... loading ...
حلقۂ اربابِ ذوق کراچی کی ہفتہ وار نشست 20 مارچ 2018 بروز منگل ، کانفرنس روم، ڈائریکٹوریٹ آف الیکٹرانک میڈیا اینڈ پبلی کیشنز پاکستان سیکرٹیریٹ میں منعقد ہوئی۔ اجلاس کی صدارت معروف شاعر میر احمد نوید صاحب نے کی جب کہ نشست میں شاعر علی شاعر صاحب نے مہمان ادیب کے طور پر شرکت کی۔ سب سے پہلے عباس ممتاز نے اپنی غزل “کوئی تو ایسی بھی گھڑی ہوگی” تنقید کے لیے پیش کی۔
شبیر نازش نے گفتگو کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ غزل کے پانچوں اشعار سماعت کو بھلے لگتے ہیں، مصرعوں میں روانی بھی نظر آتی ہے۔ مضامین عمدہ باندھے ہیں۔ تمام اشعار میں اُمید کی کیفیت بھرپور طریقے سے نظر آتی ہے۔ فیصل ضرغام نے کہا کہ شاعر اپنے شعروں میں توجہ کا متقاضی نظر آتا ہے۔ سید کاشف رضا نے کہا کہ اشعار میں نقص نہیں ہے لیکن مضمون آفرینی کی کمی نظر آتی ہے۔ مایوسی کا پہلو نظر نہیں آتا۔ بے عیب اشعار ہیں۔ عفت نوید نے کہا کہ شاعر مایوسی سے گزر رہا ہے لیکن اپنے آپ کو اُمید دلا رہا ہے جو بہترین بات ہے۔ رفاقت حیات نے کہا کہ عباس ممتاز کی دیگر غزلوں کی بہ نسبت عمدہ غزل ہے، ان کی شاعری میں نکھار آرہا ہے۔ مضمون آفرینی کی کمی ہے۔ اُمید سے بھرپور غزل ہے۔ شاعر علی شاعر نے کہا کہ غزل کے تمام اشعار میں موجودہ حالات کی عکاسی ملتی ہے۔ اچھی غزل ہے۔ سجاد احمد نے کہا کہ شاعر لوگوں کو اُمید کا سہارا دیتے نظر آتے ہیں، اچھی غزل ہے۔ میر احمد نوید نے کہا کہ یہ غزل بتارہی ہے کہ یہ غزل آج کی غزل ہے، غزل مسلسل نے جدید شاعری میں اپنی مستحکم جگہ بنالی ہے۔ اس غزل کو نظم بھی کہا جاسکتا ہے۔ کامیاب غزل ہے۔ غزل کی کیفیت ایک نظم کی سی مربوط ہونی چاہیے۔ یہاں یہ بات نظر آتی ہے۔ پانچوں شعر ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں، میں کامیاب غزل پر عباس ممتاز کو مبارک باد پیش کرتا ہوں۔
نشست کے دوسرے مرحلے پر شیخ نوید نے اپنا افسانہ “بھتہ” تنقید کے لیے پیش کیا۔ فیصل ضرغام نے گفتگو کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ غیر ضروری جزئیات نگاری ہے، کہانی موجود ہے افسانویت کی کمی ہے، انگریزی الفاظ کثرت سے استعمال کیے گئے۔ بہت اچھی کوشش ہے، زمینی مسئلے کو اُٹھانے کی کوشش کی ہے۔ عفت نوید نے کہا کہ مشاہدہ اور جزئیات نگاری کمال کی ہے۔ کچھ باتیں غیر عملی نظر آئی۔ جس انجام کی توقع تھی وہی بات سامنے آئی۔ آرٹیکل اور مضمون کی شکل بھی دی جاسکتی تھی۔ رفاقت حیات نے کہا کہ شیخ نوید نئے افسانہ نگار ہے، قریبی چیزوں کو موضوع بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ افسانہ ایک ایسے مسئلے پر ہے جس کا تجربہ کم و بیش ہر شخص پر گزرا ہے۔ سادی کہانی ہے، جزئیات نگاری بھی اچھی کی گئی ہے۔ انگریزی کے الفاظ مناسب ہیں اور موضوع اور کہانی کے مطابق ہیں۔ ادیب جب حقیقت کو بیان کررہا ہے تو اسی لب ولہجہ کو استعمال کرے گا جو رائج ہے۔ زبان و بیان کے اعتبار سے بھی افسانہ ٹھیک ہے۔ سید کاشف رضا نے کہا کہ کچھ ادارے ایسے ہیں جو اسلحہ کے بغیر بھتا لیتے ہیں۔ یہ کہانی ہر شخص پر گزری ہے۔ افسر بالا بھی مشنری کا حصہ بن چکا ہے۔ افسانہ اکہرا ہے، زیریں لہر نہیں ہے۔ گھر کے بچوں کا احوال بھی سامنے آجاتا تو مزید پہلو سامنے آجاتے۔ ڈی ہیومینائز سامنے ہے اس کو ہیومینائز کرنے کی ضرورت ہے۔ مزید کرداروں کو سامنے لانے کی ضرورت تھی۔
رفاقت حیات نے کہا کہ افسانے کو واقعے کی سطح سے بلند ہونا چاہیے، ایمائیت لائی جاسکتی ہے۔ شبیر نازش نے کہا کہ کردار کا کرب نمایاں نہیں ہو سکا۔ بتانے کے بجائے محسوس کروانا اہم ہے۔ شروع سے آخر تک لطف سے خالی ہے۔ جزئیات نگاری بھی مکمل نہیں ہے۔ صفات کا استعمال بے جا ہے۔ عطا الرحمٰن خاکی نے کہا کہ یہ شیخ نوید کی کمزور تحریر ہے۔ زبان و بیان کی فضا میں روانی برقرار نہیں ہے۔ جزئیات ذہن میں تاثر نہیں چھوڑتیں۔ اچھی کوشش تھی۔ شاعر علی شاعر نے کہا کہ یہ افسانہ بھی ہے اور عنوان بھی سوفیصد درست ہے۔ زبان و بیان کی کچھ غلطیاں موجود ہیں۔ میر احمد نوید نے کہا کہ یہ رپورٹ ، افسانہ اور کہانی کے درمیان کی جگہ ہے۔ اسی فیصد افسانہ ہے۔ زبردست کہانی ہے، اچھی کوشش ہے۔ اس کے بعد شاعر علی شاعر نے اپنی شاعری پیش کی۔ نمونۂ کلام درج ذیل ہے۔
ہر کوئی میرے سہارے پہ جیے جاتا ہے
میں رہوں بھی تو رہوں کس کے سہارے گھر میں
ٰمیری تقدیر کی آب و ہوا لے کر نہیں آئے
برائے نام بادل تھے گھٹا لے کر نہیں آئے
دم آخر بھی بچے کی زباں پر بس یہ جملہ تھا
میرے ابو ابھی تک کیوں دوا لے کر نہیں آیا
تقریب کے آخر میں میر احمد نوید سے کلام سنانے کی فرمائش کی گئی جس پر انہوں نے اپنی تازہ غزلیں سنائیں، اس کے ساتھ ہی محفل اپنے اختتام کو پہنچی۔
اکادمی ادبیات پاکستان کراچی کے زیراہتمام میٹ اے رائٹر نشست کااہتمام کیا گیا جس میں معروف افسانہ نگار ادیب اورماہر تعلیم پروفیسر نوشابہ صدیقی کے ساتھ نشست کا انعقاد کیا گیا۔ جس کی صدارت ملک کے نامور شاعر رفیع الدین رازنے کی مہمان خاص سعید الظفر صدیقی، اعزازی مہمان کینیڈا سے آئے ہوئی صبیحہ خان ،کینیڈا سے آئے ہوئے منیف اشعر اور ہندوستان سے آئے ہوئے ماجد حسین تھے ۔جبکہ اس موقع پر نوشابہ صدیقی کے فن اور شخصیت پر افسانہ نگار شاعر عرفان علی عابدی نے تفصیلی گفتگو کی اس موقع پر رفیع الدین راز نے کہا کہ نوشابہ صدیقی کے ناول نہ صرف یہ کہ اردو ادب میں ایک منفرد تحریر ہیںبلکہ اس لئے بھی ان کے ناولوں کی اہمیت بڑہ جاتی ہے کہ مصنفہ نے ایسے موضوعات کا انتخاب کیاہے جو کہ ایک اچھوتا موضوع ہوتے ہیں ۔ انہوںنے ماحول سازی کے ساتھ مناظرکو جزویات کے ساتھ اس طرح رقم کیا ہے کہ تمام مناظر آنکھوں کے سامنے سے گزرتے محسوس ہوتے ہیں۔عرفان علی عابدی نے کہا کہ نوشابہ صدیقی افسانہ نگار کے ساتھ ساتھ ایک گداز دل رکھنے والی حساس پاکستانی بھی ہیں ۔ چناچہ یوں محسوس ہوتا ہے کہ انکی زبان کی انفرادیت واقعات کی جاذ بیت اور طرز بیاںکی خوبصورتی نے ان کی کہانیوں کو ادب کی زندہ دستاویزات میںتبدیل کردیا ہے۔ نوشابہ صدیقی نے کہا کہ قادربخش سومرو کوخراج تحسین پیش کرتی ہوں جنہوںنے ہفتہ وار تقریبات /مشاعروں کا انعقاد کرکے تمام زبانوں کے ادباء شعراء کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کردیا ہے۔ جو ادب کے لئے باعث مسرت ہے۔ اس طرح کی تقریبات سے ادب کے فروغ ملکی اور بیرون ملک سے آنے والے ادباء شعراء سے ملنے کے مواقع بھی ملتے ہیں۔اکادمی ادبیات پاکستان کے ریزیڈنٹ ڈائریکٹر قادربخش سومرونے کہا کہ نوشابہ صدیقی کے افسانے اس پس منظر کی روشنی میں ایک سلجھے ہوئے اور کشادہ نظر کی صورت میں سامنے آتے ہیں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ انہوں نے ابتداہی سے ادب اور زندگی کے رشتے کو بڑے وسیع تناظر میںدیکھنے کی کوشش کی ہے کہ ادب کی معنویت فرد اور سماج کے توازن میںقائم ہوسکے۔ آخر میں مشاعر ے کا انعقاد کیا گیا جن شعراء نے کلام پیش کیا ان میں ظفرمحمد خان ظفر، ماجد حسین، سعید الظفر صدیقی، محمد یامین عراقی، سید منیف اشعر، شہناز رضوی، نجیب عمر، تاج علی رعنا، عرفان علی عابدی، پروین حیدر، شاہدہ خان عروج، صبیحہ خان، نشاط غوری، فہمیدہ مقبول، محمد رفیق مغل، فرح دیبا، الحاج یوسف اسماعیل، اقبال افسر غوری، محمدعلی زیدی، کاشف علی کاشف، طاہر ہ سلیم سوز، نثار اختر، الطاف احمد، سیدصغیراحمد جعفری، صبیحہ صبا،عارف شیخ عارف، عظمی جون ، شامل تھے آخر میں قادربخش سومرو نے آئے ہوئے مہمانوںکاشکریہ ادا کیا۔
یومِ پاکستان پر کراچی پریس کلب کی ادبی کمیٹی کے زیر اہتمام ’’صحافی مشاعرہ‘‘ منعقد کیا گیا۔ جس کی صدارت انور شعور نے کی پہلے دور کا مشاعرہ نئی نسل کے نوجوان صحافی شعرا پر مشتمل تھا جس کی نظامت نوجوان شاعر عبدالرحمن مومن نے کی۔ آغاز میں کراچی پریس کلب کے سیکریٹر مقصود یوسفی نے کہا کہ اس سال بھی صحافی مشاعرہ کا اہتمام کیا گیا ہے مشاعرہ پاک و ہند کی روایت ہے اشعار میں مطالب کو سمجھا جائے تو اس کی مختلف کیفیت ہوتی ہے۔ انھوں نے کہا اس مشاعرہ میں ترجیح سینئر شعرا کو دی ہے اساتذہ، انور شعور اور عنایت علی خان کا خاص طور پر شکر گزار ہوں۔ صدر کراچی پریس کلب احمد خان ملک نے کہا کہ گزشتہ دو سال سے صحافی مشاعرہ سن رہا ہوں۔ جسے میں اہمیت کا حامل سمجھتا ہوں۔ یہ شعری اور ادبی محفلیں جذبات کے اظہار، شعور کو اجاگر کرنے کے لیے بری اہمیت رکھتی ہیں۔ ادبی کمیٹی کی ٹیم نے آج ایک خوبصورت پروگرام تشکیل دیا ہے۔ مشاعرہ میں داد و تحسین کا بھی سلسلہ رہا صدر مشاعرہ انور شعور دوران مشاعرہ شعر سنانے پر بضد رہے اور وہ درمیان میں شعر سنا کر پھر صدارتی مسند پر آ بیٹھے درمیان مشاعرہ مہمان شاعر نسیم سید (کینیڈا) نے بھی اپنی خوب صورت نظمیں اور غزلیں سنائیں۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے صحافی شعرا میں شہر کے خاصے نمایندہ شعرا موجود تھے ایک اچھا اور یادگار مشاعرہ ڈھائی بجے رات تک جاری رہا۔ اے ایچ خانزادہ (ادبی کمیٹی) کے سیکریٹری نے آغاز مشاعرہ پر اظہارِ خیال کیا اور اسے پریس کلب کی ایک عمدہ روایت قرار دیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اے ایچ خانزادہ نے ’’صحافی مشاعرہ‘‘ میں بھرپور دلچسپی کا مظاہرہ کیا جس کے باعث یہ مشاعرہ کامیابی سے ہمکنار ہوا جو شعرا کرام محفل مشاعرہ میں شریک ہوئے ان میں صدر مشاعرہ انور شعور، عنایت علی خان، نسیم سید (کینیڈا)، سرور جاوید، عقیل عباس جعفری، خالد معین، اجمل سراج، اختر سعیدی، اقبال خاور، فاضل جمیلی، قیصر وجدی، نثار احمد نثار، حنیف عابد، عنبریں حسیب عنبر، نعمان جعفری، اے ایچ خانزادہ، عمران شمشاد، سیمان نوید، وجیہہ ثانی، فیض عالم بابر، شبیر نازش، ہدایت سائر، شکیل انجم لاشاری، سحر حسن، عثمان جامعی، افشاں سحر، زاہد عباس، عباس ممتاز اور عبدالرحمن مومن شامل ہیں۔
ترامیم آئین کے بنیادی ڈھانچے اور عدلیہ پر حملہ ہیں، عدلیہ کو انتظامیہ کے ماتحت کرنے کی کوشش ناقابل قبول ہے، سپریم کورٹ کے اختیارات محدود کر دیے گئے ہیں،شخصی بنیاد پر ترامیم کی گئیں،اپوزیشن جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس اطہر من اللہ کے استعفے پر خراج تحسین، جمہوری مزاحمت جاری رہے ...
ہم نے تجارت پر افغان رہنماؤں کے بیانات دیکھے، تجارت کیسے اور کس سے کرنی ہے؟ یہ ملک کا انفرادی معاملہ ہے،ٹرانزٹ ٹریڈ دہشتگردوں کی پناہ گاہوں کے مکمل خاتمے کے بعد ہی ممکن ہے، دفتر خارجہ ٹی ٹی پی اور بی ایل اے پاکستان کے دشمن ہیں مذاکرات نہیں کریں گے،دہشتگردوں کی پشت پناہی کرنے وا...
گاؤں دیہاتوں میںعوام کو محکوم بنایا ہوا ہے، اب شہروں پر قبضہ کررہے ہیں،لوگوں کو جکڑاہواہے چوہدریوں،سرداروں اور خاندانوں نے قوم کو غلام ابن غلام بنارکھاہے،عوامی کنونشن سے خطاب امیر جماعت اسلامی پاکستان حافظ نعیم الرحمن نے کہا ہے کہ پیپلز پارٹی ایک خاندان اور چالیس وڈیروں کانا...
خالی گاؤں گدار میں خوارج کی بڑی تعداد میں موجودگی کی مصدقہ اطلاع پر کارروائی قبائلی عمائدین اور مقامی لوگوں کے تعاون سے گاؤں پہلے ہی خالی کرایا گیا تھا، ذرائع سیکیورٹی فورسز نے کامیاب باجوڑ آپریشن کے دوران 22 خوارج کو ہلاک کر دیا۔ ذرائع کے مطابق یہ کارروائی انتہائی خفیہ مع...
میرا ضمیر صاف اور دل میں پچھتاوا نہیں ،27 ویں ترمیم کے ذریعہ سپریم کورٹ پر کاری ضرب لگائی گئی ، میں ایسی عدالت میں حلف کی پاسداری نہیں کر سکتا، جس کا آئینی کردار چھین لیا گیا ہو،جسٹس منصور حلف کی پاسداری مجھے اپنے باضابطہ استعفے پر مجبور کرتی ہے کیونکہ وہ آئین جسے میں نے تحفظ ...
جوائنٹ چیف آف اسٹاف کمیٹی کی جگہ کمانڈر آف نیشنل اسٹریٹجک کمانڈ کا عہدہ شامل،ایٔرفورس اور نیوی میں ترامیم منظور، آرمی چیف کی مدت دوبارہ سے شروع ہوگی،وزیر اعظم تعیناتی کریں گے، بل کا متن چیئرمین جوائنٹ چیف آف اسٹاف کمیٹی کا عہدہ 27 نومبر سے ختم تصور ہوگا،قومی اسمبلی نے پاکستا...
اسے مسترد کرتے ہیں، پیپلز پارٹی اسٹیبلشمنٹ کی اے پلس ٹیم ہے،میٹ دی پریس سے خطاب جماعت اسلامی کا اجتماع عام نظام کی تبدیلی کیلئے ٹرننگ پوائنٹ ثابت ہوگا، صحافی برادری شرکت کرے امیر جماعت اسلامی پاکستان حافظ نعیم الرحمن نے کراچی پریس کلب کی دعوت پر جمعرات کو پریس کلب میں ”میٹ دی...
ترمیمی بل کو اضافی ترامیم کیساتھ پیش کیا گیا،منظوری کیلئے سینیٹ بھجوایا جائے گا،چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کے بعد سپریم کورٹ اور آئینی عدالت میں جو سینئر جج ہوگا وہ چیف جسٹس ہو گا،اعظم نذیر تارڑ قومی اسمبلی نے 27ویں آئینی ترمیمی بل کی اضافی ترامیم کے ساتھ دو تہائی اکثریت سے منظو...
اپوزیشن کا کام یہ نہیں وہ اپنے لیڈر کا رونا روئے،بلاول بھٹو کی قومی اسمبلی میں تقریرکے دوران اپوزیشن اراکین نے ترمیم کی کاپیاں پھاڑ کر اڑانا شروع کردیں اسپیکر ایاز صادق کی زیر صدارت قومی اسمبلی کا اجلاس جاری ہوا جس میں پیپلز پارٹی کے چیٔرمین بلاول بھٹو کی تقریر کے دوران اپوزیش...
اسرائیلی فوج کی جنگ بندی کی خلاف ورزی کا جاری، تازہ کارروائی میں مزید 3 فلسطینی شہید علاقے میں اب بھی درجنوں افراد لاپتا ہیں( شہری دفاع)حماس کی اسرائیلی جارحیت کی؎ مذمت اسرائیلی فوج کی جانب سے جنگ بندی کی خلاف ورزی کا سلسلہ جاری ہے۔ تازہ کارروائی میں غزہ میں مزید 3 فلسطینیوں ...
مبینہ بمبار کا سر سڑک پر پڑا ہوا مل گیا، سخت سیکیورٹی کی وجہ سے حملہ آور کچہری میں داخل نہیں ہوسکے، موقع ملنے پر بمبار نے پولیس کی گاڑی کے قریب خود کو اُڑا دیا،وکلا بھی زخمی ،عمارت خالی کرا لی گئی دھماکے سے قبل افغانستان کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر کمنگ سون اسلام آبادکی ٹوئٹس،دھ...
آپ کی سوچ اور ڈر کو سلام ، ترمیم کرکے سمجھتے ہو آپ کی سرکار کو ٹکاؤ مل جائیگا، وہ مردِ آہن جب آئیگا وہ جو لفظ کہے گا وہی آئین ہوگا، آزما کر دیکھنا ہے تو کسی اتوار بازار یا جمعے میں جا کر دیکھو،بیرسٹر گوہرکاقومی اسمبلی میں اظہارخیال ایم کیو ایم تجاویز پر مشتمل ...