وجود

... loading ...

وجود

لیاقت علی عاصم ایک تازہ کار شاعر

اتوار 04 مارچ 2018 لیاقت علی عاصم ایک تازہ کار شاعر

لیاقت علی عاصمؔ کے اَب تک سات شعری مجموعے شائع ہوچکے ہیں۔ وہ ۱۹۸۰ ء کی دہائی میں اُبھرنے والے نوجوان شعراء کی صف سے تعلق رکھتے ہیں۔ انھوں نے سنجیدگی اور تسلسل کے ساتھ لکھا ہے اور تخلیق کا یہ عمل اب بھی جاری ہے۔ میں اُنھیں اس وقت سے جانتا ہوں جب وہ جامعہ کراچی میں ایم اے(اُردو) کے طالب علم تھے۔ ان کی شاعری کا پورا منظر نامہ میری نگاہ کے سامنے ہے۔

عاصمؔ نے جس زمانے میں غزل اور محض غزل کو تخلیق کا ذریعہ بنایا اُس وقت کراچی اور بعض دیگر شہروں میں بھی شاعری کے ذیل میں نئے نئے تجربات یا تو ہوچکے تھے یا ہورہے تھے۔مثلاً اینٹی غزل، رومانی غزل، غیر رومانی غزل(جسے بعض شعراء نے عوامی غزل کا بھی نام دیا) لسانی تشکیلات اور نظم کی دنیا میں نثری نظم اور ہائیکو وغیرہ کا چرچا زیادہ تھا۔ لیاقت علی عاصمؔ ان تمام رجحانات و میلانات سے آگاہ رہے۔ لیکن اُن کے اظہار کا وسیلہ غزل ہی رہی۔

غزل چاہے میں خود لکھوں یا دوسرے شعراء کی غزلوں کا مطالعہ کروں۔ بہرصورت یہی اندازہ ہوتا ہے کہ غزل بہت آسان صنفِ سخن بھی ہے اور بہت مشکل بھی۔ آسان تو یوں ہے کہ بنے بنائے مضامین کو قافیے ردیف کی پابندی سے کہتے چلے جائیے۔ آپ پر اس کی کوئی ذمے داری نہیں کہ قاری یا سامع اس سے متاثر ہوتا ہے یا نہیں۔بلکہ زیادہ تر تو اس شعر کے مصداق ساری شاعرانہ کاوش آئینہ ہوجاتی ہے:

سارا دیوانِ زندگی دیکھا
ایک مصرع نہ انتخاب ہُوا

غزل کا دوسرا رُخ یہ ہے کہ جو اُس عمومی اور خصوصی جینئس(GENIUS)سے تخلیقی طورپرقریب ہیں جو ہماری غزل کی روایت میں صرف ہوئی ہے۔ ان کے یہاں انہی کلاسیکی استعاروں،تشبیہوں اورعلامتوں میں تازہ کاری کی مثالیں مل جاتی ہیں۔

میں غزل کو ایک منظر بیں یا (Keiladoscope)سمجھتاہوں جس میں چند رنگین شیشوں کے ٹکڑے بند ہوتے ہیں۔ انھیں ہلاتے اور دیکھتے جائیے۔ انھیں چند ٹکڑوں سے نت نئے مرقع اور ڈیزائن سامنے آتے چلے جائیں گے۔ ایک اچھے غزل گو کی پہچان یہی ہوتی ہے کہ وہ غزل کی نزاکتوں کو کتنا جانتا اور انھیں کس طرح برتتا ہے۔ شاعری میں تجربے یقیناً بہت اہمیت رکھتے ہیں لیکن بسا اوقات دیکھا گیا ہے کہ جدّت طرازی یا دوسروں سے مختلف نظر آنے کے شوق میں شاعری کے نام پر ایسے تجربات بھی کیے جاتے ہیں جن کے نتیجے میں تجربات تورہ جاتے ہیں،شاعری غائب ہوجاتی ہے۔ شاعری میں اگر شاعری یا شعریت ہی نہیں ہے توپھر اس پر توجہ دینے کی ضرورت ہی کیا ہے۔

لیاقت علی عاصمؔ نے غزل کی تخلیق میں اس امر کو اہمیت دی ہے کہ تازہ کاری کے ساتھ ساتھ شعریت اور تخلیقی جمالیات کے عناصر بھی موجود رہیں۔ عاصمؔ کے چندشعردیکھیے:

میرے چہرے میں کسی اور کا چہرہ تو نہیں
جانے وہ کس کی رعایت سے مجھے دیکھتا ہے

لغت اور زبان کے رموز سے آگاہی رکھنے والے ہی اس شعر میں لفظ ’’رعایت‘‘ کی معنویت کو محسوس کرسکتے ہیں۔پھر بعض اوقات مسلّمات کو توڑ کر ایک نیا زاویہ یوں پیدا کیا ہے:

ورنہ سقراط مرگیا ہوتا
اُس پیالے میں زہر تھا ہی نہیں

فن کسی نوعیت کابھی ہواس میں کشش اور تازہ کاری فن کا ر ہی پیدا کرتا ہے صرف موضوع کوئی معنی نہیں رکھتا۔ میرے اس خیال کی تائید بعض برگزیدہ شعراء کے ان اظہارات سے بھی ہوسکتی ہے:

مصرع کبھوکبھو کوئی موزوں کروں ہوں میں
کس خوش سلیقگی سے جگر خوں کروں ہوں میں
(میرتقی میرؔ)
قطرۂ خونِ جگر سِل کو بناتا ہے دل
(اقبالؔ)
تمہی بتاؤ زیادہ اہم ہے کون ان میں
شکنتلا کی جوانی کہ کالیداس کا فن
(فراقؔ گورکھپوری)

اور حقیقت بھی یہی ہے کہ ہیلن،قلوپطرااور شکنتلا سے بھی زیادہ حسین عورتیں دنیا میں پیدا ہوئی ہوں گی لیکن انھیں دوام بخشا ہے بڑے فنکاروں نے۔ بقول مجروحؔ سلطانپوری:

دہر میں مجروحؔ کوئی جاوداں مضموں کہاں
میں جسے چھوتا گیا وہ جاوداں بنتا گیا

لیاقت علی عاصمؔ کراچی کے باشندے ہیں۔ کراچی بحیرۂ عرب کے ساحل پر واقع ہے۔ اس لیے اس شہر کے لوگ سمندر سے بھی اپنا ایک جذباتی اور ذہنی رشتہ رکھتے ہیں۔ اور لیاقت علی عاصمؔ تو اس لحاظ سے منفرد ہیں کہ وہ اس ساحلی شہر سے ملحق ایک جزیرے ’’منوڑا‘‘ میں پیدا ہوئے۔ گویا اُن کا تعلق سمندر سے اکتسابی نہیں ہے بلکہ وہ سمندر سے قربت کے نت نئے تجربوں سے گزرتے رہے جبھی تو انھوں نے اپنے ایک شعری مجموعے کو’’آنگن میں سمندر‘‘ سے موسوم کیا۔ سمندر عاصمؔ کے لیے ایک بنیادی علامت (ARCHETYPE) بن گیا ہے۔ تاہم یہی ان کی شاعری کا مرکزومحور نہیں ہے جیسے انگریزی زبان کے بعض شاعر’’سمندری شاعر‘‘(SEA POETS) کہلاتے ہیں۔ عاصمؔ نے زندگی کے ہر رنگ اورہرروپ کو کھلی آنکھوں سے دیکھا ہے اور وہ اسے شعرکے جمالیاتی پیکر میں ڈھالنے کا سلیقہ رکھتے ہیں۔

میں ۲۰۱۵ء میں امریکا کے نواورکینیڈا کے دوشہروں میں علی گڑھ یونیورسٹی المنائی فیڈریشن کی دعوت پر اپنے جشن،مشاعروں اور مذاکروں کے سلسلے میں گیا ہوا تھا۔ ہندوستان سے سنیل کمار تنگ(بہار)طاہر فراز (رام پور) اور راجیش ریڈی (بمبئی) بھی سارا وقت ہمارے ساتھ تھے۔ وہ اکثر باتوں باتوں میں پاکستان کے قابلِ ذکر شعراء کی بابت گفتگو چھیڑ دیتے تھے۔ میں نے چند دیگر شعراء کے علاوہ ہرجگہ لیاقت علی عاصمؔ کا تذکرہ کیا کہ وہ شاعری کے بارے میں بہت سنجیدہ ہیں۔ تسلسل سے لکھ رہے ہیں۔ ان کے اب تک سات شعری مجموعے منظر عام پر آچکے ہیں۔ ان میں کئی جگہ ندرت اور تازہ کاری دامنِ توجہ کو کھینچ لیتی ہے۔ عاصمؔ کے کئی شعر جو مجھے یاد تھے،میں نے اُنھیں سنائے بھی۔ پھر میں نے یہ کہا کہ غزل کی بات تو درمیان میں آتی ہی ہے لیکن عاصمؔ کی تازہ کاری کی مثال ایک ہائیکو سے بھی دی جاسکتی ہے:

تتلی کی ہے بھول
شیشہ توڑ کے چومے گی
پیپر ویٹ کا پھول
اس پر سب نے بے اختیار داد دی۔
اصل میں ہر شاعر کا ایک مزاج اور پسندیدہ اُسلوب ہوتا ہے۔لیاقت علی عاصمؔ کا یہ کہنا کچھ معنی رکھتا ہے :
عجیب شخص ہے غالبؔ کہ یوں ملا عاصمؔ
کہ معاملہ نہ رہا میرؔ و مصحفیؔ سے مجھے

یہ شعر عاصمؔ کے مجموعے’’آنگن میں سمندر‘‘سے لیا گیا ہے جو نومبر۱۹۸۸ء میں شائع ہُوا تھا۔ عاصم ؔ۱۴؍ اگست ۱۹۵۱ء کو پیدا ہوئے۔ ۱۹۶۵ء سے شعرکہہ رہے ہیں۔ ۱۹۷۰ء میں ان کا پہلا شعری انتخاب ’’سبدُِگل‘‘ کے نام سے شائع ہُوا۔گویا ابتدائی برسوں ہی میں طے ہوگیا کہ انھیں طرزِ غالبؔ سے مناسبتِ طبع حاصل ہے۔ لیکن یہاں بھی انھوں نے غالبؔ سے مضامین اور پروازِ تخیل کا اثر قبول نہیں کیا بلکہ اپنے فکروتجربہ کے جمالیاتی نظام میں رہتے ہوئے فطری اور وجدانی اظہارپر توجہ مرکوز رکھی۔

اردو شاعری،خصوصاً غزل پر ہراعتبار سے فارسی کے اثرات ہیں۔ اب بھی اس کے بیش تر لوازم فارسی ہی سے ہم رشتہ نظر آتے ہیں۔ خصوصاً محبوب کے لیے تذکیر کا صیغہ۔ حالانکہ ابتدائی دور میں ہندی شاعری کے زیر اثر امیرخسروؔ کے یہاں اور آگے چل کر ولیؔدکنی کی غزل میں ثانیت کا صیغہ استعمال ہوا ہے:

مت عشق کے شعلے سُوں جلتی کو جلاتی جا
ٹک مہرکے پانی سُوں یہ آگ بجھاتی جا
تجھ مکھ کی پرستش میں گئی عمر مری ساری
اے ُبت کی پُجن ہاری اس مکھ کو پجاتی جا

حالیؔ نے پُرزور الفاظ میں اس کمزوری کی جانب اپنے مقدے میں تنقید کی ہے کہ اس طرح کے اظہارات’’نیچرل شاعری‘‘ اور’’نیچرل تجربات‘‘ کے منافی ہیں۔ شاید اسی لیے بھی اردو کی مثنویات کا ازسرنومطالعہ کیا گیا اور پھر:

یہی وادی ہے اے ہمدم جہاں ریحانہ رہتی تھی
ترا جسم اک ہجومِ ریشم و کمخواب ہے سلمیٰ
(اخترشیرانی)
اے مری ہم رقص مجھ کو تھام لے
زندگی سے بھاگ کر آیا ہوں میں
ڪ(ن۔م۔راشد)
صندلی ہات پہ دھندلی سے حنا کی تحریر
ہائے اس جسم کے کم بخت دلآویز خطوط
(فیض احمدفیضؔ)
بندکمرے میں مرے خط جو جلائے ہوں گے
ایک اک نقش محبت ابھر آیا ہوگا
سر نہ کاندھے سے سہیلی کے نہ اٹھایا ہوگا
(کیفی اعظمی)

جیسے بے شمار اشعار نظم گوئی کی بدولت،جذبات و تجربات کے صحیح رُخ کی طرف متوجہ ہوئے۔ لیاقت علی عاصمؔ کی پوری غزل اس رجحانات کی آئینہ دار ہے:

اکثر اپنے قدوقامت سے بڑی لگتی ہوتم
دھوپ بھی لگتی ہوتم دیوار بھی لگتی ہوتم
کتنی سادہ، کتنی گم سم اپنے ہر انداز میں
شہر کی ہوتے ہوئے بھی گاؤں کی لگتی ہو تم

اس کے بعد براہِ راست ایسا اظہار تو عاصمؔ کی غزلوں میں نہیں ملا لیکن تلازمات اور استعارے ایک نسائی پیکر ہی کی گواہی دیتے ہیں۔ حسرتؔ موہانی نے بھی غزل کے محبوب کو بزم سے اٹھاکر گھر کی چھت تک بلا لیا تھا:

دوپہر کی دھوپ میں میرے بلانے کے لیے
وہ ترا کوٹھے پہ ننگے پاؤں آنا یاد ہے

حالیؔ نے ملٹنؔ کے قول سے استفادہ کرتے ہوئےSENSOUSکا ترجمہ جوش کیا تھا جو شایدان کے معاشرتی،افادی اور اصلاحی جذبے کی نمائندگی کرتا ہو۔ لیکن یہ ّحسیاتی یا احساسی کیفیات کے اظہار کا نام ہے۔ اس میں موضوع سے زیادہ تخلیق کار کے ہنر اور اس کی صداقتِ اظہار اہمیت رکھتی ہے۔ تو شاعر اپنے اظہار کے سلیقے اور جمالیاتی رکھ رکھاؤ سے پہچان جاتااور اس کے موضوع کو اہمیت بھی اس کی نادرہ کاری اور تخلیقی ہنرمندی سے حاصل ہوتی ہے۔

لیاقت علی عاصمؔ کے عام موضوعات پر زیادہ لکھا گیا ہے لیکن ان کی غزل میں جسمانی جمالیات اور احساسی تجربات کے بارے میں شاید کم لکھا گیا ہے۔ حالانکہ ان کے ساتوں شعری مجموعوں میں تنوع کے ساتھ اس انداز کے اشعار کی تعداد اچھی خاصی ہے۔ خاص طور سے ان کی کتاب’’رقصِ وصال‘‘ سے ان رجحانات کا سلسلہ آگے بڑھاہے:

کوئی آس پاس نہیں رہا تو خیال تیری طرف گیا
مجھے اپنا ہاتھ بھی چھوگیا تو خیال تیری طرف گیا
٭٭٭
مے کو مے خوار سمجھتا ہے، سبو کیا جانے
تجھ میں جو نشّہ ہے اُس نشّے کو تُو کیا جانے
٭٭٭
میں طلسمِ حسن میں کھوچکا مرا کیا نشاں مرا کیا پتا
ترا خواب دے مجھے راستہ تو میں آؤں اپنے خیال میں

لیاقت علی عاصمؔ کے کلا م کے یہ پہلو میں نے خاص طورپر اُجاگر کیے ہیں۔ ان کے یہاں وہ تمام موضوعات بھی اشعار میں بڑی خوبی سے ڈھلے ہیں جن سے ہمارے عہد اور ہمارے عوام کو شب وروز گزرنا اور سہنا ہوتا ہے۔ چونکہ ساتوں شعری مجموعوں کا یہ’’کلیات‘‘ شائع ہورہا ہے اس لیے مثالوں سے گریز کر رہا ہوں۔ تازہ کاری اور نئے اُسلوب کی جستجو کرنیوالے اذہان یقیناً لیاقت علی عاصمؔ کے کلّیات کا خیر مقدم کریں گے۔ میں کلّیاتِ عاصمؔ کی اشاعت پر لیاقت علی عاصمؔ کو دلی مبارکباد پیش کرتا ہوں۔


متعلقہ خبریں


افغان ہمارے مہمان نہیں، واپس چلے جائیں،دھماکے برداشت نہیں کر سکتے ، وزیر داخلہ وجود - منگل 02 دسمبر 2025

سوشل میڈیا پر 90 فیصد فیک نیوز ہیں، جلد کریک ڈاؤن ہوگا،کوئی لندن میں بیٹھ کر بکواس کررہا ہے اداروں میں مسئلہ چل رہا ہے ،بہت جلد آپ یہاں آئیں گے اور ساری باتوں کا جواب دینا ہوگا، محسن نقوی تینوں صوبوں میں افغان باشندوں کیخلاف کارروائی جاری ، پختونخوا میں تحفّظ دیا جا رہا ہے، ج...

افغان ہمارے مہمان نہیں، واپس چلے جائیں،دھماکے برداشت نہیں کر سکتے ، وزیر داخلہ

مین ہول میں گر کر بچے کی ہلاکت،سندھ اسمبلی میں احتجاج، اپوزیشن کا واک آؤٹ وجود - منگل 02 دسمبر 2025

حکومت اس طرح کے واقعات کا تدارک کب کریگی، کھلے ہوئے مین ہول موت کو دعوت دینے کے مترادف ہیں، معصوم بچے کی لاش گیارہ گھنٹے کے بعد ملی ،بی آر ٹی ریڈ لائن پر تیسرا واقعہ ہے،اپوزیشن ارکان کب تک لاشیں اٹھاتے رہیں گے،بچے کی تصویر ایوان میں دکھانے پر ارکان آبدیدہ، خواتین کے آنسو نکل ...

مین ہول میں گر کر بچے کی ہلاکت،سندھ اسمبلی میں احتجاج، اپوزیشن کا واک آؤٹ

لکی مروت،پولیس موبائل پر خودکش حملہ، اہلکار شہید، 6 زخمی وجود - منگل 02 دسمبر 2025

دونوں حملہ آور سڑک کنارے کھڑے تھے، پولیس کی بھاری نفری موقع پر پہنچی پولیس اسٹیشن تجوڑی کی موبائل قریب آنے پر ایک نے خود کو دھماکے سے اڑا لیا خیبرپختونخوا کے ضلع لکی مروت میں پولیس موبائل پر خودکش حملے میں ایک پولیس اہلکار شہید اور 6زخمی ہوگئے۔پولیس کے مطابق لکی مروت میں خو...

لکی مروت،پولیس موبائل پر خودکش حملہ، اہلکار شہید، 6 زخمی

اگر ہمت ہے تو گورنر راج لگا کر دیکھیں، سہیل آفریدی کا انتباہ وجود - منگل 02 دسمبر 2025

صوبے میں کسی اور راج کی ضرورت نہیں،ہم نہیں ڈرتے، وفاق کے ذمے ہمارے 3 ہزار ارب روپے سے زیادہ پیسے ہیں بند کمروں کی پالیسیاں خیبر پختونخوا میں نافذ کرنے والوں کو احساس کرنا چاہیے، وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا کی نجی ٹی وی سے گفتگو وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا سہیل آفریدی نے کہا ہے کہ ص...

اگر ہمت ہے تو گورنر راج لگا کر دیکھیں، سہیل آفریدی کا انتباہ

راستہ تبدیل نہیں ہوگا، ضرورت پڑی تو اسلام آباد کا رخ کریں گے ، مولانا فضل الرحمان وجود - پیر 01 دسمبر 2025

  ٹرمپ کے ہاتھوں سے فلسطینیوں کا خون ٹپک رہا ہے ، شہباز شریف اسے امن کا نوبل انعام دینے کی بات کر رہے ہیں، آئین کو کھلونا بنا دیا گیا ،بڑے لوگوں کی خواہش پر آئینی ترامیم ہو رہی ہیں افغان پالیسی پر پاکستان کی سفارت کاری ناکام رہی، جنگ کی باتوں سے مسئلے حل نہیں ہوں گے ، ...

راستہ تبدیل نہیں ہوگا، ضرورت پڑی تو اسلام آباد کا رخ کریں گے ، مولانا فضل الرحمان

خیبر پختونخوا میں گورنر راج نافذ کرنے پر غور وجود - پیر 01 دسمبر 2025

متوقع نئے گورنر کے لیے تین سابق فوجی افسران اور تین سیاسی شخصیات کے نام زیر غور تبدیلی کے حوالے سے پارٹی کا ہر فیصلہ قبول ہوگا، گورنر خیبر پختونخوا فیصل کریم کنڈی خیبرپختونخوا میں گورنر راج نافذ کرنے پر غور شروع کردیا گیا، گورنر راج کے لیے فیصل کریم کنڈی کو رکھنے یا ان کی جگہ...

خیبر پختونخوا میں گورنر راج نافذ کرنے پر غور

اسرائیل کے جنگی جرائم اور نسل کشی پر جوابدہی ناگزیر ہے ، وزیر خارجہ وجود - پیر 01 دسمبر 2025

اسرائیل کی بے دریغ بربریت نے غزہ کو انسانیت ،عالمی ضمیر کا قبرستان بنا دیا ہے صورتحال کو برداشت کیا جا سکتا ہے نہ ہی بغیر انصاف کے چھوڑا جا سکتا ہے ، اسحق ڈار نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ سینیٹر محمد اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ عالمی قانون کے مطابق اسرائیل کی جانب سے کیے گئے جنگی جر...

اسرائیل کے جنگی جرائم اور نسل کشی پر جوابدہی ناگزیر ہے ، وزیر خارجہ

صوبائی خودمختاری پر سمجھوتہ نہیں کیا جائیگا،بلاول بھٹو وجود - پیر 01 دسمبر 2025

آئینی ترمیم مسترد کرنا کسی عدالت کا اختیار نہیں،قانون سازی پارلیمنٹ کا حق ہے کسی ایسے عمل کا ساتھ نہیں دیں گے جس سے وفاق کمزور ہو،تقریب سے خطاب پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئر مین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ قانون سازی پارلیمنٹ کا حق ہے ،آئینی ترمیم کو مسترد کرنا کسی عدالت کے ا...

صوبائی خودمختاری پر سمجھوتہ نہیں کیا جائیگا،بلاول بھٹو

طالبان حکام دہشت گردوں کی سہولت کاری بند کریں،ترجمان پاک فوج وجود - اتوار 30 نومبر 2025

  پاکستان اور افغانستان کے مابین تجارت کی بندش کا مسئلہ ہماری سیکیورٹی اور عوام کے جان و مال کے تحفظ سے جڑا ہے ،خونریزی اور تجارت اکٹھے نہیں چل سکتے ،بھارتی آرمی چیف کا آپریشن سندور کو ٹریلر کہنا خود فریبی ہے خیبرپختونخوا میں سرحد پر موجودہ صورتحال میں آمد و رفت کنٹرول...

طالبان حکام دہشت گردوں کی سہولت کاری بند کریں،ترجمان پاک فوج

عمران خان کی صحت سے متعلق خبروں کا مقصد عوام کا ردعمل جانچنا ہے ،علیمہ خانم وجود - اتوار 30 نومبر 2025

  یہ ٹیسٹ رن کر رہے ہیں، دیکھنے کے لیے کہ لوگوں کا کیا ردعمل آتا ہے ، کیونکہ یہ سوچتے ہیں اگر لوگوں کا ردعمل نہیں آتا، اگر قابل انتظام ردعمل ہے ، تو سچ مچ عمران خان کو کچھ نہ کر دیں عمران خان ایک 8×10 کے سیل میں ہیں، اسی میں ٹوائلٹ بھی ہوتا ہے ،گھر سے کوئی کھانے کی چیز...

عمران خان کی صحت سے متعلق خبروں کا مقصد عوام کا ردعمل جانچنا ہے ،علیمہ خانم

پی ٹی آئی کا اڈیالہ جیل کے باہر احتجاج کا اعلان وجود - اتوار 30 نومبر 2025

سہیل آفریدی کی زیر صدارت پارٹی ورکرزاجلاس میں بھرپور احتجاج کا فیصلہ منگل کے دن ہر ضلع، گاؤں ، یونین کونسل سے وکررز کو اڈیالہ جیل پہنچنے کی ہدایت پاکستان تحریک انصاف نے اگلے ہفتے اڈیالہ جیل کے باہر احتجاج کا اعلان کر دیا، احتجاج میں آگے لائحہ عمل کا اعلان بھی کیا جائے گا۔وزیر ...

پی ٹی آئی کا اڈیالہ جیل کے باہر احتجاج کا اعلان

سندھ کی تقسیم کی افواہوں پر پریشان ہونا چھوڑ دیں،مراد علی شاہ وجود - اتوار 30 نومبر 2025

جب 28ویں ترمیم سامنے آئے گی تو دیکھیں گے، ابھی اس پر کیا ردعمل دیں گورنر کی تقرری کا اختیار وزیراعظم اور صدر کا ہے ، ان کے علاوہ کسی کا کردار نہیں وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے کہا ہے کہ سندھ کی تقسیم کی افواہوں پر پریشان ہونا چھوڑ دیں۔سیہون میں میڈیا سے گفتگو میں مراد ...

سندھ کی تقسیم کی افواہوں پر پریشان ہونا چھوڑ دیں،مراد علی شاہ

مضامین
یاسین ملک کو سزا دلانے کا بھارتی منصوبہ وجود منگل 02 دسمبر 2025
یاسین ملک کو سزا دلانے کا بھارتی منصوبہ

مسٹر ٹیفلون۔۔۔ وجود منگل 02 دسمبر 2025
مسٹر ٹیفلون۔۔۔

آگرہ واقعہ ہندوتوا کا عروج اقلیتوں کی بے بسی خوف عدم تحفظ وجود پیر 01 دسمبر 2025
آگرہ واقعہ ہندوتوا کا عروج اقلیتوں کی بے بسی خوف عدم تحفظ

بھارتی حمایت یافتہ دہشت گرد وجود پیر 01 دسمبر 2025
بھارتی حمایت یافتہ دہشت گرد

کشمیر ٹائمز کے دفتر پر چھاپہ کیا بتاتا ہے! وجود اتوار 30 نومبر 2025
کشمیر ٹائمز کے دفتر پر چھاپہ کیا بتاتا ہے!

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر