وجود

... loading ...

وجود

ملکوں کی دولت کیسے پیدا ہوتی ہے؟

منگل 20 فروری 2018 ملکوں کی دولت کیسے پیدا ہوتی ہے؟

کوئی ملک امیر کیسے بنتا ہے؟ کچھ بتا سکتے ہیںآپ؟ چلیے تفریح کے لیے ان چیزوں کی فہرست بنائیے جو آپ کے خیال میں کسی ملک کو دولت مند بنانے کے لیے ضروری ہیں، اور پھر ان کا مقابلہ کیجئے ان خیالات سے جو سترہویں اور اٹھارویں صدی کے ذہین لوگ اس موضوع پر لکھتے تھے۔ انہیں اس موضوع سے بہت دلچسپی تھی کیونکہ اس زمانے میں وہ ملک، یعنی قومی ریاست، کے حوالے سے سوچنے لگے تھے۔ ان کے سامنے سب سے بڑا سوال تھا کہ کیا وہ حالات جنہوں نے شہروں کو مال دار اور بڑا بنایا تھا، وہی پورے ملک کو مال دار بنا سکتے ہیں؟ سیاسی طور پر انہوں نے اس وقت قومی ریاست بنالی تھی، اب ان کو فکر تھی کہ معاشی طور پر بھی وہ اس ریاست کو عظیم اور خود مختار بنائیں۔ چنانچہ انہوں نے اس زمانے میں جو کچھ لکھا اور جیسے قوانین بنانے کے لیے سفارشیں کیں وہ سب پورے ملک کے حوالے سے تھیں۔ حکومتوں نے ایسے قوانین بنائے جن کے ذریعہ ان کے خیال میں پوری قوم مال دار اور طاقت ور بن سکے گی۔ قابل غور یہ بات ہے کہ اس مقصد کو نظر میں رکھتے ہوئے انہوں نے روزمرہ زندگی کے ہر پہلو کی نگرانی کی اور سوچ سمجھ کر اپنی رعایا کے طور طریقوں اور سرگرمیوں کو خاطر خواہ انداز میں ڈھالا اور تبدیل کیا۔ اس سلسلے میں جو نظریات اور قوانین وضع کیے گئے ان کو مورخ ’’سوداگروں کا نظام‘‘ کا نام دیتے ہیں۔ لیکن دراصل یہ کوئی باضابطہ نظام نہیں تھا جس کی پہلے کوئی تھیوری بنائی گئی اور پھر اس تھیوری پر عمل کیا گیا۔ بات ساری یہ تھی کہ حکومتیں ہمیشہ دیوالیہ اور مفلس رہتی تھیں۔

چنانچہ اس زمانے کے بڑے بڑے سیاستدانوں اور سوچ رکھنے والوں کے ذہنوں میںیہ خیال ایک فوری ضرورت بن کر ابھرا کہ آخر ملک دولت مند کیسے بنتے ہیں؟ ان کو کس قسم کی معاشی پالیسیاں اختیار کرنا چاہئیں کہ ان کی طاقت اور دولت میں اضافہ ہو؟ سولہویں صدی عیسوی میں غالباً ا سپین دنیا کا سب سے زیادہ مالدار اور طاقت ور ملک تھا۔ا سپین کی اس دور میں دولت مندی اور قوت کا راز ان سونے اورچاندی کے ذخائر میں مضمر تھا جو جنوبی امریکا میں اس کی نوآبادیوں سے ابل ابل کر آر ہے تھے۔ چنانچہ اس دور میں یہ اصول طے پایا کہ کسی ملک میں ان قیمتی دھاتوں کی جتنی مقدار ہوگی اتنا ہی وہ ملک دولت مند اور طاقت ور سمجھا جائے گا۔ ہم سترہویں اور اٹھارہویں صدی میں مختلف ممالک میں ایسے قوانین کی بہتات دیکھتے ہیں جس میں سونے چاندی کو اپنے ملک کی حدود سے باہر لے جانے پر سخت پابندیاں لائی گئیں۔ لیکن اسی دور میں اس کے خلاف یہ احساس بھی ابھرنے لگا کہ یہ دھاتیں بذات خود جامد اور مردہ ہیں۔ یہ دولت اسی وقت پیدا کرتی ہے جب ان کو استعمال کیا جائے۔ اسی نظریے کے تحت انگریزی ایسٹ انڈیا کمپنی کے چارٹر میں باقاعدہ ایک دفعہ یہ بھی تھی جس میں کمپنی کو سونا چاندی باہر بھیجنے کی اجازت دی گئی تھی ، اور جب سترہویں صدی میں بعض اہل قلم نے کمپنی کے چارٹر کی دفعہ پر اعتراض کیے تو کمپنی کے ایک ڈائریکٹر ٹومس من نے کمپنی کی پالیسی کی حمایت میں ایک کتاب لکھی جس کا عنوان تھا ’’بیرونی تجارت سے انگریزی منافع‘‘ اس میں وضاحت کی گئی تھی کہ ایسٹ انڈیا کمپنی خام مال خریدنے کے لیے مشرقی ملکوں میں سونا چاندی بھیجتی ہے۔ یہ خام مال انگلستان سے یا دوسرے ملکوں سے بھیج دیا جاتا ہے۔ دونوں صورتوں میں جو رقم ملتی ہے وہ اس رقم سے کہیں زیادہ ہوتی ہے جو باہر بھیجی جاتی ہے۔ دوسرے الفاظ میں سونا اور چاندی کی پہلے سے زیادہ مقدار ملک میں واپس لوٹ آتی ہے۔ اس لیے ان اس نئے دور میں دولت بڑھانے کی یہی تدبیر ٹھہری کہ قیمتی چیزیں باہر بھیجی جائیں اور صرف ضرورت کی چیزیں اپنے ملک میں منگوائی جائیں اور ا س تبادلے میں اپنے مال کی جتنی قیمت بڑھے وہ نقد سکّے کی صورت میں وصول کی جائے۔ یہ تدابیر کامیاب بنانے کے لیے ضروری تھا کہ صنعت کی ترقی کی ہر امکانی کوشش کی جائے کیونکہ زرعی مال کی بجائے مصنوعات کی قیمتیں دوسرے ممالک سے زیادہ حاصل ہو سکتی تھی۔

اس دور میں یورپ کے ہر ملک میں صنعتی ترقی کے لیے زبردست بھاگ دوڑ شروع ہو گئی۔ اس مقصد کے لیے صنعتی میدان میں نئی نئی ایجادات لازمی ٹھہریں اور ان کی ضرورت اتنی شدت کے ساتھ محسوس کی جانے لگی کہ جرمنی کے علاقے بیوریا میں 1616ء میں ایک ’’برین ٹرسٹ‘‘ (ذہین اشخاص کا ایک گروہ) قائم کیا گیا تاکہ یہ نئی نئی ایجادات کے لیے غور و فکر اور تجربات کریں۔ ہم اس زمانے کے یورپ کے معاملات کو جتنا غور سے پڑھیں اتنا ہی ہمیں احساس ہوتا ہے کہ وہاں اپنی برآمدات کو بڑھانے کے لیے جو اقدامات چار پانچ صدیاں پہلے اٹھائے گئے تیسری دنیا کے رہنے والے اب اٹھارہے ہیں۔ مثلاً سترہویں صدی کی ابتدائی دہائیوں میں جب برآمدات کا سلسلہ شروع ہوا تو یورپی حکومتوں نے اس دور میں باہر بھیجی جانے والی مصنوعات پرمالی امداد دینی شروع کی تاکہ بیرون ملک یہ اشیا سستے داموں اور زیادہ تعداد میں بیچی جا سکیں اور صنعت کار کو زیادہ سے زیادہ مصنوعات تیار کرنے کی شہ ملے اور بیرونی منڈی میںیہ مصنوعات دوسرے ملکوں کی اس جیسی دوسری مصنوعات کا کامیابی کے ساتھ مقابلہ کر سکیں۔ دوسری طرف اپنی مصنوعات کو بیرونی مصنوعات سے حفاظت دینے کے لیے یورپ کے ممالک نے حفاظتی محصول لگانا شروع کر دیا تاکہ باہر سے آنے والی اشیا مہنگی ہو جائیں اورملکی اشیا کا مقابلہ نہ کر سکیں۔

جب انگلستان میں جب کپڑے کی صنعت کاآغاز ہوا تو اس صنعت سے متعلق صنعت کاروں کے نمائندے نے حکومت کو ایک عرضداشت پیش کی جس میں درج تھا۔ ’’میرا خیال ہے کہ میں نے اچھی طرح ثابت کر دیا ہے کہ انگلستان اور آئرلینڈ میں کپڑے کی صنعت ابھی ابتدائی منزل میں ہے اس لیے اس کا سستا بیچنا ہمارے امکان سے باہر ہے۔ وہ لوگ جو عرصہ سے یہی کام کررہے ہیں اور ان کی صنعت کی بنیادیں پوری طرح جم گئی ہیں۔۔۔ ہم (اس شعبے میں) خصوصی حوصلہ افزائی کیے بغیر جلد کسی ترقی کی امید نہیں دلا سکتے۔‘‘ سترہویں، اٹھارویں صدی میں یورپی ملکوں نے اپنی اپنی صنعتوں کی ترقی کے لیے کارخانہ داروں کی مدد صرف سرکاری امداد اور بیرونی مصنوعات پر محصول اور پابندیاں لگا کر ہی نہیں کی بلکہ غیر ملکوں کے ایسے ماہر کاریگروں کو بھی، جو تجارت اور صنعت کی ترقی کے نئے نئے طریقے اور گر بتا سکیں، بلایا گیا اور انہیں اپنے ملک میں بسانے کے لیے تمام امکانی تدبیریں اختیار کی گئیں۔ ان کو ترغیب دی گئی کہ اگر وہ آکر بس جائیں گے تو ان سے کوئی بھی ٹیکس وصول نہیں کیا جائے گا۔ ان کو رہائش کے لیے مکانات دیے جائیں گے، ان سے کوئی کرایہ وصول نہیں کیا جائے گا، اور ان کو اپنے کاروبار کے لیے بطور قرض سرمایہ بھی مہیا کیا جائے گا۔ یہاں تک کہ اگر یہ کاریگر اور دستکار خوشی سے آنے کے لیے تیار نہ ہوتے تو حکومتیں کبھی کبھی ان کو اغوا کرنے سے بھی گریز نہ کرتیں۔ غرضیکہ اس دور میں بالکل ہمارے زمانے کی طرح حکومتیں صنعتوں کی حوصلہ افزائی کے لیے ہر ممکن امداد دینے کے لیے تیار رہتیں۔ دستکاروں کو بڑے کارخانوں کو لگانے کے لیے کثیر رقم بطور مالی امداد دینے اور دیگر مراعات کا اعلان کیا گیا۔ آج کل اسے سبسڈی بھی کہا جاتا ہے۔ یہ وہ دور تھا جب اقتصادیات کی دنیا میںیہ نظریہ زور پکڑ رہا تھا کہ دولت تجارت کے ذریعہ پیدا ہوتی ہے اور تجارت کا فروغ صنعتوں کے فروغ کے ذریعہ ہوتا ہے


متعلقہ خبریں


سرحد پار دہشت گردی ، فیصلہ کن اقدامات جاری رکھیںگے، وزیر دفاع وجود - پیر 03 نومبر 2025

افغان ترجمان کی جانب سے بدنیتی پر مبنی اور گمراہ کن تبصروں سے حقائق نہیں بدلیں گے، پاکستانی قوم، سیاسی اور عسکری قیادت مکمل ہم آہنگی کے ساتھ قومی سلامتی کے امور پر متحد ہیں،خواجہ آصف عوام افغان طالبان کی سرپرستی میں جاری بھارتی پراکسیوں کی دہشت گردی سے بخوبی واقف ہیں،طالبان کی...

سرحد پار دہشت گردی ، فیصلہ کن اقدامات جاری رکھیںگے، وزیر دفاع

سی ٹی ڈی تھانے میں دھماکا، اہلکار جاں بحق ،2 زخمی وجود - پیر 03 نومبر 2025

مال خانے میں شارٹ سرکٹ سے دھماکا ، اطراف کا علاقہ سیل کر دیا گیا دھماکے سے عمارت کے ایک حصے کو نقصان پہنچا، واقعہ کی تحقیقات جاری پشاور میں یونیورسٹی روڈ پر محکمہ انسداد دہشتگردی (سی ٹی ڈی) کے تھانے میں دھماکے کے نتیجے میں ایک اہلکار شہید اور 2 زخمی ہوگئے۔کیپیٹل سٹی پولیس آف...

سی ٹی ڈی تھانے میں دھماکا، اہلکار جاں بحق ،2 زخمی

کراچی ،ای چالان کے بعد اہلکار تبادلے کرانے لگ گئے وجود - پیر 03 نومبر 2025

کام نہ کرنیوالے اہلکار ٹریفک پولیس سے ضلعی پولیس میں تبادلے کرا رہے ہیں، ڈی آئی جی ٹریفک ہمیں انھیں روکنے میں دلچسپی نہیں،اب فورس میں وہی رہے گا جو ایمان داری سے کام کریگا،گفتگو ڈی آئی جی ٹریفک نے انکشاف کیا ہے کہ کراچی میں ای چالان سسٹم کے آغاز کے بعد سے ٹریفک اہلکار تباد...

کراچی ،ای چالان کے بعد اہلکار تبادلے کرانے لگ گئے

عمران خان کو مشترکہ لائحہ عمل کے تحت رہا کروائیں گے، سہیل آفریدی وجود - پیر 03 نومبر 2025

کارکنان کا یہ جذبہ بانی پی ٹی آئی سے والہانہ محبت کا عکاس ہے،وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا پی ٹی آئی سندھ کے کارکنان و دیگر کی ملاقات ، وزارت اعلیٰ کا منصب سنبھالنے پر مبارکباد وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا سہیل آفریدی کا کہنا ہے کہ مشترکہ لائحہ عمل کے تحت بانی پاکستان تحریک انصاف (...

عمران خان کو مشترکہ لائحہ عمل کے تحت رہا کروائیں گے، سہیل آفریدی

علماء کرام کیلئے حکومت کا وظیفہ مسترد،اسلام آباد آنے میں 24 گھنٹے لگیں گے، مولانا فضل الرحمان کی دھمکی وجود - اتوار 02 نومبر 2025

ہمیں اسلام آباد مارچ پر مجبور نہ کرو، اگر کوئی مذہب کے بغیر زندگی گزارنے کا فلسفہ رکھتا ہے تو وہ دور جہالت میں ہے،بین الاقوامی ایجنڈا ہے مذہبی نوجوان کو مشتعل کیا جائے،سربراہ جے یو آئی تم اسلامی دھارے میں آؤ ہم قومی دھارے میں آئیں گے،پاکستان کو جنگوں کی طرف نہ لے کر جائیں،ا...

علماء کرام کیلئے حکومت کا وظیفہ مسترد،اسلام آباد آنے میں 24 گھنٹے لگیں گے، مولانا فضل الرحمان کی دھمکی

پاک افغان تعلقات عمران خان دور میں اچھے تھے، ذبیح اللہ مجاہد وجود - اتوار 02 نومبر 2025

سویلین حکومت تعلقات قائم کرنے میں دلچسپی رکھتی ہے، اسٹیبلشمنٹ اس کی اجازت نہیں دیتی،پاکستانی سرزمین پر ہونیوالے واقعات کو روکنے کا اختیار نہیں، ترجمان کا ٹی وی چینل کو انٹرویو امارت اسلامیہ افغانستان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کا کہنا ہے کہ پاکستانی سرزمین پر ہونیوالے واقعات کو...

پاک افغان تعلقات عمران خان دور میں اچھے تھے، ذبیح اللہ مجاہد

پاکستان نے ترجمان افغان طالبان کا بیان مسترد کردیا وجود - اتوار 02 نومبر 2025

پاکستان کیخلاف افغانستان کے جھوٹے دعوے حقائق کے منافی ہیں،ہم نے افغان سرزمین پر موجود دہشت گردوں کی گرفتاری کا مطالبہ کیا اور یہ مؤقف ریکارڈ پر موجود ہے، وزارت اطلاعات وزارت اطلاعات و نشریات نے افغان طالبان کے ترجمان کا بیان گمراہ کن قرار دے کر مسترد کردیا اور کہا ہے کہ پاکست...

پاکستان نے ترجمان افغان طالبان کا بیان مسترد کردیا

مقبوضہ جموں و کشمیر بھارت کا حصہ نہیں،متنازع علاقہ ، پاکستان وجود - اتوار 02 نومبر 2025

حتمی فیصلہ اقوامِ متحدہ کی نگرانی میں رائے شماری کے ذریعے وہاں کے عوام کو خود کرنا ہے جنرل اسمبلی میں بھارتی نمائندے کے ریمارکس پرپاکستانی مندوب کا دوٹوک جواب پاکستان نے اقوام متحدہ میں واضح کیا ہے کہ مقبوضہ جموں و کشمیر بھارت کا حصہ نہیں ہے، نہ کبھی تھا اور نہ ہی کبھی ہوگا، ...

مقبوضہ جموں و کشمیر بھارت کا حصہ نہیں،متنازع علاقہ ، پاکستان

پنجاب بڑی تباہی سے بچ گیا، 18 دہشت گرد گرفتار وجود - اتوار 02 نومبر 2025

دہشت گردوں سے دھماکہ خیزمواد،خود کش جیکٹ بنانے کا سامان برآمدہوا خطرناک دہشتگرد شہرمیں دہشتگردی کی پلاننگ مکمل کرچکا تھا،سی ٹی ڈی حکام محکمہ انسداد دہشتگردی (سی ٹی ڈی) نے پنجاب میں ایک ماہ کے دوران 386 انٹیلی جنس بیسڈ آپریشنز میں 18 دہشت گرد گرفتار کرلئے ۔دہشتگردی کے خدشات ...

پنجاب بڑی تباہی سے بچ گیا، 18 دہشت گرد گرفتار

بلدیاتی حکومتوں کو بااختیار بنانے کیلئے27 ویں ترمیم کی بازگشت وجود - هفته 01 نومبر 2025

مقامی حکومتوں کے معاملے پر کھل کر بات ہونی چاہئے، تحفظ کیلئے آئین میں ترمیم کرکے نیا باب شامل کیا جائے،اسپیکرپنجاب اسمبلی مقررہ وقت پر انتخابات کرانا لازمی قرار دیا جائے،بے اختیار پارلیمنٹ سے بہتر ہے پارلیمنٹ ہو ہی نہیں،ملک احمد خان کی پریس کانفرنس اسپیکر پنجاب اسمبلی ملک مح...

بلدیاتی حکومتوں کو بااختیار بنانے کیلئے27 ویں ترمیم کی بازگشت

افغانستان سے کشیدگی نہیں،دراندازی بند کی جائے، دفتر خارجہ وجود - هفته 01 نومبر 2025

امید ہے 6 نومبر کو افغان طالبان کیساتھ مذاکرات کے اگلے دور کا نتیجہ مثبت نکلے گا،ترجمان پاکستان خودمختاری اور عوام کے تحفظ کیلئے ہر اقدام اٹھائے گا،طاہر اندرابی کی ہفتہ وار بریفنگ ترجمان دفتر خارجہ طاہر اندرابی نے کہا ہے کہ پاکستان کو امید ہے کہ 6 نومبر کو افغان طالبان کے سات...

افغانستان سے کشیدگی نہیں،دراندازی بند کی جائے، دفتر خارجہ

عمران خان کیخلاف مقدمات انسداد دہشتگردی عدالت منتقل وجود - هفته 01 نومبر 2025

بانی پی ٹی آئی کا ٹرائل اڈیالہ جیل سے ویڈیو لنک کے ذریعے ہوگا،محکمہ داخلہ پنجاب سکیورٹی کے خصوصی انتظامات کی اڈیالہ جیل، پولیس اور پراسیکیوشن حکام کو ہدایات بانی پی ٹی آئی کے خلاف 11مقدمات اے ٹی سی راولپنڈی منتقل کردیٔے گئے،ان کیخلاف مقدمات انسداد دہشتگردی عدالت میں چلیں گے...

عمران خان کیخلاف مقدمات انسداد دہشتگردی عدالت منتقل

مضامین
بہار کے انتخابی دنگل میں مسلمان وجود پیر 03 نومبر 2025
بہار کے انتخابی دنگل میں مسلمان

مودی کی ناکام زرعی پالیسیاں وجود پیر 03 نومبر 2025
مودی کی ناکام زرعی پالیسیاں

نفرت انگیز بیانیہ نہیں وطن پرستی وجود اتوار 02 نومبر 2025
نفرت انگیز بیانیہ نہیں وطن پرستی

مقبوضہ وادی میں اسلامی لٹریچر نشانہ وجود اتوار 02 نومبر 2025
مقبوضہ وادی میں اسلامی لٹریچر نشانہ

ایشیاء میں بڑھتا معاشی بحران وجود اتوار 02 نومبر 2025
ایشیاء میں بڑھتا معاشی بحران

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر