وجود

... loading ...

وجود
وجود

اصل راز طشت اَ ز بام

اتوار 01 اپریل 2018 اصل راز طشت اَ ز بام

سوشل وپرنٹ میڈیااور ٹیلی ویژن نیٹ ورکس پرواپڈا،سٹیل ملزاور گیس کمپنیوں کی حکمرانوں نے فوری فروخت /نجکاری کرنے کی دھوم مچا رکھی ہے ۔وزراء سیکریٹریز اور کرپٹ لادین بیورو کریٹ ایسا تاثر قائم کیے ہوئے ہیں کہ اگر ایسے ادارے فوراً ہی نہ بیچ کھائے گئے تو شاید ملک پر قیامت ٹوٹ پڑے گی ٹیلی فون کی طرح کہ خریدار کمپنی نے آج تک پہلی قسط کے بعد78ارب روپے دبا رکھے ہیں ان قیمتی اداروں کا حشر بھی ایسا ہی ہو گا راوی بتاتے ہیں کہ کمپنی ہر حکمران کو اپنے اس رویہ کے عوض “مخصوص معاوضہ” لازماً ہر سال دے رہی ہے جو کہ اربوں میں ہو تا ہو گا ۔

عوام حیران و پریشان ہے کہ شریفوں کی ا سٹیل ملز اور وزیر اعظم کی بلیو ائیر لائن دونوں مکمل منافعوں میں چل رہی ہیں مگر ان کے پاس اقتدار ہونے کے باوجود کراچی کی ا سٹیل ملز اور پی آئی اے کیوں نہیں چل پاتیں؟تقریباًاڑھائی ماہ بعد حکمرانوں کی مدت اقتدار ختم ہورہی ہے مگر وہ ہر صورت قیمتی ادارے اونے پونے داموں فروخت کرنے پر تلے بیٹھے ہیں در اصل راز کی بات کچھ یوں ہے کہ اول تو ان قیمتی ملکی اثاثوں کو کسی اپنے”چیلے چانٹے “یا”رازدار دوست”کو بیچ ڈالیں گے تاکہ 80فیصد سے زائد رقم خود ہضم کرسکیں چونکہ27مئی کو نئے انتخابات کا اعلان متوقع ہے اسلئے شریفین ہی نہیں زرداری اور عمران خان تک بھی اپنی اپنی حکومتوں کے بقیہ مختصر اقتداری ادوار میں ڈھیروں مال ہر صورت سمیٹنا چاہتے ہیں تاکہ یہ سرمایہ آئندہ انتخابات میں انہیں کامیاب کرسکے جن میں ہر صورت اقتدار کی جنگ سرمایوں سے ہی لڑی جانے کا قطعی امکان ہے ۔

شریفین یہ ادارے بیچ کراس میں سے تقریباً 40ارب تک بچا لیویں گے ۔یعنی انتخابی خرچہ وصول ہو جائے گا اسی طرح ٹیلی فون کی بیرونی کمپنی کل واجب الادا رقم 78روپے کا سود بھی اگر حکمرانوں کو دے تو16ارب وہ انتخابی خرچہ میں شامل ہو گئے۔نواز شریف چونکہ ملک کے بڑے سرمایہ داروں میں 140ارب روپے ملکیتی ہونے کی بنائپر چوتھے بڑے سرمایہ دار ہیں تو وہ بھی سینیٹ کی ہار جو کہ ان کی طرف سے “مناسب انویسٹمنٹ “نہ کیے جانے کی بناء پر ہوئی ہے کو اپنی انا کا مسئلہ بنا کر ذاتی سرمایہ سے70ارب روپے بخوشی مہم میں جھونکنے پر تیار ہوجائیں گے ۔چندہ دینے والے اور ان کی مخصوص اے ٹی ایم مشینیں بھی24ارب با آسانی دے سکتی ہیں تیل و دیگرکماؤ وزارتوں نے عوام کی چمڑی ادھیڑ کر ڈھیروں”منافعے” کمائے ہیں ان میں سے30ارب روپے اور نئے متوقع بیرونی قرضوں سے20ارب روپے اینٹھ لیویں تو اس طرح ان کے پاس 200ارب روپے کی بھاری رقوم ہوں گی قومی اسمبلی کی272سیٹوں سے باآسانی مقتدر ہوجانے کے لیے 140سیٹوں پر یہ انویسٹمنٹ ہوگی تو فی سیٹ کے حصہ میں ایک ارب42کروڑ سے زائد رقم آتی ہے 42کروڑ انتخابی بھاگ دوڑ کا خرچہ اور ایک ارب روپوں سے 50ہزار ووٹوں کو نقد مال سے خریدیں تو20ہزار روپے فی فرد لیکر تو ووٹرراضی ہو ہی جائے گا اور اعلان شدہ 40تا45کروڑ روپے حکمران ممبران اسمبلی کو اپنے اپنے حلقوں میں سکیموں پر خرچ کرنے کے لیے دیے جارہے ہیں ۔

ان میں سے آدھی رقم بھی انتخابی مہم پر لگے گی”کہ کون جیتا ہے تیری زلف کے سر ہونے تک”پہلے بھی کسانوں کی امداد کے نام پر 3تا4لاکھ روپے ان کسانوں کو فی کس صرف ان کو دیے گئے ہیں جنہوں نے ممبران کے ڈیروں پر آئندہ ووٹ دینے کا حلف دیا ہے سندھ میں پی پی حکومت نے صرف امسال ہی مختلف محکموں میں 274ارب روپے کے گھپلے کیے ہیں۔

وزیروں و بیورو کریٹوں نے اگر70ارب کھالیے ہیں تو بقیہ200ارب لازماً زرداری صاحب کی جیب میں ہوں گے اور وہ چونکہ خود ذاتی183ارب کا سرمایہ رکھتے ہوئے ملک کے دوسرے بڑے سرمایہ دار ہیں تو اس میں سے 80ارب ڈالرز لازماً انتخابی جنگ و جدل میں جھونک دیں گے اسطرح ان کے پاس280ارب ڈالر خرچہ کے لیے موجود ہیں سندھ کی کل قومی61سیٹوں میں سے 40ہی پی پی پی کو جیتنے کے لیے یہ رقوم کافی ہیں(واضح رہے کہ قومی کے ساتھ صوبائی سیٹیں تو”جھونگے” ہی میں فتح ہو جاتی ہیں ) ہر سیٹ کے لیے7ارب روپے موجود ہیں فی ووٹرڈیڑھ لاکھ بھی دے دیویں تو کوئی مضائقہ نہیں ویسے تو قومی سیٹ کے لیے 40لاکھ کا خرچہ کرنے کی الیکشن کمیشن کی طرف سے اجازت ہے مگر سیاسی پارٹیاں سرمایہ پانی کی طرح بہائیں گی تو انہیں کون پوچھنے والا ہو گا؟اگر کسی نے مداخلت کی تو”فالتوجمع شدہ حرام مال”سے حصہ بقدر جسہ دے دیویں گے تو کیا بگڑتا ہے “ستے خیراں “تو ہی جائیں گی اور انتخابی بیڑہ پار ہو جائے گا ۔

ان حالات میں عمرانی نعروں یا کسی دوسری پارٹی کے لیے انتخابات ایک سرُاب کی حیثیت رکھتے ہیں دینی سیاسی پارٹیاں لاکھ کہیں کہ ہیں مگر نہ ہیں اس سارے کھیل تماشے کو روکنے کے لیے تمام مسالک برادریوں فرقوں گروہوں لسانیت و علاقائی گروپوں کے لیے قابل قبول واحدمتبرک ترین نام اللہ اکبر کی تحریک کا جھنڈا اٹھانا ہو گا کہ یہی پاک اور خدا ئے عز وجل کی کبریائی کا علمبردار لفظ اللہ اکبر ہی ان سبھی اقتدار کے متلاشی سرمایہ پرستوں انگریز کے ٹوڈی اور ان کی اولاد وڈیروں سود خور نو دولتیوں اور ڈھیروں منافع کمانے والے صنعتکاروں سے اقتدار کی باگیں بذریعہ ووٹ چھین کر انہیں عبرتناک انتخابی شکست سے دوچار کرسکتا ہے وگرنہ سندھ کے اندر ون اتحاد اور ایم کیو ایم کی بڑے شہروں اور بلوچستان و سرحدمیں قوم پرستوں اور خال خال دینی سیاسی جماعتوں کی چند سیٹوں اور عمران خان کی سرحد میں پرانی جیتی ہوئی سیٹوں سے کم وبیش تعداد کے علاوہ سارا انتخاب ہی یکطرفہ ہو کر رہ جائے گا مگر

؂سب ٹاٹھ پڑا رہ جائے گا جب لاد چلے گا بنجارا


متعلقہ خبریں


مضامین
صدر رئیسی کا رسمی دورۂ پاکستان اور مضمرات وجود جمعه 26 اپریل 2024
صدر رئیسی کا رسمی دورۂ پاکستان اور مضمرات

سیل ۔فون وجود جمعه 26 اپریل 2024
سیل ۔فون

کڑے فیصلوں کاموسم وجود جمعه 26 اپریل 2024
کڑے فیصلوں کاموسم

اسکی بنیادوں میں ہے تیرا لہو میرا لہو وجود جمعه 26 اپریل 2024
اسکی بنیادوں میں ہے تیرا لہو میرا لہو

کشمیری قیادت کا آرٹیکل370 کی بحالی کا مطالبہ وجود جمعه 26 اپریل 2024
کشمیری قیادت کا آرٹیکل370 کی بحالی کا مطالبہ

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر