وجود

... loading ...

وجود

تاریخ تحریک آزادی کشمیر

پیر 05 فروری 2018 تاریخ تحریک آزادی کشمیر

جموںو کشمیر جسے جنت ارضی بھی کہا جاتا ہے تقریباً 48,471 مربع میل پر پھیلی ہوئی ریاست ہے۔ یہ علاقہ براعظم ایشیاء کے تقریباً وسط میں اور برصغیر کے شمال میں واقع ہے۔ اس مناسبت سے اسے ایشیاء کا دل اور برصغیر کا تاج بھی کہتے ہی۔ جغرافیائی اعتبار سے اس نہایت اہم خطے کے شمال میں سابق سوویت یونین کی ریاست تاجکستان جو کہ اب آزاد اسلامی ملک ہے اور چین کا علاقہ سنکیانگ ہے۔ اس کے مشرق میں تبت، جنوب میں بھارت ، جنوب مغرب میں پاکستان اور مغرب میں افغانستان واقع ہے۔ اگر داخلی طور پردیکھا جائے تو ریاست جموں و کشمیر تین طبقات پر مشتمل ہے۔ بقول چراغ حسن حسرت پہلی منزل جموں، دوسری منزل وادی کشمیر اور تیسری منزل بلتستان ہے۔ اس کے دائیں ہاتھ لداخ اور بائیں ہاتھ گلگت کا علاقہ ہے۔

خطہ کشمیر ماضی میں بدھ مت کا مرکز رہا جبکہ مسلمانوں کی آمد کا سلسلہ آٹھویں صدی عیسوی میں برصغیر پر مسلمانوں کے حملے کے بعد شروع ہوا۔ پہلی اسلامی حکومت کا آغاز چودھویںصدی کے آغاز میں اس وقت ہوا جب بدھ مت کے حکمران رنچن شاہ نے اسلام قبول کیا اور اسلامی نام صدر الدین اختیار کیا۔ پہلی باقاعدہ اسلامی حکومت کی بنیاد شاہ میر نے رکھی جو بعد میں سلطان شمس الدین کے لقب سے تخت نشین ہوا۔اس خاندان نے کشمیر پر لمبا عرصہ حکومت کی اور کشمیر کو اسلامی تشخص میں رنگ دیا جو آج تک کشمیر کی پہچان ہے۔

اس خاندان کے بعد 1555ء میں ایک اور مسلمان خاندان ’’چک‘‘ کی حکمرانی قائم ہوئی لیکن یہ خاندان اپنے اختلافات پر قابو نہ رکھ سکا چنانچہ صرف 31 برس بعد ہی 1586ء میں مغل بادشاہ اکبر نے کشمیر کو سلطنت مغلیہ کا حصہ بنا لیا۔ جب مغلیہ سلطنت روبہ زوال ہوئی تو احمد شاہ ابدالی کے پنجاب پر حملوں کے دوران 1752ء میں کشمیر افغانوں کے قبضے میں چلا گیا جو 1819ء تک قائم رہا۔ 67 برس پر محیط اس عہد کے بعد کشمیر پر رنجیت سنگھ کی فوجوں نے حملہ کر کے قبضہ کر لیا اور یوں کشمیر پر سکھوں کا تسلط قائم ہو گیا۔ سکھوں کا یہ عہد کشمیر کی تاریخ میں ظلم و سربریت کا سیاہ دور ہے۔ سکھ کشمیریوں سے نفرت کرتے تھے اور ان کے ساتھ جانوروں سے بدتر سلوک کرتے تھے۔ اگر کوئی کشمیری کسی سکھ کے ہاتھوں قتل ہو جاتا تو قاتل کو صرف 16 سے 20 روپے تک جرمانہ کیا جاتا تھا۔ جس میں سے مقتول کے ورثاء کو 2 روپے ادا کر کے بقیہ رقم سرکاری خزانے میں جمع کرا دی جاتی تھی۔

1842ء میں جب سکھوں کو انگریزوں کے ہاتھوں شکست کا سامنا کرنا پڑا تو 9 مارچ1842ء کو فریقین میں معاہدۂ لاہور طے پایا۔ اس کے تحت کشمیر کا علاقہ انگریزوں کے حوالے کر دیا گیا جنھوں نے چند روز بعد اپنے ایک وفادار گلاب سنگھ ڈوگرہ کو 75لاکھ نانک شاہی سکوں کے عوض فروخت کر دیا۔ اس سلسلے میں ایک معاہدہ انگریزوں اور گلاب سنگھ ڈوگرہ کے درمیان بھی طے پایا جس کے تحت وادی کشمیر اور اردگرد کے علاقے اپنی آبادی اور تمام اسباب و وسائل کے ساتھ گلاب سنگھ ڈوگرہ کے حوالے کر دیے گئے۔ اسے ’’معاہدۂ امر تسر‘‘ کہا جاتا ہے۔
اقبال نے اس انسانیت سوز واقعہ کو یوں بیان کیا ہے:
دہقاں و کشت و جوئے و خیابان فروختند
قومے فروختند و چہ ارزاں فروختند
ہر کشمیری کو صرف 7 سکوں کے عوض ڈوگرہ کے ہاتھ فروخت کر دیا گیا جبکہ زمین رشک فردوس بریں 155 روپے فی مربع میل کے حساب سے پڑی۔ ڈوگرہ حکمران بھی اپنے پیشروئوں کی مانند مسلمانوں سے بے انتہا تعصب رکھتے تھے۔ یہاں تک کہ دوپہر سے پہلے مسلمانوں کی شکل دیکھنا بھی گوارا نہ کرتے تھے۔ اس وجہ سے مسلمانوں کو دوپہر سے پہلے کسی ڈوگرہ حکمران کے سامنے جانے کی اجازت نہ تھی۔ اس دور میں بھی مسلمانوں نے اس ظلم و ستم کے خلاف آواز بلند کی کہ جب مساجد کو اصطبلوں اور بارود خانوں کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا اور اذان دینے اور خطبہ پڑھنے پر پابندی تھی۔ پونچھ کے مسلمان لیڈروں سردار سبز علی خان اور ملی خان کی کھالیں زندہ ہی اتروا دی گئیں، محض اس جرم میں کہ وہ ڈوگرہ حکمرانوں کے ظلم و ستم کے خلاف مزاحمت کرتے تھے۔

انھی مظالم کے باعث 1929ء میں سرینگر میںشیخ عبداللہ نے ریڈنگ روم پارٹی کے نام سے ایک تنظیم قائم کی۔ اسی زمانے میں جموں میں چودھری غلام عباس، اے آر ساغر اور دیگر چند ساتھیوں سے مل کر ’’ینگ مینز ایسوی ایشن‘‘ کی بنیاد رکھی۔ ینگ مینز نے بھی مسلمانوں کے حقوق کے لیے خاطر خواہ جدوجہد کی لیکن یہ دونوں تحریکیں تحریک آزادی کا روپ نہ دھار سکیں۔
1931ء میں بریلی کے علاقے میں ایک مسجد شہید کر دی گئی اور ایک پولیس اہلکار نے جان بوجھ کر قرآن پاک کی بے حرمتی کی۔ ان واقعات سے مسلمانوں میں غم و غصہ پھیلنے لگا اور وہ اس کا اظہار سڑکوں پر مظاہروں کی صورت میں کرنے لگے۔ پولیس نے بہت سے مظاہرین کو گرفتار کر لیا۔ جب ان کا مقدمہ عدالت میں چلا تو بہت سے مظاہرین عدالت کے باہر جمع ہوئے اور کارروائی سننے پر زور دیا۔ پولیس نے ان مظاہرین پر گولی چلائی اور یوں 13 جولائی 1931ء کو 27 افراد شہید اور بے شمار زخمی ہوئے۔ ان واقعات کی خبر ہندوستان کے طول و عرض میں پھیل گئی اور مسلمانوں میں بے چینی کی لہر دوڑ گئی۔ انھی حالات کے باعث کشمیر کے مسلمانوں میں اتحاد کی فضا ابھری اور 14 اگست 1931ء کو پہلی بار جموں میں کشمیر ڈے منایا گیا۔
یہ بھی حسن اتفاق تھا کہ ٹھیک 16 سال بعد اسی دن پاکستان آزاد ہوا۔ بہرحال ان واقعات کے ہندوستان بھر میں پھیلنے کے بعد مسلمانوں میں اپنے کشمیری بھائیوں کی مدد کا جذبہ شدومد سے پیدا ہواجو کہ آج بھی زندہ ہے۔ اس وقت اکتوبر1931ء میں پورے پنجاب میں چلو چلو کشمیر چلو کی صدائیں گونجنے لگیں۔ اس موقع پر برطانوی حکومت نے مداخلت کی اور ڈوگرہ راج کے مظالم کو روکنے کا کہا گیا۔ یوں یہ تحریک بھی تحریک آزادی کی مکمل شکل نہ اختیار کر سکی۔ انھی دنوں 1933ء میں سرینگر پتھر مسجد میں جموں و کشمیر ’’مسلم کانفرنس‘‘ کی بنیاد رکھی گئی۔

یہ تحریکیں اگرچہ تحریک آزادی کی شکل اختیار نہ کر سکیں لیکن اس کے باوجود ان تحریکوں کے باعث مسلمانوں میں ایک بیداری کی لہراٹھی تھی اور وہ منظم ہو رہے تھے۔ یہ سب دیکھ کر ہندوئوں کو شدید تکلیف ہوئی چنانچہ انھوں نے بھی ہندو انتہا پسند تنظیم راشٹریہ سوائم سیوک سنگھ کو کشمیر میں دعوت دی کہ وہ یہاں اپنے اڈے قائم کرے۔ چنانچہ 1934ء میں آر ایس ایس نے اپنا کام شروع کر دیا اور جابجا اس تنظیم کے مراکز کھل گئے۔ یہ مراکز بظاہر ورزش گاہ اور اکھاڑے کی مانند تھے کہ جہاں ہندو نوجوان جسمانی ورزشیں کرتے تھے لیکن درحقیقت یہ ریاست کی ہندو اقلیت کو مسلمانوں سے نبرد آزما ہونے کے لیے جنگی تربیت فراہم کرنے کے مراکز تھے۔ یہی مراکز بعد ازاں مسلمانوں کے خلاف منظم مظالم اور قتل عام کے لیے استعمال کیے گئے۔

ایک طرف وادی کشمیر میں ڈوگرہ رائے کے خلاف کاوشیں جاری تھیں جبکہ دوسری طرف ہندوستان بھر میں تحریک آزادی کو ایک نیا رخ مل چکا تھا۔ علامہ محمد اقبالa کی طرف سے ایک الگ وطن کا نظریہ پیش کیا جا چکا تھا۔ برصغیر میں جوں جوں مطالبہ پاکستان زور پکڑتا گیا ریاست میں بھی مسلمانوں کی واحد نمائندہ جماعت کی حیثیت سے مسلم کانفرنس کا پلہ بھی اسی رفتار سے بھاری ہوتا گیا۔

3 جون 1947ء میں جب تقسیم ہند کا فارمولا منظور ہوا تو برصغیر کی 562 ریاستوں کو آزاد چھوڑ دیا گیا تھا کہ وہ اپنی جغرافیائی اور معاشیاتی حقائق کے پیش نظر اپنی اپنی آبادی کی خواہشات کے مطابق بھارت یا پاکستان سے الحاق کر لیں۔ ریاست جموں و کشمیر کی 80 فیصد آبادی مسلمانوں پر مشتمل تھی اس کی 600میل لمبی سرحدپاکستان سے ملتی تھی۔ ریاست کی واحد ریلوے لائن سیالکوٹ سے گزرتی تھی اور بیرونی دنیا کے ساتھ ڈاک اور تار کا نظام بھی پاکستان سے جڑا تھا۔ ریاست کی دونوں پختہ سڑکیں راولپنڈی اور سیالکوٹ سے گزرتی تھیں۔ ان سب حقائق کے پیش نظر ریاست جموں و کشمیر کا پاکستان کے ساتھ الحاق لازمی طور پر ایک قدرتی اور منطقی فیصلہ ہونا چاہیے تھا لیکن مہا راجہ ہری سنگھ اور کانگریسی لیڈروں کے عزائم اس فیصلہ کے بالکل برعکس تھے۔ مقاصد کو عملی جامعہ پہنانے کے لیے انھوں نے لارڈ مائونٹ بیٹن کے ساتھ مل کر سازش کا جال بنا جس کے پھندے میں مقبوضہ ریاست کے بے بس اور مظلوم باشندے آج تک بری طرح گرفتار ہیں۔

جب 14 اگست 1947ء کو تقسیم ہند کے منصوبے کا اعلان ہوا تو ریڈ کلف نے و اضح طور پر جانبداری کا مظاہرہ کیا اور ناانصافی پر مبنی کئی فیصلے کیے۔ ان سب میں وادی کے حوالے سے اہم یہ تھا کہ گور داسپور کا علاقہ جو مسلم اکثریت کا حامل تھا اسے بھارت کے ساتھ شامل کر دیا گیا تاکہ بھارت کو ریاست تک پہنچنے کا زمینی راستہ دیا جا سکے۔ مہاراجہ بھی پہلے ہی یہ سازباز کانگریسی لیڈروں کے ساتھ کر چکا تھا۔ لیکن اس بات کی خبر جب غیور کشمیری باشندوں کو ہوئی تو انھوں نے طے کیا کہ وہ ڈوگرہ راج سے لڑیں گے اور ریاست کا الحاق پاکستان سے کروائیں گے۔ لیکن ا س سے قبل ڈوگرہ فوج نے صوبہ جموں میں مسلمان اکثریت کو ختم کرنے کا منصوبہ بنایا اور مسلمانوں کے قتل عام اور ریاست بدری کا طریقہ کار اپنایا گیا۔ چنانچہ اس وقت جموں میں لاکھوں مسلمانوں کو شہید کیا گیا اور بہت سوں کو اغوا کر لیا گیا۔ بہت سی عورتیں جنھیں پاکستان لے جانے کا کہہ کر ٹرکوں میں بٹھایا گیا، وہ آر ایس ایس کے غنڈوں کے حوالے کر دی گئیں۔ جنھوں نے ان کی عصمت دری کی اور بعد ازاں انھیں قتل کر دیا۔ یوں جموں میں لاکھوں مسلمانوں کو قتل کیا گیا۔

جموں کے بعد مہاراجہ کو پونچھ کی فکر سوجھی۔ پونچھ میں 95 فیصد مسلمان تھے۔ یہاں بہت سے ریٹائرڈ فوجی بھی تھے۔ ان تک جب مسلمانوں کے قتل عام کی اطلاع پہنچی تو یہ فوراً لڑنے کا تیار ہو گئے۔ یہاں سردار عبدالقیوم نے دھیر کوٹ سے گوریلا جنگ کا آغاز کیا۔ وادی کے لوگوں نے عورتوں او ربچوں کو پاکستان منتقل کرنا شروع کیا اور خود سر پر کفن باندھ کر ڈوگرہ فوج سے لڑنا شروع کر دیا۔ چنانچہ راولاکوٹ، وادی جہلم اور بہت سے علاقوں سے ڈوگرہ فوج فرار ہو گئی۔

کشمیر کے لوگوں کی رشتہ رادیاں افغانوں اور پٹھانوں کے محسود اور دیگر قبائل سے تھیں۔ عورتیں اور بچے جب وہاں پہنچے تو ان پر ظلم کی داستانیں سن کر ان کے خون کھول اٹھے۔ چنانچہ ان علاقوں سے لشکروںکے لشکر کشمیر کی طرف روانہ ہوئے۔ چنانچہ چند ہی دنوں میں مظفر آباد اور ایبٹ آباد کے درمیان ہٹ راوی کے جنگل میں ایک بڑا لشکر جمع ہو گیا۔ خورشید انور نے اس لشکر کی کمان سنبھالی اور انھوںنے ڈوگرہ فوج سے لڑنا شروع کیا۔ چنانچہ مظفر آباد، کوٹلی، راولاکوٹ اور موجودہ آزاد کشمیر کو نہ صرف ڈوگرہ بلکہ ہندوستانی فوج سے بھی آزاد کروا لیا گیا۔ کیونکہ مہاراجہ اس وقت بھارت فرار ہوچکا تھا۔اس نے بھارت سے مدد مانگی تھی۔ بھارت نے اس شرط پر مدد فراہم کی کہ وہ الحاق کی دستاویزات پر دستخط کر ے۔ مہاراجہ نے فوراً حامی بھر لی چنانچہ بھارتی فوجیں بھی سرینگر اور وادی کے دیگر حصوں میں پہنچنا شروع ہو گئیں تھیں۔

یوں جو حصہ مجاہدین نے آزاد کرواا لیا وہ آزاد کشمیر کہلایا جبکہ باقی ماندہ کشمیر پر بھارت نے اپنا غاصبانہ قبضہ جما لیا۔ چونکہ بھارت اپنی گھنائونی کارروائیوں سے واقف تھا سو اس نے دنیا کے سامنے یہ اعلان کرنا شروع کیا کہ کشمیر کا بھارت کے ساتھ الحاق محض عار ضی اور وقتی ہے۔ الحاق کا حتمی فیصلہ جموں و کشمیر کے باشندوں کی آزادانہ، منصفانہ اور غیر جانبدازنہ رائے شماری کے ذریعے کرا یا جائے گا۔ اس بات کا اعلان پنڈت جواہر لعل نہرو نے کیا۔ چنانچہ اقوام متحدہ میں بھارت کی طرف سے دائر کردہ جنگ بندی کی اپیل منظور کر لی گئی اور بھارت نے اقوام متحدہ میں قرار داد پیش کی کہ کشمیر کا فیصلہ استصواب رائے سے کیا جائے گا اور انھیں حق خودارادیت دیا جائے گا۔ یوں 15اگست 1948ء کو اقوام متحدہ میں قرار داد حق خود ارادیت منظور کی گئی لیکن بھارت آج تک اس پر عمل کرنے سے گریزاں ہے اور مسلسل عذر تراشیوں بلکہ ہٹ دھرمی سے کام لے رہا ہے۔

تقسیم ہند کے بعدبھی کشمیریوں نے اپنی جدوجہد آزادی کو جاری رکھا اور اس میں حالات کے مطابق عروج و زوال آتے رہے۔ 1966 ء میں محمد مقبول بٹ نے نیشنل لبریشن فرنٹ کی بنیاد رکھی جس کا مقصد بھی کشمیریوں کو آزادی دلوانا تھا۔ سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد تحریک آزادی کشمیر کو ایک نئی جہت ملی۔ یہاں بھی گوریلا جنگ کا آغاز ہو ااور بہت سے مسلح آزادی کی تنظیمیں وجود میں آئیں اور1990ء میں تحریک آزادی کشمیر میںبہت تیزی آئی۔ دوسری طرف بھارت سرکار اور فوج نے اس تحریک کو دبانے کے لیے ہر طرح کے مظالم اختیار کیے اور ہلاکو و چنگیز خان کو کہیں پیچھے چھوڑ دیا۔ 1999ء میں جب کارگل کے مقام پر جنگ چھڑی تب بھی مسئلہ کشمیر حل ہونے کے قریب تھا لیکن بھارت نے ایک بار پھر اقوام متحدہ میں جنگ بندی کی دہائی دی جس کو پاکستان نے مان لیا اور یوں تب بھی مسئلہ کشمیر حل نہ ہو سکا۔

9/11 کے بعد جب دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ کا آغاز کیا گیا اور امریکہ افغانستان میں آیاتو بھارت نے خطے میں اس کی موجودگی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بہت سے اقدامات کیے۔ جس کے باعث تحریک آزادی کشمیر کمزور ہوئی لیکن وہ مکمل طور پر ختم نہ کی جا سکی۔ اس کے مظاہر وقتاً فوقتاً ہمیں دیکھنے کو ملتے رہے۔

آج بھی کشمیریوں کے حوصلے اسی طرح بلند ہیں اور بھارت سے حد درجہ بیزاراور آزادی کے اسی قدر متوالے ہیں جس قدر ان کے آبائو اجداد تھے۔ اس کی واضح مثالیں کشمیر میں بھارتی افواج پر ہونے والے حملے اور بھارت کے یوم جمہوریہ کو ایک بار پھر یوم سیاہ کے طور پر منانے جیسے اقدامات ہیں۔ اسی طرح 5 فروری کو دنیا بھر میں کشمیریوں اور اہل اسلام نے مظاہروں، جلسے جلوسوں کے ذریعے کشمیر سے یکجہتی کا ثبوت دیا۔ کشمیریوں نے ایک بار پھر پوری دنیا کو یہ پیغام دیا ہے کہ ہم ہر صورت بھارت سے آزادی حاصل کر کے رہیں گے اور پاکستان سے الحاق ہی کشمیریوں کی منزل ہے۔


متعلقہ خبریں


ہم دشمن کو چھپ کر نہیں للکار کر مارتے ہیں ،فیلڈ مارشل وجود - جمعرات 11 دسمبر 2025

عزت اور طاقت تقسیم سے نہیں، محنت اور علم سے حاصل ہوتی ہے، ریاست طیبہ اور ریاست پاکستان کا آپس میں ایک گہرا تعلق ہے اور دفاعی معاہدہ تاریخی ہے، علما قوم کو متحد رکھیں،سید عاصم منیر اللہ تعالیٰ نے تمام مسلم ممالک میں سے محافظین حرمین کا شرف پاکستان کو عطا کیا ہے، جس قوم نے علم او...

ہم دشمن کو چھپ کر نہیں للکار کر مارتے ہیں ،فیلڈ مارشل

ایک مائنس ہوا تو کوئی بھی باقی نہیں رہے گا،تحریک انصاف وجود - جمعرات 11 دسمبر 2025

حالات کنٹرول میں نہیں آئیں گے، یہ کاروباری دنیا نہیں ہے کہ دو میں سے ایک مائنس کرو تو ایک رہ جائے گا، خان صاحب کی بہنوں پر واٹر کینن کا استعمال کیا گیا،چیئرمین بیرسٹر گوہر کیا بشریٰ بی بی کی فیملی پریس کانفرنسز کر رہی ہے ان کی ملاقاتیں کیوں نہیں کروا رہے؟ آپ اس مرتبہ فیڈریشن ک...

ایک مائنس ہوا تو کوئی بھی باقی نہیں رہے گا،تحریک انصاف

جادو ٹونے سے نہیں ملک محنت سے ترقی کریگا، وزیراعظم وجود - جمعرات 11 دسمبر 2025

دہشت گردی اور معاشی ترقی کی کاوشیں ساتھ نہیں چل سکتیں،شہباز شریف فرقہ واریت کا خاتمہ ہونا چاہیے مگر کچھ علما تفریق کی بات کرتے ہیں، خطاب وزیراعظم شہباز شریف کا کہنا ہے کہ جادوٹونے سے نہیں ملک محنت سے ترقی کریگا، دہشت گردی اور معاشی ترقی کی کاوشیں ساتھ نہیں چل سکتیں۔ وزیراعظم شہ...

جادو ٹونے سے نہیں ملک محنت سے ترقی کریگا، وزیراعظم

عمران خان کو اڈیالہ جیل سے منتقل کرنے پر غور وجود - جمعرات 11 دسمبر 2025

پی ٹی آئی ملک کو عدم استحکام کا شکار کرنے کے ایجنڈے پر عمل پیرا ہے،اختیار ولی قیدی نمبر 804 کیساتھ مذاکرات کے دروازے بندہو چکے ہیں،نیوز کانفرنس وزیراعظم کے کوآرڈینیٹر برائے اطلاعات و امور خیبر پختونخوا اختیار ولی خان نے کہا ہے کہ پی ٹی آئی ملک کو عدم استحکام کا شکار کرنے کے ...

عمران خان کو اڈیالہ جیل سے منتقل کرنے پر غور

ملک میں ایک جماعتسیاسی دجال کا کام کر رہی ہے ،بلاول بھٹو وجود - جمعرات 11 دسمبر 2025

وزیر اعلیٰ پنجاب سندھ آئیں الیکشن میں حصہ لیں مجھے خوشی ہوگی، سیاسی جماعتوں پر پابندی میری رائے نہیں کے پی میں جنگی حالات پیدا ہوتے جا رہے ہیں،چیئرمین پیپلزپارٹی کی کارکن کے گھر آمد،میڈیا سے گفتگو پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ملک میں ایک سیاسی...

ملک میں ایک جماعتسیاسی دجال کا کام کر رہی ہے ،بلاول بھٹو

عمران خان پر پابندی کی قرارداد پنجاب اسمبلی سے منظور وجود - بدھ 10 دسمبر 2025

قراردادطاہر پرویز نے ایوان میں پیش کی، بانی و لیڈر پر پابندی لگائی جائے جو لیڈران پاکستان کے خلاف بات کرتے ہیں ان کو قرار واقعی سزا دی جائے بانی پی ٹی آئی پر پابندی لگانے کی قرارداد پنجاب اسمبلی سے منظور کر لی گئی۔قرارداد مسلم لیگ ن کے رکن اسمبلی طاہر پرویز نے ایوان میں پیش کی...

عمران خان پر پابندی کی قرارداد پنجاب اسمبلی سے منظور

حکومت سیاسی انتقام، کارروائی پر یقین نہیں رکھتی، وزیراعظم وجود - بدھ 10 دسمبر 2025

شہباز شریف نے نیب کی غیر معمولی کارکردگی پر ادارے کے افسران اور قیادت کی تحسین کی مالی بدعنوانی کیخلاف ٹھوس اقدامات اٹھانا حکومت کی ترجیحات میں شامل ، تقریب سے خطاب اسلام آباد(بیورورپورٹ) وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ وفاقی حکومت نیب کے ذریعے کسی بھی قسم کے سیاسی انتقام اور کا...

حکومت سیاسی انتقام، کارروائی پر یقین نہیں رکھتی، وزیراعظم

پاک بحریہ دشمن کیلئے سمندر میںسیسہ پلائی دیوار ،فیلڈ مارشل وجود - بدھ 10 دسمبر 2025

1971 میں پاک بحریہ دشمن کیلئے سمندر میں سیسہ پلائی دیوار تھی اور آج بھی آہنی فصیل ہے 8 جدید ہنگور کلاس آبدوزیں جلد فلیٹ میں آرہی ہیں،نیول چیف ایڈمرل نوید اشرف کا پیغام چیف آف ڈیفنس فورسز فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کا کہنا ہے کہ 1971 میں پاک بحریہ دشمن کیلئے سمندر میں سیسہ ...

پاک بحریہ دشمن کیلئے سمندر میںسیسہ پلائی دیوار ،فیلڈ مارشل

وسائل پر قابض اشرافیہ ملک کو نوآبادیاتی طرز پر چلا رہی ہے،حافظ نعیم وجود - بدھ 10 دسمبر 2025

دینی درسگاہوں کے اساتذہ وطلبہ اسلام کے جامع تصور کو عام کریں، امت کو جوڑیں امیر جماعت اسلامی کا جامعہ اشرفیہ میں خطاب، مولانا فضل الرحیم کی عیادت کی امیر جماعت اسلامی پاکستان حافظ نعیم الرحمن نے کہا ہے کہ وسائل پر قابض مراعات یافتہ طبقہ اور افسر شاہی ملک کو اب تک نوآبادیاتی ...

وسائل پر قابض اشرافیہ ملک کو نوآبادیاتی طرز پر چلا رہی ہے،حافظ نعیم

بھارت کو اگلا جواب زیادہ شدیدہوگا،فیلڈ مارشل وجود - منگل 09 دسمبر 2025

تمام یہ جان لیں پاکستان کا تصور ناقابل تسخیر ہے،کسی کو بھی پاکستان کی خودمختاری، علاقائی سالمیت پر آنچ اور ہمارے عزم کو آزمانے کی اجازت نہیں دی جائے گی، چیف آف ڈیفنس فورسز بھارت کسی خود فریبی کا شکار نہ رہے، نئے قائم ہونے والے ڈیفنس فورسز ہیڈ کوارٹرز میں بنیادی تبدیلی تاریخی ...

بھارت کو اگلا جواب زیادہ شدیدہوگا،فیلڈ مارشل

ہمیں سرٹیفیکٹ نہیں دیا،الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی پر پابندی کیسے لگائی(چیئرمین تحریک انصاف) وجود - منگل 09 دسمبر 2025

سیاسی جماعتوں پر پابندی لگانے سے کام نہیں چلے گا، کچھ فارم 47 والے چاہتے ہیں ملک کے حالات اچھے نہ ہوں، دو سال بعد بھی ہم اگر نو مئی پر کھڑے ہیں تو یہ ملک کیلئے بد قسمتی کی بات ہے پی ٹی آئی بلوچستان نے لوکل گورنمنٹ انتخابات کیلئے اپنا کوئی امیدوار میدان میں نہیں اتارا ،بانی پی ٹ...

ہمیں سرٹیفیکٹ نہیں دیا،الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی پر پابندی کیسے لگائی(چیئرمین تحریک انصاف)

کسی بھی جماعت کو ریڈ لائن کراس نہیں کرنی چاہیے،شرجیل میمن وجود - منگل 09 دسمبر 2025

بانی پی ٹی آئی کی بہنیں بھارتی میڈیا کے ذریعے ملک مخالف سازش کا حصہ بن رہی ہیں ثقافتی دن منانا سب کا حق ہے لیکن ریڈ لائن کراس کرنے کی کسی کو اجازت نہیں،بیان سندھ کے سینئر صوبائی وزیر شرجیل انعام میمن نے کہاہے کہ ثقافتی دن منانا سب کا حق ہے لیکن کسی بھی جماعت کو ریڈ لائن کراس...

کسی بھی جماعت کو ریڈ لائن کراس نہیں کرنی چاہیے،شرجیل میمن

مضامین
شادیوں میں نمود و نمائش ۔۔بھارتی ثقافت کا بڑھتا اثر وجود جمعرات 11 دسمبر 2025
شادیوں میں نمود و نمائش ۔۔بھارتی ثقافت کا بڑھتا اثر

کشمیریوں کے گھروں پر چھاپے وجود جمعرات 11 دسمبر 2025
کشمیریوں کے گھروں پر چھاپے

افغانستان میں طاقت کی کشمکش اور بھارت کا بڑھتا ہوا کردار وجود بدھ 10 دسمبر 2025
افغانستان میں طاقت کی کشمکش اور بھارت کا بڑھتا ہوا کردار

آر ایس ایس کی خاطر قدیم م درمسمار وجود بدھ 10 دسمبر 2025
آر ایس ایس کی خاطر قدیم م درمسمار

بھارتی مسلمانوں کا سماجی و اقتصادی بائیکاٹ وجود منگل 09 دسمبر 2025
بھارتی مسلمانوں کا سماجی و اقتصادی بائیکاٹ

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر