... loading ...
پاکستانی سیاست زبانی حملوں اور گالی گلوچ سے آگے بڑھ رہی ہے۔ پہلے وزیر خارجہ خواجہ آصف پر سیاہی پھینکی گئی ابھی اس خبر کی روشنائی بھی خشک نہیں ہوئی تھی کہ معزول وزیراعظم میاں نواز شریف پر جامعہ نعیمیہ میں جوتے پھینک مارے گئے۔ فیصل آباد سے بھی خبر ہے کہ عمران خان پر بھی کسی شہری نے جوتا پھینکنے کی کوشش کی۔ پاکستان میں یہ سلسلہ تو مشرف دور میں احمد رضا قصوری کے چہرے پر سیاہی پھینکنے سے شروع ہوا اور اس سے قبل عراق میں علی منتظر زیدی نامی صحافی نے امریکی صدر بش پر جوتا پھینکا تھا۔ پھر جنرل پرویز مشرف پر لندن میں جوتا پھینکا گیا۔ لیکن اب سیاست کی گرما گرمی نے نیا رنگ اختیار کیا ہے۔ ابے تبے اور ماریں گے، گھسیٹیں گے وغیرہ کی باز گشت ہر دوسرے تیسرے روز اخبارات میں دیکھی جاسکتی ہے۔ لیکن اس کے نتیجے میں ملکی سیاست کی جو تصویر بن رہی ہے وہ بڑی خراب ہے۔
میاں نواز شریف پر جوتا پھینکنے کے جو بھی محرکات ہوں لیکن بیک وقت دو خرابیاں پیدا ہوئیں۔ ایک تو ایک سیاسی رہنما پر جوتا مارا گیا اور وہ بھی جامعہ نعیمیہ میں۔ اس کے نتیجے میں جامعہ جیسے ادارے کی ساکھ بھی متاثر ہوئی۔ ایسے مواقع پر منتظمین کو خصوصی توجہ دینی ہوگی۔ چونکہ ہمارے سیاسی رہنماؤں نے سیاسی ماحول کو اس قدر گرما دیا ہے۔ اس لیے کہیں بھی کوئی بھی واقعہ ہوسکتا ہے۔ جوں ہی نواز شریف پر جوتے پھینکے گئے جوتے مارنے والے نے نعرہ بلند کیا اور ارد گرد کھڑے ہوئے لوگوں نے اسے مارنا شروع کردیا۔ ایک غلطی اس کی تھی اس کے بعد کا غلط کام مارنے والوں نے کیا۔ اسے پکڑ کر پولیس کے حوالے بھی کیا جاسکتا تھا۔ لیکن ایسا نہیں ہوا۔ ویسے سارے تو پولیس والے بھی دودھ کے دھلے نہیں ‘ خواجہ آصف پر سیاہی پھینکنے والے کو بھی پولیس کی جانب سے شدید تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ ایسا کیوں ہورہاہے، ایک دوسرے کو برداشت نہیں کیا جارہا۔ ایسے حالات میں اگر عمران خان فیصل آباد کے جلسے میں یہ کہیں گے کہ رانا ثنا ء اللہ کو مونچھوں سے پکڑ کر جیل میں ڈالوں گا تو کسی بھی لیگی کارکن کا جوتا پھینکا جاسکتا ہے۔
اس حوالے سے صدر مملکت نے بجا طور پر توجہ دلائی ہے کہ اختلافات کو نفرت میں بدلنے والا رویہ قوم کے لیے تباہ کن ثابت ہوگا۔ اختلاف شائستگی کی حد سے نکل جائے تو معاشرے میں فساد پھیل جاتا ہے۔ رواداری نہ رہی تو کسی فرد کی عزت محفوظ رہے گی نہ ادارے کی۔ رواداری سے مراد یہی تو ہے ناں کہ اگر کوئی اختلاف کررہاہے تو اس کو دلائل سے جواب دیا جائے، گالی گلوچ نہ کیا جائے۔ افسوس کا مقام تو یہ ہے کہ ہمارے سیاسی رہنما اور بعض دانشور مذہبی معاملات میں شان رسالتﷺمیں گستاخی کرنے والوں یا دینی شعائر کا مذاق اڑانے والوں کے جواب میں رواداری کا مطالبہ کرتے ہیں۔ رواداری کا مظاہرہ تو سیاست میں ہونا چاہیے۔ آخر ایک دوسرے سے شدید اختلاف رکھنے کے باوجود سینیٹ کے چیئرمین کے انتخاب میں جو کچھ کیا گیا اسے رواداری ہی تو کہا جانا چاہیے۔ پاکستان پیپلزپارٹی اور پاکستان تحریک انصاف ایک دوسرے کے حوالے سے اخلاقی دائروں سے کئی مرتبہ باہر نکل چکے تھے۔ لیکن چیئرمین سینیٹ کے انتخاب کے لیے ان دونوں جماعتوں نے سیاست کی۔ مخالفین اسے منافقت کہہ رہے ہیں لیکن سیاسی رہنماؤں کی سطح پر ذمے دارانہ رویے کی شدید کمی ہے۔
میاں نواز شریف، آصف زرداری کے بارے میں اور زرداری میاں صاحب کے بارے میں بات کرتے ہوئے بسا اوقات اخلاقی حدود عبور کرجاتے تھے۔ میاں شہباز شریف نے اسے زرداری نیازی گٹھ جوڑ قرار دیا ہے۔ اس رویے پر افسوس اور تنقید تو سب کررہے ہیں لیکن یہ رویہ جوتوں، سیاہی اور سینیٹ کے اجلاس میں ہاتھا پائی تک پہنچا کیوں ہے؟ اس کا سبب یہی رہنما ہیں۔ عدالت کے بارے میں جو زبان میاں نواز شریف، نہال ہاشمی وغیرہ استعمال کررہے ہیں اس کے نتیجے میں کسی بھی جگہ کوئی بھی ہاتھ چلادے گا۔ اس خدشے کا اظہار بھی کیا گیا ہے کہ ن لیگ کسی بھی وقت عدلیہ پر حملہ کرسکتی ہے۔ سیاسی رہنماؤں کے ساتھ ساتھ کارکنوں کو بھی سوچنا چاہیے کہ زرداری کو چوروں کا بادشاہ کہنے والے اس بادشاہ کے ساتھ اتحاد کرلیتے ہیں۔ عمران خان نے شیخ رشید کو اپنا چپراسی بھی نہ رکھنے کا جملہ کہا اور اب وہ ان کے دست راست اور چپ دونوں ہی ہیں۔ جب اوپر کی سطح پر اس طرح رواداری کا مظاہرہ کیا جارہاہے تو ہماری ان رہنماؤں سے درخواست ہے کہ اپنے جلسوں میں زور بیان دکھانے کے ساتھ ساتھ اخلاقیات کو ملحوظ رکھیں۔ ان کے زہریلے انداز اور جوش کو دیکھ کر ان کا کارکن اس سے زیادہ آگے بڑھ کر کچھ کہتا ہے یا کر گزرتا ہے۔
اے این پی کے رہنما اسفند یار ولی نے بھی رواداری کا خوب بیڑہ غرق کیا۔ جب کہ ان کے باچا خان تو عدم تشدد کے پرچارک تھے۔ کہتے ہیں کہ بہت جلد قوم کے ہاتھ عمران کے گریبان پر ہوں گے۔ جب لیڈر یہ کہے گا تو کوئی کارکن ایسا کربھی سکتا ہے۔ لیکن یہ لیڈر کہیں عمران خان سے بھی سمجھوتا کرلیتے ہیں۔ اس سیاسی دو رخی کو درست کرنے کی ضرورت ہے۔ سیاسی جلسوں میں ماحول گرمانے کا کام مرکزی رہنماؤں کا نہیں ہوتا انہیں اپنے الفاظ اور گفتگو میں احتیاط رکھنی ہوگی۔ جب ماحول اس قدر گرماکر بھی مْک مْکا کرنا ہے۔ سینیٹروں کو کسی فرضی یا سیاسی دشمن کی گود میں پھینکنا ہے تو پھر ماحول خراب نہ کیا جائے۔ اپنی زبان بھی سنبھالی جائے اور کارکنوں کو بھی حدود سے باہر نہ ہونے دیا جائے۔ ایسے حالات سے فائدہ تو کوئی اور اٹھاتا ہے۔
ا کی مدد سے کردوں نے قبضہ کیا ہے اس کے علاوہĤ─撚ģ
اصل سوال یہ ہے کہ حکومت کس کی ہے اور فیصلے کون کر رہا ہے، آئین کیخلاف قانون سازی کی جائے گی تو اس کا مطلب بغاوت ہوگا،اسٹیبلشمنٹ خود کو عقل کل سمجھتی رہی ،سربراہ جمعیت علمائے اسلام عمران خان سے ملاقاتوں کی اجازت نہ دینا جمہوری ملک میں افسوس ناک ہے، میں تو یہ سوال اٹھاتا ہوں وہ گ...
سہیل آفریدی اور ان کے وکیل عدالت میں پیش نہیں ہوئے،تفتیشی افسر پیش سینئر سول جج عباس شاہ نے وزیراعلیٰ پختونخوا کیخلاف درج مقدمے کی سماعت کی خیبر پختونخواہ کے وزیر اعلیٰ سہیل آفریدی کے خلاف ریاستی اداروں پر گمراہ کن الزامات اور ساکھ متاثر کرنے کے کیس میں عدم حاضری پر عدالت ن...
حکومت ایک نیا نظام تیار کرے گی، وزیرِ داخلہ کو نئے اختیارات دیے جائیں گے، وزیراعظم تشدد کو فروغ دینے والوں کیلئے نفرت انگیز تقریر کو نیا فوجداری جرم قرار دیا جائیگا،پریس کانفرنس آسٹریلوی حکومت نے ملک میں نفرت پھیلانے والے غیر ملکیوں کے ویزے منسوخ کرنے کی تیاریاں شروع کر دیں۔...
حملہ آور کا تعلق حیدرآباد سے تھا، ساجد اکرم آسٹریلیا منتقل ہونے کے بعدجائیداد کے معاملات یا والدین سے ملنے 6 مرتبہ بھارت آیا تھا،بھارتی پولیس کی تصدیق ساجد اکرم نے بھارتی پاسپورٹ پر فلپائن کا سفر کیا،گودی میڈیا کی واقعے کو پاکستان سے جوڑنے کی کوششیں ناکام ہوگئیں، بھارتی میڈی...
سہیل آفریدی، مینا آفریدی اور شفیع اللّٰہ کو اشتہاری قرار دینے کی کارروائی کی جا رہی ہے عدالت نے متعدد بار طلب کیا لیکن ملزمان اے ٹی سی اسلام آباد میں پیش نہیں ہوئے وزیرِ اعلیٰ خیبر پختون خوا سہیل آفریدی کو اشتہاری قرار دینے کی کارروائی شروع کردی گئی۔اسلام آباد کی انسدادِ...
سور کے سر اور اعضا رکھ دیے گئے، قبرستان کے دروازے پر جانوروں کی باقیات برآمد مسلم رہنماؤں کا حملہ آوروں کی میتیں لینے اوران کے جنازے کی ادائیگی سے انکار آسٹریلیا کے بونڈی بیچ پر حملے کے بعد سڈنی میں موجود مسلمانوں کے قبرستان کی بے حرمتی کا واقعہ سامنے آیا ہے۔جنوب مغربی س...
سڈنی دہشت گردی واقعہ کو پاکستان سے جوڑے کا گمراہ کن پروپیگنڈا اپنی موت آپ ہی مرگیا،ملزمان بھارتی نژاد ، نوید اکرم کی والدہ اٹلی کی شہری جبکہ والد ساجد اکرم کا تعلق بھارت سے ہے پاکستانی کمیونٹی کی طرف سیساجد اکرم اور نوید اکرم نامی شخص کا پاکستانی ہونے کا کوئی ثبوت نہیں ، حملہ ا...
پاکستان کے بلند ترین ٹیرف کو در آمدی شعبے کے لیے خطرہ قرار دے دیا،برآمد متاثر ہونے کی بڑی وجہ قرار، وسائل کا غلط استعمال ہوا،ٹیرف 10.7 سے کم ہو کر 5.3 یا 6.7 فیصد تک آنے کی توقع پانچ سالہ ٹیرف پالیسی کے تحت کسٹمز ڈیوٹیز کی شرح بتدریج کم کی جائے گی، جس کے بعد کسٹمز ڈیوٹی سلیبز...
میں قران پر ہاتھ رکھ کر کہتا ہوں میری ڈگری اصلی ہے، کیس دوسرے بینچ کو منتقل کردیں،ریمارکس جواب جمع کروانے کیلئے جمعرات تک مہلت،رجسٹرار کراچی یونیورسٹی ریکارڈ سمیت طلب کرلیا اسلام آباد ہائی کورٹ میں جسٹس طارق محمود جہانگیری کی ڈگری سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی، اسلام آباد ہائی...
سکیورٹی فورسز کی کلاچی میں خفیہ اطلاعات پر کارروائی، اسلحہ اور گولہ بارود برآمد ہلاک دہشت گرد متعدد دہشت گردانہ سرگرمیوں میں ملوث تھے۔آئی ایس پی آر سکیورٹی فورسز کی جانب سے ڈیرہ اسماعیل خان کے علاقے کلاچی میں خفیہ اطلاعات پر کیے گئے آپریشن میں 7 دہشت گرد مارے گئے۔آئی ایس...
کراچی رہنے کیلئے بدترین شہرہے، کراچی چلے گا تو پاکستان چلے گا، خراب حالات سے کوئی انکار نہیں کرتاوفاقی وزیر صحت کراچی دودھ دینے والی گائے مگر اس کو چارا نہیں دیاجارہا،میں وزارت کو جوتے کی نوک پررکھتاہوں ،تقریب سے خطاب وفاقی وزیر صحت مصطفی کما ل نے کہاہے کہ کراچی رہنے کے لیے ب...
ملک میں مسابقت پر مبنی بجلی کی مارکیٹ کی تشکیل توانائی کے مسائل کا پائیدار حل ہے تھر کول کی پلانٹس تک منتقلی کے لیے ریلوے لائن پر کام جاری ہے،اجلاس میں گفتگو وزیراعظم محمد شہباز شریف نے بجلی کی ترسیل کار کمپنیوں (ڈسکوز) اور پیداواری کمپنیوں (جینکوز) کی نجکاری کے عمل کو تیز کر...