وجود

... loading ...

وجود
وجود

تیل کا پھر جان لیوا بم دھما کا

اتوار 04 فروری 2018 تیل کا پھر جان لیوا بم دھما کا

چونکہ  موجودہ حکمرانوں کا چارماہ بعد چل چلائو کا وقت آن پہنچااس لیے وہ دونوں ہاتھوں سے ہی نہیں بلکہ پیروں سے بھی زیادہ سے زیادہ مال سمیٹنے کے مشن پر رواں دواں ہیں کہ”بابر بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست “کا خوفناک اژدھاسامنے پھن پھیلائے کھڑا نظر آرہا ہے کہ اگر ایک بھی سیٹ حکمران کم جیت سکے تو آئندہ حکمرانی سے ہاتھ دھونا پڑ جائیں گے جو کہ” شریفوں” کو تو کسی صورت بھی وارا نہیں کھاتا کہ مخالفین جو کہ دشمنوں جیسا روپ دھارے ہوئے ہیں وہ گن گن کر بدلے چکائیں گے اور جینا تک دوبھر ہوجائے گااس لیے حکمرانی بنچوں میں افرا تفری کا مچناقدرتی امر ہے تبھی ڈھیروں رقوم جمع کرنے کے لیے ہر حربہ استعمال کیا جا رہا ہے کہیں تو پی آئی اے کی فروختگی کے پلان ترتیب دیے جارہے ہیں اور کہیں خونخوار زہریلی سپنی بنی “اوگرا” نامی بغل بچہ تنظیم کے ذریعے تیل کی قیمتیں مسلسل آٹھویں بار بڑھا کر بیرونی ممالک کے بنکوں اور مختلف ناموں کی لیکس میں سرمایوںکے انبار جمع ہورہے ہیں۔

بین الاقوامی مارکیٹ میں تو تیل کی قیمتیں 38سینٹ کم ہوئی ہیں اور کئی ماہ سے قیمتیں قطعاً نہیں بڑھیں تو پھر پٹرول تقریباً3روپے ،ڈیزل 6روپے اور مٹی کا تیل بھی چھ روپے جیسی قیمتوں کی بڑھوتری کا خوامخواہ کا عذاب پاکستانی حکمران کیوں عوام پر نازل کر رہے ہیں؟اس سے ٹرانسپورٹ کے کرایوں و دیگر سبھی ضروری اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ بھی آسمان سے باتیں کرنے لگے گا، اس میں کیا حکومتی حکمت عملی نظر آتی ہے ؟ واضح ہے کہ 2018کے آمدہ انتخابات انہیں خوابوں میں جن کے روپ میں دکھائی دیتے ہیں کہ کہیں دھڑن تختہ ہوگیا تو جیل کی سلاخوں کے پیچھے نظر آتی “سیاہ بھیانک راتیں “منتظر ہیں کہ اس دفعہ تو سعودیہ سمیت کسی نے سفارش تو کرنی ہی نہیں ہے اور نا کردہ گناہوں کی بھی سزا بھگتنے کے لیے حکمرانوں کوتیار رہناچاہیے۔

” چور چوراں دے یار “(زرداری)والامقولہ بھی اب کی بار امداد کرتا نظر نہیں آتا حالانکہ زرداری اور شریفوں میں حرام مال کے انبار اکٹھے کرنے میں گنتیوں کی غلطیوں کے علاوہ انھیں سمیٹنے میں کوئی ذرا برابر بھی سستی کوتاہی نظر نہیں آتی زرداری صاحب تو کروڑوں ڈالرز سمیٹ کر پاکستان کا دوسرا بڑا سرمایہ دار بن چکے اور اس کی جائیدادوں /سرمایوں میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے مگر نواز شریف ابھی دو نمبر پیچھے ہیں یعنی ملک کے سب سے بڑے سرمایہ داروں میں چوتھے نمبر پر ہیں موجودہ حکمرانی کے ناطے شریفوں کو یہ چھوٹ موجود ہے کہ سرکاری خزانہ ساراآج تک ان کے مکمل رحم و کرم پر ہے اور جتنا چاہیں سودی قرضہ بھی بیرونی گماشتہ تنظیموں ورلڈ بینک ،آئی ایم ایف وغیرہ اوریہودیوں کے پروردہ بڑے سامراجی ممالک سے لے سکتے ہیں۔
قرضے تو آئندہ حکمران اور آئندہ نسل اتارے گی۔2018کے انتخابات خون ریز ہونے کے علاوہ روپے پیسے کا گھنائونا کھیل بھی ہونگے کہ بڑی سیاسی پارٹیوں میں سے ہر کسی نے انتخابات ہر صورت جیتنے کے لیے ایڑی چوٹی کازور لگانا ہے کہ کسی کی بھی شکست اسے اپنی سیاسی ساکھ کے خاتمے اور اپنی “موت کا سامان ” نظر آرہی ہے ن لیگیئے ہار گئے تو آئندہ پارٹی بکھر کر تتر بتر ہوجائے گی ۔پی پی پی تو ویسے ہی زرداری صاحب کی “خصوصی مہربانیوں “سے دم توڑتی بے جان لاشا بنی ہوئی ہے۔ رہے عمران خان تو اس کی بڑھکیں،ہر کس و ناکس کے خلاف “گالی گلوچ “نما گفتگو اگر اسے لے ڈوبی تو یہ بھی ایک بڑا سانحہ ہوگا کہ ان سبھی سود خور نو دولتیے سرمایہ داروں ظالم و ڈیرے و جاگیرداروں اور ڈھیروں ناجائز منافع خور صنعتکاروں نے پی پی پی سے نکل کر پی ٹی آئی میں شمولیت کا ایک بڑا ہی “خوفناک جوأ “کھیلا ہے کہ یا تو “پوں بارہ نہیں تو پھر تین کانے”کے مصداق انہوں نے اپنی سیاسی زندگی کی آخری ترپ چال چلی ہے کہ جیت گئے تو خوب بھلی اور اگر ہارگئے تو مات نہیں کہ پی پی پی میں تو ان کی سیاست غرقاب ہورہی تھی اور وہاں سراسر ہار ہی ان کا لازم مقدر ٹھہری ہوئی تھی۔

زرداری صاحب نے اگر دلیری کر ڈالی اور ساری جمع پونجی آمدہ بڑے انتخابات کے معرکے میں جھونک ڈالی تو کچھ آٹا دلیا پی پی پی کا بن سکتا ہے اور سندھ کے علاوہ بھی چند سیٹیں حاصل ہو سکتی ہیں مگر ایسا امکان بہت کم ہے کہ کوئی بھی اپنی ایسی “نیک کمائیوں “کوکیسے اُجاڑ سکتا ہے؟ تو نتیجہ دن کی روشنی میں صاف نظر آرہا ہے کہ پی پی پی کی تاریخی شکست کا عفریت منہ کھولے اسے ہڑپ کرنے کو تیار بیٹھا ہے ویسے بھی ایک دوسرے کے خلاف دشنام ترازیوں اور محیر العقول لن ترانیوں نے سبھی بڑی سیاسی جماعتوں کو سیاسی گندے تالاب میں ڈبکیاں لگوادی ہیں عام ووٹر سخت پریشان ہوا یہ سارا ڈرامہ اور غلیظ ترین کھیل دیکھ رہا ہے انتخابات کے آخری دنوں میں وہ کوئی دوسرا راستہ اختیار کرتے نظر آتے ہیںخصوصاً مہنگائی ،غربت و بیروزگاری جیسے زہریلے بچھوئوں کے ڈنگے ہوئے پسے ہوئے طبقات کے لوگ اگر اللہ اکبر اللہ اکبر اور سیدی مرشدی یا نبیﷺ یانبیﷺ کا ورد کرتے ہوئے بدبو دار محلوں گلیوں کوچوں سے نکل پڑے تو چونکہ تمام مسالک ،فرقوں برادریوں کے مشترکہ”اکٹھ”جس کا نام اللہ اکبر تحریک ہونا ممکن قرار پایا ہے وہ پولنگ اسٹیشنوں پر پہنچ کر پوری موجودہ انتخابی بساط لیپٹ کر باکردار باصلاحیت تحریکی امیدواروں کی جیت کا سامان پیدا کرسکتے ہیں 71سالوں سے جو سیاسی گاڑی سود خور نودولتیے سرمایہ دار مختلف روپ دھارے بگٹٹ دوڑاتے چلے آرہے ہیں خدائے عزو جل کی رحیم موجوں نے زور مار دیا اور عوامی غیرت بھی جاگ اٹھی تو پھر سبھی جغادری پہلوانوں کے تخت کا تختہ ہو جائے گا۔الٹی گنگا بہنے لگے گی کہ اب تک غریب بہت خون کے آنسو بہا چکے ان میں اب مزید قربانیاں دینے کی ہمت نہیںکہ تیل دھماکے ہی ان کی جان نکالنے کے لیے کافی ہیں۔

پہلے بھی رجسٹرڈ ادویات کی مہنگائی کا ڈرون حملہ حکمران کرچکے ظلم پر ظلم یہ کہ جان بچانے والی خصوصی ادویات کی قیمتیں بھی بڑھا دیں ایل پی جی مہنگی ہونے سے گھریلو اخراجات میں کمر توڑ اضافہ ہونے پر خواتین ہمہ وقت ذمہ داروں پر تبرے بھیجتی ہیں شدید مہنگائی کر ڈالنے جیسے شیطانی کریہہ عمل سے کتنا حرام مال کہاں کہاںبیرونی ملکوںمیں دفن ہواوہ راز وقت پر ضرور کھل کر رہے گا کہ خدا کی لاٹھی بے آوازہوتی ہے۔


متعلقہ خبریں


مضامین
نیتن یاہو کی پریشانی وجود منگل 21 مئی 2024
نیتن یاہو کی پریشانی

قیدی کا ڈر وجود منگل 21 مئی 2024
قیدی کا ڈر

انجام کاوقت بہت قریب ہے وجود منگل 21 مئی 2024
انجام کاوقت بہت قریب ہے

''ہم ایک نئی پارٹی کیوں بنا رہے ہیں ؟''کے جواب میں (1) وجود منگل 21 مئی 2024
''ہم ایک نئی پارٹی کیوں بنا رہے ہیں ؟''کے جواب میں (1)

انتخابی فہرستوں سے مسلم ووٹروں کے نام غائب وجود منگل 21 مئی 2024
انتخابی فہرستوں سے مسلم ووٹروں کے نام غائب

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر