وجود

... loading ...

وجود

شبِ زندگی سے آگے

اتوار 18 مارچ 2018 شبِ زندگی سے آگے

غلام حسین ساجد
صابر ظفر سے میرے تعلق کو بیالیس برس ہونے کو آئے ہیں۔ شروع کے دوچار برسوں کے بعد ہم کبھی ایک شہر میں نہیں رہے مگر ان سے فکری نسبت کا رشتہ روزبروز مضبوط تر ہورہا ہے اور اس کا سبب ہے ان کی صلاحیت اور اس صلاحیت کی نمود کا ایک مسلسل اور لامختتم ظہور۔ اردو غزل کو موضوعاتی، فکری اور تجربی تنوع کے لیے اسے زرخیز کرنے میں صابر ظفر کا حصہ سب سے زیادہ ہے اور اس قدر تسلسل اور جمالیاتی صباحت کے ساتھ کہ اس پر صرف داد ہی دی جاسکتی ہے۔

’’ ابتدا‘‘ سے ’’ لہو سے دستخط‘‘ تک کے اڑتیس شعری مجموعوں میں صابر ظفر نے اپنا سروکار زیادہ تر صنفِ غزل سے رکھا ہے۔ میں نہیں جانتا، وہ اب تک کتنی غزلیں کہہ چکے ہیں مگر غزل ان کے اظہار کا ایسا وسیلہ بن گئی ہے کہ انہیں کسی اور صنف سخن کی طرف نظر اٹھا کر دیکھنے کی بھی ضرورت نہیں۔ ان کا اب تک کا شعری سفر اس بات کا گواہ ہے کہ وہ غزل کی روایتی شباہت کو مسخ کیے بغیر اس میں ایک نئی کیفیت ایک نیا رنگ بھر دینے پر قادر ہیں اور ان کی پیش رفت نے اس صنفِ سخن کو ثروت مند بنایا ہے۔

یسا تبھی ممکن ہوتا ہے، جب شاعر کے زبان و بیان پر لگے ہر نوع کے قفل کھل چکے ہوں۔ طلبِ اظہار اور طرزِ اظہار میں یکتائی در آئی ہو اور شعر کہنا سانس لینے کی طرح ایک غیر محسوس عمل بن چکا ہو اور اس کے غیاب میں کی گئی مشقت ایک غیر مرئی انعام بن کر کلام کی تاثیر اور ندرت کا حصہ بن گئی ہو۔

پچھلے کئی برس سے وہ غزل میں مسلسل کئی طرح کے تجربے کرتے چلے آرہے ہیں۔ میں یہ کہنے میں کوئی حرج نہیں سمجھتا کہ ان میں سے اکثر تجربات کا تعلق غزل کی عمومی روایت سے زیادہ عصرِ حاضر کی موجودہ صورتِ حالات کی نقش گری سے ہے۔ امر واقعہ یہ ہے کہ ایسا کچھ کر دکھانا اور وہ بھی غزل کے پیرائے میں، نہ صرف یہ کہ مشکل کام ہے بلکہ ایک وہبی شاعر اور تغزل کی روایت میں اپنا مقام رکھنے والے شاعر کے لیے گھاٹے کا سودا بھی ہے کہ عام طور پر ہمارے یہاں مزاحمتی شاعری کو اخباری بیانیے کی طرح ایک بے تاثیر چیز گردانا جاتا ہے اور یہ تاثر کسی حد تک درست بھی ہے کہ اس نوع کے کلام میں ہڈیوں میں رچ بس جانے والی تاثیر اور روح کو اپنے قابو میں کرتے حزن کا ذخیرہ کم کم ہی ہوتا ہے۔

ایسا ہے مگر ایک سچے شاعر کے لیے صرف اپنے غنائی امیج کو برقرار رکھنے کے لیے موجود کی ثقالت اور جبر سے منہ پھیر کر گزر جانا بھی تو ممکن نہیں۔ اس کی حساسیت اگر اسے موجود کی جبریت کے خلاف احتجاج بلکہ جنگ پر آمادہ نہیں کرتی تو اس میں اور ایک اندھے اُلّو میں فرق ہی کیا ہے؟ ایک سچا شاعر چاہے بھی تو اپنے عصر کی ناموافقت اور ناہمواری سے پہلو تہی نہیں کرسکتا۔اسے ایسا کرنا بھی نہیں چاہیے کہ کسی قوم کو باطنی قوت کا ظہور اسی کی زبان سے ہوتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ تاریخِ عالم میں سچے شاعروں نے ہمیشہ باطل کی سرکوبی اور حق کی سربلندی کے لیے آواز بلند کی ہے۔

صابر ظفر ہماری فکری روایت کے سرخیل ہیں۔ اس وقت ہم اور ہمارا خطہ جس قسم کے آزار سے برسرِپیکار ہے ، وہ ہم جانتے ہیں، یہ آزار ہمارے وجود کو بھی نگل رہا ہے اور ہماری آزادی کو بھی۔ صابر ظفر نے اس آزار اور اس کے صد پہلو اثرات کو صر ف محسوس ہی نہیں کیا۔ اس کی بیخ کنی کرنے کی بھی ٹھانی ہے اور ’’زندان میں زندگی امر ہے‘‘ سے ’’ گردش مرثیہ‘‘ تک ایک تسلسل کے ساتھ اپنے زندہ شاعر ہونے کا ثبوت دیاہے۔

’’ شہادت نامہ‘‘ ان کی مزاحمتی بلکہ رجزیہ شاعری کا نیا مجموعہ ہے۔ کیونکہ اس میں ظلم اور جبر کی قوتوں کے روبرو احتجاج کی لے کم کم بلکہ کم و بیش مفقود ہے اور ان کو للکارنے اور ان سے نبرد آزما ہونے کی للک کہیں بڑھ کر۔

’’ زندان میں زندگی امر ہے‘‘ کا تعلق شاعر کی قوتِ متخلیہ سے تھا جو شاعر کی حساسیت کے ظہور کے ساتھ اس بات کی دلیل بھی تھا کہ کسی شخص کے زندانی ہونے کے لیے اسے کسی زنداں میں محبوس کردینا ضروری نہیں بلکہ جبر کا دائرہ پھیلتے پھیلتے بعض اوقات زنداں سے باہر زندگی کرتے اذہان کو بھی اپنی لپیٹ میں لے سکتا ہے۔ اس کتاب کی علامتی سطح ہمارے موجود کی عمومی کیفیت پر ایک ایسا سوال تھی، جس کا جواب شاید ہم سے کسی کے پاس موجود نہیں کہ یہ کتاب ہماری محدود ہوتی آزادی اور عالمی استعماراتی قوتوں کی ہر لمحہ نمود کرتی پیش قدمی کا ایک بلیغ استعارہ تھی۔ مگر صابر ظفر نے اسی پر بس نہیں کی۔ اس نے صرف مریض کی نبض ٹٹولنے ہی کو کافی نہیں سمجھا’’ گردشِ مرثیہ‘‘ میں اس نے علامت اور استعارے کو تج کر براہِ راست اظہار کی روش کو اپنایا، جس کا دوسرا قدم ’’ لہو سے دستخط‘‘ ہے۔ ایسا کرنا کچھ آسان نہ تھا کہ ایک شاعر کے لیے استعارے سے حقیقت کی منزل پر اترنا ایک طرح سے اپنے رومانوی تاثر کو مسخ کرنے بلکہ مٹانے کی طرح ہے، جس سے اس کے تمام تر شعری سفر کے معدوم ہونے کا راستہ نکلتا ہے مگر صابر ظفر نے کسی خطرے کی پروا کی ہے نہ اپنے غزل گو اور نرم خو ہونے کے پرلطف تاثر سے محروم ہونے سے خوف کھایا ہے اور نہ ہی اپنے شعری سفر کی معدومیت کے ڈر کو اپنے دل میں جگہ دی ہے۔ کیونکہ وہ اور اس کی شاعری کسی نوع کی دائمیت کی طلبگار ہے نہ کسی طرح کی معدومیت کے خوف سے ہراساں۔ وہ بلھے شاہ کی طرح ’’ آئی صورتوں سچا‘‘ ہے اور یہ کوئی معمولی بات نہیں۔

’’ گردشِ مرثیہ‘‘، ’’ لہو سے دستخط‘‘ اور اب ’’ شہادت نامہ‘‘ کا فکری حوالہ ہمارا بلوچستان ہے۔ میں نے جب تک بلوچستان کو گھوم پھر کر نہیں دیکھا تھا، میں اس درد اور رنج کو محسوس کرنے سے عاری تھا جو اپنوں کے ہاتھوں زخم کھا کر کسی قوم کی نفسیات کا حصہ بنتا ہے۔ بلوچستان اور اب شاید جنوبی پنجاب بھی ایک ایسا سلگتا ہوا خطہ ہے، جس کی آگ کو بیرونی طالع آزمائوں اور اندرونی ہوس پرستوں نے ہر لمحہ ہوادی ہے۔ اس قدر کہ اس کی تپش اب ایوانِ اقتدار کے درودیوار تک آپہنچی ہے اور اس سے بھی بڑھ کر ایک خوش گو شاعر کے کلام تک۔

نادر شاہ عادل نے ’’ گردشِ مرثیہ‘‘ کے پیش لفظ میں کیا خوب لکھا ہے کہ مزاحمتی شاعری کے باب میںبلوچستان اور اس کے شہیدوں کے لیے صابرظفر کی شعری تخلیق ’’ گردشِ مرثیہ‘‘ بلوچستان کا شعری آشوب ہے۔ تنِ داغ داغ کی روح فرسا کہانی ہے۔ ایک داستانِ خونچکاں اور معروضی محاکمہ ہے، جو ستم شعار آمروں اور بزدل و مصلحت کش جمہوری حکمرانوں کے نظمِ حکمرانی کے جبرو استبداد کا کچا چٹھا ہے۔ ان بے نوا صحرانشینوں کا نوحہ ہے، جو رفتہ رفتہ سراپا الم ہوئے۔ میں اس پر صرف یہ اضافہ کروں گا کہ ’’ لہو سے دستخط‘‘اور اب ’’شہادت نامہ‘‘اس امر کی فکری دلیل ہے کہ جبر و استبداد کا یہ سلسلہ ابھی تھما نہیں اور اس آگ کی لپٹیں اب ہماری روحوں کو جھلسانے لگی ہیں۔

صابر ظفر آتش مزاج ہیں یا نہیں۔ میں نہیں جانتا مگر ان کی غزل کا مزاج ہر لمحہ آتشیں ہورہا ہے۔ یہ شاعر کی کایا کلپ کا مسئلہ نہیں ایک خطے کی کایا کلپ ہوتے چلے جانے کی علامت ہے۔ دکھ اس بات کا ہے کہ یہ امر ہر گز ہرگز خوش کن نہیں کہ اس سے ہمارے حکمرانوں کی نااہلی اور ناداری کے ساتھ ساتھ ہماری یکجہتی اور آزادی کے پارہ پارہ ہونے کی خبر بھی ملتی ہے جو اپنی جگہ پر روح فرسا اور حزینہ کیفیت کے فروغ کا استعارہ ہے۔ کاش صابر ظفر کے ’’ شہادت نامہ‘‘ کے بعد اربابِ اختیار کی آنکھیں کھل جائیں اور من و تو کی یہ خلیج مٹ سکے۔

’’گردشِ مرثیہ‘‘سے ’’ شہادت نامہ‘‘ تک کی شاعری کا جغرافیائی خطہ بلوچستان ہے۔ اگرچہ صابر ظفر نے ’’ سانول موڑ مہاراں‘‘ میں سرائیکی، ’’ اباسین کے کنارے‘‘ میں خیبرپختون خواہ اور ’’ رانجھا تخت ہزارے کا‘‘ میں مرکزی پنجاب کی فکری روایت اور ثقافت کو موضوع بنایا ہے مگر اس کی نوعیت جمالیاتی ہے اور اس سے ان خطوں کے بارے میںایک اسرار بھری یگانگت کا تاثر ابھرتا ہے مگر بلوچستان کی تہذیب، ثقافت، تاریخ اور جدوجہدِ آزادی کے پس منظر میں لکھی گئی یہ تین کتابیں جنہیں شاید Trilogy کہنا مناسب نہ ہو ، ایک ہی آزار کا پتا دیتی ہیں، جسے شاید ’’ بلوچ المیہ‘‘ کا نام دینا درست ہو۔ یہ شاعری کا نہیں، شاعری سے آگے کا معاملہ ہے اور خود شاعر بھی اس امر سے نا آگاہ نہیں:

جو ہے بات کہنے والی، وہ ہے شاعری سے آگے
سنو ان کہی سے آگے، چلو سرکشی سے آگے
سبھی جہد کار میرے، سبھی جاں نثار میرے
تمہیں صبحدم ملیں گے، شبِ زندگی سے آگے

یہ دو شعر تو میں نے اپنی بات کی تائید میں درج کیے وگرنہ میں اس کتاب سے یہاں اشعار درج کرتے چلے جانے کا قطعی کوئی ارادہ نہیں رکھتا کہ میرے خیال میں ’’ شہادت نامہ‘‘ غزل کا مجموعہ ہوتے بھی کچھ اس کے سوا بھی ہے۔ دراصل ’’ گردشِ مرثیہ‘‘، ’’ لہوسے دستخط‘‘ اور ’’شہادت نامہ‘‘ ایک خیال کی کڑیاں اور ایک وجود میں سمٹی کتابیں ہیں۔ اس نوع کی پہلی کتاب غالباً ’’ عناصر‘‘ تھی، جسے مظفر علی سید نے نظم سے قریب تر قرار دیا تھا اور اس لہجے کی برقراری کو ضروری قرار نہیں دیا تھا۔ کچھ ایسا ہی میرا خیال اس کتاب کے حوالے سے ہے کہ میں اسے ناانصافی اورجبر کی شدت کو للکارتی صدا سمجھتا ہوں، جس کی تندی بلوچستان کی آہستہ خرام اور ذات مست کاریزوں کے برعکس ایک تند مزاج دریا کی سی ہے، جس کا تھم جانا لازم ہے۔ مگر یہ دریا شاید تھمنے کا نہیں اور بلوچستان میں امن، انصاف اور خوشحالی کے قدم پڑنے تک اسے تھمنا بھی نہیں چاہیے۔

صابر ظفر نے جس لسانی تجربے کا آغاز ’’ سانول موڑ مہاراں‘‘ سے کیا تھا۔ اس کی ایک مثال ’’ شہادت نامہ‘‘ بھی ہے۔ ’’ گردشِ مرثیہ‘‘ ،’’ لہو سے دستخط‘‘ اور اب ’’ شہادت نامہ‘‘ اس لحاظ سے بھی اہم کتابیں ہیں کہ یہ غزل کی زبان اور لہجے کے حوالے سے ہمارے روایتی تصور کو ردّ کرتی ہیں۔ جہاں شاعر برتی ہوئی مانوس لفظیات کو برتنے میں تحفظات کا شکار ہو، وہاں لسانی حوالے سے غیر مروج اور ایک خاص خطے سے مخصوص لفظیات کا استعمال میں لانا اور اسے اپنے جمالیاتی عمل کا حصہ بنانا کوئی معمولی کام نہیں۔ یہ کام کوئی جرات مند شاعرہی انجام دے سکتا تھا اور صابر ظفر نے اس عمل کو تسلسل سے جاری رکھ کر اس بات کا ثبوت دیا ہے کہ شعری مکاشفے کی حقانیت کو بڑھاوا دینے میں وہ کس قدر جرات مند اور بے خوف ہے۔

توں کا انتخاب کیا ہے جس ãḻ


متعلقہ خبریں


افغان سرزمین دہشت گردیکی لئے نیا خطرہ ہے ،وزیراعظم وجود - هفته 13 دسمبر 2025

عالمی برادری افغان حکومت پر ذمہ داریوں کی ادائیگی کیلئے زور ڈالے،سماجی و اقتصادی ترقی اور عوام کی فلاح و بہبود پاکستان کی اولین ترجیح،موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے مشکلات کا سامنا ہے تنازعات کا پرامن حل پاکستان کی خارجہ پالیسی کا بنیادی ستون ،فلسطینی عوام اور کشمیریوں کے بنیادی حق...

افغان سرزمین دہشت گردیکی لئے نیا خطرہ ہے ،وزیراعظم

پاکستان ، آئی ایم ایف کے آگے ڈھیر،ا گلی قسط کیلئے بجلی اور گیس مہنگی کرنے کی یقین دہانی کرادی وجود - هفته 13 دسمبر 2025

حکومت نے 23شرائط مان لیں، توانائی، مالیاتی، سماجی شعبے، اسٹرکچرل، مانیٹری اور کرنسی وغیرہ شامل ہیں، سرکاری ملکیتی اداروں کے قانون میں تبدیلی کیلئے اگست 2026 کی ڈیڈ لائن مقرر کر دی ریونیو شارٹ فال پورا کرنے کیلئے کھاد اور زرعی ادویات پر 5 فیصد فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی لگائی جائیگی، ہا...

پاکستان ، آئی ایم ایف کے آگے ڈھیر،ا گلی قسط کیلئے بجلی اور گیس مہنگی کرنے کی یقین دہانی کرادی

گلگت بلتستان ، آزاد کشمیر کو این ایف سی میں حصہ ملنا چاہیے، نواز شریف وجود - هفته 13 دسمبر 2025

پارٹی کے اندر لڑائی برداشت نہیں کی جائے گی، اگر کوئی ملوث ہے تو اس کو باہر رکھا جائے آزادکشمیر و گلگت بلتستان میں میرٹ پر ٹکت دیں گے میرٹ پر کبھی سمجھوتا نہیں کیا،صدر ن لیگ مسلم لیگ(ن)کے صدر نواز شریف نے کہا ہے کہ این ایف سی ایوارڈ بھیک نہیں ہے یہ تو حق ہے، وزیراعظم سے کہوں گا...

گلگت بلتستان ، آزاد کشمیر کو این ایف سی میں حصہ ملنا چاہیے، نواز شریف

ملکی سالمیت کیخلاف چلنے والوں سے آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائیگا،بلاول بھٹو وجود - هفته 13 دسمبر 2025

تمام سیاسی جماعتیں اپنے دائرہ کار میں رہ کر سیاست کریں، خود پنجاب کی گلی گلی محلے محلے جائوں گا، چیئرمین پیپلز پارٹی کارکن اپنے آپ کو تنہا نہ سمجھیں، گورنر سلیم حیدر کی ملاقات ،سیاسی صورتحال پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا ،دیگر کی بھی ملاقاتیں پاکستان پیپلز پارٹی کے چیٔرمین بلاول...

ملکی سالمیت کیخلاف چلنے والوں سے آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائیگا،بلاول بھٹو

پیٹرول 36 پیسے، ڈیزل 11 روپے لیٹر سستا کرنے کی تجویز وجود - هفته 13 دسمبر 2025

منظوری کے بعد ایک لیٹر پیٹرول 263.9 ،ڈیزل 267.80 روپے کا ہو جائیگا، ذرائع مٹی کا تیل، لائٹ ڈیزلسستا کرنے کی تجویز، نئی قیمتوں پر 16 دسمبر سے عملدرآمد ہوگا پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ردوبدل، پیٹرول کی قیمت میں معمولی جبکہ ڈیزل کی قیمت میں بڑی کمی کی تجویز پیش کی گئی ہے۔ ذ...

پیٹرول 36 پیسے، ڈیزل 11 روپے لیٹر سستا کرنے کی تجویز

ہم دشمن کو چھپ کر نہیں للکار کر مارتے ہیں ،فیلڈ مارشل وجود - جمعرات 11 دسمبر 2025

عزت اور طاقت تقسیم سے نہیں، محنت اور علم سے حاصل ہوتی ہے، ریاست طیبہ اور ریاست پاکستان کا آپس میں ایک گہرا تعلق ہے اور دفاعی معاہدہ تاریخی ہے، علما قوم کو متحد رکھیں،سید عاصم منیر اللہ تعالیٰ نے تمام مسلم ممالک میں سے محافظین حرمین کا شرف پاکستان کو عطا کیا ہے، جس قوم نے علم او...

ہم دشمن کو چھپ کر نہیں للکار کر مارتے ہیں ،فیلڈ مارشل

ایک مائنس ہوا تو کوئی بھی باقی نہیں رہے گا،تحریک انصاف وجود - جمعرات 11 دسمبر 2025

حالات کنٹرول میں نہیں آئیں گے، یہ کاروباری دنیا نہیں ہے کہ دو میں سے ایک مائنس کرو تو ایک رہ جائے گا، خان صاحب کی بہنوں پر واٹر کینن کا استعمال کیا گیا،چیئرمین بیرسٹر گوہر کیا بشریٰ بی بی کی فیملی پریس کانفرنسز کر رہی ہے ان کی ملاقاتیں کیوں نہیں کروا رہے؟ آپ اس مرتبہ فیڈریشن ک...

ایک مائنس ہوا تو کوئی بھی باقی نہیں رہے گا،تحریک انصاف

جادو ٹونے سے نہیں ملک محنت سے ترقی کریگا، وزیراعظم وجود - جمعرات 11 دسمبر 2025

دہشت گردی اور معاشی ترقی کی کاوشیں ساتھ نہیں چل سکتیں،شہباز شریف فرقہ واریت کا خاتمہ ہونا چاہیے مگر کچھ علما تفریق کی بات کرتے ہیں، خطاب وزیراعظم شہباز شریف کا کہنا ہے کہ جادوٹونے سے نہیں ملک محنت سے ترقی کریگا، دہشت گردی اور معاشی ترقی کی کاوشیں ساتھ نہیں چل سکتیں۔ وزیراعظم شہ...

جادو ٹونے سے نہیں ملک محنت سے ترقی کریگا، وزیراعظم

عمران خان کو اڈیالہ جیل سے منتقل کرنے پر غور وجود - جمعرات 11 دسمبر 2025

پی ٹی آئی ملک کو عدم استحکام کا شکار کرنے کے ایجنڈے پر عمل پیرا ہے،اختیار ولی قیدی نمبر 804 کیساتھ مذاکرات کے دروازے بندہو چکے ہیں،نیوز کانفرنس وزیراعظم کے کوآرڈینیٹر برائے اطلاعات و امور خیبر پختونخوا اختیار ولی خان نے کہا ہے کہ پی ٹی آئی ملک کو عدم استحکام کا شکار کرنے کے ...

عمران خان کو اڈیالہ جیل سے منتقل کرنے پر غور

ملک میں ایک جماعتسیاسی دجال کا کام کر رہی ہے ،بلاول بھٹو وجود - جمعرات 11 دسمبر 2025

وزیر اعلیٰ پنجاب سندھ آئیں الیکشن میں حصہ لیں مجھے خوشی ہوگی، سیاسی جماعتوں پر پابندی میری رائے نہیں کے پی میں جنگی حالات پیدا ہوتے جا رہے ہیں،چیئرمین پیپلزپارٹی کی کارکن کے گھر آمد،میڈیا سے گفتگو پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ملک میں ایک سیاسی...

ملک میں ایک جماعتسیاسی دجال کا کام کر رہی ہے ،بلاول بھٹو

عمران خان پر پابندی کی قرارداد پنجاب اسمبلی سے منظور وجود - بدھ 10 دسمبر 2025

قراردادطاہر پرویز نے ایوان میں پیش کی، بانی و لیڈر پر پابندی لگائی جائے جو لیڈران پاکستان کے خلاف بات کرتے ہیں ان کو قرار واقعی سزا دی جائے بانی پی ٹی آئی پر پابندی لگانے کی قرارداد پنجاب اسمبلی سے منظور کر لی گئی۔قرارداد مسلم لیگ ن کے رکن اسمبلی طاہر پرویز نے ایوان میں پیش کی...

عمران خان پر پابندی کی قرارداد پنجاب اسمبلی سے منظور

حکومت سیاسی انتقام، کارروائی پر یقین نہیں رکھتی، وزیراعظم وجود - بدھ 10 دسمبر 2025

شہباز شریف نے نیب کی غیر معمولی کارکردگی پر ادارے کے افسران اور قیادت کی تحسین کی مالی بدعنوانی کیخلاف ٹھوس اقدامات اٹھانا حکومت کی ترجیحات میں شامل ، تقریب سے خطاب اسلام آباد(بیورورپورٹ) وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ وفاقی حکومت نیب کے ذریعے کسی بھی قسم کے سیاسی انتقام اور کا...

حکومت سیاسی انتقام، کارروائی پر یقین نہیں رکھتی، وزیراعظم

مضامین
کراچی کا بچہ اور گٹر کا دھکن وجود هفته 13 دسمبر 2025
کراچی کا بچہ اور گٹر کا دھکن

بھارتی الزام تراشی پروپیگنڈا کی سیاست وجود هفته 13 دسمبر 2025
بھارتی الزام تراشی پروپیگنڈا کی سیاست

مقبوضہ کشمیر میں مودی کی روایتی جارحیت وجود هفته 13 دسمبر 2025
مقبوضہ کشمیر میں مودی کی روایتی جارحیت

جب خاموشی محفوظ لگنے لگے! وجود جمعه 12 دسمبر 2025
جب خاموشی محفوظ لگنے لگے!

ایک نہ ایک دن سب کو چلے جانا ہے! وجود جمعه 12 دسمبر 2025
ایک نہ ایک دن سب کو چلے جانا ہے!

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر