وجود

... loading ...

وجود
وجود

ڈوبتی معیشت اور آئندہ عام انتخابات

هفته 17 مارچ 2018 ڈوبتی معیشت اور آئندہ عام انتخابات

ملک کاہر بچہ اور ہر شخص اس وقت ایک لاکھ 35ہزار روپے کا مقروض ہے جو کسی موجودہ یا مستقبل کے حکمرانوں نے ادا کرنے کی کوشش نہیں کرنی وہ تو مزید قرضے لے کر ملکی معیشت کی نبض کو مزیدڈوبنے کی طرف لے جائیں گے ،جب بھی ہم بیرونی دنیا سے قرض لیتے ہیں تو ادھر روزمرہ استعمال کی مختلف اشیاء گیس ،بجلی کھانے پینے کے لوازمات وغیرہ کی قیمتوں پر اثر پڑتا ہے بین الاقوامی مارکیٹ میں پٹرول کی قیمتیں کم مگر ہمارے ہاں انتہائی زیادہ ہیںاور39روپے فی لیٹر تو ٹیکسوں کی مد میںہی کاٹ لیے جاتے ہیںپٹرول کی بھی قیمتیں بڑھتے ہی دیگر چیزوں کی قیمتیں مثلاً سبزی فروٹ کریانہ کی گھریلو استعمال کی اشیاء بھی اسی تناسب سے بڑھ جاتی ہیں کہ یہ چیزیںکارخانوںیا زرعی زمینوں سے بذریعہ ٹرانسپورٹ ہی مختلف جگہوں پر پہنچائی جاسکتی ہیںجو نہی پٹرول ڈیزل کی قیمت بڑھتی ہے ٹرانسپورٹ کے کرائے اس سے بھی زیادہ بڑھ جاتے ہیں اسی کو ـ”مہنگائی کا ایٹمی دھماکہ”کہتے ہیںجو نہ چاہتے ہوئے بھی ہمارے اردگردہر ماہ پھٹ جاتا ہے۔

پھر سودی کاروبار نے بھی ہمارے ہاں زبردست مہنگائی کو فروغ دے رکھا ہے نیشنل بنک کے مطابق ہمارے جمع اثاثے تو صرف دو ارب ڈالرز رہ گئے ہیں اور ہمیں اس دفعہ 17ارب ڈالرز کی قسط جو سود در سود کے ذریعے بڑھ چکی ہے ادا کرنی ہے حکمران ہی نہیں بلکہ ہماری سیکولر کرپٹ بیورو کریسی بھی قرضوں کی لین دین پر “اپنا حصہ”لازماً وصول کرتی ہے کبھی کسی نے اس طرف توجہ ہی نہیں کی سیاستدان تو کرپشن کی توپوں کا رخ مخالفین کی طرف کیے رکھتے ہیں مگر بیورو کریسی چالاک لومڑیوں کی طرح ہم سبھی کی آنکھوں میں دھول جھونک کر اپنا حصہ اچک لے جاتی ہے اور اس کی کسی کو کانوں کان خبر بھی نہیں ہونے دیتے کیونکہ ہر معاہدے کے کاغذات کا لین دین دستخط وغیرہ انہی نے کرنا ہو تے ہیں۔

اب نئے بجٹ سے قبل ہی بھاری قرضے لینے کا طبل بج چکا ہے ،فرض محال بھاری قرضہ مل جاتا ہے اور بیورو کریٹوں کے ساتھ رازداری سے ان رقوم میں سے نصف یا تیسرا حصہ ہی آمدہ انتخابات کے لیے بطورذاتی خرچہ رکھ لیویںتوسات آٹھ ارب ڈالرز یعنی تقریباً آٹھ سو ارب روپے آمدہ پورے انتخاب کو خریدنے کے لیے کافی ہیں پہلے بھی ن لیگیوں نے ذاتی جمع کردہ پونجی کو خرچ نہیں کیاجبکہ دوسری طرف زرداری اور ان کے ساتھیوں نے جو کہ سیاسی طور پر پرانے گھاک سیانے افراد تھے نے بقول خود ان کے سینٹ انتخابات چمک کے ذریعے جیتے ہیں زرداری صاحب کا یہ فرمانا کہ انتخابات تو اربوں کا خرچہ ہے جس کا کہ ن لیگیوں میں خرچ کرنے کا حوصلہ نہیں ہے، درست فرماتے ہیں کہ انہوں نے سینیٹ کی بیشتر سیٹیں اسی خفیہ طرز سے “ہتھیا “لی ہیں۔بعد ازاں پی ٹی آئی والوں کو ایسا گھمایا اور چکرایا کہ وہ بھی اپنے 13ووٹ خود ہی ان کوعطاء کرنے پر تیار ہو گئے اور چیئر مین سینیٹ کی کم عمری کا شور و غوغا مچا ہوا ہے محسوس ہو تا ہے کہ سینیٹ کے انتخابات میں حصہ لینے والی سبھی سیاسی جماعتوں کے سربراہوں پر اندھوں کا راج ہے کہ کسی نے اس کے فارم پر عمر کو چیک ہی نہ کیا عوامی رائے یہی ہے کہ پورے ملک کی طرح ادھر بھی چمک نے کام نہ دکھا دیا ہو۔

جوتے بازی شروع ہے اور سیاستدانوں کی زبان 1970اور1977کے انتخابات کی یاد دلا رہی ہے1977میں تو لوگ مرنے مارنے پر تلے ہوئے تھے سیاستدانوں کی اشتعال انگیز تقریریں کوئی اچھا شگون نہیں ہے ،ہر جگہ کارکن گھتم گتھا ہونے شروع ہو گئے تو ” خونی انتخابات “کیا ملکی تبدیلی لائیں گے؟ کہ صرف تباہی و بربادی پر انتخابات منتج ہوں گے ،سیاستدان اتنا دور نکل گئے ہیں کہ شاید اب واپسی ممکن نہ ہو، کسی کے پاس مہنگائی ،غربت ،بیروز گاری ،دہشت گردی ،نا انصافی ختم کرنے کا کوئی منصوبہ نہیں ہے، صرف سبھی مسالک فرقوں طبقات برادریوں کے لیے مکمل قابل قبول اللہ اکبر کی تحریک ہی منظم ہو کر ایسے اقدامات کر سکتی ہے، ویسے بھی ایسے متبرک ترین اور غیر متنازع لفظ کی وساطت سے خدائے عز وجل خود ہی رحمتوں کے نزول کی بارشیں برسائیں گے اورپورا عالم اسلام اس کی پشتیبانی کرنے میں کوئی عار نہ محسوس کرے گا ۔صرف اسی طرح پرانے انگریزو ں کے پالتو وڈیروں اور ان کی اولادوں سے جان چھوٹ سکتی ہے جو ایک مخصوص طبقہ ہونے کے ناطے کسی مزدور کسان محنت کش کے مسائل سمجھ ہی نہیں سکتے تو حل کیا کریں گے؟یہ سبھی تو ذاتی سیاسی مفادات کے لیے معاشرے کو ٹکڑوں ٹکڑوں میں بانٹنے طبقوں مسلکوں کے اختلافات ابھار کر ان کو لڑانے میں مصروف ہیں۔

صرف خدا کی کبریائی کا لفظ اللہ اکبر ہی بکھری ہوئی امت کو مجتمع کرکے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بنا سکتا ہے اور فالتو رقوم خرچ کیے بغیر دکٹری سٹینڈ پر بھی وگرنہ تو بڑی سیاسی جماعتیں کھربو ں روپے خرچ کرکے ووٹوں کی بند بانٹ ،ان کی خرید وفروخت کے ذریعے اپنے اپنے کرپٹ حواری ٹولوں کے جغادری افراد کی جیت کا سامان کریں گے غلیظ زبان کے استعمال کی وجہ سے عوام دلی طور پر موجودہ سیاستدانوں سے شدید نفرت رکھتے ہیں ان میں سے خدانخواستہ کوئی جیت بھی گیا تو لڑائی جھگڑا کبھی ختم نہ ہو گا اور ملک جو کہ چاروں طرف سے دشمنان دین کے گھیرے میں ہے کی سا لمیت کوشدید نقصان پہنچنے کا احتمال ہے پاکستانی اٹھیں اور اللہ اکبر کا جھنڈا بلند کرکے ایسی تحریک برپا کر ڈ الیں جو ملک کو فلاحی مملکت میںتبدیل کرکے بنیادی ضروریات زندگی صاف پانی بجلی گیس فون انٹرنیٹ تعلیم علاج اور غریب کے لیے انصاف مفت مہیا کر سکے مزدوروں کی تنخواہ کم ازکم ماہانہ پچاس ہزار روپے یا ایک تولہ سونا کی قیمت کے برابر ہو (یعنی جو بھی زیادہ ہو)صنعتی مزدور کو تو منافع میں دس فیصد حصہ ملے پانچ ایکڑ تک کے غریب کسانوں کو گہائی بوائی پانی کھاد بیج مفت مہیا ہوں اور ان کی پیداوار کو اصل قیمتوں پر ہر یونین کونسل میں موجود کم ازکم چار “اللہ اکبر سینٹرز”پر حکومت خود خریدے ۔کھانے پینے کی تمام اشیاء 1/3قیمت پر اور ہمہ قسم تیل آدھی قیمت پر مہیا ہو۔


متعلقہ خبریں


مضامین
لیکن کردار؟ وجود جمعرات 28 مارچ 2024
لیکن کردار؟

خوابوں کی تعبیر وجود جمعرات 28 مارچ 2024
خوابوں کی تعبیر

ماحولیاتی تباہ کاری کی ذمہ دار جنگیں ہیں ! وجود جمعرات 28 مارچ 2024
ماحولیاتی تباہ کاری کی ذمہ دار جنگیں ہیں !

ریاست مسائل کی زدمیں کیوں ؟ وجود جمعرات 28 مارچ 2024
ریاست مسائل کی زدمیں کیوں ؟

مردہ قومی حمیت زندہ باد! وجود بدھ 27 مارچ 2024
مردہ قومی حمیت زندہ باد!

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر