وجود

... loading ...

وجود
وجود

ڈالر کی بلند پرواز کیوں اور کیسے؟

پیر 26 مارچ 2018 ڈالر کی بلند پرواز کیوں اور کیسے؟

ڈالر کی قیمتوں میں اچانک اتنا زیادہ اضافہ پاکستانیوں کے لیے تو قیامت کا سا سماںبن گیا ہے۔اچانک110سے118 روپے تک فی ڈالر قیمت ہوجانا حیران کرنے والی بات تو ہے ہی مگر ظالم طاقتیں اپنا کام دکھا گئیں اور ان کرپٹ بیورو کریٹوں اور حکمرانوں کے ساتھیوں کی اربوں کی دیہاڑیاں بھی لگ گئی ہیں جنہیں ڈالر کی اڑان کا پہلے پتہ تھا،انہوں نے ڈھیروں ڈالرز جمع کیے اور اب اس کے مہنگے ہو جانے پر راتوں رات کھربوں کمالیے ہیں۔

سودی نظام کا خاتمہ مکمل کرکے اور کروڑوں روپے کک بیکس والے منصوبوں کے لیے سود در سود قرضے پاکستان نہ لے تو ڈالرز کی ہمیں خفیہ مار نہ پڑے۔ راوی بتاتے ہیں کہ اچانک اضافہ بیرونی ادائیگیوں کی وجہ سے ہوا ہے، صورتحال یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ اوپن پارکیٹ میں تو فاریکس ڈیلروں نے ڈالروں کا لین دین ہی بند کر ڈالا ہے۔ ویسے بھی ہمارے طلب و رسد کے نظام میں تفاوت ہی اتنا بڑھ چکا ہے کہ ڈالرز مہنگے ہو گئے ہیں۔ سامراجیت ویہودیت کے علمبرداروںکی اس مار سے عوام جو کہ پہلے ہی مہنگائی اور غربت کی چکی کے دوپاٹوں کے درمیان پس رہے ہیں۔ ان پرانتہائی زیادہ مہنگائی اور ضروری اشیاء کی قیمتوں میں شدید ترین اضافہ ان کے لیے جان لیوا ثابت ہو گا۔

ہمارے کرنٹ اکائونٹ خسارے میںپہلے ہی شدید اضافہ ہوچکا، اب مزید اضافے سے زر مبادلہ کے ذخائر شدید دبائو کا شکار ہو جائیں گے۔ ایسا ہوجانا پاکستانیوں کے لیے قیامت خیز جھٹکا ہے۔ ہمارے سبھی حکمرانوں نے اللے تللے و غیر ضروری کاموںو تعمیرات میں قرضے لیکراربوں ڈالرز جھونک ڈالے تھے ۔اب بیرونی قرضے ادا کرنا ہیں۔ اس طرح سے ہمیںہر ہفتے بیرونی قرضے و دیگر ادائیگیوں کی مدات میں 30کروڑ ڈالرزخرچ کرنے پڑ رہے ہیں ،ایسا بغیر کسی پلاننگ مشورہ کے دنیا کے غلیظ ترین و کافرانہ نظام سود در سود پر قرضوں کے لینے کی وجہ سے ہو رہا ہے ۔اب پٹرولیم و دیگر درآمدی اشیائے صرف اور دیگر مصنوعات منگوانے کے لیے مہنگی قیمتیں ادا کرنا ہوں گی ۔پہلے ہی ہر ماہ کی آخری رات پٹرول کاجان لیوا بم دھماکا عوام پر گرایا جاتا ہے جس سے تمام اشیاء بمعہ فروٹ سبزیاں وغیرہ تک کی بھی قیمت ٹرانسپورٹ کے کرایوں میں اضافے کی وجہ سے بڑھ جاتی ہے ۔نو دولتیے سود خور لٹیرے سرمایہ دار ٹرانسپورٹرز تیل مہنگا ہوتے ہی اپنے ہا ں دگنا تگنا اضافہ کر لیتے ہیں۔ ہماری وزارت خزانہ و حکومت کی نااہلیوں بیوقوفیوں اور لٹیری ذہنیت کی وجہ سے آئی ایم ایف، ورلڈ بنک کی اقتصادی دہشت گردی نے تو ہمارا بھٹہ ہی بٹھا ڈالا ہے۔27اپریل کوموجودہ حکمرانی کے تقریباً ایک ماہ خاتمہ سے قبل ہی نیا بجٹ پیش کرنے کا ڈھول بج چکا ہے “پلے نہیں دھیلہ تے کردی میلہ میلہ” اس لیے فوری طور پر سامراجی اسلام دشمن ممالک سے بھاری قرضے لینا ہو ں گے، وگرنہ شدید خسارے کے بجٹ کا اعلان قوم کو مایوسی و بے امیدی کی اتھاہ گہرائیوں میں پھینک ڈالے گا۔ ویسے بھی حکمران بھکاری بنے ورلڈ بنک و آئی ایم ایف سے قرضے حاصل کرنے کے لالچ میں کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں۔ان کے تمام احکامات کی پابندی کو ہم لازم سمجھتے ہیں۔ وہ جن جن اشیاء کی قیمتوں میں جتنا اضافہ کرنے کا حکم صادر کرتے ہیں ہم من و عن ویسا ہی کر ڈالتے ہیں ویسے ہم پہلے ہی امریکی دبائو کے تحت آئی ایم ایف کی کڑی شرائط کو تسلیم کرتے ہوئے اندرون خانہ معاہدہ کیے بیٹھے ہیں کہ قرضے لینے ہیں تو تین سال تک ان کی خواہشات کے مطابق پٹرولیم بجلی گیس و دیگر اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ کرنا ہو گا ۔مرکزی حکومت نے ہی نہیں بلکہ آپس میں دست و گریبان صوبائی حکومتوں نے چارونا چار ایسے اضافے کرنے پر انہیں قبول کرنے کی تابعداری کا معاہدہ کر رکھا ہے۔ آپس میں گالی گلوچ اور ایک دوسرے کے کپڑے اتارنے والے سبھی لیڈرز ایسی باتیں عوام سے مخفی رکھے ہو ئے ہیں مگر عوام کی مہنگائی سے کھالیں اترنے کیلئے سبھی کا اتفاق ہے ۔کسی جغادری سیاسی رہنما نے آج تک معیشت کو سنبھالنے اور غربت دور کرنے کیلئے کوئی تجویز تک نہیں دی کہ مال کھانے والوں کی زبانیں واقعی کند ہوجایا کرتی ہیں۔

سود کی لعنت سے ہم جان نہیں چھڑاتے مگر یہود و نصاریٰ اور سامراجیوں کی تابعداریاں کرنے میں عافیت محسوس کرتے ہیں کہ روزانہ خرچہ تو ان کی امدادوں سے ہی چلتا ہے ۔مہنگی تعمیراتی اسکیموں میں اربوں ڈالر جھونک ڈالنے جیسے اوچھے حربے سے عوام کی قوت خرید کم ہو چکی، دووقت کی نان جویں کو بھی ترس رہے ہیں حتیٰ کہ ڈوبنے اور جل بھُن مرنے کا رجحان بہت بڑھ چکا “ٹھڈ نہ پئیاں روٹیاں تے سبھے گلاں جھوٹیاں”۔جی ڈی پی کے تناسب سے جاری حسابات کا خسارہ گزشتہ آٹھ سالوں میں سب سے زیادہ رہا ہے۔ پہلے ہی

بیرونی قرضوں میں شدید اضافہ ہو چکافوری مزید قرضے لیے گئے تو ڈالر کی مزید اڑان آسمانوں کو چھونے لگے گی ،کچھ سوجھ نہیں رہا لازمی امر ہے کہ دکھی بھوکے ننگے طبقات کے لوگ اٹھیں گے اوراللہ اکبر کی تحریک برپا کرکے ظالم جاگیرداروں ،کرپٹ وڈیروں،سود خور نودولتیوں اورناجائز منافع خور صنعتکاروں کو خدا کی کبریائی کے متبرک ترین نعرے اللہ اکبر لگاتے ہوئے انہیں انتخابات میں شکست فاش سے دو چار کر دیں گے ۔ملک اسلامی فلاحی مملکت میں تبدیل ہو کر آئین کی دفعہ 48/Bکے تحت بنیادی ضروریات زندگی گیس، بجلی ،صاف پانی، اعلیٰ سیوریج سسٹم، تعلیم، علاج، انصاف مفت مہیا ہو گا۔مہنگائی غربت جیسے عفریتوں سے نجات کیلئے کھانے پینے کی اشیاء 1/3اور ہمہ قسم تیل1/2قیمت پر مہیا ہو گا ۔اللہ اکبر کی برکتوں اور عالم اسلام کی غیر سودی امداد سے ہمہ قسم مزدوروں و دیہاڑی داروں کو ایک تولہ سونا کی قیمت کے برابر ماہانہ معاوضہ ملے گاسودی ناسور کو دفناتے ہی خدا کی رحمتوں ،برکتوں کا مزید نزول شروع ہو گا۔


متعلقہ خبریں


مضامین
پڑوسی اور گھر گھسیے وجود جمعه 29 مارچ 2024
پڑوسی اور گھر گھسیے

دھوکہ ہی دھوکہ وجود جمعه 29 مارچ 2024
دھوکہ ہی دھوکہ

امریکہ میں مسلمانوں کا ووٹ کس کے لیے؟ وجود جمعه 29 مارچ 2024
امریکہ میں مسلمانوں کا ووٹ کس کے لیے؟

بھارتی ادویات غیر معیاری وجود جمعه 29 مارچ 2024
بھارتی ادویات غیر معیاری

لیکن کردار؟ وجود جمعرات 28 مارچ 2024
لیکن کردار؟

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر