... loading ...
لیاقت علی عاصمؔ کے اَب تک سات شعری مجموعے شائع ہوچکے ہیں۔ وہ ۱۹۸۰ ء کی دہائی میں اُبھرنے والے نوجوان شعراء کی صف سے تعلق رکھتے ہیں۔ انھوں نے سنجیدگی اور تسلسل کے ساتھ لکھا ہے اور تخلیق کا یہ عمل اب بھی جاری ہے۔ میں اُنھیں اس وقت سے جانتا ہوں جب وہ جامعہ کراچی میں ایم اے(اُردو) کے طالب علم تھے۔ ان کی شاعری کا پورا منظر نامہ میری نگاہ کے سامنے ہے۔
عاصمؔ نے جس زمانے میں غزل اور محض غزل کو تخلیق کا ذریعہ بنایا اُس وقت کراچی اور بعض دیگر شہروں میں بھی شاعری کے ذیل میں نئے نئے تجربات یا تو ہوچکے تھے یا ہورہے تھے۔مثلاً اینٹی غزل، رومانی غزل، غیر رومانی غزل(جسے بعض شعراء نے عوامی غزل کا بھی نام دیا) لسانی تشکیلات اور نظم کی دنیا میں نثری نظم اور ہائیکو وغیرہ کا چرچا زیادہ تھا۔ لیاقت علی عاصمؔ ان تمام رجحانات و میلانات سے آگاہ رہے۔ لیکن اُن کے اظہار کا وسیلہ غزل ہی رہی۔
غزل چاہے میں خود لکھوں یا دوسرے شعراء کی غزلوں کا مطالعہ کروں۔ بہرصورت یہی اندازہ ہوتا ہے کہ غزل بہت آسان صنفِ سخن بھی ہے اور بہت مشکل بھی۔ آسان تو یوں ہے کہ بنے بنائے مضامین کو قافیے ردیف کی پابندی سے کہتے چلے جائیے۔ آپ پر اس کی کوئی ذمے داری نہیں کہ قاری یا سامع اس سے متاثر ہوتا ہے یا نہیں۔بلکہ زیادہ تر تو اس شعر کے مصداق ساری شاعرانہ کاوش آئینہ ہوجاتی ہے:
سارا دیوانِ زندگی دیکھا
ایک مصرع نہ انتخاب ہُوا
غزل کا دوسرا رُخ یہ ہے کہ جو اُس عمومی اور خصوصی جینئس(GENIUS)سے تخلیقی طورپرقریب ہیں جو ہماری غزل کی روایت میں صرف ہوئی ہے۔ ان کے یہاں انہی کلاسیکی استعاروں،تشبیہوں اورعلامتوں میں تازہ کاری کی مثالیں مل جاتی ہیں۔
میں غزل کو ایک منظر بیں یا (Keiladoscope)سمجھتاہوں جس میں چند رنگین شیشوں کے ٹکڑے بند ہوتے ہیں۔ انھیں ہلاتے اور دیکھتے جائیے۔ انھیں چند ٹکڑوں سے نت نئے مرقع اور ڈیزائن سامنے آتے چلے جائیں گے۔ ایک اچھے غزل گو کی پہچان یہی ہوتی ہے کہ وہ غزل کی نزاکتوں کو کتنا جانتا اور انھیں کس طرح برتتا ہے۔ شاعری میں تجربے یقیناً بہت اہمیت رکھتے ہیں لیکن بسا اوقات دیکھا گیا ہے کہ جدّت طرازی یا دوسروں سے مختلف نظر آنے کے شوق میں شاعری کے نام پر ایسے تجربات بھی کیے جاتے ہیں جن کے نتیجے میں تجربات تورہ جاتے ہیں،شاعری غائب ہوجاتی ہے۔ شاعری میں اگر شاعری یا شعریت ہی نہیں ہے توپھر اس پر توجہ دینے کی ضرورت ہی کیا ہے۔
لیاقت علی عاصمؔ نے غزل کی تخلیق میں اس امر کو اہمیت دی ہے کہ تازہ کاری کے ساتھ ساتھ شعریت اور تخلیقی جمالیات کے عناصر بھی موجود رہیں۔ عاصمؔ کے چندشعردیکھیے:
میرے چہرے میں کسی اور کا چہرہ تو نہیں
جانے وہ کس کی رعایت سے مجھے دیکھتا ہے
لغت اور زبان کے رموز سے آگاہی رکھنے والے ہی اس شعر میں لفظ ’’رعایت‘‘ کی معنویت کو محسوس کرسکتے ہیں۔پھر بعض اوقات مسلّمات کو توڑ کر ایک نیا زاویہ یوں پیدا کیا ہے:
ورنہ سقراط مرگیا ہوتا
اُس پیالے میں زہر تھا ہی نہیں
فن کسی نوعیت کابھی ہواس میں کشش اور تازہ کاری فن کا ر ہی پیدا کرتا ہے صرف موضوع کوئی معنی نہیں رکھتا۔ میرے اس خیال کی تائید بعض برگزیدہ شعراء کے ان اظہارات سے بھی ہوسکتی ہے:
مصرع کبھوکبھو کوئی موزوں کروں ہوں میں
کس خوش سلیقگی سے جگر خوں کروں ہوں میں
(میرتقی میرؔ)
قطرۂ خونِ جگر سِل کو بناتا ہے دل
(اقبالؔ)
تمہی بتاؤ زیادہ اہم ہے کون ان میں
شکنتلا کی جوانی کہ کالیداس کا فن
(فراقؔ گورکھپوری)
اور حقیقت بھی یہی ہے کہ ہیلن،قلوپطرااور شکنتلا سے بھی زیادہ حسین عورتیں دنیا میں پیدا ہوئی ہوں گی لیکن انھیں دوام بخشا ہے بڑے فنکاروں نے۔ بقول مجروحؔ سلطانپوری:
دہر میں مجروحؔ کوئی جاوداں مضموں کہاں
میں جسے چھوتا گیا وہ جاوداں بنتا گیا
لیاقت علی عاصمؔ کراچی کے باشندے ہیں۔ کراچی بحیرۂ عرب کے ساحل پر واقع ہے۔ اس لیے اس شہر کے لوگ سمندر سے بھی اپنا ایک جذباتی اور ذہنی رشتہ رکھتے ہیں۔ اور لیاقت علی عاصمؔ تو اس لحاظ سے منفرد ہیں کہ وہ اس ساحلی شہر سے ملحق ایک جزیرے ’’منوڑا‘‘ میں پیدا ہوئے۔ گویا اُن کا تعلق سمندر سے اکتسابی نہیں ہے بلکہ وہ سمندر سے قربت کے نت نئے تجربوں سے گزرتے رہے جبھی تو انھوں نے اپنے ایک شعری مجموعے کو’’آنگن میں سمندر‘‘ سے موسوم کیا۔ سمندر عاصمؔ کے لیے ایک بنیادی علامت (ARCHETYPE) بن گیا ہے۔ تاہم یہی ان کی شاعری کا مرکزومحور نہیں ہے جیسے انگریزی زبان کے بعض شاعر’’سمندری شاعر‘‘(SEA POETS) کہلاتے ہیں۔ عاصمؔ نے زندگی کے ہر رنگ اورہرروپ کو کھلی آنکھوں سے دیکھا ہے اور وہ اسے شعرکے جمالیاتی پیکر میں ڈھالنے کا سلیقہ رکھتے ہیں۔
میں ۲۰۱۵ء میں امریکا کے نواورکینیڈا کے دوشہروں میں علی گڑھ یونیورسٹی المنائی فیڈریشن کی دعوت پر اپنے جشن،مشاعروں اور مذاکروں کے سلسلے میں گیا ہوا تھا۔ ہندوستان سے سنیل کمار تنگ(بہار)طاہر فراز (رام پور) اور راجیش ریڈی (بمبئی) بھی سارا وقت ہمارے ساتھ تھے۔ وہ اکثر باتوں باتوں میں پاکستان کے قابلِ ذکر شعراء کی بابت گفتگو چھیڑ دیتے تھے۔ میں نے چند دیگر شعراء کے علاوہ ہرجگہ لیاقت علی عاصمؔ کا تذکرہ کیا کہ وہ شاعری کے بارے میں بہت سنجیدہ ہیں۔ تسلسل سے لکھ رہے ہیں۔ ان کے اب تک سات شعری مجموعے منظر عام پر آچکے ہیں۔ ان میں کئی جگہ ندرت اور تازہ کاری دامنِ توجہ کو کھینچ لیتی ہے۔ عاصمؔ کے کئی شعر جو مجھے یاد تھے،میں نے اُنھیں سنائے بھی۔ پھر میں نے یہ کہا کہ غزل کی بات تو درمیان میں آتی ہی ہے لیکن عاصمؔ کی تازہ کاری کی مثال ایک ہائیکو سے بھی دی جاسکتی ہے:
تتلی کی ہے بھول
شیشہ توڑ کے چومے گی
پیپر ویٹ کا پھول
اس پر سب نے بے اختیار داد دی۔
اصل میں ہر شاعر کا ایک مزاج اور پسندیدہ اُسلوب ہوتا ہے۔لیاقت علی عاصمؔ کا یہ کہنا کچھ معنی رکھتا ہے :
عجیب شخص ہے غالبؔ کہ یوں ملا عاصمؔ
کہ معاملہ نہ رہا میرؔ و مصحفیؔ سے مجھے
یہ شعر عاصمؔ کے مجموعے’’آنگن میں سمندر‘‘سے لیا گیا ہے جو نومبر۱۹۸۸ء میں شائع ہُوا تھا۔ عاصم ؔ۱۴؍ اگست ۱۹۵۱ء کو پیدا ہوئے۔ ۱۹۶۵ء سے شعرکہہ رہے ہیں۔ ۱۹۷۰ء میں ان کا پہلا شعری انتخاب ’’سبدُِگل‘‘ کے نام سے شائع ہُوا۔گویا ابتدائی برسوں ہی میں طے ہوگیا کہ انھیں طرزِ غالبؔ سے مناسبتِ طبع حاصل ہے۔ لیکن یہاں بھی انھوں نے غالبؔ سے مضامین اور پروازِ تخیل کا اثر قبول نہیں کیا بلکہ اپنے فکروتجربہ کے جمالیاتی نظام میں رہتے ہوئے فطری اور وجدانی اظہارپر توجہ مرکوز رکھی۔
اردو شاعری،خصوصاً غزل پر ہراعتبار سے فارسی کے اثرات ہیں۔ اب بھی اس کے بیش تر لوازم فارسی ہی سے ہم رشتہ نظر آتے ہیں۔ خصوصاً محبوب کے لیے تذکیر کا صیغہ۔ حالانکہ ابتدائی دور میں ہندی شاعری کے زیر اثر امیرخسروؔ کے یہاں اور آگے چل کر ولیؔدکنی کی غزل میں ثانیت کا صیغہ استعمال ہوا ہے:
مت عشق کے شعلے سُوں جلتی کو جلاتی جا
ٹک مہرکے پانی سُوں یہ آگ بجھاتی جا
تجھ مکھ کی پرستش میں گئی عمر مری ساری
اے ُبت کی پُجن ہاری اس مکھ کو پجاتی جا
حالیؔ نے پُرزور الفاظ میں اس کمزوری کی جانب اپنے مقدے میں تنقید کی ہے کہ اس طرح کے اظہارات’’نیچرل شاعری‘‘ اور’’نیچرل تجربات‘‘ کے منافی ہیں۔ شاید اسی لیے بھی اردو کی مثنویات کا ازسرنومطالعہ کیا گیا اور پھر:
یہی وادی ہے اے ہمدم جہاں ریحانہ رہتی تھی
ترا جسم اک ہجومِ ریشم و کمخواب ہے سلمیٰ
(اخترشیرانی)
اے مری ہم رقص مجھ کو تھام لے
زندگی سے بھاگ کر آیا ہوں میں
ڪ(ن۔م۔راشد)
صندلی ہات پہ دھندلی سے حنا کی تحریر
ہائے اس جسم کے کم بخت دلآویز خطوط
(فیض احمدفیضؔ)
بندکمرے میں مرے خط جو جلائے ہوں گے
ایک اک نقش محبت ابھر آیا ہوگا
سر نہ کاندھے سے سہیلی کے نہ اٹھایا ہوگا
(کیفی اعظمی)
جیسے بے شمار اشعار نظم گوئی کی بدولت،جذبات و تجربات کے صحیح رُخ کی طرف متوجہ ہوئے۔ لیاقت علی عاصمؔ کی پوری غزل اس رجحانات کی آئینہ دار ہے:
اکثر اپنے قدوقامت سے بڑی لگتی ہوتم
دھوپ بھی لگتی ہوتم دیوار بھی لگتی ہوتم
کتنی سادہ، کتنی گم سم اپنے ہر انداز میں
شہر کی ہوتے ہوئے بھی گاؤں کی لگتی ہو تم
اس کے بعد براہِ راست ایسا اظہار تو عاصمؔ کی غزلوں میں نہیں ملا لیکن تلازمات اور استعارے ایک نسائی پیکر ہی کی گواہی دیتے ہیں۔ حسرتؔ موہانی نے بھی غزل کے محبوب کو بزم سے اٹھاکر گھر کی چھت تک بلا لیا تھا:
دوپہر کی دھوپ میں میرے بلانے کے لیے
وہ ترا کوٹھے پہ ننگے پاؤں آنا یاد ہے
حالیؔ نے ملٹنؔ کے قول سے استفادہ کرتے ہوئےSENSOUSکا ترجمہ جوش کیا تھا جو شایدان کے معاشرتی،افادی اور اصلاحی جذبے کی نمائندگی کرتا ہو۔ لیکن یہ ّحسیاتی یا احساسی کیفیات کے اظہار کا نام ہے۔ اس میں موضوع سے زیادہ تخلیق کار کے ہنر اور اس کی صداقتِ اظہار اہمیت رکھتی ہے۔ تو شاعر اپنے اظہار کے سلیقے اور جمالیاتی رکھ رکھاؤ سے پہچان جاتااور اس کے موضوع کو اہمیت بھی اس کی نادرہ کاری اور تخلیقی ہنرمندی سے حاصل ہوتی ہے۔
لیاقت علی عاصمؔ کے عام موضوعات پر زیادہ لکھا گیا ہے لیکن ان کی غزل میں جسمانی جمالیات اور احساسی تجربات کے بارے میں شاید کم لکھا گیا ہے۔ حالانکہ ان کے ساتوں شعری مجموعوں میں تنوع کے ساتھ اس انداز کے اشعار کی تعداد اچھی خاصی ہے۔ خاص طور سے ان کی کتاب’’رقصِ وصال‘‘ سے ان رجحانات کا سلسلہ آگے بڑھاہے:
کوئی آس پاس نہیں رہا تو خیال تیری طرف گیا
مجھے اپنا ہاتھ بھی چھوگیا تو خیال تیری طرف گیا
٭٭٭
مے کو مے خوار سمجھتا ہے، سبو کیا جانے
تجھ میں جو نشّہ ہے اُس نشّے کو تُو کیا جانے
٭٭٭
میں طلسمِ حسن میں کھوچکا مرا کیا نشاں مرا کیا پتا
ترا خواب دے مجھے راستہ تو میں آؤں اپنے خیال میں
لیاقت علی عاصمؔ کے کلا م کے یہ پہلو میں نے خاص طورپر اُجاگر کیے ہیں۔ ان کے یہاں وہ تمام موضوعات بھی اشعار میں بڑی خوبی سے ڈھلے ہیں جن سے ہمارے عہد اور ہمارے عوام کو شب وروز گزرنا اور سہنا ہوتا ہے۔ چونکہ ساتوں شعری مجموعوں کا یہ’’کلیات‘‘ شائع ہورہا ہے اس لیے مثالوں سے گریز کر رہا ہوں۔ تازہ کاری اور نئے اُسلوب کی جستجو کرنیوالے اذہان یقیناً لیاقت علی عاصمؔ کے کلّیات کا خیر مقدم کریں گے۔ میں کلّیاتِ عاصمؔ کی اشاعت پر لیاقت علی عاصمؔ کو دلی مبارکباد پیش کرتا ہوں۔
ریاستی ادارے اپنے آئینی کام کو چھوڑ کر دوسرے کام پر لگ گئے ، پختونخوا اور بلوچستان کے حالات کے ذمہ دار وہ لوگ ہیں جن کا کام سرحدوں کو کلیئر کرنا ہے مگر وہ تحریک انصاف کے پیچھے لگے ہوئے ہیں عمران خان نے بڑا واضح کہا ہے کہ وہ پاکستان کی خاطر مذاکرات کے لیے تیار ہیں، با...
فضائی اورزمینی حملوں میں رہائشی عمارتیں ملبے کا ڈھیر ، امداد کے منتظر مسلم قتل خاندانوں کو ختم کردیا ، اسرائیلی درندگی متعدد افراد زخمی ، عالمی ادارے خاموش غزہ میں اسرائیلی جارحیت کا خونریز سلسلہ تھمنے کا نام نہیں لے رہا۔11جولائی کی شب سے13جولائی کی دوپہر تک کی اطلاعات کے مطا...
کوئلے سے 31 گیگا واٹ بجلی پیدا کی گئی، اس بجلی سے تقریبا 30 لاکھ گھروں کو بجلی مہیا ہوئی وفاقی حکومت کی پالیسیوں سے صوبے میں توانائی کے شعبے شدید متاثر ہو رہے ہیں،صوبائی وزیر سندھ کے سینئر وزیر شرجیل انعام میمن نے کہا ہے کہ سندھ کے پاس ملک کو توانائی کے بحران سے نکالنے کے لیے...
انتخابی مہم کے دوران دعوؤں کا فائدہ حکمران اور شوگر مافیا کو پہنچا ، معیشت کا پہیہ جام ہے عوام، کسان ، صنعت کار سب خسارے میں ہیں، حافظ نعیم الرحمان کا حکمرانوں سے سوال کراچی مانیٹرنگ ڈیسک )جماعت اسلامی پاکستان کے امیر حافظ نعیم الرحمان نے حکمران جماعتوں کی جانب سے انتخابی مہم ...
حق خودارادیت ملنے تک کشمیریوں کی سیاسی، اخلاقی اور سفارتی حمایت جاری رکھیں گے، وزیراعظم ٹرمپ کی ثالثی کی تجویز نے امن کا دروازہ کھولا، بھارت نے انکار کر کے دروازہ بند کیا،وزیر داخلہ نقوی صدرمملکت آصف علی زرداری اور وزیراعظم شہباز شریف نے آج یوم شہدائے کشمیر کے موقع پر کشمیر...
پی ٹی آئی کی کال گرومندر سے جناح ٹائون تک ریلی ، عوام کی بھرپور شرکت،شرکاء نے پارٹی پرچم اور بینرز اٹھا رکھے تھے عمران کی رہائیکیلئے پانچ اگست کو ملک بھر میں عوام ایک آواز بن کر سڑکوں پر نکلے گی، حلیم عادل شیخ اور دیگر کا ریلیوں سے خطاب پاکستان تحریک انصاف سندھ کی ج...
صدرسے استعفیٰ لیے جانے یا آرمی چیف کے صدر بننے کی خواہش سے متعلق افواہوں کو سختی سے مسترد میڈیا میں گردش کرنیوالی خبروں میں کوئی صداقت نہیں،پاکستان کو خوشحال بنانے کیلئے اعلیٰ قیادت متحد وزیراعظم شہباز شریف نے صدر آصف علی زرداری سے استعفیٰ لیے جانے یا آرمی چیف فی...
24 گھنٹوں میں 55 شہادتیں رپورٹ ، شہادتوں کا یومیہ تناسب 100 سے تجاوز بھوکے ، پیاسے ،نہتے مسلمانوں پرفضائی اور زمینی حملے ،ہسپتال ادویات سے محروم یہودی درندے فلسطین میں مسلم بچوں کو نشانہ بنانے میں مصروف ہیں ، شہادتوں کا یومیہ تناسب 100 سے تجاوز کرچکا ہے ، پچھلے 24 گھنٹوں میں ...
چھ خاندان سڑک پر آگئے،خواتین کا ایس بی سی اے کی رپورٹ پر عمارت کو مخدوش ماننے سے انکار مخدوش عمارتوںکو مرحلہ وار خالی کر ایا جا ئے گا پھر منہدم کردیا جائے گا،ڈی جی شاہ میر خان بھٹو کھارادر میں پانچ منزلہ سمیت دو عمارت خطرناک قرار دے کر خالی کرالی گئیں جس میں مقیم چھ خاندان س...
موجودہ صورتحال، کشیدہ تعلقات اور ٹیم کو لاحق سیکیورٹی خدشات ، کھلاڑیوں کو نہیں بھیجا جاسکتا انتہا پسند تنظیم مختلف سوشل میڈیا اکاؤنٹس سے پاکستان ہاکی ٹیم کو کھلم کھلا دھمکیاں دے رہی ہیں پاکستان نے کشیدہ تعلقات اور ٹیم کو لاحق سیکیورٹی خدشات کو دیکھتے ہوئے ایشیا کپ کے لیے ہاک...
بلوچستان میںنہتے مسافروں کے اغواء اور ان کا قتل فتنہ الہندوستان کی دہشتگردی ہے،وزیراعظم اپنے عزم، اتحاد اور طاقت سے دہشت گردی کے ناسورکو جڑ سے اکھاڑ کر دم لیں گے،مذمتی بیان وزیراعظم شہباز شریف نے بلوچستان میں بس کے مسافروں کے اغواء اور قتل کی مذمت کی ہے۔اپنے مذمتی بیان میں وز...
فتنہ الہندوستان کے دہشت گردوں نے 3 مقامات پر حملے کیے، ترجمان بلوچستان حکومت عثمان طور اور جابر طور دونوں بھائی کوئٹہ میں رہائش پذیر تھے، والد کے انتقال پر گھر جارہے تھے بلوچستان میں ایک بار پھر امن دشمنوں نے وار کر دیا، سرہ ڈاکئی میں فتنہ الہندوستان کے دہشت گردوں نے9معصوم شہ...