وجود

... loading ...

وجود
وجود

دنیا میں دجالیت کا نیا معاشی نظام ’’بٹ کوائن کرپٹو کرنسی‘‘

بدھ 07 مارچ 2018 دنیا میں دجالیت کا نیا معاشی نظام ’’بٹ کوائن کرپٹو کرنسی‘‘

(دوسری قسط)
شروع میں جس وقت بٹ کوائن کو متعارف کرایا گیا تھا تو اس کی ایک حد رکھی گئی تھی کہ21 ملین سے زیادہ بٹ کوائن متعارف نہیں کرائے جائیں گے اور اس تعداد کو 2140ء تک مکمل ہونا تھالیکن آج تک تقریبا 16ملین بٹ کوائن وجود رکھتے ہیں۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اس طلب کس تیزی کے ساتھ بڑھ رہی ہے۔ اس بات کو بھی مدنظر رکھیں کہ ضروری نہیں کہ ایک بٹ کوائن جس کی اس وقت قیمت تقریبا پاکستانی چھ لاکھ روپے ہے آپ پورا ایک بٹ کوائن ہی خریں بلکہ آپ اس کا کچھ حصہ بھی کرید سکتے ہیںاس بٹ کوائن کی اکائی ستوشی کہلاتی ہے یہ ایک مکمل گمنام یا anonymous کرنسی ہے جسے دنیا میں سوائے لین دین کرنے والے دو لوگوں کے کوئی کھوج نہیں کرسکتااس کی وجہ یہ ہے کہ اس کی تمام معلومات ایک جگہ جمع نہیں ہوتی بلکہ مختلف ڈیٹا بیس جنہیں BLOCKCHAIN بھی کہا جاتا ہے ان میں موجود ہوتی ہیںاس لیے کوئی بھی ہیکر کسی ایک سرور یا ڈیٹا بیس کو ہیک کرکے اس کا ڈیٹا نہیں چرا سکتا۔ کیونکہ جو افراد مائننگ کے ذریعے ریاضی حساب حل کرکے بٹ کوائن حاصل کرتے ہیں درحقیقت یہی ریاضی حساب بٹ کوائن کے وجود کا ریکارڈ ہوتا ہے جو دنیا کے مختلف حصوں میں مختلف لوگوں کے ذریعے جمع یا اسٹور کئے جاتے ہیں انہی حصوں کو بلاک چین BLOCKCHAIN کہا جاتا ہے جہاں بٹ کوائن کے تمام لین دین کا ڈیٹا اسٹور ہوتا ہے۔ جبکہ فیس بک، ٹویٹر اور دیگر سوفٹ وئرز کا ڈیٹا ایک ہی جگہ جمع ہوتا ہے جسے ہیک بھی کیا جاسکتا ہے۔ بلاک چین کو توڑنا یا اس تک رسائی حاصل کرکے ہیک کرنا تقریبا ناممکنات میں سے ہے اس طرح کسی کے بھی اون لائن والٹ (بٹوے) میں جہاںاس کے بٹ کوائن محفوظ ہوتے ہیںوہ اسے ایک پاس ورڈ لگاکر محفوظ رکھتا ہے اور جس سیل فون سے وہ یہ سب کچھ کام کررہا ہوتا ہے اس میں اس کی کوئی ذاتی معلومات اور موبائل نمبر موجود نہیں ہوتااس لیے کوئی کوشش کے باوجودکسی بھی بٹ کوائن استعمال کرنے والے کا کھوج نہیں لگاسکتا یہاں تک کہ جو شخص کسی کے ساتھ ٹریڈ کررہا ہے اسے بھی اس کا علم نہیں ہوسکتا۔

یہی وہ ’’خصوصیات‘‘ ہیں جن کا فائدہ اس وقت دنیا بھر کا مجرمانہ مافیا اٹھا رہے ہیں اس میں ڈرگ مافیا، سونے کا مافیا، انسانی اسمگلرز مافیا ۔ یوں اب منشیات، اغواء،بلیک میلنگ،اسلحے اور فواحش کی تمام ڈیل بٹ کوائن میں ہورہی ہے ۔مثال کے طور پر انٹر نیٹ پر سلک روڈ نامی ویب سائٹ میں منشیات اور اسمگلنگ کی ڈیل کی جاتی ہے۔نیٹ کی خفیہ دنیا ریڈ روم میں بھی بٹ کوائن دے کر داخل ہوا جارہا ہے اون لائن فواحش کے لیے بین الالقوامی سطح پر لڑکیوں کے گرو اس مقصد کے لیے کام کررہے ہیں۔اس دجالی کرنسی کی طلب اب اس لیے بڑھتی جارہی ہے کہ اسے مائن کرنا اب مشکل ہوتا جارہا ہے جبکہ اگر اس کرنسی کے استحکام کے حوالے سے بات کریں تو یہ نہ ہونے کے برابر ہے کیونکہ بٹ کوائن کی قیمت روز لچک دکھاتی ہے ایک وجہ یہ بھی ہے کہ دستیاب معلومات کے مطابق کوئی ادارہ یا بینک اسے کنٹرول نہیں کرتا۔اس لیے اس میں نقصان کے بارے میں کچھ نہیں کہا جاسکتا مثلا اگر ایک مرتبہ دس لاکھ روپے کے بٹ کوائن خریدے گئے ہیں تو ممکن ہے کہ اگلے روز اس کی قیمت پچاس ہزار رہ جائے جبکہ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس کی قیمت گرنے کے چانس کم ہیں!!

چونکہ یہ کرنسی فی الحال دنیا میں رائج بینکنگ نظام کے قوانین کے برخلاف استعمال ہورہی ہے اس لیے کچھ ملکوں میں اس پر پابندی لگا دی گئی ہے اور اس میں لین دین باقاعدہ ایک جرم تصور کیا جاتا ہے جولائی 2013ء میں سب سے پہلے اسے تھائی لینڈ میں مکمل طور پر بند کیا گیاتھا لیکن بعد میں اس کی شرائط میں کچھ نرمی کردی گئی۔ اسی طرح چین میں بینکوں کو مکمل طور پر بٹ کوائن میں لین دین سے روک دیا گیااسی طرح امریکا میں بھی… بھارت کے بارے میں بھی کہا جارہا ہے کہ جلد وہاں بھی اسے بند کیا جاسکتا ہے۔ اس لیے اسے ایک خطرہ قرار دینے والے یہ کہتے ہیں کہ چونکہ اس کی ملکیت کا کوئی دعویدار نہیں اس لیے کل اگر اسے اچانک بند کردیا گیا یا اس کے ڈیٹا بیس کو ہیک کرلیا گیا تو اس کا نقصان کون پورا کرے گا کس کے خلاف مقدمہ کیا جائے گا۔۔؟ جبکہ عام کرنسی کی ضمانت خود مرکزی بینک فراہم کرتا ہے کہ اگر اس کی مالیت نہ مانی گئی تو اس کا ذمہ دار مرکزی بینک ہوگا۔

مصر اور دیگر عرب ممالک سے تعلق رکھنے والے بعض محققین کا کہنا ہے کہ یہ تمام منصوبہ عالمی صہیونی سیسہ گروں کا گھڑا ہوا ہے جس کے ذریعے ایک چپ RFIDمتعارف کرانا ہے اس کا مطلبRadio Frequency Identificationہے دجالی منصوبے کے مطابق یہ ایک چھوٹی الیکٹرانک چپ ہوگی جسے انسان کے جسم میں داخل کردیا جائے گااس چپ میں انسان کی تمام ذاتی معلومات، پاسپورٹ، بینک اکائونٹس،تعلیمی ریکارڈ غرض ہر چیز اس میں محفوظ ہوگی۔ مثلا اگر اسD RFIچپ کے ہوتے ہوئے جب کوئی کسی کمپنی میں نوکری حاصل کرنے جائے گا تو اسے اسکین کرکے اس کا تمام ریکارڈ معلوم کرلیا جائے گا۔ خرید وفروخت کی شکل میں جب کوئی مارکیٹ جائے گا تو جس کے جس حصے میں یہ چپ موجود ہوگی اسے سکین کرا کر مطلوبہ اشیا کی قیمت کی ادائیگی اون لائن بینکنگ کے ذریعے ہوجائے گی اور اگر کسی نے اس سسٹم کے خلاف چلنے کی کوشش کی تو اسے دردناک صورتحال کا سامنا کرنا پڑے گااسے قید بھی کیا جاسکتا ہے اور اس RFIDکے ہوتے ہوئے اسے کھانے کی بھی کوئی شے میسر نہیں ہوگی۔کیونکہ ان دنوں کوئی بھی چیز خریدنے کا ایک ہی راستہ بچے گا اور وہ ہوگا RFID۔یہی اصل میں وہ نشان ہے جسے عالمی صہیونی دجالی لابی مارک آف دی بیسٹ کہتی ہے یعنی دجالیت کا نشان۔اس لیے بٹ کوائن کو سمجھنے کے لیے RFIDکے نظام کو سمجھنا بہت ضروری ہے اسی طرح اس کے پیچھے چھپا ہوا بھیانک منصوبہ تک آگاہی حاصل ہوسکتی ہے۔
(جار ی ہے)


متعلقہ خبریں


مضامین
صدر رئیسی کا رسمی دورۂ پاکستان اور مضمرات وجود جمعه 26 اپریل 2024
صدر رئیسی کا رسمی دورۂ پاکستان اور مضمرات

سیل ۔فون وجود جمعه 26 اپریل 2024
سیل ۔فون

کڑے فیصلوں کاموسم وجود جمعه 26 اپریل 2024
کڑے فیصلوں کاموسم

اسکی بنیادوں میں ہے تیرا لہو میرا لہو وجود جمعه 26 اپریل 2024
اسکی بنیادوں میں ہے تیرا لہو میرا لہو

کشمیری قیادت کا آرٹیکل370 کی بحالی کا مطالبہ وجود جمعه 26 اپریل 2024
کشمیری قیادت کا آرٹیکل370 کی بحالی کا مطالبہ

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر