وجود

... loading ...

وجود
وجود

حکمرانو!خُدارا گھاٹے کا سودا مت کرو

جمعه 09 مارچ 2018 حکمرانو!خُدارا گھاٹے کا سودا مت کرو

ٹیلی فون کہ بہت بڑا محکمہ ہے کو اونے پونے داموں بیرون ملک کی کمپنی “اتصالات”کوبیچ ڈالا گیا تھا یہ وہ محکمہ تھاجس کا ریونیو ہمارے ملک کے سالانہ بجٹ کا بیشتر حصہ پورا کرتا تھاکمپنی نے پہلی قسط کے بعد سے آج تک بقیہ70ارب روپے ادا نہیں کیے جو بھی حکمران آیا وہ اپنا”حصہ”وصول کر لیتا ہے اور کمپنی اصل رقم دینے سے ٹالم مٹول کرتی رہتی ہے غرضیکہ انکار ہی سمجھیں بلڈنگز اور محکمہ کی تنصیبات جس ریٹ پر بکیں وہ حکمرانوں سمیت ہم سب کے لیے شرم کا مقام ہے یعنی اصل قیمت سے دسواں حصہ بھی قیمت نہ لگی راوی بتاتے ہیں کہ حکمرانوں کا اس میں ایک خاص تناسب سے حصہ ہے ۔زرداری لیتے رہے اور شریفین بھی وصول کر رہے ہیں اب جب کہ موجودہ حکومت کے چل چلائو میں تقریباً تین ماہ رہ گئے ہیں تو گیس کمپنیوں ،واپڈا اور ا سٹیل ملز کی فروختگی کا ان پر بھوت سوار ہے اس کو بھی اونے پونے داموں نجکاری کے بہانے فروخت کرکے اربوں روپے نقد کسی بیرونی لیکس میں جمع کروالیں گے جو کہ آمدہ عام انتخابات2018میں ووٹوں کی خرید و فروخت کے کام آسکے گا۔

ویسے تو کسانوں کو ادھار رقم دینے کی ا سکیم کے اربوں روپے بھی اپنے من پسند افراد کو اپنے ہی کارکنوں کے ذریعے “حلف نامہ برائے ووٹ ” لیکر کسانوں کوادائیگی جاری ہے، اس طرح سے اپوزیشن خواہ جتنا بھی چیخے چلائے الیکشن سے پہلے بھی پری پول دھاندلی تو ہو رہی ہے جسے روکنے کا کوئی طریقہ دیگر جماعتوں کے پاس نہیں ہے، پھر کئی سال سے تو ایم این ایز ،ایم پی ایز، ووزراء کو منہ تک نہ لگا یا ہے اور اب انہیںفی ممبر عوامی ا سکیموں کے لیے کروڑوں روپے بانٹے جارہے ہیں تاکہ انتخابات کے دوران جس چک گوٹھ محلہ میں جائیں وہیں ان کی عوامی نام نہاد کمیٹیاں بنوا کرا سکیموں کی رقوم ان کی نظر کردیںوہ اسکیمیں کل کو مکمل ہوں یا نہ ہوں،پیسے تو ووٹ ڈلوانے والی ” مشینوں (کارکنوں)” کے پاس حصہ بقدر جسہ پہنچ جائیں گے۔

ایسے جی حضوریے کارکنوں کو ووٹ بذریعہ نوٹ کا طریقہ پہلے ہی خوب آتا ہے، سندھ میں پی پی پی کے پی کے میں پی ٹی آئی اور ن لیگ اب ایسے ہتھکنڈوں سے خوب واقف ہو چکی ہیں جس کا اظہار انہوں نے سینیٹ کے انتخابات میںخوب کیا ہے ،ملکی عدالتیں ،الیکشن کمیشن ،کہاں کہاں ٹانگ پھنسائیں؟ کہ جب سبھی سیاسی افراد ٹھگ ڈکیت کا روپ دھار لیں تو وہ کس کس کو پکڑ سکتے ہیں؟کہ” جمع پونجی” سے اعلیٰ فیسیں وکلاء کی نظر کرکے بالآخر مقدمات ہی التوا میں چلے جائیں گے اور سزا تو ہو ہی نہیں سکتی کہ ساری عدلیہ کے ججز بھی تو دووھ کے دھلے نہیںہیں۔

غرضیکہ ان کم قیمتوں پر گیس کمپنیوں ا سٹیل ملز اور واپڈا کی نجکار ی بھی کسی اپنے ہی “چیلے چانٹے ” کے نام کردیں گے اور اس سے اصل رقم کا خاصا حصہ وصول بھی کر لیں تو کون پوچھتا ہے سارے الیکشن کا خرچہ گیس کمپنیوں واپڈا اوراسٹیل ملز کی فروختگی /نجکاری سے حاصل ہو جائے گا اور ذاتی بیرونی ممالک کی مختلف لیکس میں پہلے سے جمع پونجی ویسے ہی ہنگامی حالات کے لیے محفوظ پڑی رہے گی زرادری صاحب کو بہرحال ذاتی جمع پونجی خرچ کرنا پڑے گی تبھی سندھ کے اندر سیاسی حالات جوں کے توں برقرار رہ سکیں گے جس کا انہیں سینٹ کے موجودہ انتخابات میں مکمل تجربہ حاصل ہو چکا ہے وہ جہاندیدہ سیاستدان ہیں اور زمانے کی سرد و گرم کو بخوبی سمجھتے ہیں اور سینٹ کے انتخابات کی طرح جہاں کے پی کے میں صرف سات ممبرز تھے وہاں سے بھی دو سینیٹ کی سیٹیں اڑاکر لے گئے ہیں ان کے “فرستادہ فرشتے “قابل ہیں اور خرید و فروخت کے سبھی ہتھکنڈوں سے بخوبی واقف بھی۔ “مال لگائو اور “تگنا چوگنا” کمائوکے فارمولے سے بخوبی واقف ہیں آخر ملک کے دوسرے بڑے سرمایہ دار یوں ہی نہیں بن گئے وہ دوستوں کو بھی نوازتے رہتے ہیں اور اپنا گھر بھی پورا کر لیتے ہیں۔

شریفین بھی اب ان سے کسی طرح کم نہیں ہیںکہ وہ بھی تھوڑے ممبر رکھنے کے باوجود کے پی کے سے دو سینیٹ کی سیٹیں “جیت” گئے اب ٹیلی فون کی طرح ہمارے مذکورہ قیمتی اثاثے بھی بک گئے تو ہمارے پلے کوئی اہم ادارہ باقی نہیں رہے گا پہلے ہی ائیر پورٹس اور سڑکیں تک قرضوں کی مد میں گروی پڑی ہیںعوام شک و شبہ میں مبتلا ہیں کہ کوئی پتہ نہیں پورا ملک ہی آہستہ آہستہ گروی رکھ کر کسی مودی نما دوست کے پاس انڈیایا دوسرے ملک کو نہ بھاگ جائیں مگر یاد رکھیں کہ شہنشائے ایران اربوں ڈالرز ،زیورات /نوادرات بھاگتے وقت ساتھ نہ لے جاسکا تھا بقیہ زندگی لوگوں کے ٹکڑوں پر گزاری اور موت پر کوئی ملک لاش دفنانے کو تیار نہ تھا اسی طرح صدام اور قذافی و دیگر آمروں کا حشر بھی ہمارے سامنے ہے کہ حرام ذرائع سے جمع پونجی بھی انہیں عبرتناک/ شرمناک موت سے نہ بچا سکی ۔

“ہر کمالے رازوالے ” کے مصداق اب بھی وقت ہے کے تاریک مستقبل سے بچنے کے لیے قیمتی اداروں کی اونے پونے داموں فروختگی/ نجکاری قطعاً بند کردو کہ یہی ہمارے بچوں اور نئی پود کے کام آئیں گے پھر یہ بھی تو سونچیںکہ بلیو لائن وزیر اعظم کی ملکیت میں منافع بخش ہے مگر پی آئی اے سرکاری ملکیت میں خسارے میں جارہی ہے شریفوں کی ذاتی سٹیل ملز منافع میں اور سرکاری ہاتھوں میںموجود اسٹیل ملز خسارے میں ہیں محسوس یہی ہوتا ہے کہ کم از کم یہ دو ادرے خود ہی کسی جعلی نام سے حکمرانوں کے پالتو تابعدار افراد ہی خرید لیں گے اور ہم منہ دیکھتے رہ جائیں گے کہ ہم عوام بدھو جو ہوئے کہ ان کی تابعداریاں کرنے کے لیے زندہ ہیں خواہ حکمران ہماری کھالوں کے جوتے ہی کیوں نہ تیار کرکے پہن لیں خدا دیکھ رہا ہے!آخری فیصلہ وہیں سے آئے گا خدائے عز وجل اپنی نظر کرم کریں گے اور ملک کے تمام مسالک فرقوں ،برادریوں ،علاقائی گروہوں کی پسندیدہ اللہ اکبر تحریک چلے گی جو انتخابات میں سبھی جغادری سیاستدانوںکا پولنگ اسٹیشنوں پر تیا پانچا کرڈالے گی اور ملک خوشحال ہو کر رہے گا ۔انشاء اللہ۔


متعلقہ خبریں


مضامین
پڑوسی اور گھر گھسیے وجود جمعه 29 مارچ 2024
پڑوسی اور گھر گھسیے

دھوکہ ہی دھوکہ وجود جمعه 29 مارچ 2024
دھوکہ ہی دھوکہ

امریکہ میں مسلمانوں کا ووٹ کس کے لیے؟ وجود جمعه 29 مارچ 2024
امریکہ میں مسلمانوں کا ووٹ کس کے لیے؟

بھارتی ادویات غیر معیاری وجود جمعه 29 مارچ 2024
بھارتی ادویات غیر معیاری

لیکن کردار؟ وجود جمعرات 28 مارچ 2024
لیکن کردار؟

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر