وجود

... loading ...

وجود

لیاقت علی عاصم ایک تازہ کار شاعر

اتوار 04 مارچ 2018 لیاقت علی عاصم ایک تازہ کار شاعر

لیاقت علی عاصمؔ کے اَب تک سات شعری مجموعے شائع ہوچکے ہیں۔ وہ ۱۹۸۰ ء کی دہائی میں اُبھرنے والے نوجوان شعراء کی صف سے تعلق رکھتے ہیں۔ انھوں نے سنجیدگی اور تسلسل کے ساتھ لکھا ہے اور تخلیق کا یہ عمل اب بھی جاری ہے۔ میں اُنھیں اس وقت سے جانتا ہوں جب وہ جامعہ کراچی میں ایم اے(اُردو) کے طالب علم تھے۔ ان کی شاعری کا پورا منظر نامہ میری نگاہ کے سامنے ہے۔

عاصمؔ نے جس زمانے میں غزل اور محض غزل کو تخلیق کا ذریعہ بنایا اُس وقت کراچی اور بعض دیگر شہروں میں بھی شاعری کے ذیل میں نئے نئے تجربات یا تو ہوچکے تھے یا ہورہے تھے۔مثلاً اینٹی غزل، رومانی غزل، غیر رومانی غزل(جسے بعض شعراء نے عوامی غزل کا بھی نام دیا) لسانی تشکیلات اور نظم کی دنیا میں نثری نظم اور ہائیکو وغیرہ کا چرچا زیادہ تھا۔ لیاقت علی عاصمؔ ان تمام رجحانات و میلانات سے آگاہ رہے۔ لیکن اُن کے اظہار کا وسیلہ غزل ہی رہی۔

غزل چاہے میں خود لکھوں یا دوسرے شعراء کی غزلوں کا مطالعہ کروں۔ بہرصورت یہی اندازہ ہوتا ہے کہ غزل بہت آسان صنفِ سخن بھی ہے اور بہت مشکل بھی۔ آسان تو یوں ہے کہ بنے بنائے مضامین کو قافیے ردیف کی پابندی سے کہتے چلے جائیے۔ آپ پر اس کی کوئی ذمے داری نہیں کہ قاری یا سامع اس سے متاثر ہوتا ہے یا نہیں۔بلکہ زیادہ تر تو اس شعر کے مصداق ساری شاعرانہ کاوش آئینہ ہوجاتی ہے:

سارا دیوانِ زندگی دیکھا
ایک مصرع نہ انتخاب ہُوا

غزل کا دوسرا رُخ یہ ہے کہ جو اُس عمومی اور خصوصی جینئس(GENIUS)سے تخلیقی طورپرقریب ہیں جو ہماری غزل کی روایت میں صرف ہوئی ہے۔ ان کے یہاں انہی کلاسیکی استعاروں،تشبیہوں اورعلامتوں میں تازہ کاری کی مثالیں مل جاتی ہیں۔

میں غزل کو ایک منظر بیں یا (Keiladoscope)سمجھتاہوں جس میں چند رنگین شیشوں کے ٹکڑے بند ہوتے ہیں۔ انھیں ہلاتے اور دیکھتے جائیے۔ انھیں چند ٹکڑوں سے نت نئے مرقع اور ڈیزائن سامنے آتے چلے جائیں گے۔ ایک اچھے غزل گو کی پہچان یہی ہوتی ہے کہ وہ غزل کی نزاکتوں کو کتنا جانتا اور انھیں کس طرح برتتا ہے۔ شاعری میں تجربے یقیناً بہت اہمیت رکھتے ہیں لیکن بسا اوقات دیکھا گیا ہے کہ جدّت طرازی یا دوسروں سے مختلف نظر آنے کے شوق میں شاعری کے نام پر ایسے تجربات بھی کیے جاتے ہیں جن کے نتیجے میں تجربات تورہ جاتے ہیں،شاعری غائب ہوجاتی ہے۔ شاعری میں اگر شاعری یا شعریت ہی نہیں ہے توپھر اس پر توجہ دینے کی ضرورت ہی کیا ہے۔

لیاقت علی عاصمؔ نے غزل کی تخلیق میں اس امر کو اہمیت دی ہے کہ تازہ کاری کے ساتھ ساتھ شعریت اور تخلیقی جمالیات کے عناصر بھی موجود رہیں۔ عاصمؔ کے چندشعردیکھیے:

میرے چہرے میں کسی اور کا چہرہ تو نہیں
جانے وہ کس کی رعایت سے مجھے دیکھتا ہے

لغت اور زبان کے رموز سے آگاہی رکھنے والے ہی اس شعر میں لفظ ’’رعایت‘‘ کی معنویت کو محسوس کرسکتے ہیں۔پھر بعض اوقات مسلّمات کو توڑ کر ایک نیا زاویہ یوں پیدا کیا ہے:

ورنہ سقراط مرگیا ہوتا
اُس پیالے میں زہر تھا ہی نہیں

فن کسی نوعیت کابھی ہواس میں کشش اور تازہ کاری فن کا ر ہی پیدا کرتا ہے صرف موضوع کوئی معنی نہیں رکھتا۔ میرے اس خیال کی تائید بعض برگزیدہ شعراء کے ان اظہارات سے بھی ہوسکتی ہے:

مصرع کبھوکبھو کوئی موزوں کروں ہوں میں
کس خوش سلیقگی سے جگر خوں کروں ہوں میں
(میرتقی میرؔ)
قطرۂ خونِ جگر سِل کو بناتا ہے دل
(اقبالؔ)
تمہی بتاؤ زیادہ اہم ہے کون ان میں
شکنتلا کی جوانی کہ کالیداس کا فن
(فراقؔ گورکھپوری)

اور حقیقت بھی یہی ہے کہ ہیلن،قلوپطرااور شکنتلا سے بھی زیادہ حسین عورتیں دنیا میں پیدا ہوئی ہوں گی لیکن انھیں دوام بخشا ہے بڑے فنکاروں نے۔ بقول مجروحؔ سلطانپوری:

دہر میں مجروحؔ کوئی جاوداں مضموں کہاں
میں جسے چھوتا گیا وہ جاوداں بنتا گیا

لیاقت علی عاصمؔ کراچی کے باشندے ہیں۔ کراچی بحیرۂ عرب کے ساحل پر واقع ہے۔ اس لیے اس شہر کے لوگ سمندر سے بھی اپنا ایک جذباتی اور ذہنی رشتہ رکھتے ہیں۔ اور لیاقت علی عاصمؔ تو اس لحاظ سے منفرد ہیں کہ وہ اس ساحلی شہر سے ملحق ایک جزیرے ’’منوڑا‘‘ میں پیدا ہوئے۔ گویا اُن کا تعلق سمندر سے اکتسابی نہیں ہے بلکہ وہ سمندر سے قربت کے نت نئے تجربوں سے گزرتے رہے جبھی تو انھوں نے اپنے ایک شعری مجموعے کو’’آنگن میں سمندر‘‘ سے موسوم کیا۔ سمندر عاصمؔ کے لیے ایک بنیادی علامت (ARCHETYPE) بن گیا ہے۔ تاہم یہی ان کی شاعری کا مرکزومحور نہیں ہے جیسے انگریزی زبان کے بعض شاعر’’سمندری شاعر‘‘(SEA POETS) کہلاتے ہیں۔ عاصمؔ نے زندگی کے ہر رنگ اورہرروپ کو کھلی آنکھوں سے دیکھا ہے اور وہ اسے شعرکے جمالیاتی پیکر میں ڈھالنے کا سلیقہ رکھتے ہیں۔

میں ۲۰۱۵ء میں امریکا کے نواورکینیڈا کے دوشہروں میں علی گڑھ یونیورسٹی المنائی فیڈریشن کی دعوت پر اپنے جشن،مشاعروں اور مذاکروں کے سلسلے میں گیا ہوا تھا۔ ہندوستان سے سنیل کمار تنگ(بہار)طاہر فراز (رام پور) اور راجیش ریڈی (بمبئی) بھی سارا وقت ہمارے ساتھ تھے۔ وہ اکثر باتوں باتوں میں پاکستان کے قابلِ ذکر شعراء کی بابت گفتگو چھیڑ دیتے تھے۔ میں نے چند دیگر شعراء کے علاوہ ہرجگہ لیاقت علی عاصمؔ کا تذکرہ کیا کہ وہ شاعری کے بارے میں بہت سنجیدہ ہیں۔ تسلسل سے لکھ رہے ہیں۔ ان کے اب تک سات شعری مجموعے منظر عام پر آچکے ہیں۔ ان میں کئی جگہ ندرت اور تازہ کاری دامنِ توجہ کو کھینچ لیتی ہے۔ عاصمؔ کے کئی شعر جو مجھے یاد تھے،میں نے اُنھیں سنائے بھی۔ پھر میں نے یہ کہا کہ غزل کی بات تو درمیان میں آتی ہی ہے لیکن عاصمؔ کی تازہ کاری کی مثال ایک ہائیکو سے بھی دی جاسکتی ہے:

تتلی کی ہے بھول
شیشہ توڑ کے چومے گی
پیپر ویٹ کا پھول
اس پر سب نے بے اختیار داد دی۔
اصل میں ہر شاعر کا ایک مزاج اور پسندیدہ اُسلوب ہوتا ہے۔لیاقت علی عاصمؔ کا یہ کہنا کچھ معنی رکھتا ہے :
عجیب شخص ہے غالبؔ کہ یوں ملا عاصمؔ
کہ معاملہ نہ رہا میرؔ و مصحفیؔ سے مجھے

یہ شعر عاصمؔ کے مجموعے’’آنگن میں سمندر‘‘سے لیا گیا ہے جو نومبر۱۹۸۸ء میں شائع ہُوا تھا۔ عاصم ؔ۱۴؍ اگست ۱۹۵۱ء کو پیدا ہوئے۔ ۱۹۶۵ء سے شعرکہہ رہے ہیں۔ ۱۹۷۰ء میں ان کا پہلا شعری انتخاب ’’سبدُِگل‘‘ کے نام سے شائع ہُوا۔گویا ابتدائی برسوں ہی میں طے ہوگیا کہ انھیں طرزِ غالبؔ سے مناسبتِ طبع حاصل ہے۔ لیکن یہاں بھی انھوں نے غالبؔ سے مضامین اور پروازِ تخیل کا اثر قبول نہیں کیا بلکہ اپنے فکروتجربہ کے جمالیاتی نظام میں رہتے ہوئے فطری اور وجدانی اظہارپر توجہ مرکوز رکھی۔

اردو شاعری،خصوصاً غزل پر ہراعتبار سے فارسی کے اثرات ہیں۔ اب بھی اس کے بیش تر لوازم فارسی ہی سے ہم رشتہ نظر آتے ہیں۔ خصوصاً محبوب کے لیے تذکیر کا صیغہ۔ حالانکہ ابتدائی دور میں ہندی شاعری کے زیر اثر امیرخسروؔ کے یہاں اور آگے چل کر ولیؔدکنی کی غزل میں ثانیت کا صیغہ استعمال ہوا ہے:

مت عشق کے شعلے سُوں جلتی کو جلاتی جا
ٹک مہرکے پانی سُوں یہ آگ بجھاتی جا
تجھ مکھ کی پرستش میں گئی عمر مری ساری
اے ُبت کی پُجن ہاری اس مکھ کو پجاتی جا

حالیؔ نے پُرزور الفاظ میں اس کمزوری کی جانب اپنے مقدے میں تنقید کی ہے کہ اس طرح کے اظہارات’’نیچرل شاعری‘‘ اور’’نیچرل تجربات‘‘ کے منافی ہیں۔ شاید اسی لیے بھی اردو کی مثنویات کا ازسرنومطالعہ کیا گیا اور پھر:

یہی وادی ہے اے ہمدم جہاں ریحانہ رہتی تھی
ترا جسم اک ہجومِ ریشم و کمخواب ہے سلمیٰ
(اخترشیرانی)
اے مری ہم رقص مجھ کو تھام لے
زندگی سے بھاگ کر آیا ہوں میں
ڪ(ن۔م۔راشد)
صندلی ہات پہ دھندلی سے حنا کی تحریر
ہائے اس جسم کے کم بخت دلآویز خطوط
(فیض احمدفیضؔ)
بندکمرے میں مرے خط جو جلائے ہوں گے
ایک اک نقش محبت ابھر آیا ہوگا
سر نہ کاندھے سے سہیلی کے نہ اٹھایا ہوگا
(کیفی اعظمی)

جیسے بے شمار اشعار نظم گوئی کی بدولت،جذبات و تجربات کے صحیح رُخ کی طرف متوجہ ہوئے۔ لیاقت علی عاصمؔ کی پوری غزل اس رجحانات کی آئینہ دار ہے:

اکثر اپنے قدوقامت سے بڑی لگتی ہوتم
دھوپ بھی لگتی ہوتم دیوار بھی لگتی ہوتم
کتنی سادہ، کتنی گم سم اپنے ہر انداز میں
شہر کی ہوتے ہوئے بھی گاؤں کی لگتی ہو تم

اس کے بعد براہِ راست ایسا اظہار تو عاصمؔ کی غزلوں میں نہیں ملا لیکن تلازمات اور استعارے ایک نسائی پیکر ہی کی گواہی دیتے ہیں۔ حسرتؔ موہانی نے بھی غزل کے محبوب کو بزم سے اٹھاکر گھر کی چھت تک بلا لیا تھا:

دوپہر کی دھوپ میں میرے بلانے کے لیے
وہ ترا کوٹھے پہ ننگے پاؤں آنا یاد ہے

حالیؔ نے ملٹنؔ کے قول سے استفادہ کرتے ہوئےSENSOUSکا ترجمہ جوش کیا تھا جو شایدان کے معاشرتی،افادی اور اصلاحی جذبے کی نمائندگی کرتا ہو۔ لیکن یہ ّحسیاتی یا احساسی کیفیات کے اظہار کا نام ہے۔ اس میں موضوع سے زیادہ تخلیق کار کے ہنر اور اس کی صداقتِ اظہار اہمیت رکھتی ہے۔ تو شاعر اپنے اظہار کے سلیقے اور جمالیاتی رکھ رکھاؤ سے پہچان جاتااور اس کے موضوع کو اہمیت بھی اس کی نادرہ کاری اور تخلیقی ہنرمندی سے حاصل ہوتی ہے۔

لیاقت علی عاصمؔ کے عام موضوعات پر زیادہ لکھا گیا ہے لیکن ان کی غزل میں جسمانی جمالیات اور احساسی تجربات کے بارے میں شاید کم لکھا گیا ہے۔ حالانکہ ان کے ساتوں شعری مجموعوں میں تنوع کے ساتھ اس انداز کے اشعار کی تعداد اچھی خاصی ہے۔ خاص طور سے ان کی کتاب’’رقصِ وصال‘‘ سے ان رجحانات کا سلسلہ آگے بڑھاہے:

کوئی آس پاس نہیں رہا تو خیال تیری طرف گیا
مجھے اپنا ہاتھ بھی چھوگیا تو خیال تیری طرف گیا
٭٭٭
مے کو مے خوار سمجھتا ہے، سبو کیا جانے
تجھ میں جو نشّہ ہے اُس نشّے کو تُو کیا جانے
٭٭٭
میں طلسمِ حسن میں کھوچکا مرا کیا نشاں مرا کیا پتا
ترا خواب دے مجھے راستہ تو میں آؤں اپنے خیال میں

لیاقت علی عاصمؔ کے کلا م کے یہ پہلو میں نے خاص طورپر اُجاگر کیے ہیں۔ ان کے یہاں وہ تمام موضوعات بھی اشعار میں بڑی خوبی سے ڈھلے ہیں جن سے ہمارے عہد اور ہمارے عوام کو شب وروز گزرنا اور سہنا ہوتا ہے۔ چونکہ ساتوں شعری مجموعوں کا یہ’’کلیات‘‘ شائع ہورہا ہے اس لیے مثالوں سے گریز کر رہا ہوں۔ تازہ کاری اور نئے اُسلوب کی جستجو کرنیوالے اذہان یقیناً لیاقت علی عاصمؔ کے کلّیات کا خیر مقدم کریں گے۔ میں کلّیاتِ عاصمؔ کی اشاعت پر لیاقت علی عاصمؔ کو دلی مبارکباد پیش کرتا ہوں۔


متعلقہ خبریں


پیپلزپارٹی کا حکومت میں باقاعدہ شمولیت کا فیصلہ، وفاق میں وزارتیںلینے پر رضامند وجود - پیر 30 جون 2025

  حکومت کی تبدیلی کا کوئی امکان نہیں ، ملک کی بہتری، کامیابی کے لیے سسٹم چلانا ہے اور یہی چلے گا( مقتدر حلقوں کا پی پی کو پیغام) دونوں جماعتوں کی مرکزی قیادت کو ایک پیج پر متحد بھی کردیا گیا اگلے ماہ دونوں جماعتوں کے درمیان وزارتوں کی تقسیم کا معاملہ طے ہوجائے گا، جولا...

پیپلزپارٹی کا حکومت میں باقاعدہ شمولیت کا فیصلہ، وفاق میں وزارتیںلینے پر رضامند

اسلام آباد میں ایک ہفتے کی کال پر قبضہ کرسکتے ہیں،مولانافضل الرحمان وجود - پیر 30 جون 2025

  جب ملک کو ضرورت پڑی تو جہاد کا اعلان کریں گے ، پھر فتح ہمارا مقدر ہوگی ، دھاندلی زدہ حکومتیں نہیں چل سکتیں اس لیے خود کو طاقتور سمجھنے والوں کو کہتا ہوں کہ عوامی فیصلے کے آگے سر تسلیم خم کریں ہم نے 2018کے الیکشن قبول کیے ،نہ ہی 2024کے دھاندلی زدہ انتخابات کو قبول کی...

اسلام آباد میں ایک ہفتے کی کال پر قبضہ کرسکتے ہیں،مولانافضل الرحمان

کراچی کی مئیرشپ پر ڈاکا ڈالا گیا،حافظ نعیم الرحمان وجود - پیر 30 جون 2025

پورا عدالتی نظام یرغمال ہے ،سپریم کورٹ سے جعلی فیصلے کرواکر سیاست کی جاتی ہے اسٹبلشمنٹ آج اپوزیشن سے بات کر لے تو یہ نظام کو قبول کرلیں گے ،امیر جماعت امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمن نے کہا ہے کہ حکومت اور اسٹبلشمنٹ نے ٹرمپ کی چاپلوسی میں کشمیر پر کمپرومائز کیا تو قوم مزاح...

کراچی کی مئیرشپ پر ڈاکا ڈالا گیا،حافظ نعیم الرحمان

وزیراعظم کا بجلی بلوں میں ٹی وی لائسنس فیس ختم کرنے کا اعلان وجود - پیر 30 جون 2025

پیداوار کے مقابلے کھپت میں کمی، بجلی چوری توانائی کے شعبے کے سب سے بڑے چیلنجز ہیں اپنا میٹر، اپنی ریڈنگ منصوبے کا باضابطہ اجرا باعث اطمینان ہے ، شہبازشریف کا خطاب وزیراعظم شہباز شریف نے ملک بھر میں بجلی کے بلوں میں ٹی وی لائسنس فیس ختم کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ سالانہ...

وزیراعظم کا بجلی بلوں میں ٹی وی لائسنس فیس ختم کرنے کا اعلان

بھارت نے دوبارہ حملہ کیا تو بلا جھجھک جواب دیں گے فیلڈ مارشل وجود - اتوار 29 جون 2025

ترقی کیلئے عوام، حکومت اور افواج کے درمیان مضبوط تعلقات ناگزیر ہیں، بھارت اپنی فوجی طاقت، قوم پرستی اور جعلی اسٹریٹجک اہمیت سے سیاسی فوائد حاصل کرنا چاہتا ہے بھارت کا غرور خاک میں مل گیا، ہمارا مستقبل روشن ہے،معرکہ حق اور اس میں ہونے والی شکست کو کبھی بھول نہیں سکے گا، پاکستان ن...

بھارت نے دوبارہ حملہ کیا تو بلا جھجھک جواب دیں گے فیلڈ مارشل

وزیر اعظم کی تحریک انصاف کو پھرمذاکرات کی پیشکش وجود - اتوار 29 جون 2025

مذاکرات ہی تمام چیزوں کا حل ہے، بیٹھ کر بات کریں، پہلے بھی آپ کو کہا ہے کہ بیٹھ کر بات کر لیںشہباز شریف انشااللہ‘ بیرسٹر گوہر کا وزیر اعظم کو جواب شہباز شریف اور بیرسٹر گوہر کے درمیان مکالمہ مخصوص نشستوں کے فیصلے سے قبل ہوا، قومی اسمبلی میں وزیراعظم اٹھ کر بیرسٹر گوہر سے مصافحہ...

وزیر اعظم کی تحریک انصاف کو پھرمذاکرات کی پیشکش

ہم سے نشستیں لے کر مینڈیٹ چوروں کو دے دی گئیں بیرسٹر گوہر وجود - اتوار 29 جون 2025

سپریم کورٹ کے فیصلے سے ہمیں مایوس ہوئی،اُمید تھی کہ مخصوص نشستیں ہمیں مل جائیں گی 39 امیدواروں کے نوٹیفکیشن کو کسی نے چیلنج نہیں کیا تھا، چیئرمین پی ٹی آئی کی میڈیا سے گفتگو پاکستان تحریک انصاف پی ٹی آئی کے چیٔرمین بیرسٹر گوہر علی خان نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے سے ہمی...

ہم سے نشستیں لے کر مینڈیٹ چوروں کو دے دی گئیں بیرسٹر گوہر

پانی ہماری لائف لائن ،بھارت سندھ طاس معاہدہ معطل نہیں کرسکت وجود - اتوار 29 جون 2025

شہباز شریف کا سندھ طاس معاہدے کی یکطرفہ معطلی پر مستقل ثالثی عدالت کی طرف سے دیے گئے ضمنی ایوارڈ کا خیرمقدم عدالتی فیصلے سے پاکستانی بیانیہ کو تقویت ملی ، آبی وسائل پر کام کر رہے ہیں، اعظم نذیر تارڑ اور منصور اعوان کی کاوشوں کی تعریف وزیراعظم شہباز شریف نے سندھ طاس معاہدے کی...

پانی ہماری لائف لائن ،بھارت سندھ طاس معاہدہ معطل نہیں کرسکت

سندھ طاس معاہدے پر کسی فریق کو یکطرفہ فیصلے کا حق نہیں بلاول بھٹو وجود - اتوار 29 جون 2025

چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی کا سندھ طاس معاہدے پر عالمی ثالثی عدالت کے فیصلے کا خیر مقدم بھارتی فیصلے کی بین الاقومی قانون میں کوئی گنجائش نہیں ہے، سندھو پر حملہ نامنظور،ایکس پر بیان چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے سندھ طاس معاہدے پر عالمی ثالثی عدالت کے فیصل...

سندھ طاس معاہدے پر کسی فریق کو یکطرفہ فیصلے کا حق نہیں بلاول بھٹو

کراچی میں بارش کے دوران7افراد زندگی کی بازی ہار گئے وجود - هفته 28 جون 2025

ہلاکتیں ٹریفک حادثات، کرنٹ لگنے، دیوار گرنے اور ندی میں ڈوبنے کے باعث ہوئیں سپرہائی وے ،لانڈھی ،جناح کارڈیو ،سائٹ ایریا ،سرجانی، لیاری میں حادثات پیش آئے شہر قائد میں مون سون کی پہلی بارش جہاں موسم کی خوشگواری کا پیغام لائی، وہیں مختلف حادثات و واقعات میں 7 افراد زندگی کی با...

کراچی میں بارش کے دوران7افراد زندگی کی بازی ہار گئے

بھارت سے جنگ جیتنے کے باوجود امن کی بات کرتے ہیں(بلاول بھٹو) وجود - هفته 28 جون 2025

بھارت ہم سے7گنا بڑا ملک اوروسائل میں بھی زیادہ ہے، تاریخی شکست ہوئی اسلام آباد پریس کلب دعوت پرشکرگزارہوں، میٹ دی پریس میں میڈیا سے گفتگو چیئرمین پاکستان پیپلزپارٹی بلاول بھٹوزرداری نے کہا ہے کہ ہم جنگ جیتنے کے باوجود امن کی بات کرتے ہیں۔اسلام آباد پریس کلب میں ’میٹ دی پریس...

بھارت سے جنگ جیتنے کے باوجود امن کی بات کرتے ہیں(بلاول بھٹو)

خیبرپختونخواہ حکومت کا تاثر غلط جارہا ہے وضاحت دی جائے(عمران خان ) وجود - هفته 28 جون 2025

(کوہستان میگاکرپشن اسکینڈل) اسیکنڈل کس وقت کا ہے،کرپشن کے اصل ذمے دار کون ہیں؟،عوام کے سامنے اصل حقائق لائے جائیں اڈیالہ جیل میں بانی پی ٹی آئی سے ایک روز قبل بیرسٹر سیف کی ہونیوالی ملاقات کی اندرونی کہانی سامنے آ گئی کوہستان میگاکرپشن سکینڈل میں ہماری حکومت کا تاثر غلط جا...

خیبرپختونخواہ حکومت کا تاثر غلط جارہا ہے وضاحت دی جائے(عمران خان )

مضامین
پی ٹی آئی کے لیے بڑا چیلنج وجود منگل 01 جولائی 2025
پی ٹی آئی کے لیے بڑا چیلنج

بیانیہ، بیداری اور فیصلے : استنبول میں اسلامی دنیا کی نئی صف بندی وجود منگل 01 جولائی 2025
بیانیہ، بیداری اور فیصلے : استنبول میں اسلامی دنیا کی نئی صف بندی

بھارت خطے کا امن داؤ پر لگا رہا ہے! وجود منگل 01 جولائی 2025
بھارت خطے کا امن داؤ پر لگا رہا ہے!

مودی یا ہٹلر وجود پیر 30 جون 2025
مودی یا ہٹلر

شکوہ کوئی دریا کی روانی سے نہیں ہے! وجود پیر 30 جون 2025
شکوہ کوئی دریا کی روانی سے نہیں ہے!

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر