وجود

... loading ...

وجود
وجود

انور شعور

اتوار 25 مارچ 2018 انور شعور

بیس ویں صدی کے اُردو ادب میں جن سخن وروں نے اپنی شاعری کی بنیاد عہدِ موجود کے مسائل و افکار پر رکھی، اُن میں عہدِ حاضر کے چند سخن وروں کے بعد انور شعورؔ کا نام سب سے زیادہ معتبر، اہم اور سنجیدہ ہے۔ انور شعورؔ کی شاعری تلخ و شیریں تجربات، عمیق مشاہدات، شدید جذبات اور نازک احساسات کی آئینہ دار ہے۔ اِن کے شعر عام فہم، سلیس اور سادہ ہوتے ہیں جس کی وجہ سے ناقدینِ فن و ہنر، ماہرینِ اُردو ادب اور قارئینِ شعر و سخن اِنھیں سہلِ ممتنع کا شاعر ماننے لگے ہیں۔ اِن کے پُرتاثیرا شعارپوری دنیا میں سفر کر رہے ہیں۔ عالمی سطح پر اِن کی شہرت کا سبب یہی عمدہ شاعری ہے۔ اِن کا شمار پاکستان کے نمائندہ سخن وروں میں ہوتا ہے۔ اِن کے اشعار کی ایک بڑی خوبی یہ بھی ہے کہ وہ سنتے ہی دل میں اُتر جاتے ہیں۔ ملاحظہ ہو:

اچّھا خاصا بیٹھے بیٹھے گُم ہو جاتا ہوں
اب مَیں اکثر مَیں نہیں رہتا تم ہو جاتا ہوں
٭٭٭
دل کی کلی کِھلے کئی موسم گزر گئے
اُس لب سے لب مِلے کئی موسم گزر گئے
٭٭٭
دُکھ ہے تو آپ سے ہے ، دَوا ہے تو آپ سے
اب زندگی میں کوئی مزا ہے تو آپ سے

انور شعورؔ نے غزل کے پیکر میں نہ صرف اپنے تجربات و مشاہدات کے حسین رنگ بھر دئیے ہیں بلکہ انہوں نے اپنے جذبات (غصہ، پیار، نفرت، ڈر اور خوف) کی شدت کو بھی غزل کا حصہ بنا دیا ہے۔ انہوں نے بار بار اپنے آپ کو دریافت کرنے کے عمل سے گزارا ہے۔ ہم ان کی شاعری میں ان کو شدت پسند پاتے ہیں یعنی اگر وہ اپنے اشعار میں کسی کا انتظار کرنے کا نقشہ کھینچتے ہیں تو خود کو اس قدر مضطرب و بے چین پیش کرتے ہیں کہ پڑھنے والوں کی آنکھوں کے سامنے ان کا اضطراب و اضمحلال تصویر بن کر آجاتا ہے۔ اگر انہوں نے کسی کی دید کا ذکر کیا ہے تو اسے عمومی یا سرسری طور پر نہیں لیا بلکہ محب عارفی کا یہ شعر ان کی ہر بار اور ہر نظر کی دید پر صادق آتا ہے:

کل میں نے محب اس کو عجب طور سے دیکھا
آنکھوں نے تو کم دل نے بہت غور سے دیکھا

انور شعورؔ اگر محبوب کی بے وفائی کا ذکر کرتے ہیں تو اس قدر دعویٰ اور دلیل سے کام لیتے ہیں کہ سننے، پڑھنے اور سمجھنے والے لا جواب ہو کر رہ جاتے ہیں، انہیں کوئی جواب نہیں بن پڑتا۔ ملاحظہ ہو:

نہ بیتتی تھی کبھی جس کی چاند رات اُس کی
سہاگ رات ہمارے بغیر بیت گئی

وہ اپنی عاشقی، وابستگی، پیار و محبت کا بیان دیتے ہیں تو خیال کو اس قدر سجا کا پیش کرتے ہیں کہ نیا معلوم ہوتا ہے۔ ان کے اشعار میں تخیل کی بلند پروازی اور خیال کی ندرت آپ اپنا جواب ہوتی ہے۔ ملاحظہ ہو:

اِس تعلّق میں کہاں ممکن طلاق
یہ محبت ہے، کوئی شادی نہیں

انسان سینکڑوں سال سے اپنے آپ کو دریافت کرنے میں مصروفِ عمل ہے۔ مگر اس کا کوئی امکان نہیں کہ یہ دریافت مکمل ہو سکے۔ انور شعورؔ کا کلام پڑھ کر ہم انہیں باآسانی دریافت کرلیتے ہیں۔ وہ نرم لہجے کے شاعر ہیں، بات کو بہت سلیس، سادگی اور سہل انداز میں بیان کرتے ہیں۔ وہ عام فہم بات کرنے کا فن جانتے ہیں، ان کو اپنی بات مؤثر بنانے کا ہنر بھی بہ خوبی آتا ہے۔ وہ عام سی بات کو اس طرح منظوم کرتے ہیں کہ بہت بڑی معلوم ہوتی ہے اور بہت بڑی بات کو اس سادگی اور سہل انداز سے کہہ دیتے ہیں کہ سننے والا اس کی اتھاہ گہرائیوں میں اُترتا چلا جاتا ہے۔ ملاحظہ ہو:
تم اک مرتبہ کیا دکھائی دئیے
مرا کام ہی دیکھنا ہو گیا
٭٭٭
جو نہ آیا کبھی دو چار گھڑی کی خاطر
زندگی ہم نے گزاری ہے اُسی کی خاطر
٭٭٭
وہ ہاتھ میرے ہاتھ میں آیا تو دفعتہ
اک سنسنی سی دوڑ گئی جسم و جان میں
انور شعورؔ کو جدید غزل کہنے والوں کی فہرست میں شامل کرنے کا میرا مقصد یہ کہنا نہیں ہے کہ وہ سب سے الگ تھلگ اپنا شعری راستہ چل رہے ہیں، وہ تو انسانوں کے درمیان رہ کر، اس معاشرے و سماج سے وابستہ ہو کر، اپنے اِرد گرد کے ماحول و فضا کا جائزہ لیتے ہوئے انسانی رویوں کو لکھ رہے ہیں۔ زندگی کے اُتار چڑھائو، نشیب و فراز میں پیش آنے والے تلخ و شیریں تجربات کو بیان کرتے ہیں۔ عمیق مشاہدات کو اس عمدگی سے پینٹ کرتے ہیں کہ دیکھنے والے دنگ رہ جاتے ہیں۔ وہ انسان کے بدلتے ہوئے رویوں اور کردار کے مختلف پہلوئوں کو اجاگر کرتے ہیں کہ انسانوں نے اپنے چہروں پر کیسے کیسے چہرے سجا رکھے ہیں، ان کے اشعار انہیں بے نقاب کرتے ہیں۔ ان سب کے ساتھ ساتھ وہ اپنے کرب و الم، تنہائی، زمانے کی بے اعتنائی، یاروں کی بے وفائی، محبوب تک نارسائی، ہجر و فراق کے دکھ، انتظار کے کرب اور حالات کی ستم ظریفی کو اشعار میں ڈھال رہے ہیں۔ انہیں انسانی قدر و قیمت کی ارزانی، اس کی بے وقعت ہوتی زندگی کا دکھ بے چین کیے دیتا ہے۔ انہوں نے اپنے ان تمام محسوسات اور نازک احساسات کو اپنی شاعری میں سمو دیا ہے۔ ان کے اظہار میں بڑی فن کاری، ہنر مندی اور چابک دستی سے کام لیا ہے تبھی قارئینِ شعر و سخن ان کے کلام کے گرویدہ ہیں اور سامعینِ محافلِ مشاعرہ ان کی آمد کے منتظر رہتے ہیں۔ ان کے اشعار برجستہ، پُرمعانی اور مضمون و احساس آفرینی لیے ہوئے ہیں جن کی نثر کی جائے تو شعر ہی کی صورت قائم رہتی ہے۔ اسی کو سہلِ ممتنع کہتے ہیں اور انور شعورؔ کی شاعری کی پہچان یہی ہے، اسی پہچان سے ان کی انفرادیت قائم ہوئی ہے اور اسی طرزِ نگارش نے انہیں صاحب اُسلوب شاعر بنا دیا ہے۔ ان کے اشعار کو ان کے نام کے بغیر بھی پڑھا جائے تو پہچان لیے جاتے ہیں کہ یہ اشعار انور شعورؔ کے علاوہ کسی دوسرے شاعر کے نہیں ہو سکتے۔ چند مثالیں ملاحظہ ہوں:
صرف اُس کے ہونٹ کاغذ پر بنا دیتا ہوں میں
خود بنا لیتی ہے ہونٹوں پر ہنسی اپنی جگہ
٭٭٭
ایک آواز پہ آ جائوں گا
جیسی حالت میں بیٹھا ہوں
٭٭٭
کچھ بھی مری آنکھوں کو سُجھائی نہیں دیتا
جب سے تجھے دیکھا ہے، دِکھائی نہیں دیتا
٭٭٭
اب آ گئے ہو تو کچھ دیر دیکھ لینے دو
کبھی کبھی تو یہ چہرہ دِکھائی دیتا ہے
٭٭٭
یہ جانتے ہوئے بھی گزاری ہے زندگی
ہم زندگی کے ہیں نہ ہماری ہے زندگی
پاکستان میں سہلِ ممتنع کہنے والوں کی تعداد ایک ہاتھ کی انگلیوں کے برابر بھی نہیں ہے۔ ناصرؔ کاظمی اور جونؔ ایلیا کے بعد اس میدان میں انور شعورؔ کا نام سب سے زیادہ معتبر اور نمایاں ہے۔ اب تو سہلِ ممتنع اور انور شعورؔ لازم و ملزوم ہو گئے ہیں۔
انور شعورؔ کا شعری سفر اور سہلِ ممتنع کے تجربات روز بہ روز ارتقائی منازل طے کر رہے ہیں۔ ان کے قارئین اور چاہنے والوں کی تعداد میں آئے دن اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ ان کی غزل کے چار مجموعے’’ کلیاتِ انور شعورؔ‘‘ میں یک جا شائع ہو گئے ہیں اور پانچ واں شعری مجموعہ’’آتے ہیں غیب سے‘‘حال ہی میں شایع ہواہے ،اس کے علاوہ پاکستان کے سب سے بڑے اخبار’’ روزنامہ جنگ ‘‘میں حالاتِ حاضرہ پر لکھے گئے ان کے ہزاروں قطعات بھی سہلِ ممتنع کی عمدہ مثالیں ہیں اور ان کے قارئین بھی لاکھوں کی تعداد میں ہیں جو انور شعورؔ کے فین ہیں اور پھر ان کے اشعار پورے دنیا میں سفر کر رہے ہیں۔ اہلِ ادب ان کے نمائندے اشعار کو اپنی تحریروں، تقریروں اور گفتگو میں برمحل استعمال کرتے ہوئے امثال میں پیش کرتے ہیں۔ کوئی شعری انتخاب یا کنزالاشعار ایسا نہیں جس میں انور شعورؔ کے اشعار و غزلیات کو منتخب نہ کیا گیا ہو، ان کو بہترین اور دل موہ لینے والی شاعری کی بنیاد پر برصغیر پاک و ہند کے علاوہ یورپ کے بڑے شہروں میں منعقد ہونے والے مشاعروں میں مدعو کیا جاتا ہے اور وہ اہلِ ادب کی صحبتیں، داد و تحسین کی دولتیں، چاہنے والوں کی محبتیں، ہم عصروں کی رفاقتیں اور عز و شرف کے خزانے سمیٹ کر لوٹتے ہیں۔
مذکورہ بالا تمام باتوں کو مدّ نظر رکھتے ہوئے یہ گمان یقین میں بدل سکتا ہے کہ انور شعورؔ کی شہرت کا گراف اتنا بڑھ جائے گا کہ یہ سہلِ ممتنع کے نمائندہ شاعر قرار دے دیئے جائیں گے۔ انور شعورؔ جس دیانت و خلوص اور محنت و ریاضت، لگن و جستجو سے شعر کہہ رہے ہیں وہ ناقابلِ فراموش اور قابلِ صد ستائش ہے۔ ان کا لکھا ہوا ایک ایک لفظ پتھر پر لکیر کی مثال ہو جاتا ہے جس طرح پتھر کی لکیر کو مٹایا نہیں جا سکتا اسی طرح انور شعورؔ کے کلام کی صفات کو بھلایا نہیں جاسکتا ہے۔ ان کے نام اور تخلیقی کام کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔
انور شعورؔ نے اُردو غزل کو روایت سے بھی جڑے رکھا ہوا ہے اور اس میں نت نئے رنگ بھر کر مختلف زاویوں سے طبع آزمائی اور خیالات کو ندرت سے پیش کر کے جدید بنا دیا ہے۔ وہ گل و بلبل، دشت و گلزار اور لب و رخسار کے قصے بھی بیان کرتے ہیں مگر ان کی شاعری کے آئینے میں یہ تمام تصویریں جوانی اوڑھے نظر آتی ہیں۔ ان کا معنوی حسن جوبن پر ہوتا ہے ۔ وہ عمدہ الفاظ کے استعمال، نئی نئی تراکیب اور عام فہم جملوں کے چنائو سے کلام میں جو روانی اور سلاست پیدا کرتے ہیں وہ انہیں کا حصہ ہے۔ ان کی عام فہم بول چال کا مفہوم سمجھنے میں کوئی دقت پیش نہیں آتی۔ ان کے ہاں شعریت ہوتی ہے ،لفّاظی نہیں ملتی، ان کے کلام میں فصاحت و بلاغت ہی ان کا طرئہ امتیاز ہے جس کا ابلاغ ہر عمر اور ہر ذہن کے قاری تک بہ آسانی ہو جاتا ہے۔ کسی شاعر کے کلام کی یہ خوبی اسے اس کے ہم عصروں سے منفرد و ممتاز کرتی ہے اور اس کے لیے انفرادیت کا نشانِ عظمت بنتی ہے۔حسرت ؔکا یہ شعر دراصل ان کی شاعری پر صادق آتا ہے:
شعر دراصل وہی ہیں حسرتؔ
جو سنتے ہی دل میں اُتر جائیں
انور شعورؔ شاعری کرتے وقت شعر کی فضا میں کھو جاتے ہیں، اس کے ماحول میں رنگ جاتے ہیں، وہ شعر کی وادیوں میں اُتر کر اس کے حسن کو اپنا لیتے ہیں انور شعورؔ کے کلام کو پڑھ کر خوش گوار حیرت ہوتی ہے کہ وہ اُن شعرا میں سے نہیں ہیں جو شاعری کو اپناتے ہیں بلکہ ان کا تعلق ان سخن وروں سے ہے جن پر شاعری کی دیوی نہایت مہربان ہو جاتی ہے اور شاعری جن کو اپنا لیتی ہے۔ شاعری نے جب سے انور شعورؔ کو اپنا بنا لیا ہے، تب سے وہ بھی شاعری کو اوڑھنا بچھونا بنائے ہوئے ہیں۔ اب یہ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ خوش دلی سے جیون بسر کر رہے ہیں۔ چند مثالیں اور ملاحظہ ہوں:
سوال ہی نہیں دنیا سے میرے جانے کا
مجھے یقین ہے جب تک کسی کے آنے کا
٭٭٭
میری صورت اُنھیں پسند نہیں
کیا یہ میرا قصور ہے کوئی
٭٭٭
پڑے پڑے مجھے آتا ہے یہ خیال شعورؔ
نہیں ہے کیا مرا کمرہ مکان میں شامل
٭٭٭
اے روشنی کے شہر! ترا وہ مکیں ہُوں میں
جس کے مکاں میں ایک دیا بھی نہ آ سکا
زہے نصیب رنگِ ادب پبلی کیشنز،کراچی نے ایسے عبقری، بڑے اور نمائندہ شاعر کی کلّیات شائع کرنے کا شرف حاصل کیا ہے۔ کلّیاتِ انور شعورؔ میں ان کی غزلوں کے چار مجموعے ’’اندوختہ‘‘، ’’مشقِ سخن‘‘، ’’می رقصم‘‘ اور ’’دل کا کیا رنگ کروں‘‘ شامل ہیں جو، نہ صرف زیورِ طباعت سے آراستہ ہو کر منصہ شہود پر جلوہ گر ہوئے بلکہ بہت جلد اُن کے ایڈیشن فروخت بھی ہو گئے۔ خوشی و اطمینان کی بات ہے کہ انور شعورؔ کا شمار اُن شعرا میں ہوتا ہے جن کی کتابیں قارئینِ شعر و ادب خرید کر پڑھتے ہیں۔
میری خواہش تھی کہ میں اپنی تمام تر صلاحیتوں اور تجربات کو بروئے کار لا کربہ حیثیت پبلشرز کلّیاتِ انورشعور کاخوب صورت، دیدہ زیب اور ناقابلِ فراموش ایڈیشن شائع کروں۔ الحمدللہ میں اس کوشش میں بڑی حد تک کام یاب ہوا ہوںجس کے کریڈٹ میں مجھے ان کی غزلوں کا پانچ واں مجموعہ شایع کرنے کا اعزاز بھی حاصل ہوا۔


متعلقہ خبریں


6جج صاحبان کا خفیہ اداروں پر مداخلت کا الزام، چیف جسٹس کی زیر سربراہی فل کورٹ اجلاس وجود - جمعرات 28 مارچ 2024

اسلام آباد ہائی کورٹ کے 6 ججز کے سپریم جوڈیشل کونسل کو لکھے گئے خط کے معاملے پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں فل کورٹ اجلاس ہوا فل کورٹ اجلاس میں جسٹس منصور علی شاہ،جسٹس منیب اختر اور جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس امین الدین، جسٹس شاہد وحید، جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس حسن اظ...

6جج صاحبان کا خفیہ اداروں پر مداخلت کا الزام، چیف جسٹس کی زیر سربراہی فل کورٹ اجلاس

سندھ میں ڈیڑھ ارب کی لاگت سے 30پرائمری اسکول بنیں گے وجود - جمعرات 28 مارچ 2024

حکومت سندھ نے 30پرائمری ااسکولوں کی تعمیر کے لئے فنڈ کی منظوری دے دی ہے۔ ذرائع کے مطابق حکومت سندھ نے 1ارب 52 کروڑ 82 لاکھ 70 ہزار روپے کی منظوری دی محکمہ خزانہ سے رقم دینے کی سفارش بھی کردی گئی اسکولوں کی تعمیرات رواں ماہ میں ہی شروع کردی جائے گی۔

سندھ میں ڈیڑھ ارب کی لاگت سے 30پرائمری اسکول بنیں گے

سندھ میں اسمگل شدہ اسلحے کے لائسنس بنائے جانے کا انکشاف وجود - جمعرات 28 مارچ 2024

سندھ میں اسمگل شدہ اسلحے کے لائسنس بنائے جانے کا انکشاف ہوا ہے۔اسمگل شدہ اسلحہ ڈیلروں اور محکمہ داخلہ کی مدد سے لائسنس یافتہ بنائے جانے انکشاف ہوا ہے۔ایف آئی اے کے مطابق حیدرآباد میں کسٹم انسپکٹر مومن شاہ کے گھر سے سڑسٹھ لائسنس یافتہ ہتھیار ملے۔تصدیق کرائی گئی تو انکشاف ہوا کہ اس...

سندھ میں اسمگل شدہ اسلحے کے لائسنس بنائے جانے کا انکشاف

مجھے جیل میں رکھ لیں باقی رہنمائوں کو رہا کردیں، عمران خان وجود - بدھ 27 مارچ 2024

بانی پی ٹی آئی عمران خان نے کہا ہے کہ مجھے جیل میں رکھ لیں مگر باقی رہنماں کو رہا کردیں۔اڈیالہ جیل میں میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسی سے کہنا چاہتا ہوں کہ پی ٹی آئی کی 25 مئی کی پٹیشن کو سنا جائے اور نو مئی واقعات کی تحقیقات کے لیے جوڈیشل...

مجھے جیل میں رکھ لیں باقی رہنمائوں کو رہا کردیں، عمران خان

شانگلہ میں گاڑی پرخودکش دھماکا،5چینی انجینئرسمیت 6افراد ہلاک وجود - بدھ 27 مارچ 2024

خیبرپختونخوا کے علاقے شانگلہ میں بشام کے مقام پرچینی انجینیئرز کی گاڑی پر خودکش حملے کے نتیجے میں 5 چینی باشندوں سمیت 6 افراد ہلاک ہوگئے۔ ڈی آئی جی مالاکنڈ کا کہنا ہے کہ حملہ آوروں نے بارود سے بھری گاڑی مسافروں کی گاڑی سے ٹکرائی، گاڑی پر حملے میں کئی افراد زخمی بھی ہوئے۔بشام سے پ...

شانگلہ میں گاڑی پرخودکش دھماکا،5چینی انجینئرسمیت 6افراد ہلاک

تربت میں پاک بحریہ ائیربیس پر حملہ ناکام، 4 دہشت گرد ہلاک، ایک سپاہی شہید وجود - بدھ 27 مارچ 2024

سیکیورٹی فورسز نے تربت میں پاک بحریہ کے ائیر بیس پی این ایس صدیق پر دہشتگرد حملے کی کوشش ناکام بنادی، فائرنگ کے تبادلے میں 4 دہشت گرد ہلاک کر دیا جبکہ ایک سپاہی شہید ہوگیا ۔ پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ(آئی ایس پی آر)کے مطابق 25 اور 26 مارچ کی درمیانی شب دہشت گردوں نے تربت میں پ...

تربت میں پاک بحریہ ائیربیس پر حملہ ناکام، 4 دہشت گرد ہلاک، ایک سپاہی شہید

اسرائیل نے سلامتی کونسل قرارداد کو پیروں تلے روند دیا،مزید 81فلسطینی شہید وجود - بدھ 27 مارچ 2024

اسرائیل نے سلامتی کونسل کی غزہ میں فوری جنگ بندی کی قرارداد کو ہوا میں اڑاتے ہوئے مزید 81فلسطینیوں کو شہید کردیا۔غزہ کی وزارت صحت کے مطابق گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران غزہ میں اسرائیلی دہشت گردی کے آٹھ واقعات میں مزید 81 فلسطینی شہید اور 93 زخمی ہوگئے۔الجزیرہ کے مطابق رفح میں ایک گھ...

اسرائیل نے سلامتی کونسل قرارداد کو پیروں تلے روند دیا،مزید 81فلسطینی شہید

کراچی یونیورسٹی میں ناقص سیکیورٹی انتظامات، طلبا کی موٹرسائیکلیں چوری ہونے لگیں وجود - بدھ 27 مارچ 2024

جامعہ کراچی میں سیکیورٹی کے ناقص انتظامات کے باعث چوریوں کی وارداتوں میں اضافہ ہوگیا اور دو روز میں چوروں نے 4طالب علموں کو موٹرسائیکلوں سے محروم کردیا۔تفصیلات کے مطابق کراچی یونیورسٹی میں سیکیورٹی کے ناقص انتظامات کے سبب نہ صرف جامعہ کی حدود میں چوریوں کی وارداتوں میں اضافہ ہورہ...

کراچی یونیورسٹی میں ناقص سیکیورٹی انتظامات، طلبا کی موٹرسائیکلیں چوری ہونے لگیں

سلامتی کونسل اجلاس، غزہ میں فوری جنگ بندی کی قرارداد منظور وجود - پیر 25 مارچ 2024

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے 7اکتوبر کے بعد پہلی مرتبہ غزہ میں فوری جنگ بندی کی قرارداد منظور کرلی۔پیر کو سلامتی کونسل میں پیش کی گئی قرارداد پر امریکا نے اپنے سابقہ موقف میں تبدیلی کرتے ہوئے قرارداد کو ویٹو کرنے سے گریز کیا۔سلامتی کونسل کے 15 رکن ممالک میں سے 14 نے قرارداد کے ...

سلامتی کونسل اجلاس، غزہ میں فوری جنگ بندی کی قرارداد منظور

ملک میں یومیہ 4ہزار میٹرک ٹن تیل کی اسمگلنگ وجود - پیر 25 مارچ 2024

ملک میں یومیہ چار ہزار میٹرک ٹن تیل کی اسمگلنگ کا انکشاف ہوا ہے-تیل کی اسمگلنگ سے قومی خزانے کو ماہانہ تین کروڑ چھپن لاکھ ڈالرزکا نقصان ہورہا ہے۔ آئل کمپنیز نے اسمگلنگ کی روک تھام اورکارروائی کیلئیحکومت اور اوگرا سیمدد مانگ لی ہے۔آئل کمپنیز ایڈوائزری کونسل نیسیکریٹری پیٹرولیم کو ...

ملک میں یومیہ 4ہزار میٹرک ٹن تیل کی اسمگلنگ

آٹومیشن پروجیکٹ، محکمہ صحت سندھ نے کروڑوں روپے ہوا میں اڑادیے وجود - پیر 25 مارچ 2024

محکمہ صحت سندھ نے آٹومیشن پروجیکٹ کے کروڑوں روپے کی رقم ہوا میں اڑادی۔ سات سال قبل پینسٹھ کروڑ کی لاگت سے شروع ہونے والا پروجیکٹ تاحال فعال نہ ہوسکا۔مانیٹرنگ رپورٹ میں پروجیکٹ کے گھپلوں پر بڑے انکشافات کیے گئے ۔کمپنی نے پروجیکٹ پر حیرت انگیز طور پر انتالیس کروڑ خرچ کردئے ۔لیکن سا...

آٹومیشن پروجیکٹ، محکمہ صحت سندھ نے کروڑوں روپے ہوا میں اڑادیے

خاتون شہری کو جعلی بینک اسٹیٹمنٹ جاری کرنے پر ملزم گرفتار وجود - پیر 25 مارچ 2024

ایف آئی اے انسداد انسانی اسمگلنگ سرکل کراچی نے معصوم شہری کو جعلی بینک اسٹیٹمنٹ جاری کرنے میں ملوث ملزم کو گرفتار کرلیا۔ترجمان ایف آئی اے کے مطابق ملزم کو پی آئی بی کالونی کراچی سے گرفتار کیا گیا۔گرفتار ملزم ویزا فراڈ کے جرم میں ملوث تھا۔ملزم نے خاتون شہری کو جعلی بینک اسٹیٹمنٹ ج...

خاتون شہری کو جعلی بینک اسٹیٹمنٹ جاری کرنے پر ملزم گرفتار

مضامین
پڑوسی اور گھر گھسیے وجود جمعه 29 مارچ 2024
پڑوسی اور گھر گھسیے

دھوکہ ہی دھوکہ وجود جمعه 29 مارچ 2024
دھوکہ ہی دھوکہ

امریکہ میں مسلمانوں کا ووٹ کس کے لیے؟ وجود جمعه 29 مارچ 2024
امریکہ میں مسلمانوں کا ووٹ کس کے لیے؟

بھارتی ادویات غیر معیاری وجود جمعه 29 مارچ 2024
بھارتی ادویات غیر معیاری

لیکن کردار؟ وجود جمعرات 28 مارچ 2024
لیکن کردار؟

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر