... loading ...
کسی بھی جرم سے کمائی گئی دولت پہلے چھپائی جاتی ہے اور پھر اس کو صاف کرنے کی ضرورت ہوتی ہے، تاکہ عام استعمال میں لایا جا سکے۔ ترقی پذیر ممالک سے اس طرح کی دولت ترقی یافتہ ممالک میں خفیہ کھاتوں میں جمع کرادی جاتی تھی۔ بعد ازاں ان کھاتوں سے اس دولت کو مختلف ممالک اور کھاتوں میں منتقل کیا جاتا تھا تاکہ کسی کو ابتدائی صورت تک پہنچنا ناممکن ہو جائے۔ متعدد چکّروں کے بعد دولت کو صاف اور محفوظ سمجھا جاتا ہے اور عام استعمال میں لایا جاتا ہے۔ لانڈری کا لفظ صفائی کے عنوان سے آیا ہے کیونکہ ابتدائی صورت میں یہ دولت گندی اور ناپاک شکل میں ہوتی ہے۔ دنیا کے بڑے بڑے بینک باہمی طور پر ایک دوسرے سے اس بات میں مقابلہ کرتے تھے کہ کون اس قسم کے اثاثوں کو چھپانے، محفوظ اور خفیہ رکھنے اور انتقال کی آسانیوں اور سہولتوں سے بھرپور خدمات مہیا کرسکتا ہے۔ یہاں یہ بھی سمجھنے میں مشکل نہیں ہونی چاہیے کہ یہ دولت ٹیکس نظام سے بھی باہر ہوتی تھی لہذا ان ممالک کو اپنی ترقی کے لیے درکار وسائل کی کمی کا بھی سامنا رہتا تھا۔
80 کی دہائی میں جب یہ بیماری اتنی پھیل گئی کہ خود ترقی یافتہ ممالک کے شہریوں نے اسطرح کی خفیہ اور ٹیکس سے مستثنیٰ آمدنی اور دولت والے کھاتے کھولنا شروع کر دئیے اور ان کی ٹیکس وصولیوں میں کمی ہونے لگی تو اس کے تدارک کے لیے قانون سازی کا عمل شروع ہوا۔ امریکا نے سب سے پہلے 1986 میں اینٹی منی لانڈرنگ (Anti-Money Laundering) کا قانون بنایا اور بینکوں پر کھاتہ داروں کے لین دین کو خفیہ رکھنے کی سختی کو بھی کم کردیا۔ اس عمل کو وسیع کرنے کے لیے G-7 ممالک کے وزرائے خزانہ نے 1989 میں ایک نئی تنظیم کی بنیاد ڈالی جسے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (FATF)کہا جاتا ہے۔ یہ 34 ممالک پر مشتمل ہے اور اس کی ذیلی تنظیمیں علاقائی بنیادوں پر بنائی گئی ہیں۔ پاکستان ایشیا پیسفک گروپ (Asia Pacific Group(APG) کا ممبر ہے، جس میں آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ وغیرہ شامل ہیں۔ دنیا کے بیشتر بین الاقوامی ادارے بھی‘ فیٹف کے ساتھ مل کر کام کرتے ہیں‘ خصوصاً آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک، فیٹف شروع میں منی لانڈرنگ کو روکنے کے لیے اقدامات تجویز کرتی رہی اور ممبر ممالک ان پر عملدرآمد کے پابند ہوتے تھے۔ اس کی وضع کردہ تجاویز (Recommendations) وہ معیار بن چکے ہیں جن سے کسی بھی ملک کی اینٹی منی لانڈرنگ کی اہلیت کو پرکھا جاتا ہے، اور ان کی عدم موجودگی میں کسی بھی ملک کو بین الاقوامی مالی معاملات میں مشکلات کا سامنا ہوسکتا ہے۔ اس ضمن میں فیٹف نے ایک ماڈل قانون بنایا ہے جس میں منی لانڈرنگ کو نہ صرف ایک جرم قرار دیا گیا ہے بلکہ وہ تمام جرائم جن میں مالی منفعت (proceeeds of crime) شامل ہو، اس منفعت پر منی لانڈرنگ کا اضافی جرم بھی لگایا جائے گا۔ علاوہ ازیں یہ بھی اہتمام ضروری ہے کہ بینکنگ اور مالی نظام منی لانڈرنگ کے لیے استعمال نہ ہوسکے۔ لہٰذا ان تمام اداروں پر یہ قانونی پابندی ہے کہ نہ صرف اپنے کھاتہ داروں کے پس منظر کی اچھی طرح چھان بین کریں بلکہ ان کے لین دین پر کڑی نظر رکہیں اور اگر کوئی مشتبہ لین دین نظر آئے تو اس کی اطلاع ایک رپورٹ (STR) suspicious transaction reportکی شکل میں اس ادارے کو بھیجیں جسے فنانشل مانیٹرنگ یونٹ (financial monitoring unit (FMU)کہا جاتا ہے کو ارسال کریں۔ یہ ادارہ اس رپورٹ کو ان متعلقہ اداروں کو بھیجتا ہے جو ممکنہ جرم کی تحقیقات کرنے اور مقدمے قائم کرنے کے مجاز ہیں۔
9/11کے بعد فیٹف کو یہ ذمے داری بھی مل گئی کہ وہ دہشت گردی کے لیے مالی وسائل کی فراہمی کا سدباب کرے۔ بعدازاں اس میں وسیع تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں میں مالی معاونت کا بھی سدِباب کرنے کے اقدامات تجویز کرے۔ ایف اے ٹی ایف نے اپنے دائرے کو آہستہ آہستہ ساری دنیا میں پھیلا دیا ہے جو ایک مثبت تبدیلی ہے کیونکہ ترقی پذیر ممالک میں منی لانڈرنگ کی لعنت بہت نقصان دہ شکل اختیار کرتی جا رہی تھی۔ پاکستان نے اس کام کا آغاز نسبتاً تاخیر سے 2007 میں کیا جب ایک آرڈینینس کے ذریعے ماڈل قانون بنایا گیا، جو ایکٹ کی صورت میں 2010 میں نافذ ہوا۔ لہذا اس ابتدائی قانون میں کچھ خامیاں رہ گئی تھیں اور فیٹف ہم سے اس کی اصلاح کے تقاضے کرتا رہا۔ قانون میں فراہم کردہ جو فریم ورک بننا تھا اس میں بھی تاخیر ہوئی۔ علاوہ ازیں بہت سے جرائم کو منی لانڈرنگ کی فہرست میں شامل ہونا تھا اس میں بھی لیت و لعل سے کام لیا جا رہا تھا، خصوصاً ٹیکس قوانین کے جرائم میں منی لانڈرنگ کو شامل کرنے کے کی سخت مخالفت ہوتی رہی۔
سچی بات یہ ہے کہ اس قانون کی سیاسی اور انتظامی مخالفت بھی پْر زور تھی کیونکہ اس کے تحت جرائم کی نئی تعریفیں اور ان کی سزائیں تجویز ہو رہی تھیں اور ایسے کاموں پر جو کاروباری اور سماجی زندگی میں عموماً کرتے رہتے ہیں۔ ایک اور علاقہ جس میں ہم نے مطلوبہ سرعت سے کام نہیں کیا وہ دہشت گردی میں استعمال ہونے والے وسائل کو روکنا اور دہشت گردی کے واقعات میں مالی معاونت منی لانڈرنگ کے جرائم کی شمولیت۔ ان کوتاہیوں کا بالآخر یہ نتیجہ نکلا کہ 2012 میں پاکستان کو ان ممالک کی فہرست (واچ لسٹ) میں شامل کردیا گیا جن کیساتھ معاملات میں منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کی معاونت کے خطرات موجود ہیں۔ یہ ایک افسوسناک صورتحال تھی اور اس کا تدارک ضروری تھا۔ موجودہ حکومت نے اپنی مدت کے آغاز میں ان معاملات کو سنجیدگی سے حل کرنے کی کوشش کی۔ سب سے پہلے دہشت گردی کے قانون میں ترمیم کرکے مالی معاونت کا جرم شامل کرنا لازمی کردیا۔ پھر سلامتی کونسل کی قرارداد میں جن تنظیموں اور افراد کو دہشت گرد قرار دیا گیا ہے ان کے کھاتوں کو ضبط کرنا لازمی کردیا اور مالی نظام میں ان کی شرکت پر پابندی لگادی۔ جرائم کی فہرست، جن میں منی لانڈرنگ کا جرم بھی شامل ہوگا، اس کو مزید وسیع کردیا۔ سب سے اہم بات یہ کہ ٹیکس نظام سے وابستہ جرائم جن کو استثنیٰ حاصل تھا وہ بھی ختم کردیا گیا۔ ان اصلاحات کے بعد قانون اور فریم ورک سے متعلق کمزوریاں بھی دور کردی گئیں اور اب بات ان کے موثر نفاذ اور مستقل نگرانی کی طرف منتقل ہوگئی۔ لہذا 2015 میں پاکستان کو واچ لسٹ سے نکال دیا گیا اس تاکید کیساتھ کہ کمزوریوں کو دور کرنے کے لیے موثر اقدامات کیے جائیں۔
ان کمزوریوں کو دور کرنے کے لیے دو اہم اقدامات ضروری تھے۔ ایک یہ کہ دہشت گرد تنظیموں اور افراد کے مالی نظام سے باہر اثاثوں کو ضبط کرنا، ان کے چندہ جمع کرنے پر پابندی لگانا اور دیگر فلاحی کاموں کی سختی سے نگرانی اور روک تھام کرنا، ان پر سفری پابندیوں کا اطلاق اور ان کو غیر مسلح کرنا۔ دوسرا اندرونی صلاحیتوں کو پیدا کرنا تاکہ ھمارے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے افسران اس قابل ہوجائیں کہ وہ دہشت گردی کی مالی معاونت کرنے والے جرم کی تحقیقات کرسکیں اور اس پر سزا دلواسکیں۔ یہ ایک پیچیدہ مسئلہ ہے کیونکہ ہماری پولیس عموماً دہشت گرد اور اس کی معاونت تک تحقیق کرتے ہیں لیکن کس طرح اس نے وسائل حاصل کیے اور کیونکر مالی نظام کو اس کی خبر نہ ہوئی، ان سوالات کو جاننے کی صلاحیت ان میں نہیں ہے۔ پاکستان میں اب یہ صلاحیت پیدا ہونا شروع ہوگئی ہے اور ایک مرکزی مقام پر اس سے متعلق معلومات بھی جمع کی جا رہی ہیں۔ NECTA نہ صرف ان دہشت گرد تنظیموں اور افراد سے متعلق معلومات اکٹھی کر رہا ہے بلکہ ان پر قائم مقدمات اور ان میں پیشرفت پر بھی نظر رکھ رہا ہے۔
APG نے بھی تحقیقاتی صلاحیتوں کے فروغ کے لیے ٹریننگ کی سہولتیں فراہم کی ہیں۔ لیکن ہمارا مسئلہ پہلا قدم رہا ہے، جہاں صوبائی اور وفاقی اختیارات کی تقسیم آڑے آتی ہے۔ مالی نظام کیونکہ وفاقی حکومت کی ذمہ داری ہے لہٰذا یہاں دہشت گرد قرار دی گئی تنظیموں اور افراد کے اثاثے منجمد کرنا اور ان کو اس نظام تک رسائی سے روکنا کچھ مشکل نہ تھا اور یہ بہت پہلے کردیا گیا تھا۔ لیکن ان کے دیگر اثاثوں تک پہنچنا، ان کو غیر مسلح کرنا، سفری پابندیاں لگانا اور چندہ جمع کرنے سے روکنا، صوبائی حکومتوں کے اختیار میں تھا۔ یہاں بھی اصل مسئلہ صرف ایک تنظیم اور اس سے وابستہ ایک ذیلی تنظیم کا ہے اور وہ جماعت الدعوہ اور فلاح انسانیت فائونڈیشن ہے۔ ان کے خلاف اقدامات اٹھانے کے باوجود ان کی سرگرمیاں جاری رہیں اور ہمارے خلاف فیٹف میں منفی رجحانات بڑھنے لگے۔
بالآخر فیٹف کے حالیہ اجلاس سے پہلے دہشت گردی کے قانون میں ایک صدارتی آرڈیننس کے ذریعے ترمیم کرکے صوبائی حکومتوں کو پابند کردیا گیا کہ ان کیخلاف متعلقہ اقدامات کو یقینی بنایا جائے۔ اس ترمیم نے مخالفین کے عزم و حوصلے کو یقیناً پست کیا ہوگا اور ان کی یہ کوشش کہ پاکستان کا نام حالیہ اجلاس میں واچ لسٹ میں دوبارہ شامل ہوجائے وہ فوری طور پر نہیں ہو سکا۔ لیکن جو خبریں موصول ہو رہی ہیں اور خصوصاً مشیر خزانہ ڈاکٹر مفتاح اسماعیل نے ایک انٹرویو میں جو باتیں بتائی ہیں، ان سے لگتا ہے کہ خطرہ ابھی ٹلا نہیں ہے۔ دوسری جانب گزشتہ روزترجمان دفترخارجہ ڈاکٹرنے بھی ہفتہ واربریفننگ کے دوران اس بات کی تصدیق کردی ہے کہ جون میں پاکستان کانام گرے لسٹ میں شامل ہونے کاامکان ہے۔ لہٰذا ہمیں کسی غفلت کا شکار نہیں ہونا چاہیے اور اپنے نظام کو مزید موثر بنانا چاہیے۔ لیکن ہمیں اس حقیقت کو بھی سمجھنا ہوگا کہ ہم پر جو دباو ڈالا جا رہا ہے وہ صرف اس نظام کی اصلاح سے وابستہ نہیں ہے بلکہ اس کے پیچھے دیگر مقاصد کا حصول بھی کارفرما ہے۔ امریکا نے جس انداز میں فیٹف کے اجلاس سے پہلے واشنگٹن میں پریس کانفرنس کرکے یہ اعلان کیا کہ وہ پاکستان کیخلاف اجلاس میں قرارداد لائے گا اور اس کے بعد بھارت میں ایک ہیجانی کیفیت پیدا کی گئی کہ پاکستان پر کوئی تباہی آنے والی ہے، وہ اس اسکیم کو واضح کر دیتے ہیں کہ ہم پر جو دبائو بڑھایا جا رہا ہے اس کا آغاز صدر ٹرمپ کی صدارت سے شروع ہوا ہے اور یہ کہ اس سے بھارت کی خوشنودی بھی مطلوب ہے۔ اس دفعہ خوف و ہراس کی فضا پیدا کرنے کی کوشش بھی ہو رہی ہے، حالانکہ اگر ایسا ہو بھی جاتا ہے تو ہم ماضی میں بھی اس امتحان سے گزر چکے ہیں اور اس دفعہ بھی دنیا کو ثابت کرکے دکھائیں گے کہ پاکستان بین الاقوامی برادری کا ایک ذمہ دار ملک ہے جہاں آئین اور قانون کی حکمرانی ہے نہ کہ دہشت گردی اور منی لانڈرنگ کی کوئی آماجگاہ۔ اللہ تعالیٰ پاکستان کو اس آزمائش میں سرخرو فرمائیں۔
اصل سوال یہ ہے کہ حکومت کس کی ہے اور فیصلے کون کر رہا ہے، آئین کیخلاف قانون سازی کی جائے گی تو اس کا مطلب بغاوت ہوگا،اسٹیبلشمنٹ خود کو عقل کل سمجھتی رہی ،سربراہ جمعیت علمائے اسلام عمران خان سے ملاقاتوں کی اجازت نہ دینا جمہوری ملک میں افسوس ناک ہے، میں تو یہ سوال اٹھاتا ہوں وہ گ...
سہیل آفریدی اور ان کے وکیل عدالت میں پیش نہیں ہوئے،تفتیشی افسر پیش سینئر سول جج عباس شاہ نے وزیراعلیٰ پختونخوا کیخلاف درج مقدمے کی سماعت کی خیبر پختونخواہ کے وزیر اعلیٰ سہیل آفریدی کے خلاف ریاستی اداروں پر گمراہ کن الزامات اور ساکھ متاثر کرنے کے کیس میں عدم حاضری پر عدالت ن...
حکومت ایک نیا نظام تیار کرے گی، وزیرِ داخلہ کو نئے اختیارات دیے جائیں گے، وزیراعظم تشدد کو فروغ دینے والوں کیلئے نفرت انگیز تقریر کو نیا فوجداری جرم قرار دیا جائیگا،پریس کانفرنس آسٹریلوی حکومت نے ملک میں نفرت پھیلانے والے غیر ملکیوں کے ویزے منسوخ کرنے کی تیاریاں شروع کر دیں۔...
حملہ آور کا تعلق حیدرآباد سے تھا، ساجد اکرم آسٹریلیا منتقل ہونے کے بعدجائیداد کے معاملات یا والدین سے ملنے 6 مرتبہ بھارت آیا تھا،بھارتی پولیس کی تصدیق ساجد اکرم نے بھارتی پاسپورٹ پر فلپائن کا سفر کیا،گودی میڈیا کی واقعے کو پاکستان سے جوڑنے کی کوششیں ناکام ہوگئیں، بھارتی میڈی...
سہیل آفریدی، مینا آفریدی اور شفیع اللّٰہ کو اشتہاری قرار دینے کی کارروائی کی جا رہی ہے عدالت نے متعدد بار طلب کیا لیکن ملزمان اے ٹی سی اسلام آباد میں پیش نہیں ہوئے وزیرِ اعلیٰ خیبر پختون خوا سہیل آفریدی کو اشتہاری قرار دینے کی کارروائی شروع کردی گئی۔اسلام آباد کی انسدادِ...
سور کے سر اور اعضا رکھ دیے گئے، قبرستان کے دروازے پر جانوروں کی باقیات برآمد مسلم رہنماؤں کا حملہ آوروں کی میتیں لینے اوران کے جنازے کی ادائیگی سے انکار آسٹریلیا کے بونڈی بیچ پر حملے کے بعد سڈنی میں موجود مسلمانوں کے قبرستان کی بے حرمتی کا واقعہ سامنے آیا ہے۔جنوب مغربی س...
سڈنی دہشت گردی واقعہ کو پاکستان سے جوڑے کا گمراہ کن پروپیگنڈا اپنی موت آپ ہی مرگیا،ملزمان بھارتی نژاد ، نوید اکرم کی والدہ اٹلی کی شہری جبکہ والد ساجد اکرم کا تعلق بھارت سے ہے پاکستانی کمیونٹی کی طرف سیساجد اکرم اور نوید اکرم نامی شخص کا پاکستانی ہونے کا کوئی ثبوت نہیں ، حملہ ا...
پاکستان کے بلند ترین ٹیرف کو در آمدی شعبے کے لیے خطرہ قرار دے دیا،برآمد متاثر ہونے کی بڑی وجہ قرار، وسائل کا غلط استعمال ہوا،ٹیرف 10.7 سے کم ہو کر 5.3 یا 6.7 فیصد تک آنے کی توقع پانچ سالہ ٹیرف پالیسی کے تحت کسٹمز ڈیوٹیز کی شرح بتدریج کم کی جائے گی، جس کے بعد کسٹمز ڈیوٹی سلیبز...
میں قران پر ہاتھ رکھ کر کہتا ہوں میری ڈگری اصلی ہے، کیس دوسرے بینچ کو منتقل کردیں،ریمارکس جواب جمع کروانے کیلئے جمعرات تک مہلت،رجسٹرار کراچی یونیورسٹی ریکارڈ سمیت طلب کرلیا اسلام آباد ہائی کورٹ میں جسٹس طارق محمود جہانگیری کی ڈگری سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی، اسلام آباد ہائی...
سکیورٹی فورسز کی کلاچی میں خفیہ اطلاعات پر کارروائی، اسلحہ اور گولہ بارود برآمد ہلاک دہشت گرد متعدد دہشت گردانہ سرگرمیوں میں ملوث تھے۔آئی ایس پی آر سکیورٹی فورسز کی جانب سے ڈیرہ اسماعیل خان کے علاقے کلاچی میں خفیہ اطلاعات پر کیے گئے آپریشن میں 7 دہشت گرد مارے گئے۔آئی ایس...
کراچی رہنے کیلئے بدترین شہرہے، کراچی چلے گا تو پاکستان چلے گا، خراب حالات سے کوئی انکار نہیں کرتاوفاقی وزیر صحت کراچی دودھ دینے والی گائے مگر اس کو چارا نہیں دیاجارہا،میں وزارت کو جوتے کی نوک پررکھتاہوں ،تقریب سے خطاب وفاقی وزیر صحت مصطفی کما ل نے کہاہے کہ کراچی رہنے کے لیے ب...
ملک میں مسابقت پر مبنی بجلی کی مارکیٹ کی تشکیل توانائی کے مسائل کا پائیدار حل ہے تھر کول کی پلانٹس تک منتقلی کے لیے ریلوے لائن پر کام جاری ہے،اجلاس میں گفتگو وزیراعظم محمد شہباز شریف نے بجلی کی ترسیل کار کمپنیوں (ڈسکوز) اور پیداواری کمپنیوں (جینکوز) کی نجکاری کے عمل کو تیز کر...