وجود

... loading ...

وجود
وجود

ویلنٹائن ڈے اور زندگی!

جمعرات 15 فروری 2018 ویلنٹائن ڈے اور زندگی!

زندگی اپنے پورے پیکر میں حسین ہوتی ہے، ٹکڑوں اور حصوں میں نہیں۔ سورج آسمان پر چمکتا ہے، چاند دمکتاہے، کلیاں چٹکتی ہے، غنچے مہکتے ہیں، شگوفے پھوٹتے ہیں۔حیات اس سے اجتماعی حسن کشید کرتی ہے، خود بھی چندن کی طرح چمکتی اور کندن کی طرح دمکتی ہے۔حنا میں رنگ بھرتا ہے، پھول خوشبو دیتا ہے اور طائر نغمہ زن رہتا ہے۔ افسوس زندگی ہم سے روٹھ گئی۔ زندگی کا تصور باقی نہ رہا۔ انسانی تصورِ حیات پر انسان ہی حملہ آور ہوئے اور اس نے انسانوں کو ہی اپنا شکار بنایا۔ سرمایہ دارانہ نظام کی سب سے بڑی بہیمت ہی یہ ہے کہ اس نے انسانوں کو جنگوں میں جھونک کر منافع کی منڈی نہیں لگائی بلکہ زندوں کو بھی مردوں سے بدتر بنادیا۔ اُن کے افکار کو چاٹ لیا اور اُنہیں الفا ظ کی ایک ایسی مشق کا شکار بنایا جس میں افکار دھوکا بنے اور پھر وہ بھی سکے کمانے کا ایک ذریعہ بن گئے۔ زندگی اب زندگی کہاں ہے! منڈی کی ایک جنس ہے۔ جس میں انسانوں کی تمام کی تمام سرگرمیاں سرمائے کے منتر سے حرکت کرتی ہے۔ ویلنٹائن ڈے بھی ایک ایسا ہی دھوکا ہے۔

یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ’’ ویلنٹائن ڈے‘‘ کہاں سے آتا ہے؟جدید ریاست دراصل بے قید آزادی پر ایمان رکھتی ہے اور کھلی منڈی (فری مارکیٹ) پر یقین رکھتی ہے۔ یہ پورا تصور دراصل سرمایہ دارانہ نظام کی دین ہے۔ سرمائے کی بڑھوتری ، اس کی حفاظت اور اس کے مقاصد اس پورے اظہاریے میں ہی ممکن ہے۔ جس معاشرے میں آزادی میں جتنا زیادہ اضافہ ہوتا چلاجائے گا، وہاں خودکار طور پر حلال وحرام کا دائرہ سکڑتا جائے گا اور منڈی زیادہ سے زیادہ کُھلتی اور پھلتی پھولتی چلی جائے گی۔سرمائے کے اسی منتر سے حرکت کرنے والے دانشور اگرچہ ویلنٹائن ڈے کو ایک نجی سرگرمی باور کراتے ہیں مگر یہ سرمایہ دارانہ نظام کے اصل مذہب یعنی آزادی کی ایک عبادت ہے۔ آزادی ایک مذہبی اعتقاد کے ساتھ اِصرار کرتی ہے کہ انسان اپنے تمام دائروں میں بے قید سرگرمیوں کے ساتھ منڈی کی مخلوق بن کر رہے۔ اور اپنے جذبات، اعتقادات اور امتیازات کو اس کے تابع بنادیں۔ ویلنٹائن ڈے، مڈرڈے اور فاڈر ڈے دراصل اسی منڈی کی رونق بڑھاتے ہیں۔

پاکستان میں سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ یہاں اس مخمصے کو درست طور پر سمجھا نہیں جارہا جو جدیدیت اور روایت کی کشمکش میں دونوں طرف پایا جاتا ہے۔ عوام مذہبی تصورات کے حامل ہیں اور کم فہمی کے باوجود کامل وجدان کے ساتھ مذہبی تصورات سے پوری طرح جڑے ہوئے ہیں۔ریاست کے اندر جاری تمام قوتوں کی طرف سے جانبدارنہ کوششوں کے باوجود عوام کو پوری طرح ماڈرنائزڈ نہیں بنایا جا سکا۔چنانچہ ایک طرف ریاست کھلی منڈی کے دباؤ میں رہتی ہے اور دوسری طرف اُسے عوام کی اکثریت کے مذہبی تصورات کا دباؤ رہتا ہے۔اس میں اُسے منافقت کے ہتھیار کے ساتھ بروئے کا رآنا پڑتا ہے۔ ریاست کے اسی تذبذب کے اندر افراد اپنے انفرادی میلانات کے ساتھ اجتماعی زندگی میں بروئے کار آتے ہیں۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کے محترم جج کی طرف سے ویلنٹائن ڈے کے حوالے سے فیصلہ اسی انفرادی کوشش کا مبارک ترین عمل ہے۔ مذہبی افراد کو یہ اچھی طرح سمجھنا چاہئے کہ اگر اُن کی جگہ کوئی دوسرے جج ہوتے اور وہ اپنی فکر کے حوالے سے اس قدر حساس نہ ہوتے تو ایسے کسی قدم کی توقع بھی نہیں کی جاسکتی تھی۔ ابھی ابھی ایک وکیل نے ٹی وی کی جگمگاتی اسکرین پر یہ کہا کہ وہ عدالتوں کی جانب سے انسان کی انفرادی سرگرمیوں میں اس طرح کی مداخلت کو پسند نہیں کرتے۔ قانون کاپورا علم بھی مغرب کے اسی بنیادی فہم سے آراستہ ہے جس میں انسان کے انفرادی حقوق کی تشریح آزادی کے مذکورہ تصور کے ساتھ کی جاتی ہے۔ اس تناظر میں شاید وہ درست بھی کہہ رہے ہوں، مگر اس میں بہت عظیم مغالطوں کے ہاتھی کود رہے ہیں۔ سب سے پہلے تو عدالتی حکم کی تشریح غلط ہوئی کہ عدالتی فیصلے نے ویلنٹائن کی سرگرمی کو روک دیا ہے۔ مغربی تصور سے آراستہ قانون میں ایک مفتی دین بھی جج بن کربیٹھے ہوتو وہ یہ فیصلہ قرآن کی نصِ قطعی ہونے کے باوجود بھی نہیں دے سکے گا۔ درحقیقت عدالت نے ویلنٹائن کی تشہیر کو روکا ہے۔ اس میں بنیادی فہم یہ ہے کہ ویلنٹائن ڈے کی سرگرمیاں ہمارے اجتماعی شعور کا حصہ نہیں اور نہ ہی ہماری اجتماعی سرگرمیوں کا محور ہے۔یہ مسئلہ پاکستان میں ذرائع ابلاغ کی جگمگاتی اسکرین پربہت محدود لوگوں کی انفرادی سرگرمیوں کے دائرے میں آتا ہے۔بدقسمتی یہ ہے کہ کچھ گنے چنے تجزیہ کار اِسے مغربی افکار کے زیراثر قومی سطح کا ایک معاملہ اورعالمگیر تہذیب کی زندہ اور محیط سرگرمی باور کرانے پر تُلے ہیں۔ اگر ویلنٹائن ڈے پر پابندی بھی لگادی جائے تو بھی یہ ایک غلط تشریح ہوگی کہ ویلنٹائن ڈے کو روکنا نجی زندگی میں ایک مداخلت ہے۔ درحقیقت ویلنٹائن ڈے ہماری تہذیبی سرگرمیوں اور نجی زندگیوں کے اندر خود ایک مداخلت کے مفہوم میں آتا ہے۔ ٹی وی پر جاری بحث میں یہ باور بھی کرانے کی کوشش کی گئی کہ اس طرح ہماری ہنسی خوشی پر بھی پابندی لگائی جارہی ہے۔ اس کٹ حجتی کا مطلب یہ ہے کہ ویلنٹائن ڈے گویا ہنسنے کے ہم معنی ہے۔ یعنی جو ویلنٹائن ڈے نہیں مناتا دراصل وہ ہنستا ہی نہیں۔ کھلی منڈی کا جبر انسانی تصورات کو کس گہرائی میں جاکر مسخ کردیتا ہے اور آزادی کا غلام اپنے ذہن کو کس طرح سرمائے کے پاس رہن رکھوادیتا ہے اس کی بہیمت کا اندازا اس پورے مکالمے سے ہو جاتا ہے۔

درحقیقت جدیدیت کے یہ علمبردار بھی بات پوری نہیں کرپاتے۔ وہ اِسے پردے میں چھپاتے اور ملفوف پیرایوں میں بیان کرتے ہیں۔ ایسے مباحث دراصل موقف سے زیادہ اُسلوب اظہار کے حوالے سے دلچپ ہوتے ہیں۔ یہ تمام عناصر اپنی بے قید آزادی کے پورے تصور کا ابلاغ کرنے کے قابل نہیں ۔ دراصل وہ زندگی پر کسی تہذیبی اور مذہبی روک کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں۔ جدیدیت بے قید آزادی کے دائرے میں اُچھلتی کودتی اور اِٹھلاتی لہراتی ہے۔ اِسے کھلی منڈی کے نفع ونقصان سے سروکار ہے۔ جس میں اہمیت ماں اور باپ کی نہیں، مدر اور فادر ڈے کی منافع بخش سرگرمیوں کی ہیں۔ اس میں اہمیت وفضیلت محبت کے رشتوں کو حاصل نہیں، بلکہ اُن سرگرمیوں کومیسر ہیں جو کارپوریشنز کے کھاتوں میں ہندسوں کو جوڑتی اور انسان کے جوڑ جوڑ کو توڑتی ہے۔ذرائع ابلاغ کی یہ نارسائی اور دانشوروں کی یہ عجزبیانی دراصل پاکستان کے مذہبی معاشرے میں موجود مزاحمت کے باعث ہے۔ یہ مسئلہ ہر جدید ہوتے معاشرے میں رہتا ہے۔ خود امریکا بھی اس پریشانی سے دوچار رہا۔ امریکا میں ساٹھ برس تک ہم جنس پرستی کو قانونی تحفظ نہیں دیا جاسکا۔ عدالتیں اس مسئلے پر یہ کہتی رہیں کہ آزادی کے پورے مکالمے میں آپ اپنی زندگیوں میں یہ جھک بھی مارتے رہے مگر اس پر قانونی تحفظ نہ مانگیں۔ اس کی وجہ عیسائی مذہب کی انفرادی چھاپ تھی۔ پھر جب تین برس قبل امریکی عدالتیں پوری طرح ’’ لبرل ‘‘ ہوگئیں تو ہم جنس پرستی کے تحفظ کا قانون بھی منظور کرلیا گیا۔ اسی طرح امریکی سب میرین میں عورتوں کو فرائض نہیں سونپے جاتے تھے کیونکہ وہاں تمام افراد اکٹھے سوتے ہیں۔ مگر تین برس پہلے جب اس کی مزاحمت پوری طرح ختم ہوگئی تو اُنہوں نے اس پابندی کو بھی خاموشی سے ختم کردیا ۔ پاکستانی معاشرے میں بھی مذہبی طبقے کی مزاحمت کو ختم کرنے اور اُن کے اعصاب کو چٹخانے کا یہ عمل پوری شدت وحدت سے جاری ہے۔ پاکستان کے مذہبی معاشرے کو اس پورے عمل کا نہایت گہرائی اور غیر جذباتی انداز سے تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے تاکہ وہ جدیدیت کے نام پر کھلی منڈی میں انسانوں کی تقدیس اور رشتوں کی تعظیم کے خرید وفروخت کے اس کاروبار سے اپنے خاندانوں کو محفوظ رکھ سکیں ۔ اور زندگی کو یرغمال بنانے کے اس بھونڈے طرزِ فکر سے نجات پاسکیں۔پھر زندگی کاندھوں پر بوجھ نہ ہوگی اور محبت نفع نقصان کا حساب بن کر پیکرِ حیات کو سرطان زدہ نہ کرپائے گی۔


متعلقہ خبریں


مضامین
مسلمان کب بیدارہوں گے ؟ وجود جمعه 19 اپریل 2024
مسلمان کب بیدارہوں گے ؟

عام آدمی پارٹی کا سیاسی بحران وجود جمعه 19 اپریل 2024
عام آدمی پارٹی کا سیاسی بحران

مودی سرکار کے ہاتھوں اقلیتوں کا قتل عام وجود جمعه 19 اپریل 2024
مودی سرکار کے ہاتھوں اقلیتوں کا قتل عام

وائرل زدہ معاشرہ وجود جمعرات 18 اپریل 2024
وائرل زدہ معاشرہ

ملکہ ہانس اور وارث شاہ وجود جمعرات 18 اپریل 2024
ملکہ ہانس اور وارث شاہ

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر