح مضبوط اور مستحکم ہیں،آئی ایس پی آر سربراہ پاک بحریہ ایڈمرل نوید اشرف کا کہنا ہے کہ سرکریک سے جیوانی...

سرکریک سے جیوانی تک سمندری سرحدوں کا دفاع کرنا جانتے ہیں، سربراہ پاک بحریہ

افغان طالبان خدشات دور کریں (سرحدی راہداریاں بند رہیں گی، مذاکرات آج ہوں گے ،پاکستان وجود - هفته 25 اکتوبر 2025

افغان سرزمین سے ہونیوالی دہشت گردی پر بات ہوگی، عالمی برادری سے کیے وعدے پورے کریں،دوحا مذاکرات کے تحت افغانستان کی صورتحال پر نظر رکھے ہوئے ہیں، ترجمان دفتر خارجہ پاکستان اسرائیل کے مغربی کنارے کے حصوں کو ضم کرنے کی کوششوں کی سخت مذمت کرتا ہے، ہم فلسطین کاز کے لیے اپنی بھرپور ح...

افغان طالبان خدشات دور کریں (سرحدی راہداریاں بند رہیں گی، مذاکرات آج ہوں گے ،پاکستان

علیمہ خان پھر غیر حاضر، شناختی کارڈ، پاسپورٹ بلاک، بینک اکاؤنٹس منجمد کرنے کا حکم وجود - هفته 25 اکتوبر 2025

ضامن مفرور ہونے پرپیش کردہ پراپرٹی بحق سرکار قرق کرنے کا حکم جاری کردیا ملزمہ ہر جگہ موجود ہوتی ہے لیکن عدالت پیش نہیں ہوتی، عدالت کے سخت ریمارکس انسداد دہشت گردی عدالت راولپنڈی نے وارنٹ گرفتاری کے باوجود علیمہ خان کے پیش نہ ہونے پر شناختی کارڈ اور پاسپورٹ بلاک کرنے اور بینک ...

علیمہ خان پھر غیر حاضر، شناختی کارڈ، پاسپورٹ بلاک، بینک اکاؤنٹس منجمد کرنے کا حکم

ملٹری آپریشن، ڈرون حملے کسی صورت قبول نہیں( وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا) وجود - هفته 25 اکتوبر 2025

صوبے میں تمام فیصلے عمران خان کے ویژن کے مطابق ہوں گے،سہیل آفریدی بانی پی ٹی آئی کی رہائی کیلئے پورے ملک میں انقلاب لائیں گے،جلسہ سے خطاب وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا سہیل آفریدی نے کہا ہے کہ ملٹری آپریشن اور ڈرون حملے کسی صورت قبول نہیں ، صوبے میں تمام فیصلے عمران خان کے ویژن...

ملٹری آپریشن، ڈرون حملے کسی صورت قبول نہیں( وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا)

مضامین
بیمار لوگ بیمار نظام صحت وجود پیر 27 اکتوبر 2025
بیمار لوگ بیمار نظام صحت

پاکستان کا سیاسی مستقبل وجود پیر 27 اکتوبر 2025
پاکستان کا سیاسی مستقبل

بہار اسمبلی انتخابات:مودی کا وقار داؤ پر وجود پیر 27 اکتوبر 2025
بہار اسمبلی انتخابات:مودی کا وقار داؤ پر

خود مختار ریاست کشمیر پر بھارت کا فوجی قبضہ وجود پیر 27 اکتوبر 2025
خود مختار ریاست کشمیر پر بھارت کا فوجی قبضہ

''داخلہ لیجیے'' …ایک تعلیمی مرثیہ وجود اتوار 26 اکتوبر 2025
''داخلہ لیجیے'' …ایک تعلیمی مرثیہ

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر