... loading ...
اسلام آباد کی ضلعی انتظامیہ نے عمران خان کے بنی گالہ گھر کی تعمیرات کے معاملے پر رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کرادی جس کے مطابق سابق سیکرٹری یونین کونسل (یو سی) نے بنی گالا گھر کے این او سی کو جعلی قرار دے دیا۔سپریم کورٹ میں ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر اسلام آباد نے عمران خان بنی گالہ گھر تعمیر کی رپورٹ جمع کرائی۔رپورٹ میں کہا گیا کہ تین سو کنال اراضی 2002 میں جمائما کے نام پر خریدی گئی۔رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ بنی گالہ کی زمین خریدتے وقت وزارت داخلہ سے این او سی نہیں لیا گیا تھا۔ان کا کہنا تھا کہ جمائما خان کا شناختی کارڈ محکمہ مال میں پیش نہیں کیا گیا تھا۔انہوں نے بتایا کہ 4 انتقالات کے لیے جمائما خود پیش ہوئیں نہ ہی کوئی نمائندہ آیا جبکہ صرف ایک انتقال کے وقت ان کی جانب سے میجر ریٹائرڈ ملک پرویز پیش ہوئے تھے۔رپورٹ کے مطابق 2005ء میں یہ زمین عمران خان کو پاور آ ف اٹارنی کے ذریعے تحفے میں دی گئی تھی۔سابق سیکرٹری یونین کونسل (یو سی) 12 کہو محمد عمر نے بنی گالہ گھر کے این او سی کو جعلی قرار دے دیا ہے۔
محمد عمر کا کہنا تھا کہ وہ 2003 میں یو سی بارہ کہومیں سیکرٹری تعینات تھے اور یونین کونسل نے بنی گالہ میں عمران خان کے گھر کی تعمیر کے لیے کوئی این او سی جاری نہیں کیا تھا۔ان کا کہنا تھا کہ عدالت کو فراہم کی گئی دستاویز پر تحریر بھی یونین کونسل کی نہیں ہے۔محمد عمر نے بتایا کہ 2003ء میں یونین کونسل کے دفتر میں کمپیوٹر کی سہولت ہی موجود نہیں تھی اور اس وقت یونین کونسل کے تمام امور ہاتھ سے نمٹائے جاتے تھے۔
انہوں نے مزید کہا کہ عمران خان سے درخواست پر مزید کارروائی کے لیے بنی گالہ کا نقشہ طلب کیا گیا تھا تاہم ہمیں نقشہ فراہم نہیں کیا گیا جس کے بعد مزید کوئی کارروائی عمل میں نہیں لائی تھی۔
عمران خان کے وکیل بابر اعوان نے اسلام آباد انتظامیہ کی رپورٹ پر جواب دیتے ہوئے کہا ہے کہ اسلام آباد کے مضافات میں تعمیر شدہ لاکھوں رہائشگاہوں میں سے کسی کا نقشہ موجود نہیں ہے۔ان کا کہنا تھا کہ اسلام آباد کے سیکٹرز میں سٹی ڈسٹرکٹ کا عمل دخل ہی جبکہ دیہی علاقوں کے انتظامات یونین کونسلز کے سپرد تھا۔انہوں نے کہا کہ عمران خان کی رہائش گاہ کے حوالے سے عدالت میں پیش کیے گئے دستاویز میں کس قسم کی غلط بیانی نہیں کی گئی۔انہوں نے بتایا کہ موہڑہ نور جسے بنی گالہ کہا جاتا ہے، میں عمران خان کی جانب سے زمین کی خریداری سے قبل تعمیرات کی اجازت تھی اور اس دور میں موہڑہ نور یونین کونسل بہارہ کہو کے زیر انتظام تھا۔بابر اعوان کا کہنا تھا کہ عمران خان کو تعمیرات کی اجازت دی گئی اور نقشہ مانگا گیا جو فراہم کیا گیا بعد ازاں تعمیرات کا نقشہ عدالت میں بھی پیش کیا گیا۔ان کا کہنا تھا کہ سرکاری سرپرستی میں پراپگینڈے کے ذریعے قیامت اٹھائی جارہی ہے اور یہ تاثر دیا جارہا ہے کہ شاید جودستاویز دی گئیں ان سے کوئی شخص صادق اور امین نہیں رہا۔یاد رہے کہ 13 فروری کو سپریم کورٹ نے پی ٹی آئی عمران خان کو بنی گالا میں تعمیر اپنی 300 کنال کی رہائش گاہ کا منظور شدہ سائٹ پلان عدالت میں جمع کرانے کا حکم دیا تھا۔تاہم عمران خان کے وکیل کی جانب سے دستاویزات جمع کرانے کے بعد 22 فروری کو کیس کی سماعت کے دوران ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے انکشاف کیا کہ بنی گالا میں عمران خان کے گھر کی تعمیر کا سائٹ پلان منظور شدہ نہیں۔
خیال رہے کہ اخبارات میں شائع ہونے والے ایک مضمون کے مطابق نیشنل پارک کی تجویز 1960 میں اسلام آباد کے ماسٹر پلان کا حصہ تھی، جو یونانی ا?رکیٹیکچر کانسٹینٹ تینس اپوستولس ڈوکسڈز نے دی تھی، اس تجویز کے تحت آج جس جگہ بنی گالا واقع ہے، وہیں ایک بہت بڑا درختوں سے بھرا پارک بنایا جانا تھا۔بہت کم لوگ ایسے ہیں جو یہ جانتے ہیں کہ بنی گالا عمران خان اور عبدالقدیر خان جیسے نامور لوگوں کی رہائش گاہ بننے سے قبل دارالحکومت اسلام آباد کے لیے مجوزہ نیشنل پارک کے لیے مختص کی جانے والی جگہ ہے۔
یادرہے کہ اسلام آباد کے مشرق میں راول ڈیم کے قریب واقع بنی گالا کی وجہ شہرت وہاں موجود پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان اور نامور پاکستانی سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی رہائش گاہ ہے۔لیکن گزشتہ کئی ماہ سے بنی گالامیں تعمیرات اوروہاں عمران خان کی رہائش گاہ کے غیر قانونی ہونے کے حوالے سے چہ مگوئیاں ہورہی ہیں۔بنی گالا میں غیر قانونی تعمیرات کا معاملہ اور اس سے متعلق چہ مگوئیوں میں اْس وقت اضافہ ہوا، جب گزشتہ برس عمران خان نے سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس کو خط لکھ کر بنی گالا میں غیر قانونی تعمیرات اور تجاوزات کے خلاف نوٹس لینے اور کیپیٹل ڈیولپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) کو متحرک کرنے کی درخواست کی۔لوگوں نے عمران خان کی جانب سے اس خط کے بعد حیرانگی کا اظہار کیا کہ جب بنی گالا میں موجود تمام تعمیرات بشمول ان کے گھر کے، غیر قانونی ہیں تو پھر انہوں نے غریب اور متوسط طبقے کے لوگوں کی جانب سے بنائی جانے والی تعمیرات کے خلاف نوٹس لینے کی درخواست کیوں کی؟
ملک کے عام عوام اوراسلام آباد کے شہری بنی گالا کو ایک رہائشی علاقے کے طور پر جانتے ہیں، جہاں گزشتہ 3 دہائیوں میں اعلیٰ اور درمیانے طبقے کے کئی لوگوں نے اپنی شاندار رہائش گاہیں بنائیں۔بہت کم لوگ ایسے ہیں جو یہ جانتے ہیں کہ بنی گالا عمران خان اور عبدالقدیر خان جیسے نامور لوگوں کی رہائش گاہ بننے سے قبل دارالحکومت اسلام آباد کے لیے مجوزہ نیشنل پارک کے لیے مختص کی جانے والی جگہ ہے۔ ایک مضمون کے مطابق نیشنل پارک کی تجویز 1960 میں اسلام آباد کے ماسٹر پلان کا حصہ تھی، جو یونانی آرکیٹیکچر کانسٹینٹ تینس اپوستولس ڈوکسڈز نے دی تھی، اس تجویز کے تحت آج جس جگہ بنی گالا واقع ہے، وہیں ایک بہت بڑا درختوں سے بھرا پارک بنایا جانا تھا۔یہاں تک اسلام آباد کی تعمیر کے ماسٹر پلان کی سرکاری دستاویزات میں بھی بنی گالا کے علاقے کو نیشنل پارک کے لیے مختص جگہ قرار دیا گیا، مگر بعد ازاں یہاں رفتہ رفتہ پہلے امیر طبقے اور پھر متوسط طبقے کے لوگ آباد ہونا شروع ہوئے۔
آج اگر گوگل میپ کو بھی استعمال کیا جائے گا تو اس میں بھی یہ بات واضح ہوجائے گی کہ بنی گالا جیسا عالمی شہرت یافتہ علاقہ درحقیقت غیرقانونی طور پر قائم ہوا۔بنی گالا میں ابتدائی طور پر 1980 میں گھروں کی تعمیر ہونا شروع ہوئیں، اسلام آباد کے پڑوس میں واقع ہونے کی وجہ سے علاقے کا بنیادی ڈھانچہ اچھا بنا ہوا تھا، جس کی وجہ سے علاقے نے بلڈرز کی توجہ حاصل کرلی، جنہوں نے گھروں کی تعمیر کے بعد سی ڈی اے کے مقابلے میں کم دام پر فروخت کرنا شروع کیا اور یوں یہاں آبادی بڑھنے لگی۔چند ہزار روپوں کے عوض لوگوں نے بنی گالا میں ایک کنال کا پلاٹ حاصل کرنا شروع کیا اور یوں لوگوں نے نہ صرف اپنے لیے، بلکہ اپنے دوستوں اور رشتہ داروں کے لیے بھی پلاٹ خریدے اور اس طرح یہ علاقہ ایک بڑے رہائشی علاقے میں تبدیل ہوگیا۔
بلڈرز نے بنی گالا میں حاصل کی گئی زمین کے کاغذات کو قانونی بنانے کے لیے دستاویزات میں یہ تحریر کرنا شروع کیا کہ انہوں نے یہ زمین وہاں کے رہائشی گاؤں کے افراد سے حاصل کی، جو سی ڈی اے کی مداخلت کے بغیر حاصل کی گئی۔یہاں یہ بات بھی اہم ہے کہ اسلام آباد کے شہری علاقوں کے لیے سی ڈی اے جب کہ بنی گالا جیسے دیہی علاقوں کے لیے اسلام آد کیپیٹل ٹیریٹری ایڈمنسٹریشن (آئی سی ٹی اے) مجاز اختیار رکھتا ہے، جو تمام دیہی علاقوں میں تعمیرات سمیت دیگر کاموں کی نگرانی کرتا ہے۔بنی گالا میں جب غیرقانونی تعمیرات زیادہ ہونے لگیں تو سی ڈے اے نے وہاں تجاوزات کے خلاف پہلے 1990 اور بعد ازاں 1992 میں بڑے پیمانے پر آپریشن شروع کیا۔سی ڈی اے کا 1992 میں شروع کیا گیا آپریشن 2 دن تک جاری رہا، جس میں چند ہلاکتیں اور کئی افراد زخمی بھی ہوئے، جس کے بعد متاثرین نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں سی ڈی اے کے خلاف مقدمہ دائر کردیا۔اسلام آباد ہائی کورٹ نے 1998 میں بنی گالا کے رہائشیوں کے حق میں فیصلہ دیا، بعد ازاں 1999 میں سپریم کورٹ نے بھی ایسا ہی فیصلہ دیا۔
عدالتی فیصلے سے بنی گالا جیسے علاقے کے لیے بنائے گئے اسلام آباد کے مقامی قانونی ضابطے اسلام آباد کیپیٹل ٹیریٹری زوننگ ریگولیشن 1992 پر بھی اثرات پڑے، اس ضابطے کے مطابق بنی گالا کے زون 3 اور زون 4 کو رہائشی عمارتوں سے محفوظ قرار دیا گیا تھا، مگر وہاں تعمیرات ہوچکی تھیں۔بعد ازاں انتظامیہ نے اسی ضابطے میں 2005 میں تبدیلیاں کیں، جس میں بنی گالا زون 4 میں محدود پیمانے تک رہائشی تعمیرات کی اجازت دے دی گئی، بعد ازاں 2010 میں اس ضابطے میں مزید ترامیم بھی کی گئیں، جن کے تحت زون 4 میں کمرشل اور رہائشی عمارتیں اور پلازے بنانے کی اجازت دی گئی۔زوننگ قوانین میں ترامیم کے بعد بنی گالا کے زون 3 اور زون 4 میں کمرشل اور رہائشی عمارتیں بنانا قانونی بن گیا تھا، مگر پھر سی ڈی اے حکام نے ان تعمیرات کو غیر قانونی قرار دیا، جس پر لوگ حیران رہ گئے کہ پہلے حکام نے خود ہی اس عمل کو قانونی قرار دیا اور اب اسے غیر قانونی قرار دیا جارہا ہے۔سی ڈی اے کی اسی دلیل کو مدنظر رکھتے ہوئے سپریم کورٹ نے بنی گالا میں موجود عمران خان کی رہائش کو بھی غیر قانونی قرار دیا۔اگرچہ عمران خان نے قانونی طور پر زمین خردیدی، اسی طرح دیگر افراد نے بھی قانونی طور پر زمین حاصل کی اور خود انتظامیہ نے بنی گالا میں تعمیرات کو قانونی قرار دیا تو اب اسے غیر قانونی قرار دینے کی منطق کیا ہے؟اس حوالے سے مباحثوں کا حقیقتاً کوئی نتیجہ نہیں نکلنا، جب تک اس علاقے کو محفوظ رکھنے کے حوالے سے سی ڈی اے کی گذشتہ پالیسیوں، زوننگ قواعد میں تبدیلیوں اور بنی گالا کے رہائشیوں کی جانب سے تعمیرات کا ایماندارانہ جائزہ نہ لیا جائے، اس جگہ کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہوئے بدعنوان اشرافیہ یا حکومتی عہدیداران پر تنقید سے بنی گالا سے متعلق وہی گمراہ کن تصورات برآمد ہوں گے، جیسے میڈیا پر پیش کیے جاتے ہیں۔تبدیلی اْسی وقت آئے گی، جب ایک ایسا کلچر بنایا جائے جہاں نہ صرف دوسروں کے اعمال پر ان پر تنقید کی جائے، بلکہ خود اپنی جانچ اور احتساب بھی کیا جائے۔
توشہ خانہ ٹو کیس کی سماعت کے بعد پی ٹی آئی کارکنان آپے سے باہر ، قیادت کی جانب سے کارکنان کو نہیں روکا گیا تشدد کسی صورت قبول نہیں،پی ٹی ائی کا معافی مانگنے اور واضع لائحہ عمل نہ دینے تک بائیکاٹ کرینگے، صحافیوں کا اعلان توشہ خانہ ٹو کیس کی سماعت کے بعد پی ٹی آئی کے کارکنان...
پہلے ہی اِس معاملے پر بہت تاخیرہو چکی ہے ، فوری طور پر اقوام متحدہ جانا چاہیے، پاکستان کے دوست ممالک مدد کرنا چاہتے ہیں سیلاب متاثرین کے نقصانات کا ازالہ ہوناچاہیے، ملک میں زرعی ایمرجنسی لگائی جانی چاہیے، ملتان میں متاثرین سے خطاب چیئرمین پاکستان پیپلزپارٹی بلاول بھٹو نے کہا ...
محکمہ موسمیات نے اگلے 2 روز میں مزید موسلادھار بارشوں کا امکان ظاہر کردیا،شہریوں کو محتاط رہنے کی ہدایت پورٹ قاسم سمندر میں ماہی گیروں کی کشتی الٹ گئی، ایک ماہی گیر ڈوب کر جاں بحق جبکہ تین کو بچا لیا گیا، ریسکیو حکام کراچی سمیت سندھ کے مختلف علاقوں میں بارش کا سلسلہ وقفے وقفے...
قدرتی آفات کو ہم اللہ تعالیٰ کی آزمائش سمجھ کر اِس سے نکلنے کی کوشش کرتے ہیں ، امیر جماعت اسلامی چالیس سال سے مسلط حکمران طبقے سے صرف اتنا پوچھتا ہوں کہ یہ کس کو بے وقوف بناتے ہیں، گفتگو امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمان نے کہا ہے کہ سیلاب کے نقصانات میں ہمارے حکمرانوں کی...
کسی بھی معاہدے میں اسرائیل کا فلسطین سے مکمل انخلا شامل ہو نا چاہئے ہم اپنے عوام پر جارحیت کو روکنے کی ہر کوشش کا خیرمقدم کرتے ہیں، بیان فلسطینی تنظیم حماس نے اعلان کیا ہے کہ وہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے دی گئی آخری وارننگ کے بعد فوری طور پر مذاکرات کی میز پر بیٹھنے کے لیے تی...
بھارت نے دریائے ستلج میں مزید پانی چھوڑ دیا، مزید سیلابی صورت حال کا خدشہ،متعلقہ اداروں کا ہنگامی الرٹ جاری،ملتان میں ریلے سے نمٹنے کیلئے ضلعی انتظامیہ نے ایک عملی منصوبہ تیار کر لیا ،وزارت آبی وسائل صوبے بھر میں مختلف مقامات پر طوفانی بارشوں کا خطرہ ،پنجاب سے آنیو...
نماز فجر کے بعد مساجد اور گھروں میں ملکی ترقی اورسلامتی کیلئے دعا ئیں مانگی گئیں، فول پروف سکیورٹی انتظامات کراچی سے آزاد کشمیر تک ریلیاں اورجلوس نکالے گئے، فضائوں میں درود و سلام کی صدائوں کی گونج اٹھیں رحمت اللعالمین، خاتم النبیین، ہادی عالم حضرت محمد ﷺ کی ولادت ...
قوم کو پاک فضائیہ کی صلاحیتوں پر فخر ہے،پاک فضائیہ نے ہمیشہ ملکی حدود کا دفاع کیا،صدرآصف علی زرداری پاکستانی فضائیہ ہمیشہ کی طرح ملکی خودمختاری، جغرافیائی سرحدوں اور سالمیت کا بھرپور دفاع کرتی رہے گی،شہبازشریف صدر مملکت آصف علی زرداری اور وزیراعظم محمد شہباز شریف نے کہا ہے ...
افواج پاکستان نے 6 ستمبر 1965 کو بھارت کے ناپاک عزائم خاک میں ملائے،امیر جماعت اسلامی پاکستان کسی ایکس وائی زی صدر وزیراعظم یا بیوروکریٹ کا نہیں ہے بلکہ پاکستانیوں کا ہے،میڈیا سے گفتگو لاہور(بیورورپورٹ) جماعت اسلامی پاکستان کے امیر حافظ نعیم الرحمان نے کہا ہے کہ بھارت کان کھول ...
6ستمبرشجاعت اور بہادری کاتاریخ ساز دن،شہدا اور غازیوں کے ورثے سے ملنے والی طاقت ، جذبہ اور شجاعت ہماری اصل قوت ہے،محسن نقوی یومِ دفاع ہماری جرات کی روشن علامت ہے،پاک فوج نے ایک طاقت رکھنے والے دشمن کو شکست دی ،غرور کو توڑ کر ملک کا نام روشن کیا،مصطفی کمال وفاقی وزرا نے کہا ہے...
ایٔر فورس ڈے پر پاک فضائیہ کے شہداء کو خراج عقیدت اور غازیوں کی جرأت کو سراہتا ہوں، چیئرمین پیپلز پارٹی 7 ستمبر ہماری تاریخ میں جرأت، قربانی اور پاکستان ایٔر فورس کی بے مثال پیشہ ورانہ صلاحیت کا دن ہے،پیغام پاکستان پیپلز پارٹی کے چیٔرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ پاکس...
پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کا اجلاس کیوں نہیں بلایا گیا؟سپریم کورٹ رولز کی منظوری سرکولیشن کے ذریعے کیوں کی گئی؟اختلافی نوٹ کو جاری کرنے سے متعلق پالیسی میں تبدیلی کیلئے انفرادی طور مشاورت کیوں کی گئی؟ ججز کی چھٹیوں پر جنرل آرڈر کیوں جاری کیا گیا؟ آپ ججز کوکنٹرولڈ فورس کے طور پ...