وجود

... loading ...

وجود
وجود

سانحہ قندوز

پیر 09 اپریل 2018 سانحہ قندوز

افغانستان گزشتہ سترہ سالوں سے امریکی افواج کے پنجۂ استبداد میں ہے ۔ افغانوں کی آزادی اور خود مختاری سلب ہے ۔ نیویارک میں ستمبر 2001 کو ہونے والے واقعات کے بعد امریکا نے افغانستان کو ہولناک ہوائی حملوں کے ذریعے تاراج کیا۔ ہزاروں لاکھوں افغان عوام موت کے گھاٹ اُتارے گئے ، بستیاں اور آبادیاں اُجڑ گئیں۔قابض ہونے کے بعد امریکا نے اپنی مرضی کی مشینری اور حکو مت مسلط کر دی۔ اس سارے عرصے میں افغان عوام اور ان کی آبادیاں خارجی افواج کے نشانے پر رہی ہیں ۔ گرفتاریاں،گمشدگیاں اور عقوبت خانوں میں انسانیت سوز تشدد اور ایذا رسانیوں کی المناک داستانیں رقم ہوئی ہیں ۔ان زیادتیوں کو چھپانے کی کوشش کی تو جاتی ہے مگر دنیا اور افغان عوام سے کچھ بھی پوشیدہ نہیں ۔

افغانستان کے صوبہ قندوز کے ضلع دشت ِاچی کے پٹھان بازار کے علاقے میں پیر 2؍اپریل کو ایک مقامی مدرسے دارلعلوم ہاشمیہ پر جس وحشیانہ انداز میں افغان طیاروں کی بمباری ہوئی ہے ، اس نے دنیا کے با ضمیر حلقوں کو جھنجھوڑاہے ۔ مگر اس سانحہ رو ح فر سا سے ، جس میں نہتے حفاظ جن کی دستاری بندی ہونے جا رہی تھی پاکستان کے اُن طبقات کے کانوں میں جوں تک نہیں رینگی جو اول تا آخر پاکستان ہی کو افغانستان کے مسائل اور عدم استحکام کا ذمہ دار قرار دیتے ہیں ۔افغانستان کے ایوانوں سے انفرادی حوالوں سے توآوازیں اُٹھی ہیں لیکن حکومتی سطح پر سوائے سانحہ کی تحقیقات کے روایتی جملوں کے علاوہ کچھ نہ سنا گیا۔ بلکہ افغان وزارت ِدفاع نے اُلٹا ڈھٹائی ، بے شرمی اور دروغ گوئی کی انتہا کر دی ۔ یہ دعویٰ کیا کہ حملے میں اٹھارہ اہم طالبان لیڈرز جن میں سے ایک کوئٹہ شوریٰ کا رُکن بھی شامل ہے، مارے گئے۔اگر کوئی طالب رہنما یا کمانڈر موجود بھی ہوتا تو افغان فورسز کو عام لوگوں اور طلباء کی موجودگی میں کارروائی سے گریز کرنا چاہیے تھا۔افغان وزارت دفاع کے اس جھوٹ کے برعکس وہاں کے شہریوں نے وزارتِ دفاع کے اس دعوے کو ڈھونگ قرار دیا ۔ ان افراد کے مطابق مدرسے میں فضلاء اور حفاظ کرام کی دستار بندی کی مناسبت سے سالانہ جلسہ جاری تھا۔اور اِ س تقریب میں ہزاروں لوگ شریک تھے ۔ فارغ التحصیل طلباء کے والدین ،عزیز و اقارب اور دوست و احباب شریک تھے۔ حفاظ و فضلاء کے سروں پر دستار ِفضیلت سجائی گئی۔ یہ نوجوان اور ننھے طلباء مبارکبادیں وصول کر رہے تھے کہ اس دوران میں افغان طیاروں نے بمباری شروع کر دی ۔کئی ننھے حفاظِ کرام شہید ہو گئے ۔ جن کے جسموں کے ٹکڑے اور کفن میں لپٹی لاشیں پوری دنیا نے دیکھ لیں۔

پاکستان کے اندر جمعیت علمائے اسلام،جماعت اسلامی ،اور دوسری مذہبی جماعتوں نے اس بربریت پر احتجاج کیا ۔ عوامی نیشنل پارٹی بلوچستان کا مذمتی بیان بھی نظروں سے گزرا ، تاہم بہت ساری ایسی تنظیمیں جو خود کو افغانستان کے سود و زیاں میں شامل سمجھتی ہیں ،کے لب خاموش ر ہے ۔اور پاکستان کے وہ حلقے بھی جو انسانی حقوق اور احترام کے پرچار کے دعویدار ہیں ، اس خون آشامی پر خاموش ہیں ۔ پاکستان کے پشتون زُعماء سے سامراجیوںکی حمایت کا سوال افغان عوام ضرورکریں گے ۔ ان زُعماء نے تب روسی قبضے اور ظلم و زیادتیوں کو جائز قرار دیا تھا ۔1978 کی وہ کودتا ناجائز تھا۔روسی صدرخروشچیف (1953 ء1964ء )نے پولینڈ میں اعلانیہ کہا تھا کہ اس کا ملک دنیا بھر کے کمیونسٹ انقلابوں کی مدد کرے گا۔بعد میں آنے والے توسیع پسند ’’برزنیف ‘‘نے افغانستان کا کنٹرول حاصل کر لیا۔چنانچہ افغانستان آکرروسی افواج افغان آبادیوں اور قصبوں کو نشانا بناتے رہے اور انسانی حقوق کی پامالی کے سنگین جرائم میں ملوث تھے ۔افغان خواتین کی بے حرمتی کی گئی ، افغا ن آبادیوں پر بمباری کی جاتی تاکہ وہ مجبور ہو کر پاکستان کی طرف ہجرت پر مجبور ہوں۔ اورسترہ سالوں سے افغان وطن اور ملت پر امریکا قابض ہے ۔ پاکستان کے ایوان زیریںو ایوان بالا میں ایسے پشتون زُعماء بھی ہیں جو اپنی تقریروں میں افغانستان کو آزاد اور جمہوری ملک کہہ کر پکارتے ہیں ۔ وہ افغان حکومت کہ جس کو سر ے سے اپنے وطن پر اختیار ہی حاصل نہیں ۔امریکی اور نیٹو فورسز اپنے اختیار کے تحت افغانستان کے کسی بھی علاقے کو کسی بھی وقت نشانا بنا سکتی ہیں۔لو گوں کو غائب کر سکتی ہیں۔ افغان حکومت جو امریکی سائے تلے بد عنوانی اور عیاشیوں میں مبتلا ہے ۔جس کی فورسز نے لا قانونیت کی ہر بد ترین مثال قائم کر رکھی ہے ۔کمر عمر لڑکوں کو زیادتیوں کا نشانا بناتی ہے ۔ فورسز سرکاری اسلحہ فروخت کرنے میںبھی ملوث رہی ہے ۔ نشے کی لت ان میں عام پائی جاتی ہے ۔یہ ساری بری صفات روس کے دور میں بھی افغان فوج اور دوسری فورسز میں موجود تھیں۔اس آزاد و جمہوری افغانستان میں جب امریکی حکام آ تے ہیں تو فوجی اڈوں سے نکلتے تک نہیں ۔ افغان صدر اور دوسرے حکام ان کے فوجی اڈوں میں جا کر ان سے ملاقاتیں کرتے ہیں ۔ امریکا کی ایک صحافی ’’لارا لوگن‘‘ جوافغانستان گئی تھیں نے بتایا ہے کہ امریکی فوج کابل ایئر پورٹ سے اپنے اڈے تک جانے کیلئے بھی ہیلی کاپٹر استعمال کرتی ہے ۔جبکہ یہ فاصلہ محض چند کلومیٹر ہے ۔

انگریز کے خلاف جدوجہد و جنگ کا سہرا لینے والے پشتون بڑوںکا ضمیر مردہ بن چکا ہے ۔جنہیں افغانستان میں دنیا کا سب سے بڑا سامراج دکھائی نہیں دیتا۔امارت اسلامیہ پر دبائو ڈالا جاتا ہے کہ وہ مذاکرات اور امن کا راستا اختیار کریں ۔ لیکن کبھی امریکی افواج سے نکلنے کا محض میٹھے لہجے میں بھی مطالبہ نہیں کیا جاتاہے ۔ادھر افغانستان کے صوبے ہلمند میں چند نوجوانوں نے تا دم مرگ بھوک ہڑتال کر رکھی ہے جو چاہتے ہیں کہ افغان طالبان جنگ بندی کا اعلان کریں۔اسی ہلمند میں خواتین نے بھی اس مقصد کے لیے دھرنا دے رکھا ہے، ان خواتین نے یہ بات بھی کہی ہے کہ وہ طالبان کے مراکز تک مارچ کریں گی ۔ طالبان نے ان کا خیر مقدم کیا ہے اور انہیں خوش آمدید کہا ہے۔ اور ساتھ یہ بھی کہا ہے کہ کاش یہ بھوک ہڑتال اور دھرنے خارجی افواج کے افغان سر زمین سے انخلاء کے لیے دیے جاتے ۔یقینا اس بات کی ضرورت ہے کہ پاکستان اور افغانستان میں سیاسی سطح پر افغانستان سے غیر ملکی افواج کے انخلاء کی تحریک کا آغاز ہو ۔افغانستان کے اندر حزب اسلامی سیاسی طور پر اس مقصد کی خاطر فعال اور منظم کردار ادا کر رہی ہے ۔قندوز سانحہ پر حزب اسلامی اور امارت اسلامیہ کا جاری ہونے والا اعلامیہ عین افغان عوام کی ترجمانی کرتا ہے ۔

غیر ملکی افواج کو نکلنے پر مجبور کیا جاتا ہے تو افغانستان میں عوامی حکومت کے قیام کا راستا ہموار ہو گا۔حقیقت یہ ہے کہ امریکا ہی نے افغانستان پر جنگ مسلط کر رکھی ہے ۔ امریکا نکلتا ہے تو امارت اسلامیہ کے لیے جنگ کی نوبت اور جواز باقی نہیں رہے گا۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ افغا ن طالبان کی مزاحمت جائز ہے بالکل اسی طرح جیسے افغانوں نے انگریزوں کے خلاف 1839 ء میں پہلی جنگ ،1878ء تا 1880ء دوسری جنگ اور1919ء کی تیسری جنگ لڑی تھی ، اور اپنا استقلال حاصل کر لیا تھا۔ طالبان کی اس مزاحمت کو مشکوک یا متنازع بنانے سے گریز کیا جانا چاہئے ۔ افسوس کہ مولانا محمد خان شیرانی بھی اس حوالے سے ہرزہ سرائی کرتے رہتے ہیں ۔مولانا شیرانی نے تو ملا محمد عمر کے وجود ، انتقال ، نمازجنازہ اور تدفین تک کو مشتبہ بنانے کی کوشش کی ہے ۔ جب مو لانا ولی محمد ترابی جے یو آئی کو ئٹہ کے امیر منتخب ہوئے تو مو لانا شیرانی کے ایک بڑے سیاسی مرید نے مجھے بتایا کہ ایک سابق جہادی کو امیر بنایا گیا ہے ۔گو یا اس نے تضحیک اور طنز یہ لہجے میں ایسا کہا ۔افغانستان کا ایک غالب رقبہ کٹھ پتلی حکومت کے کنٹرول میں نہیں رہا ہے ۔ اس حقیقت کو امریکی حکام تو تسلیم کرتے ہیں مگر ہمارے محبان وطن تسلیم کرنے کو تیار نہیں ۔روسی قبضے کے دوران جب مجاہدین نے اعلان کیا کہ افغانستان کا اسی فیصد علاقہ ان کے تصرف میں آچکا ہے تو پاکستان کے پشتون زعما ء اپنی تقریروں میں تمسخر اُڑاتے کہ اگر ایسا ہے تو مجاہدین اپنی حکومت کا اعلان کیوں نہیں کر دیتے ۔اور چشم فلک نے دیکھا کمیونسٹ رجیم کابل سے بھی بھاگنے پر مجبور ہو گئی تھی ۔سورج کو آج بھی دو انگلیوں سے چھپانے کی احمقانہ کوشش کی جا تی ہے ۔قندوز کے دینی مدرسہ میں ہونے والے قتل عام کی باز پرس افغان عوام ، کٹھ پتلی حکومت اور قابض امریکا سے کرنے کا حق رکھتی ہیں ۔ الغرض عالمی دنیا افغانستان کے اندر انسانی حقوق کی پامالی ،جنگی جرائم کو روکنے اور اس کی تحقیقات کے لیے آواز بلند کرے۔


متعلقہ خبریں


مضامین
کچہری نامہ (٣) وجود پیر 06 مئی 2024
کچہری نامہ (٣)

چور چور کے شور میں۔۔۔ وجود پیر 06 مئی 2024
چور چور کے شور میں۔۔۔

غلامی پر موت کو ترجیح دوں گا وجود پیر 06 مئی 2024
غلامی پر موت کو ترجیح دوں گا

بھارت دہشت گردوں کا سرپرست وجود پیر 06 مئی 2024
بھارت دہشت گردوں کا سرپرست

اک واری فیر وجود اتوار 05 مئی 2024
اک واری فیر

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر