وجود

... loading ...

وجود

شبِ زندگی سے آگے

اتوار 18 مارچ 2018 شبِ زندگی سے آگے

غلام حسین ساجد
صابر ظفر سے میرے تعلق کو بیالیس برس ہونے کو آئے ہیں۔ شروع کے دوچار برسوں کے بعد ہم کبھی ایک شہر میں نہیں رہے مگر ان سے فکری نسبت کا رشتہ روزبروز مضبوط تر ہورہا ہے اور اس کا سبب ہے ان کی صلاحیت اور اس صلاحیت کی نمود کا ایک مسلسل اور لامختتم ظہور۔ اردو غزل کو موضوعاتی، فکری اور تجربی تنوع کے لیے اسے زرخیز کرنے میں صابر ظفر کا حصہ سب سے زیادہ ہے اور اس قدر تسلسل اور جمالیاتی صباحت کے ساتھ کہ اس پر صرف داد ہی دی جاسکتی ہے۔

’’ ابتدا‘‘ سے ’’ لہو سے دستخط‘‘ تک کے اڑتیس شعری مجموعوں میں صابر ظفر نے اپنا سروکار زیادہ تر صنفِ غزل سے رکھا ہے۔ میں نہیں جانتا، وہ اب تک کتنی غزلیں کہہ چکے ہیں مگر غزل ان کے اظہار کا ایسا وسیلہ بن گئی ہے کہ انہیں کسی اور صنف سخن کی طرف نظر اٹھا کر دیکھنے کی بھی ضرورت نہیں۔ ان کا اب تک کا شعری سفر اس بات کا گواہ ہے کہ وہ غزل کی روایتی شباہت کو مسخ کیے بغیر اس میں ایک نئی کیفیت ایک نیا رنگ بھر دینے پر قادر ہیں اور ان کی پیش رفت نے اس صنفِ سخن کو ثروت مند بنایا ہے۔

یسا تبھی ممکن ہوتا ہے، جب شاعر کے زبان و بیان پر لگے ہر نوع کے قفل کھل چکے ہوں۔ طلبِ اظہار اور طرزِ اظہار میں یکتائی در آئی ہو اور شعر کہنا سانس لینے کی طرح ایک غیر محسوس عمل بن چکا ہو اور اس کے غیاب میں کی گئی مشقت ایک غیر مرئی انعام بن کر کلام کی تاثیر اور ندرت کا حصہ بن گئی ہو۔

پچھلے کئی برس سے وہ غزل میں مسلسل کئی طرح کے تجربے کرتے چلے آرہے ہیں۔ میں یہ کہنے میں کوئی حرج نہیں سمجھتا کہ ان میں سے اکثر تجربات کا تعلق غزل کی عمومی روایت سے زیادہ عصرِ حاضر کی موجودہ صورتِ حالات کی نقش گری سے ہے۔ امر واقعہ یہ ہے کہ ایسا کچھ کر دکھانا اور وہ بھی غزل کے پیرائے میں، نہ صرف یہ کہ مشکل کام ہے بلکہ ایک وہبی شاعر اور تغزل کی روایت میں اپنا مقام رکھنے والے شاعر کے لیے گھاٹے کا سودا بھی ہے کہ عام طور پر ہمارے یہاں مزاحمتی شاعری کو اخباری بیانیے کی طرح ایک بے تاثیر چیز گردانا جاتا ہے اور یہ تاثر کسی حد تک درست بھی ہے کہ اس نوع کے کلام میں ہڈیوں میں رچ بس جانے والی تاثیر اور روح کو اپنے قابو میں کرتے حزن کا ذخیرہ کم کم ہی ہوتا ہے۔

ایسا ہے مگر ایک سچے شاعر کے لیے صرف اپنے غنائی امیج کو برقرار رکھنے کے لیے موجود کی ثقالت اور جبر سے منہ پھیر کر گزر جانا بھی تو ممکن نہیں۔ اس کی حساسیت اگر اسے موجود کی جبریت کے خلاف احتجاج بلکہ جنگ پر آمادہ نہیں کرتی تو اس میں اور ایک اندھے اُلّو میں فرق ہی کیا ہے؟ ایک سچا شاعر چاہے بھی تو اپنے عصر کی ناموافقت اور ناہمواری سے پہلو تہی نہیں کرسکتا۔اسے ایسا کرنا بھی نہیں چاہیے کہ کسی قوم کو باطنی قوت کا ظہور اسی کی زبان سے ہوتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ تاریخِ عالم میں سچے شاعروں نے ہمیشہ باطل کی سرکوبی اور حق کی سربلندی کے لیے آواز بلند کی ہے۔

صابر ظفر ہماری فکری روایت کے سرخیل ہیں۔ اس وقت ہم اور ہمارا خطہ جس قسم کے آزار سے برسرِپیکار ہے ، وہ ہم جانتے ہیں، یہ آزار ہمارے وجود کو بھی نگل رہا ہے اور ہماری آزادی کو بھی۔ صابر ظفر نے اس آزار اور اس کے صد پہلو اثرات کو صر ف محسوس ہی نہیں کیا۔ اس کی بیخ کنی کرنے کی بھی ٹھانی ہے اور ’’زندان میں زندگی امر ہے‘‘ سے ’’ گردش مرثیہ‘‘ تک ایک تسلسل کے ساتھ اپنے زندہ شاعر ہونے کا ثبوت دیاہے۔

’’ شہادت نامہ‘‘ ان کی مزاحمتی بلکہ رجزیہ شاعری کا نیا مجموعہ ہے۔ کیونکہ اس میں ظلم اور جبر کی قوتوں کے روبرو احتجاج کی لے کم کم بلکہ کم و بیش مفقود ہے اور ان کو للکارنے اور ان سے نبرد آزما ہونے کی للک کہیں بڑھ کر۔

’’ زندان میں زندگی امر ہے‘‘ کا تعلق شاعر کی قوتِ متخلیہ سے تھا جو شاعر کی حساسیت کے ظہور کے ساتھ اس بات کی دلیل بھی تھا کہ کسی شخص کے زندانی ہونے کے لیے اسے کسی زنداں میں محبوس کردینا ضروری نہیں بلکہ جبر کا دائرہ پھیلتے پھیلتے بعض اوقات زنداں سے باہر زندگی کرتے اذہان کو بھی اپنی لپیٹ میں لے سکتا ہے۔ اس کتاب کی علامتی سطح ہمارے موجود کی عمومی کیفیت پر ایک ایسا سوال تھی، جس کا جواب شاید ہم سے کسی کے پاس موجود نہیں کہ یہ کتاب ہماری محدود ہوتی آزادی اور عالمی استعماراتی قوتوں کی ہر لمحہ نمود کرتی پیش قدمی کا ایک بلیغ استعارہ تھی۔ مگر صابر ظفر نے اسی پر بس نہیں کی۔ اس نے صرف مریض کی نبض ٹٹولنے ہی کو کافی نہیں سمجھا’’ گردشِ مرثیہ‘‘ میں اس نے علامت اور استعارے کو تج کر براہِ راست اظہار کی روش کو اپنایا، جس کا دوسرا قدم ’’ لہو سے دستخط‘‘ ہے۔ ایسا کرنا کچھ آسان نہ تھا کہ ایک شاعر کے لیے استعارے سے حقیقت کی منزل پر اترنا ایک طرح سے اپنے رومانوی تاثر کو مسخ کرنے بلکہ مٹانے کی طرح ہے، جس سے اس کے تمام تر شعری سفر کے معدوم ہونے کا راستہ نکلتا ہے مگر صابر ظفر نے کسی خطرے کی پروا کی ہے نہ اپنے غزل گو اور نرم خو ہونے کے پرلطف تاثر سے محروم ہونے سے خوف کھایا ہے اور نہ ہی اپنے شعری سفر کی معدومیت کے ڈر کو اپنے دل میں جگہ دی ہے۔ کیونکہ وہ اور اس کی شاعری کسی نوع کی دائمیت کی طلبگار ہے نہ کسی طرح کی معدومیت کے خوف سے ہراساں۔ وہ بلھے شاہ کی طرح ’’ آئی صورتوں سچا‘‘ ہے اور یہ کوئی معمولی بات نہیں۔

’’ گردشِ مرثیہ‘‘، ’’ لہو سے دستخط‘‘ اور اب ’’ شہادت نامہ‘‘ کا فکری حوالہ ہمارا بلوچستان ہے۔ میں نے جب تک بلوچستان کو گھوم پھر کر نہیں دیکھا تھا، میں اس درد اور رنج کو محسوس کرنے سے عاری تھا جو اپنوں کے ہاتھوں زخم کھا کر کسی قوم کی نفسیات کا حصہ بنتا ہے۔ بلوچستان اور اب شاید جنوبی پنجاب بھی ایک ایسا سلگتا ہوا خطہ ہے، جس کی آگ کو بیرونی طالع آزمائوں اور اندرونی ہوس پرستوں نے ہر لمحہ ہوادی ہے۔ اس قدر کہ اس کی تپش اب ایوانِ اقتدار کے درودیوار تک آپہنچی ہے اور اس سے بھی بڑھ کر ایک خوش گو شاعر کے کلام تک۔

نادر شاہ عادل نے ’’ گردشِ مرثیہ‘‘ کے پیش لفظ میں کیا خوب لکھا ہے کہ مزاحمتی شاعری کے باب میںبلوچستان اور اس کے شہیدوں کے لیے صابرظفر کی شعری تخلیق ’’ گردشِ مرثیہ‘‘ بلوچستان کا شعری آشوب ہے۔ تنِ داغ داغ کی روح فرسا کہانی ہے۔ ایک داستانِ خونچکاں اور معروضی محاکمہ ہے، جو ستم شعار آمروں اور بزدل و مصلحت کش جمہوری حکمرانوں کے نظمِ حکمرانی کے جبرو استبداد کا کچا چٹھا ہے۔ ان بے نوا صحرانشینوں کا نوحہ ہے، جو رفتہ رفتہ سراپا الم ہوئے۔ میں اس پر صرف یہ اضافہ کروں گا کہ ’’ لہو سے دستخط‘‘اور اب ’’شہادت نامہ‘‘اس امر کی فکری دلیل ہے کہ جبر و استبداد کا یہ سلسلہ ابھی تھما نہیں اور اس آگ کی لپٹیں اب ہماری روحوں کو جھلسانے لگی ہیں۔

صابر ظفر آتش مزاج ہیں یا نہیں۔ میں نہیں جانتا مگر ان کی غزل کا مزاج ہر لمحہ آتشیں ہورہا ہے۔ یہ شاعر کی کایا کلپ کا مسئلہ نہیں ایک خطے کی کایا کلپ ہوتے چلے جانے کی علامت ہے۔ دکھ اس بات کا ہے کہ یہ امر ہر گز ہرگز خوش کن نہیں کہ اس سے ہمارے حکمرانوں کی نااہلی اور ناداری کے ساتھ ساتھ ہماری یکجہتی اور آزادی کے پارہ پارہ ہونے کی خبر بھی ملتی ہے جو اپنی جگہ پر روح فرسا اور حزینہ کیفیت کے فروغ کا استعارہ ہے۔ کاش صابر ظفر کے ’’ شہادت نامہ‘‘ کے بعد اربابِ اختیار کی آنکھیں کھل جائیں اور من و تو کی یہ خلیج مٹ سکے۔

’’گردشِ مرثیہ‘‘سے ’’ شہادت نامہ‘‘ تک کی شاعری کا جغرافیائی خطہ بلوچستان ہے۔ اگرچہ صابر ظفر نے ’’ سانول موڑ مہاراں‘‘ میں سرائیکی، ’’ اباسین کے کنارے‘‘ میں خیبرپختون خواہ اور ’’ رانجھا تخت ہزارے کا‘‘ میں مرکزی پنجاب کی فکری روایت اور ثقافت کو موضوع بنایا ہے مگر اس کی نوعیت جمالیاتی ہے اور اس سے ان خطوں کے بارے میںایک اسرار بھری یگانگت کا تاثر ابھرتا ہے مگر بلوچستان کی تہذیب، ثقافت، تاریخ اور جدوجہدِ آزادی کے پس منظر میں لکھی گئی یہ تین کتابیں جنہیں شاید Trilogy کہنا مناسب نہ ہو ، ایک ہی آزار کا پتا دیتی ہیں، جسے شاید ’’ بلوچ المیہ‘‘ کا نام دینا درست ہو۔ یہ شاعری کا نہیں، شاعری سے آگے کا معاملہ ہے اور خود شاعر بھی اس امر سے نا آگاہ نہیں:

جو ہے بات کہنے والی، وہ ہے شاعری سے آگے
سنو ان کہی سے آگے، چلو سرکشی سے آگے
سبھی جہد کار میرے، سبھی جاں نثار میرے
تمہیں صبحدم ملیں گے، شبِ زندگی سے آگے

یہ دو شعر تو میں نے اپنی بات کی تائید میں درج کیے وگرنہ میں اس کتاب سے یہاں اشعار درج کرتے چلے جانے کا قطعی کوئی ارادہ نہیں رکھتا کہ میرے خیال میں ’’ شہادت نامہ‘‘ غزل کا مجموعہ ہوتے بھی کچھ اس کے سوا بھی ہے۔ دراصل ’’ گردشِ مرثیہ‘‘، ’’ لہوسے دستخط‘‘ اور ’’شہادت نامہ‘‘ ایک خیال کی کڑیاں اور ایک وجود میں سمٹی کتابیں ہیں۔ اس نوع کی پہلی کتاب غالباً ’’ عناصر‘‘ تھی، جسے مظفر علی سید نے نظم سے قریب تر قرار دیا تھا اور اس لہجے کی برقراری کو ضروری قرار نہیں دیا تھا۔ کچھ ایسا ہی میرا خیال اس کتاب کے حوالے سے ہے کہ میں اسے ناانصافی اورجبر کی شدت کو للکارتی صدا سمجھتا ہوں، جس کی تندی بلوچستان کی آہستہ خرام اور ذات مست کاریزوں کے برعکس ایک تند مزاج دریا کی سی ہے، جس کا تھم جانا لازم ہے۔ مگر یہ دریا شاید تھمنے کا نہیں اور بلوچستان میں امن، انصاف اور خوشحالی کے قدم پڑنے تک اسے تھمنا بھی نہیں چاہیے۔

صابر ظفر نے جس لسانی تجربے کا آغاز ’’ سانول موڑ مہاراں‘‘ سے کیا تھا۔ اس کی ایک مثال ’’ شہادت نامہ‘‘ بھی ہے۔ ’’ گردشِ مرثیہ‘‘ ،’’ لہو سے دستخط‘‘ اور اب ’’ شہادت نامہ‘‘ اس لحاظ سے بھی اہم کتابیں ہیں کہ یہ غزل کی زبان اور لہجے کے حوالے سے ہمارے روایتی تصور کو ردّ کرتی ہیں۔ جہاں شاعر برتی ہوئی مانوس لفظیات کو برتنے میں تحفظات کا شکار ہو، وہاں لسانی حوالے سے غیر مروج اور ایک خاص خطے سے مخصوص لفظیات کا استعمال میں لانا اور اسے اپنے جمالیاتی عمل کا حصہ بنانا کوئی معمولی کام نہیں۔ یہ کام کوئی جرات مند شاعرہی انجام دے سکتا تھا اور صابر ظفر نے اس عمل کو تسلسل سے جاری رکھ کر اس بات کا ثبوت دیا ہے کہ شعری مکاشفے کی حقانیت کو بڑھاوا دینے میں وہ کس قدر جرات مند اور بے خوف ہے۔

توں کا انتخاب کیا ہے جس ãḻ


متعلقہ خبریں


صحافی، دانشور اور افسانہ نگار شیخ مقصود الہٰی انتقال کر گئے وجود - جمعه 22 ستمبر 2023

برطانیہ میں اردو کی ترقی اور ترویج کی وجہ سے دنیا بھر میں معروف افسانہ نگار شیخ مقصود الہٰی 89 برس کی عمر میں بریڈ فورڈ میں انتقال کر گئے۔ حکومت پاکستان نے دس برس قبل انہیں اردو ادب کی خدمات کے اعتراف میں تمغہ حسن کارکردگی دیا تھا۔ تفصیلات  کے مطابق شیخ مقصود الہٰی  نیشنل بنک سے ...

صحافی، دانشور اور افسانہ نگار شیخ مقصود الہٰی انتقال کر گئے

جامعہ کراچی، انجمن اساتذہ کا کلاسز کا بائیکاٹ،تدریسی عمل معطل وجود - جمعه 22 ستمبر 2023

جامعہ کراچی میں انجمن اساتذہ نے احتجاجاً کلاسز کا بائیکاٹ کر کے تدریسی عمل معطل کر دیا۔ کلاسز کے بائیکاٹ کے باعث طلبا و طالبات پریشانی سے دوچار ہیں۔ انجمن اساتذہ نے کہا کہ 6 سال سے جامعہ کراچی کے بجٹ کی منظوری نہیں کی گئی۔ اساتذہ نے وزیراعلیٰ سندھ سے جامعہ کراچی کے انتظامی بحران ...

جامعہ کراچی، انجمن اساتذہ کا کلاسز کا بائیکاٹ،تدریسی عمل معطل

مالی خسارہ، پاکستان ریلوے کا شالیمار ایکسپریس بند کرنے کا فیصلہ وجود - جمعه 22 ستمبر 2023

پاکستان ریلوے نے شالیمار ایکسپریس بند کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ ریلوے ذرائع کے مطابق پاکستان ریلوے نے شالیمار ایکسپریس بند کرنے کا فیصلہ مالی خسارے کی وجہ سے کیا ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ شالیمار ایکسپریس لاہور سے کراچی چلتی ہے جو خسارے میں چل رہی تھی۔ ذرائع کے مطابق مطلوبہ آمدن نہ ملنے پ...

مالی خسارہ، پاکستان ریلوے کا شالیمار ایکسپریس بند کرنے کا فیصلہ

جناح ہاؤس حملہ کیس، 28 ملزمان کے اشتہار جاری وجود - جمعه 22 ستمبر 2023

سانحہ نو مئی کو جناح ہاؤس حملہ کیس میں لاہور کی انسداد دہشت گردی عدالت نے 28 ملزمان کے اشتہار جاری کر دیے۔ انسداد دہشت گردی عدالت کی ایڈمن جج عبہر گل خان نے کیس پر سماعت کی اس دوران تفتیشی افسران نے کہا کہ ملزمان جان بوجھ کر روپوش ہو چکے ہیں۔ استدعا کی کہ عدالت ملزمان کے خلاف اشت...

جناح ہاؤس حملہ کیس، 28 ملزمان کے اشتہار جاری

شیخ رشید کا اغوا کیس: لاہور ہائی کورٹ نے پولیس رپورٹ غیر تسلی بخش قرار دے دی وجود - جمعه 22 ستمبر 2023

لاہور ہائی کورٹ راولپنڈی بیچ نے عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید احمد کے مبینہ اغوا کیس میں پولیس کی رپورٹ غیر تسلی بخش قرار دے دی، عدالت نے آر پی او خرم علی 26 ستمبر کو مکمل تفصیل کے ساتھ خود پیش ہونے کی ہدایت کر دی ۔ لاہور ہائیکورٹ راولپنڈی بنچ کے جسٹس صداقت علی خان نے شیخ رشی...

شیخ رشید کا اغوا کیس: لاہور ہائی کورٹ  نے پولیس رپورٹ غیر تسلی بخش قرار دے دی

ورلڈ کپ 2023 کے لیے 18 رکنی قومی اسکواڈ کا اعلان وجود - جمعه 22 ستمبر 2023

پاکستان کرکٹ ٹیم نے ورلڈ کپ 2023 کے لیے 18 رکنی اسکواڈ کا اعلان کردیا گیا۔ ورلڈ کپ میں پاکستان کرکٹ ٹیم کی کپتانی بابر اعظم ہی کریں گے جبکہ شاداب خان نائب کپتان ہوں گے۔ فاسٹ بولر نسیم شاہ کو انجری کی وجہ سے قومی اسکواڈ کا حصہ نہیں بنایا گیا۔ پی سی بی کے چیف سلیکٹر انضمام الحق نے ...

ورلڈ کپ 2023 کے لیے 18 رکنی قومی اسکواڈ کا اعلان

آڈیو لیک کیس، اسلام آباد ہائیکورٹ نے بشریٰ بی بی کی ایف آئی اے طلبی کا نوٹس معطل کر دیا وجود - جمعه 22 ستمبر 2023

اسلام آباد ہائی کورٹ نے آڈیولیک کیس میں چیئرمین پی ٹی آئی کی اہلیہ بشریٰ بی بی کی ایف آئی اے میں طلبی کا نوٹس معطل کر دیا۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس بابر ستار نے درخواست پر سماعت کی۔ دورانِ سماعت بشری بی بی کی جانب سے سردار لطیف کھوسہ ایڈووکیٹ عدالت میں پیش ہوئے۔ لطیف کھوسہ نے...

آڈیو لیک کیس، اسلام آباد ہائیکورٹ نے بشریٰ بی بی کی ایف آئی اے طلبی کا نوٹس معطل کر دیا

انیل کپور کی مصنوعی ذہانت کے خلاف عدالتی جنگ میں تاریخ ساز فتح وجود - جمعه 22 ستمبر 2023

بالی وڈ کے نامور اداکار انیل کپور نے مصنوعی ذہانت کے خلاف عدالتی جنگ میں تاریخ ساز فتح حاصل کی ہے۔ اداکار نے دہلی ہائی کورٹ میں ایک کیس دائر کیا ہوا تھا تاکہ ان کے شخصیتی حقوق، ان کے نام، تصاویر، مشابہت، آواز اور دیگر چیزوں کا ڈیجیٹل میڈیا میں غلط استعمال نہ ہوسکے۔ عدالت نے سماعت...

انیل کپور کی مصنوعی ذہانت کے خلاف عدالتی جنگ میں تاریخ ساز فتح

الیکشن کمیشن کا عام انتخابات جنوری کے آخری ہفتے میں کرانے کا اعلان وجود - جمعرات 21 ستمبر 2023

الیکشن کمیشن آف پاکستان نے اہم اعلان کرتے ہوئے کہا ہے عام انتخابات جنوری 2024 کے آخری ہفتے میں کرادیے جائیں گے۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے جاری کردہ اعلامیے کے مطابق آج الیکشن کمیشن نے حلقہ بندیوں کے کام کا جائز ہ لیا اور فیصلہ کیا کہ حلقہ بندیوں کی ابتدائی فہرست 27ستمبر...

الیکشن کمیشن کا عام انتخابات جنوری کے آخری ہفتے میں کرانے کا اعلان

کرپشن ریفرنسز: نیب کا حساس اداروں کے افسران کی خدمات لینے کا فیصلہ وجود - جمعرات 21 ستمبر 2023

چیئرمین نیب نے کرپشن کے خلاف کارروائیوں کے لیے حساس اداروں کے افسران کی خدمات لینے کا فیصلہ کیا ہے، نیب نے اہم عہدوں پر تقرریوں کے لیے ڈیپوٹیشن پر حساس اداروں سے افسران مانگ لیے۔ حساس اداروں کے افسران آئندہ چند روز میں نیب میں کام شروع کر دیں گے، چیئرمین نیب لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ...

کرپشن ریفرنسز: نیب کا حساس اداروں کے افسران کی خدمات لینے کا فیصلہ

شہباز شریف اور مریم نواز لندن روانہ وجود - جمعرات 21 ستمبر 2023

پاکستان مسلم لیگ کے صدر اور سابق وزیراعظم شہباز شریف اور مسلم لیگ (ن) کی چیف آرگنائزرمریم نواز لندن روانہ ہو گئے۔ سابق وزیراعظم شہباز شریف نے بھی ایک دن پاکستان میں قیام کے بعد اچانک لندن واپسی کا پروگرام بنا لیا اور وہ جمعرات کی صبح ساڑھے 9 بجے لندن کیلئے روانہ ہو گئے جبکہ مریم ...

شہباز شریف اور مریم نواز لندن روانہ

شیخ رشید کی رہائش گاہ لال حویلی سیل، متروکہ وقف املاک بورڈ نے کنٹرول سنبھال لیا وجود - جمعرات 21 ستمبر 2023

راولپنڈی میں عوامی مسلم لیگ کے سربراہ اور سابق وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید کی رہائش گاہ لال حویلی خالی کر وا کر سیل کر دی گئی، متروکہ وقف املاک بورڈ نے لال حویلی کا کنٹرول سنبھال لیا ۔ متروکہ وقف املاک نے راولپنڈی میں لال حویلی خالی کرانے کے لئے صبح سویرے آپریشن شروع کیا اور لال حو...

شیخ رشید کی رہائش گاہ لال حویلی سیل، متروکہ وقف املاک بورڈ نے کنٹرول سنبھال لیا

مضامین
محمود غزنوی اور سلطنت غزنویہ وجود جمعه 22 ستمبر 2023
محمود غزنوی اور سلطنت غزنویہ

بوڑھوں کا ملک وجود جمعه 22 ستمبر 2023
بوڑھوں کا ملک

چیف جسٹس کے 404 دن اور عوام کے 56 ہزار مقدمے وجود جمعه 22 ستمبر 2023
چیف جسٹس کے 404 دن اور عوام کے 56 ہزار مقدمے

احتساب کی چھلنی وجود جمعه 22 ستمبر 2023
احتساب کی چھلنی

نئے چیف جسٹس سے توقعات وجود جمعرات 21 ستمبر 2023
نئے چیف جسٹس سے توقعات

اشتہار

تجزیے
نوازشریف کو وطن واپسی پر جیل جانا پڑسکتا ہے۔۔ قانونی مسائل کیا ہیں؟ وجود بدھ 20 ستمبر 2023
نوازشریف کو وطن واپسی پر جیل جانا پڑسکتا ہے۔۔ قانونی مسائل کیا ہیں؟

نیپرا کا عوام کش کردار وجود جمعه 15 ستمبر 2023
نیپرا کا عوام کش کردار

مہنگائی میں مزید اضافے کا خطرہ وجود جمعرات 14 ستمبر 2023
مہنگائی میں مزید اضافے کا خطرہ

اشتہار

دین و تاریخ
سیرتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں سادگی کے نقوش وجود هفته 23 ستمبر 2023
سیرتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں سادگی کے نقوش

جذبہ اطاعت رسول پیدا کیجیے وجود جمعه 15 ستمبر 2023
جذبہ اطاعت رسول پیدا کیجیے

مادیت کا فتنہ اور اس کاعلاج وجود جمعه 08 ستمبر 2023
مادیت کا فتنہ اور اس کاعلاج
تہذیبی جنگ
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے

مسلمانوں کے خلاف برطانوی وزیر داخلہ کی ہرزہ سرائی وجود جمعرات 03 اگست 2023
مسلمانوں کے خلاف برطانوی وزیر داخلہ کی ہرزہ سرائی

کرناٹک، حجاب پر پابندی، ایک لاکھ مسلمان لڑکیوں نے سرکاری کالج چھوڑ دیے وجود پیر 13 فروری 2023
کرناٹک، حجاب پر پابندی، ایک لاکھ مسلمان لڑکیوں نے سرکاری کالج چھوڑ دیے
بھارت
سکھ رہنما کے قتل میں بھارت ملوث نکلا، کینیڈا کا بھارتی سفارت کار کو ملک چھوڑنے کا حکم وجود منگل 19 ستمبر 2023
سکھ رہنما کے قتل میں بھارت ملوث نکلا، کینیڈا کا بھارتی سفارت کار کو ملک چھوڑنے کا حکم

آسمانی بجلی کا قہر لاکھوں بھارتیوں کو بھسم کرچکا وجود جمعرات 07 ستمبر 2023
آسمانی بجلی کا قہر لاکھوں بھارتیوں کو بھسم کرچکا

بھارتی صدر نے ملک کے نام کے حوالے سے ایک نیا تنازع کھڑا کردیا وجود بدھ 06 ستمبر 2023
بھارتی صدر نے ملک کے نام کے حوالے سے ایک نیا تنازع کھڑا کردیا

چندریان تھری کی کامیابی پر بھارتی نجومی کا پاگل پن، چاند کو ہندو سلطنت قرار دینے کا مطالبہ وجود پیر 28 اگست 2023
چندریان تھری کی کامیابی پر بھارتی نجومی کا پاگل پن، چاند کو ہندو سلطنت قرار دینے کا مطالبہ
افغانستان
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا

افغان سرزمین کسی پڑوسی ملک کے خلاف استعمال نہیں ہو گی، امیر متقی وجود پیر 14 اگست 2023
افغان سرزمین کسی پڑوسی ملک کے خلاف استعمال نہیں ہو گی، امیر متقی

بیرون ملک حملے جہاد نہیں جنگ ہو گی، ہیبت اللہ اخوند زادہ کا طالبان کو پیغام وجود منگل 08 اگست 2023
بیرون ملک حملے جہاد نہیں جنگ ہو گی، ہیبت اللہ اخوند زادہ کا طالبان کو پیغام
شخصیات
صحافی، دانشور اور افسانہ نگار شیخ مقصود الہٰی انتقال کر گئے وجود جمعه 22 ستمبر 2023
صحافی، دانشور اور افسانہ نگار شیخ مقصود الہٰی انتقال کر گئے

معروف افسانہ نگار، نثر نگار و مصنف اشفاق احمد کی 19 ویں برسی آج منائی جا رہی ہے وجود جمعرات 07 ستمبر 2023
معروف افسانہ نگار، نثر نگار و مصنف اشفاق احمد کی 19 ویں برسی آج منائی جا رہی ہے

سلیم احمد: چند مسائل و احوال وجود هفته 02 ستمبر 2023
سلیم احمد: چند مسائل و احوال
ادبیات
فیصل آباد کے ریٹائرڈ ایس ایچ او بچوں کی 3500 کتابوں کے مصنف بن گئے وجود پیر 11 ستمبر 2023
فیصل آباد کے ریٹائرڈ ایس ایچ او بچوں کی 3500 کتابوں کے مصنف بن گئے

سلیم احمد: چند مسائل و احوال وجود هفته 02 ستمبر 2023
سلیم احمد: چند مسائل و احوال

محتسب (عالمی ادب سے منتخب افسانہ) وجود پیر 10 جولائی 2023
محتسب  (عالمی ادب سے منتخب افسانہ)