وجود

... loading ...

وجود

شہرمیں دوڑتی گاڑیوں کے بیچ سائیکلیںِ اسٹاک ہوم کی پہچان ہیں

اتوار 18 فروری 2018 شہرمیں دوڑتی گاڑیوں کے بیچ سائیکلیںِ اسٹاک ہوم کی پہچان ہیں

اسٹاک ہوم کی طرف روانہ ہوا تو ایسا نہیں لگا کہ کسی اور ملک گیا ہوں کیوں کہ اسکینڈے نیویا کا عمومی مزاج ایک جیسا ہے۔ صاف ستھرا ماحول، اپنے کام سے کام رکھنے والے لوگ، عوامی ٹرانسپورٹ کا بہترین نظام، ایک ہی طرز کے ٹرانسپورٹ کارڈ، جیب پھاڑ قسم کی مہنگائی، امن و شانتی ایسی کہ لوگوں کے چہروں سے چھلکتی ہوئی محسوس ہو، دکھاوے سے ذرا دور سادہ دکھائی دینے والی اکثریت، گاڑیوں کے ساتھ ساتھ دوڑتی بھاگتی سائیکلیں اور ایک عجب سی خماری جو آسودگی کے بعد خود بخود چہرے کا حصہ بن جاتی ہے، جو باہر سے آنے والوں کو شاید بے نیازی لگتی ہے، بس یوں سمجھ لیجیے کہ یہاں بھی ایسا بہت کچھ ہے جو ناروے، ڈنمارک اور سوئیڈن میں مشترک ہے۔یہاں ایک خوبی یہ بھی دیکھنے کو ملی کہ اجنبی لوگوں سے کافی دوستانہ رویہ روا رکھا جاتا ہے۔ اس رویے میں ایک خاص بات یہ ہے کہ امریکی رویے کی طرح یہ چھلکتا نہیں، لوگ شاید کسی اجنبی کو مسکراہٹ نہ دیں لیکن جوں ہی آپ کسی کو مدد کے لیے پکاریں تو وہ فوری طور پر یکسوئی سے آپ کی بات سننے اور حتی المقدور اس کو حل کرنے کی بھی کوشش کرتے ہیں۔ بڑے شہروں کی مصروف زندگی میں ہوسکتا ہے کہ آپ کو کچھ اور طرز کے لوگ بھی ملیں لیکن بالعموم اسکینڈے نیویا کے لوگ مددگار قسم کی فطرت رکھتے ہیں۔

اسٹاک ہوم کی سیر کے حوالے سے جو ایک چیز مختلف تھی وہ کہ اس شہر کو میں دیکھنے نہیں گیا بلکہ مجھے اس شہر کو دیکھنے کے بلایا گیا تھا۔ سوئیڈن میں پاکستان کے سفیر طارق ضمیر کی دعوت مجھے اس شہر میں کھنیچ لائی تھی۔ محمود مرزا، ذیشان میاں اور ڈاکٹر عارف کسانہ صاحب کی معیت نے اس سفر کو آسودہ کردیا تھا۔ عمومی طور پر ہر شہر میں دیکھنے سے تعلق رکھنے والی مشہور جگہوں کو ڈھونڈنا اور کم وقت میں سب کو دیکھنے جانا ایک مشکل مرحلہ ہوتا ہے، لیکن اگر کسی اجنبی شہر میں کوئی یار مہربان مل جائے تو یہ مشکل کام بہت آسان ہوجایا کرتی ہے۔میرا یہاں قیام صرف 2 دن ہی تھا، کیونکہ یہ شہر میرے بسیرے سے ایک گھنٹہ ہی دور تھا۔ اس لیے شہر میں آتے ہی سیر کو نکل کھڑے ہوئے۔ محمود مرزا صاحب نے بمشکل پارکنگ ڈھونڈی۔ یہاں مرکزی شہر کے اندر پارکنگ ڈھونڈنا ہر بڑے شہر کی طرح مشکل ہی ہے۔ پارکنگ پلازہ سینٹر سے کچھ فاصلے پر تھا، لیکن شہر کو ملاتی ہوئی زیرِ زمین ٹنل نے اس پارکنگ ہاؤس کو شہر سے بہت قریب کردیا تھا۔اس ٹنل کو پیدل چلنے والوں اور سائیکل سواروں کے گزرنے کے لیے بنایا گیا ہے۔ اسکینڈے نیویا کی خوبصورتی ان چھوٹی چھوٹی جگہوں سے جھلکتی ہے، صاف ستھری، ہوادار اور روشن ٹنل، بجائے اس کے کہ آپ کو قبر کی طرف جانے والا راستہ لگے، ایک خوبصورت تجربہ بن گئی تھی۔کہیں کہیں مدھر گھنٹیوں کی آوازیں اور کہیں مختلف روشنیوں کے ملاپ سے ایسا ماحول بنایا گیا تھا کہ دل چاہ رہا تھا کہ ابھی کچھ دیر اور اسی ٹنل میں چلا جائے۔ مگر آگے تو جانا تھا، لیکن جیسے ہی تھوڑا آگے گئے تو ایک جگہ پر میوزک بجانے والا فنکار اپنے ساز سے دھنیں بکھیر رہا تھا۔اس ٹنل سے نکل کر ہم اس گلی میں آ پہنچے جہاں اسی (80) کی دہائی میں سوئیڈن کے وزیرِ اعظم اولف پالمے کا قتل ہوا تھا۔ وہ بنا کسی محافظ اپنی بیوی کے ساتھ فلم دیکھ کر نکلے اور گھات میں لگے ہوئے نامعلوم قاتلوں کا نشانہ بن گئے۔ اولف پالمے نامی اس وزیرِ اعظم سے ہمارے پاکستانی وزیرِ اعظم ذوالفقار علی بھٹو بہت متاثر تھے اور ان سے ملنے اسٹاک ہوم بھی آئے تھے۔ اولف پالمے کی یادگار کے طور پر سڑک پر اس جگہ ایک چھوٹی سی تختی نصب ہے، جس پر لکھا ہوا ہے کہ اس جگہ وزیرِ اعظم پر حملہ ہوا تھا۔ بہت سے لوگ اس سڑک اور اس جگہ سے یوں گزر جاتے ہیں جیسے کسی کو اس جگہ کے بارے میں کچھ خبر ہی نہ ہو اور نہ ہی یہ جگہ چیخ چیخ کر اپنی موجودگی کا احساس دلاتی ہے۔ایک مقامی مارکیٹ سے گزرتے ہوئے ہم واکنگ اسٹریٹ تک چلے آئے۔ یورپ بھر میں بڑی بڑی شاپنگ کی گلیاں صرف پیدل چلنے والوں کے لیے مخصوص ہوتی ہیں۔ دو طرفہ برانڈز کی دکانیں اور درمیان میں ایک کھلی گلی، جس پر ہمیشہ لوگوں کا ہجوم رہا کرتا ہے۔ کئی جگہوں پر اپنے فن کا مظاہرہ کرنے والے گلوکار، سازندے، شعبدے باز بھی دکھائی دیتے ہیں۔ ایسا تصور تو دنیا کے سینکڑوں ممالک میں پایا جاتا ہے، بس یہ کہ دکانوں کے نام، دکاندار اور لوگ بدل جاتے ہیں اور انہی لوگوں کی مناسبت سے ماحول میں بھی تبدیلی آجاتی ہے۔

واکنگ اسٹریٹ سے گزر کر ہم سینٹرل اسٹیشن والی سڑک پر آ نکلے۔ سوئیڈن سے گزرنے والے اس کی صفائی ستھرائی دیکھ کر اس کے نصف ایمان کی گواہی دیتے ہیں۔ اس شاندار عمارت کے وسیع لاؤنج سے گزر کر ہم سینٹرل اسٹیشن کی عمارت کے بالکل سامنے چلے آئے، آج یہاں پر میراتھان طرز کی کوئی سرگرمی چل رہی تھی، اس لیے سڑکوں پر چمکتی وردیوں والے رضاکار دکھائی دے رہے تھے۔

دیکھتے ہی دیکھتے سامنے تالیوں کی گونج سنائی دینے لگی۔ سامنے سے کچھ ایک درجن افراد دوڑتے ہوئے چلے آرہے تھے، جونہی دوڑتے ہوئے لوگ کناروں پر کھڑے تماشائیوں کے پاس سے گزرتے تو لوگ ہمت بندھانے والے نعروں اور تالیوں سے ان کا حوصلہ بڑھاتے رہتے۔ کچھ ہی دیر میں سینکڑوں کا ہجوم آتا دکھائی دیا اور لوگوں کی تالیوں کی گونج دوڑنے والوں کے بوٹوں کے شور میں گم ہوگئیں۔ اس دوڑ اور ہجوم سے تھوڑی دیر محظوظ ہونے کے بعد ہم اسٹاک ہوم کے ٹاؤن ہال کی طرف چلے آئے۔ نوبل انعام جیتنے والوں کو اسی ٹاؤن ہال میں بادشاہ کی طرف سے کھانا دیا جاتا ہے۔

ہمارے ہمسفر ذیشان میاں صاحب نے بتایا کہ بعض اوقات حکومت کے لیے اچھا اور بہترین کام کرنے والوں کو بھی اسی ٹاؤن ہال میں بادشاہ کی طرف سے کھانے پر مدعو کیا جاتا ہے اور وہ خود یہ اعزاز 2 مرتبہ حاصل کرچکے ہیں۔ ہم ٹاؤن ہال پہنچے تو وہاں 2 سے 3 نوبیاہتا جوڑے دکھائی دیے۔ مجھے بتایا گیا کہ آپ ٹاؤن ہال کی اس تاریخی عمارت کو اپنی شادی کی تقریبات پر کرائے پر بھی حاصل کرسکتے ہیں، لیکن ان شادی شدہ جوڑوں کو دیکھ کر یہی لگ رہا تھا کہ وہ یہاں صرف فوٹو شوٹ کے لیے آئے ہوئے ہیں۔ٹاؤن ہال کی سمندر والی طرف رخصت ہونے والے موسم گرما کی آخری دھوپ کے مزے لوٹنے کے لیے خاصے لوگ موجود تھے۔ یہاں سے ہوتے ہوئے ہم سوئیڈن کی پارلیمنٹ کی عمارت اور بادشاہ کے محل کی طرف لوٹ آئے۔ شاہی محل کے سامنے شہر کی جانب ایک باغ میں کسی کنسرٹ کی تیاری چل رہی تھی۔ اس سے آگے ایک نخلستان نما گرین بیلٹ شہر کے بجائے کسی باغ میں چلنے کا احساس دے رہا تھا۔یہیں پر موجود درختوں کے نیچے بڑے بڑے مہروں والی شطرنج کی بساط بچھائی گئی تھی، جسے 2 لوگ کھیل رہے تھے اور کچھ لوگ بطورِ تماشائی اس کھیل سے محظوظ ہورہے تھے۔ لیکن ہم نے یہاں رکنے کے بجائے واپسی کی راہ لی، کیونکہ شام کو مجھے سفیر محترم کی رہائش گاہ پر کھانے پر مدعو کیا گیا تھا۔ اسی عشائیے پر اخوت کے بانی، ڈاکٹر امجد ثاقب صاحب سے بھی ملاقات ہوئی، جو بوجہ علالت سفیر محترم کے مہمان تھے۔

اگلی صبح بلاگر و مصنف عارف کسانہ صاحب نے شہر دکھانے کی ٹھانی۔ ان سے یہ طے ہوا تھا کہ صبح 9 بجے اسٹاک ہوم کے پرانے شہر میں ملا جائے گا، مگر صبح 6 بجے ہی اْٹھ کر شہر کی جانب چل پڑا. بڑے شہر کی گلیوں کو دن کی رونق سے آباد ہوتے دیکھنا اپنے اندر ایک تجربہ ہے۔ واکنگ اسٹریٹ پر اس وقت سناٹا تھا جبکہ ریلوے اسٹیشن کے سامنے بھی بس اکا دکا لوگ تھے. یہاں میں نے ناشتہ کیا اور بادشاہ کے محل کی طرف سے ہوتا ہوا پرانے شہر کی طرف چل پڑا۔

سورج کی پہلی کرنیں شاہی محل کے سامنے سمندر کے پانی کو جگمگا رہی تھیں۔ لوگ اپنے کاموں کی طرف نکلنے کا آغاز کرچکے تھے، شاہی محل کے گارڈ تبدیل ہو رہے تھے اور اسی سڑک پر 5 سے 6 گھڑ سوار بھی نجانے کس طرف سے آرہے تھے۔ بظاہر یوں لگ رہا تھا جیسے کسی گھڑ سواری کے اسکول کی کلاس چل رہی ہو۔ کچھ ہی آگے چائینز سیاحوں کی ایک بس رکی اور درجن بھر چائینز سیاح کیمروں کو تھامے بس سے نکل آئے۔ سچ پوچھیے تو انہیں دیکھ کر مجھے بھی تسلی ہوئی کہ اتنی صبح سیر کرنے والا میں اکیلا دیوانہ نہیں۔ابھی میں پرانے شہر میں داخل ہی ہوا تھا کہ میرے رہبر عارف کسانہ صاحب کا فون آگیا۔ جب میں نے انہیں بتایا کہ میں پہلے سے ہی شہر میں موجود ہوں تو وہ فوراً چلے آئے۔ گاڑی ہاتھ آنے سے مجھے شہر کے وہ حصے دیکھنے کا بھی موقع ملا جن کا تصور کم وقت کے لیے آنے والا کوئی سیاح بھی نہیں کرسکتا اور پھر شہر سے واقفیت کی بناء پر ہم ہر اس جگہ ٹھیک ٹھیک پہنچتے رہے کہ جہاں جانے کا سوچا گیا تھا۔

اسٹاک ہوم کی ایک پرانی فوجی چھاؤنی اور نیشنل میوزیم، سے ہوتے ہوئے ہم ٹی وی ٹاور تک جا پہنچے۔ یہاں جانے کی وجہ یہ تھی کہ یہاں سے شہر کا سب سے خوبصورت نظارہ کیا جاسکتا ہے۔ یورپ میں اس طرز کا رواج اب خاصا عام ہے کہ اونچی عمارتوں کے بالائی حصوں میں کیفے بنا دیے جاتے ہیں جن کو اسکائی بار کہا جاتا ہے۔ یہاں پر بھی ایک اسکائی بار بنائی گئی ہے، جہاں سے آپ نہ صرف شہر کو دیکھ سکتے ہیں بلکہ کافی اور دیگر مشروبات سے بھی لطف اندوز ہوسکتے ہیں۔اس اسکائی بار پر کافی پیتے ہوئے میں سوچ رہا تھا کہ اتنا ہرا رنگ ہمارے شہروں کے رنگوں میں کیسے بھرا جاسکتا ہے؟ یہاں سے درختوں، ہریالی اور سمندر کے رنگوں میں گھری ہوئی عمارتیں اسٹاک ہوم کو ایک جادوئی سا شہر بنا رہی تھیں۔ٹی وی ٹاور سے پلٹ کر ہم پھر سے شہر کی طرف چلے آئے اور اْس جگہ پہنچے جہاں نوبل انعام یافتہ لوگ انعام لینے سے پہلے خطاب کیا کرتے ہیں۔ یہاں سے شہر کے مشہور پارک ہاگا پارک کا رخ کیا۔ ہاگا پارک کے داخلی دروازے سے کافی دور پہلے ہی چند والنٹیر گاڑیوں کا رْخ دوسری جانب موڑ رہے تھے، کیونکہ آج یہاں کوئی مقامی فیسٹیول چل رہا تھا جس کی وجہ سے قریب والی پارکنگ بھری ہوئی تھی۔ لیکن جب ہم نے ان دربانوں سے درخواست کی کہ ہم نے وہاں گاڑی پارک نہیں کرنی بلکہ کچھ ہی دیر میں واپس آجانا ہے تو انہوں نے ہمیں آگے جانے دیا۔ڈاکٹر کسانہ صاحب گاڑی میں ہی موجود رہے اور میں نے 10، 15 منٹ میں اس تقریب اور پارک کا ایک سرسری سا جائزہ لینے کے بعد واپسی کا فیصلہ کیا۔ اندر فیملیز کا ہجوم تھا، جہاں بچوں کے لیے انڈور کھیلوں کے انتظامات کیے گئے تھے جبکہ سامنے ایک وسیع سبزہ زار پر لوگ اپنے دوستوں کی چھوٹی چھوٹی ٹولیوں میں موجود تھے۔ وہاں کھڑے ہوکر میں نے دیکھا کہ منتظمین سائونڈ سسٹم چیک کررہے ہیں جس کی وجہ سے کسی میوزیکل بینڈ کے آنے کے بھی کچھ آثار معلوم ہوئے۔ ایسی گہما گہمی عام طور پر اسکینڈے نیویا میں عام نظر نہیں آتی، لیکن یہاں بے فکری کا ایک میلہ لگا ہوا تھا۔ لوگ اپنے خاندانوں اور دوستوں کے ساتھ اس قدر مگن تھے کہ انہیں ارد گرد کی خبر ہی نہ تھی۔ میں نے ان چہروں سے آسودگی چرانے کی خواہش کی اور واپس چلا آیا اور واپسی میں دعا کرتا رہا کہ یا خدا ایسی بے فکری میرے دیس کی گلیوں تک بھی پہنچے، ایسی آسودگی کہ اپنی ضرورت سے زیادہ کمانے کی فکر نہ ہو اور کسی دوسرے کا حق چرانے کی خواہش نہ ہو۔یہاں سے ہم ایک پاکستانی ریسٹورنٹ میں چلے آئے اور دیسی طرز کا مزیدار کھانا کھایا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ اسٹاک ہوم میں سفر کی غرض سے گزارے جانے والے یہ 2 دن میرے تمام ہی سفروں سے مختلف تھے، اس کی وجہ شاید یہ تھی کہ پہلے دن سے لیکر آخری شام تک میں مہمان بنا رہا اور پاکستانیوں سے محبت وصول کرتا رہا۔


متعلقہ خبریں


سیکریٹری جنرل اقوام متحدہ کی پاکستان اور بھارت کے درمیان مصالحت کی پیشکش وجود - بدھ 30 اپریل 2025

  پیچیدہ مسائل بھی بامعنی اور تعمیری مذاکرات کے ذریعے پرامن طور پر حل کیے جا سکتے ہیں،یو این سیکریٹری کا مقبوضہ کشمیر واقعے کے بعد پاکستان، بھارت کے درمیان کشیدگی پر گہری تشویش کا اظہار دونوں ممالک کے درمیان تناؤ کم کرنے اور بات چیت کے دوبارہ آغاز کے لیے کسی بھی ایسی ک...

سیکریٹری جنرل اقوام متحدہ کی پاکستان اور بھارت کے درمیان مصالحت کی پیشکش

دہشت گردوں اور ان کے سرپرستوں کو جوابدہ ٹھہرایا جائے ،قونصلر جواد اجمل وجود - بدھ 30 اپریل 2025

  پاکستان نے کہا ہے کہ اس کے پاس جعفر ایکسپریس مسافر ٹرین پر حملے کے بارے میں قابل اعتماد شواہد موجود ہیں جس میں کم از کم 30 بے گناہ پاکستانی شہری شہید ہوئے اور درجنوں کو یرغمال بنایا گیا ۔ یہ حملہ اس کے علاقائی حریفوں کی بیرونی معاونت سے کیا گیا تھا۔اقوام متحدہ میں دہشت ...

دہشت گردوں اور ان کے سرپرستوں کو جوابدہ ٹھہرایا جائے ،قونصلر جواد اجمل

تنازع زدہ علاقوں کو درپیش چیلنجز سے نمٹنے کے لیے یکساں نقطہ نظر اپنایا جائے وجود - بدھ 30 اپریل 2025

دہشت گردوں اور ان کے سرپرستوں کو جوابدہ ٹھہرایا جائے ،قونصلر جواد اجمل پاکستان نے کہا ہے کہ اس کے پاس جعفر ایکسپریس مسافر ٹرین پر حملے کے بارے میں قابل اعتماد شواہد موجود ہیں جس میں کم از کم 30 بے گناہ پاکستانی شہری شہید ہوئے اور درجنوں کو یرغمال بنایا گیا ۔ یہ حملہ اس کے علاق...

تنازع زدہ علاقوں کو درپیش چیلنجز سے نمٹنے کے لیے یکساں نقطہ نظر اپنایا جائے

جعفر ایکسپریس حملے میں بیرونی معاونت کے ٹھوس شواہد ہیں،پاکستان وجود - بدھ 30 اپریل 2025

تنازع زدہ علاقوں کو درپیش چیلنجز سے نمٹنے کے لیے یکساں نقطہ نظر اپنایا جائے دہشت گردوں اور ان کے سرپرستوں کو جوابدہ ٹھہرایا جائے ،قونصلر جواد اجمل پاکستان نے کہا ہے کہ اس کے پاس جعفر ایکسپریس مسافر ٹرین پر حملے کے بارے میں قابل اعتماد شواہد موجود ہیں جس میں کم از کم 30 بے گنا...

جعفر ایکسپریس حملے میں بیرونی معاونت کے ٹھوس شواہد ہیں،پاکستان

دو دہائیوں کی نسبت آج کی ڈیجیٹل دنیا یکسر تبدیل ہو چکی ، وزیراعظم وجود - بدھ 30 اپریل 2025

زراعت، صنعت، برآمدات اور دیگر شعبوں میں آئی ٹی اور اے آئی سے استفادہ کیا جا رہا ہے 11 ممالک کے آئی ٹی ماہرین کے وفود کو پاکستان آنے پر خوش آمدید کہتے ہیں، شہباز شریف وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ کہ ٹیکنالوجی کے شعبے میں تیزی سے تبدیلی آئی ہے ، دو دہائیوں کی نسبت آ...

دو دہائیوں کی نسبت آج کی ڈیجیٹل دنیا یکسر تبدیل ہو چکی ، وزیراعظم

عوامی احتجاج کے آگے حکومت ڈھیر، متنازع کینال منصوبہ ختم وجود - منگل 29 اپریل 2025

  8 رکنی کونسل کے ارکان میں چاروں صوبائی وزرائے اعلیٰ، وفاقی وزرا اسحٰق ڈار، خواجہ آصف اور امیر مقام شامل ، کونسل کے اجلاس میں 25 افراد نے خصوصی دعوت پر شرکت کی حکومت نے اتفاق رائے سے نہروں کا منصوبہ واپس لے لیا اور اسے ختم کرنے کا اعلان کیا، نہروں کی تعمیر کے مسئلے پر...

عوامی احتجاج کے آگے حکومت ڈھیر، متنازع کینال منصوبہ ختم

دو تین روز میں جنگ چھڑ نے کا خدشہ موجود ہے ،وزیر دفاع وجود - منگل 29 اپریل 2025

  دونوں ممالک کی سرحدوں پر فوج کھڑی ہے ، خطرہ موجود ہے ، ایسی صورتحال پیدا ہو تو ہم اس کے لیے بھی سو فیصد تیار ہیں، ہم پر جنگ مسلط کی گئی تو بھرپور جواب دیں گے ، تینوں مسلح افواج ملک کے دفاع کے لیے تیار کھڑی ہیں پہلگام واقعے پر تحقیقات کی پیشکش پر بھارت کا کوئی جواب نہ...

دو تین روز میں جنگ چھڑ نے کا خدشہ موجود ہے ،وزیر دفاع

بھارتی جارحیت کا منہ توڑ جواب دیا جائے گا، اراکین سینیٹ وجود - منگل 29 اپریل 2025

مودی نے سیاسی حکمت عملی یہ بنائی کہ کیسے مسلمانوں کا قتل عام کرنا ہے، عرفان صدیقی بھارت کی لالچی آنکھیں اب جہلم اور چناب کے پانی پر لگی ہوئی ہیں، سینیٹر علی ظفر سینیٹ اجلاس میں اراکین نے کہاہے کہ دنیا بھر میں کہیں بھی دہشت گردی ہو اس کی مذمت کرتے ہیں، پہلگام واقعہ بھارت کی سو...

بھارتی جارحیت کا منہ توڑ جواب دیا جائے گا، اراکین سینیٹ

چین نے پاکستان کی بھرپور حمایت کا اعلان کر دیا وجود - منگل 29 اپریل 2025

پاکستان کی خودمختاری و سلامتی کے تحفظ کی کوششوں کی بھرپور حمایت کرتے ہیں پاکستان کے جائز سکیورٹی خدشات کو سمجھتے ہیں ،پہلگام واقعے کی تحقیقات پر زور چین نے پہلگام واقعے کے معاملے پر پاکستان کی بھرپور حمایت کا اعلان کر دیا۔چین کے وزیر خارجہ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے ...

چین نے پاکستان کی بھرپور حمایت کا اعلان کر دیا

پاکستان و بھارت دونوں سے رابطے میں ہیں،امریکہ وجود - منگل 29 اپریل 2025

مل کر مسئلے کا ذمہ دارانہ حل تلاش کیا جائے،مختلف سطح پر سنجیدہ بات چیت جاری ہے امریکہ نہیں سمجھتا اس میں پاکستان ملوث ہے، سعودیہ و ایران ثالثی پیشکش کرچکے ہیں مقبوضہ کشمیر کے علاقے پہلگام میں حالیہ واقعے کے بعد پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی اور تناؤ کے درمیان امریکا کا ...

پاکستان و بھارت دونوں سے رابطے میں ہیں،امریکہ

سیکیورٹی فورسزکی کارروائی، افغانستان سے دراندازی کرنے والے 54دہشت گرد ہلاک وجود - پیر 28 اپریل 2025

  بھارت کے پاکستان پر بے بنیاد الزامات کے وقت ، کارروائی سے واضح ہے یہ کس کے اشارے پر کام کر رہے ہیں، دہشت گردی کے خلاف مہم میں کسی ایک کارروائی میں یہ سب سے زیادہ ہلاکتوں کا ریکارڈ ہے دہشت گرد اپنے غیر ملکی آقاؤںکے اشارے پر پاکستان میں بڑی دہشت گرد کارروائیاں کرنے کے ...

سیکیورٹی فورسزکی کارروائی، افغانستان سے دراندازی کرنے والے 54دہشت گرد ہلاک

ایدھی رضا کاروں پر حیدرآباد میں شرپسندوں کا شدید تشدد وجود - پیر 28 اپریل 2025

ٹنڈو یوسف قبرستان میں لاوارث میتوں کی تدفین سے روک دیا، ایدھی ترجمان کا احتجاج قبرستان کے گورکن بھی تشدد کرنے والوں میںشامل، ڈپٹی کمشنر حیدرآباد سے مداخلت کی اپیل حیدرآباد کے ٹنڈویوسف قبرستان میں لاوارث میتوں کی تدفین کرنے والے ایدھی رضاکاروں پر نامعلوم افراد نے حملہ کیا، ج...

ایدھی رضا کاروں پر حیدرآباد میں شرپسندوں کا شدید تشدد

مضامین
بھارت کی بین الاقوامی میڈیا میں سبکی وجود بدھ 30 اپریل 2025
بھارت کی بین الاقوامی میڈیا میں سبکی

مسئلہ بلوچستان پر سردار نواب بخش باروزئی کی فکر انگیز باتیں وجود بدھ 30 اپریل 2025
مسئلہ بلوچستان پر سردار نواب بخش باروزئی کی فکر انگیز باتیں

ایٹمی جنگ دنیا کوجھنجھوڑ کے رکھ دے گی! وجود بدھ 30 اپریل 2025
ایٹمی جنگ دنیا کوجھنجھوڑ کے رکھ دے گی!

خطہ جنگ کی لپیٹ میں آسکتا ہے! وجود منگل 29 اپریل 2025
خطہ جنگ کی لپیٹ میں آسکتا ہے!

بھارت کا جھوٹی خبریں پھیلانے میں اول نمبر وجود منگل 29 اپریل 2025
بھارت کا جھوٹی خبریں پھیلانے میں اول نمبر

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر